ہم مانگنے والے نہیں ہیں

منیب الف

محفلین
شام کے وقت گھنٹی بجی۔
میں نے دروازہ کھولا۔
سامنے ایک فربہ سی خاتون جلوہ افروز تھیں۔
یا تکلف برطرف، موٹی سی آنٹی کھڑی تھی۔
عمر پینتیس چالیس سال کے درمیان ہو گی۔
کہنے لگی،
”ہم آپ کے ہمسائے سے آئے ہیں۔ منت مانگی تھی۔ آج پوری ہو گئی ہے۔ آپ کچھ امداد کر سکتے ہیں تو کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔“
میں نے کہا ہمسائے سے ہی آئی ہے تو مکان نمبر پوچھ لوں۔
”آپ کس گھر سے آئی ہیں؟“
اُس نے بائیں جانب اشارہ کیا اور ہاتھ خاصا اونچا اٹھایا جیسے کسی دور گھر سے آئی ہے۔
میں نے کہا،
”آپ وہاں سے آئی ہیں لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
کہنے لگی،
”مکان قریب ہی ہے۔ آپ بس امداد کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔ منت مانگی تھی۔ اسے پورا کرنا ہے۔“
میں نے سوچا چلو نیکی کا کام ہے، مدد کر دوں لیکن پھر مجھے ایک خیال آیا۔
میں نے کہا،
”منت آپ نے مانگی ہے تو پوری بھی آپ کو ہی کرنی چاہیے۔
دوسروں سے مانگ کے اپنی منت پوری کرنی ہے تو یہ کیسی منت ہوئی؟
منت انسان اپنے لیے مانتا ہے یا دوسروں کے لیے؟“
اتنی دیر میں ایک اور آنٹی اس کے پیچھے سے نکل آئی۔
شاید وہ پہلے بھی وہیں کھڑی تھی لیکن پہلی آنٹی کا پہاڑ بیچ میں حائل تھا۔
یہ آنٹی قدرے کم موٹی تھی، شاید عمر بھی کم ہو۔
نمودار ہونے کے ساتھ اس نے بھی وہی ڈائیلاگ دہرایا جو میں اوپر دو دفعہ لکھ چکا ہوں۔
تیسری دفعہ سننے پہ میں نے سوچا یہ آنٹیاں بار بار کیوں کہہ رہی ہیں کہ ہم مانگنے والے نہیں ہیں؟
مجھے میرے بڑے بھائی کی نصیحت یاد آ گئی۔
اُس نے ایک بار بچپن میں مجھے کہا تھا،
”منیب! جب کوئی کہے نا کہ وہ کوئی چیز نہیں ہے تو سمجھ لینا کہ وہ وہی چیز ہے۔
چور کہے میں چور نہیں ہوں تو سمجھ لینا چور ہے۔“
یہ نصیحت معقول تھی یا غیرمعقول، اس سے بحث نہیں۔
لیکن میرے ذہن پہ نقش ہو گئی۔
میں نے سوچا یہ آنٹیاں بنٹیاں بار بار کہہ رہی ہیں ہم مانگنے والے نہیں ہیں،
لگتا ہے مانگنے والے ہی ہیں۔
پھر بھی تصدیق کے لیے میں نے اس نئی آنٹی سے پوچھا،
”آپ کا گھر قریب ہی ہے لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
اُس نے منہ سے کچھ کہنے کے بجائے ہاتھ سے دائیں جانب اشارہ کیا۔
میرا شک یقین میں تبدیل ہو گیا۔
اگر پہلی آنٹی نے بائیں طرف اشارہ کیا تو دوسری نے دائیں جانب کیوں کیا؟
میں نے سوچا،
”منیب میاں، معاملہ گڑبڑ ہے۔ ایک دائیں ایک بائیں۔ انھیں دائیں بائیں کرو۔
یہ تو فقیروں کا بھیس بنائے بغیر ہی تماشائے اہلِ کرم دیکھ رہی ہیں۔“
پھر بھی مؤبانہ میں نے اپنی بات دہرائی کہ آنٹی! منت تو انسان خود پوری کرتا ہے نہ کہ دوسروں سے کرواتا ہے۔
”ہمیں بحث میں نہیں پڑنا۔ آؤ چلیں۔“
یہ کہہ کر قدرے کم موٹی آنٹی پاس کھڑے ایک رکشے والے سے مانگنے لگی جبکہ زیادہ موٹی نے مجھے ایسے گھور کے دیکھا جیسے سموچا ہی نگل جائے گی۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
شام کے وقت گھنٹی بجی۔
میں نے دروازہ کھولا۔
سامنے ایک فربہ سی خاتون جلوہ افروز تھیں۔
یا تکلف برطرف، موٹی سی آنٹی کھڑی تھی۔
عمر پینتیس چالیس سال کے درمیان ہو گی۔
کہنے لگی،
”ہم آپ کے ہمسائے سے آئے ہیں۔ منت مانگی تھی۔ آج پوری ہو گئی ہے۔ آپ کچھ امداد کر سکتے ہیں تو کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔“
میں نے کہا ہمسائے سے ہی آئی ہے تو مکان نمبر پوچھ لوں۔
”آپ کس گھر سے آئی ہیں؟“
اُس نے بائیں جانب اشارہ کیا اور ہاتھ خاصا اونچا اٹھایا جیسے کسی دور گھر سے آئی ہے۔
میں نے کہا،
”آپ وہاں سے آئی ہیں لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
کہنے لگی،
”مکان قریب ہی ہے۔ آپ بس امداد کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔ منت مانگی تھی۔ اسے پورا کرنا ہے۔“
میں نے سوچا چلو نیکی کا کام ہے، مدد کر دوں لیکن پھر مجھے ایک خیال آیا۔
میں نے کہا،
”منت آپ نے مانگی ہے تو پوری بھی آپ کو ہی کرنی چاہیے۔
دوسروں سے مانگ کے اپنی منت پوری کرنی ہے تو یہ کیسی منت ہوئی؟
منت انسان اپنے لیے مانتا ہے یا دوسروں کے لیے؟“
اتنی دیر میں ایک اور آنٹی اس کے پیچھے سے نکل آئی۔
شاید وہ پہلے بھی وہیں کھڑی تھی لیکن پہلی آنٹی کا پہاڑ بیچ میں حائل تھا۔
یہ آنٹی قدرے کم موٹی تھی، شاید عمر بھی کم ہو۔
نمودار ہونے کے ساتھ اس نے بھی وہی ڈائیلاگ دہرایا جو میں اوپر دو دفعہ لکھ چکا ہوں۔
تیسری دفعہ سننے پہ میں نے سوچا یہ آنٹیاں بار بار کیوں کہہ رہی ہیں کہ ہم مانگنے والے نہیں ہیں؟
مجھے میرے بڑے بھائی کی نصیحت یاد آ گئی۔
اُس نے ایک بار بچپن میں مجھے کہا تھا،
”منیب! جب کوئی کہے نا کہ وہ کوئی چیز نہیں ہے تو سمجھ لینا کہ وہ وہی چیز ہے۔
چور کہے میں چور نہیں ہوں تو سمجھ لینا چور ہے۔“
یہ نصیحت معقول تھی یا غیرمعقول، اس سے بحث نہیں۔
لیکن میرے ذہن پہ نقش ہو گئی۔
میں نے سوچا یہ آنٹیاں بنٹیاں بار بار کہہ رہی ہیں ہم مانگنے والے نہیں ہیں،
لگتا ہے مانگنے والے ہی ہیں۔
پھر بھی تصدیق کے لیے میں نے اس نئی آنٹی سے پوچھا،
”آپ کا گھر قریب ہی ہے لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
اُس نے منہ سے کچھ کہنے کے بجائے ہاتھ سے دائیں جانب اشارہ کیا۔
میرا شک یقین میں تبدیل ہو گیا۔
اگر پہلی آنٹی نے بائیں طرف اشارہ کیا تو دوسری نے دائیں جانب کیوں کیا؟
میں نے سوچا،
”منیب میاں، معاملہ گڑبڑ ہے۔ ایک دائیں ایک بائیں۔ انھیں دائیں بائیں کرو۔
یہ تو فقیروں کا بھیس بنائے بغیر ہی تماشائے اہلِ کرم دیکھ رہی ہیں۔“
پھر بھی مؤبانہ میں نے اپنی بات دہرائی کہ آنٹی! منت تو انسان خود پوری کرتا ہے نہ کہ دوسروں سے کرواتا ہے۔
”ہمیں بحث میں نہیں پڑنا۔ آؤ چلیں۔“
یہ کہہ کر قدرے کم موٹی آنٹی پاس کھڑے ایک رکشے والے سے مانگنے لگی جبکہ زیادہ موٹی نے مجھے ایسے گھور کے دیکھا جیسے سموچا ہی نگل جائے گی۔
منت کے لیے اتنی منتیں!
 

اکمل زیدی

محفلین
شام کے وقت گھنٹی بجی۔
میں نے دروازہ کھولا۔
سامنے ایک فربہ سی خاتون جلوہ افروز تھیں۔
یا تکلف برطرف، موٹی سی آنٹی کھڑی تھی۔
عمر پینتیس چالیس سال کے درمیان ہو گی۔
کہنے لگی،
”ہم آپ کے ہمسائے سے آئے ہیں۔ منت مانگی تھی۔ آج پوری ہو گئی ہے۔ آپ کچھ امداد کر سکتے ہیں تو کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔“
میں نے کہا ہمسائے سے ہی آئی ہے تو مکان نمبر پوچھ لوں۔
”آپ کس گھر سے آئی ہیں؟“
اُس نے بائیں جانب اشارہ کیا اور ہاتھ خاصا اونچا اٹھایا جیسے کسی دور گھر سے آئی ہے۔
میں نے کہا،
”آپ وہاں سے آئی ہیں لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
کہنے لگی،
”مکان قریب ہی ہے۔ آپ بس امداد کر دیں۔ ہم مانگنے والے نہیں ہیں۔ منت مانگی تھی۔ اسے پورا کرنا ہے۔“
میں نے سوچا چلو نیکی کا کام ہے، مدد کر دوں لیکن پھر مجھے ایک خیال آیا۔
میں نے کہا،
”منت آپ نے مانگی ہے تو پوری بھی آپ کو ہی کرنی چاہیے۔
دوسروں سے مانگ کے اپنی منت پوری کرنی ہے تو یہ کیسی منت ہوئی؟
منت انسان اپنے لیے مانتا ہے یا دوسروں کے لیے؟“
اتنی دیر میں ایک اور آنٹی اس کے پیچھے سے نکل آئی۔
شاید وہ پہلے بھی وہیں کھڑی تھی لیکن پہلی آنٹی کا پہاڑ بیچ میں حائل تھا۔
یہ آنٹی قدرے کم موٹی تھی، شاید عمر بھی کم ہو۔
نمودار ہونے کے ساتھ اس نے بھی وہی ڈائیلاگ دہرایا جو میں اوپر دو دفعہ لکھ چکا ہوں۔
تیسری دفعہ سننے پہ میں نے سوچا یہ آنٹیاں بار بار کیوں کہہ رہی ہیں کہ ہم مانگنے والے نہیں ہیں؟
مجھے میرے بڑے بھائی کی نصیحت یاد آ گئی۔
اُس نے ایک بار بچپن میں مجھے کہا تھا،
”منیب! جب کوئی کہے نا کہ وہ کوئی چیز نہیں ہے تو سمجھ لینا کہ وہ وہی چیز ہے۔
چور کہے میں چور نہیں ہوں تو سمجھ لینا چور ہے۔“
یہ نصیحت معقول تھی یا غیرمعقول، اس سے بحث نہیں۔
لیکن میرے ذہن پہ نقش ہو گئی۔
میں نے سوچا یہ آنٹیاں بنٹیاں بار بار کہہ رہی ہیں ہم مانگنے والے نہیں ہیں،
لگتا ہے مانگنے والے ہی ہیں۔
پھر بھی تصدیق کے لیے میں نے اس نئی آنٹی سے پوچھا،
”آپ کا گھر قریب ہی ہے لیکن مکان نمبر کیا ہے؟“
اُس نے منہ سے کچھ کہنے کے بجائے ہاتھ سے دائیں جانب اشارہ کیا۔
میرا شک یقین میں تبدیل ہو گیا۔
اگر پہلی آنٹی نے بائیں طرف اشارہ کیا تو دوسری نے دائیں جانب کیوں کیا؟
میں نے سوچا،
”منیب میاں، معاملہ گڑبڑ ہے۔ ایک دائیں ایک بائیں۔ انھیں دائیں بائیں کرو۔
یہ تو فقیروں کا بھیس بنائے بغیر ہی تماشائے اہلِ کرم دیکھ رہی ہیں۔“
پھر بھی مؤبانہ میں نے اپنی بات دہرائی کہ آنٹی! منت تو انسان خود پوری کرتا ہے نہ کہ دوسروں سے کرواتا ہے۔
”ہمیں بحث میں نہیں پڑنا۔ آؤ چلیں۔“
یہ کہہ کر قدرے کم موٹی آنٹی پاس کھڑے ایک رکشے والے سے مانگنے لگی جبکہ زیادہ موٹی نے مجھے ایسے گھور کے دیکھا جیسے سموچا ہی نگل جائے گی۔
منیب صاحب کچھ دے دلا دیتے ۔۔۔چاہے وہ جھوٹ ہی کہہ رہی ہوں یا ڈرامہ بازی سے کام لے رہی ہوں ۔۔۔کیونکہ کہیں کوئی قول نظر سے گذرا تھا کے "لوگوں کا آپ پر dependکرنا بھی آپ پر اللہ کےکرم کی ایک نشانی ہے"
واللہ اعلم باِلصواب
 

منیب الف

محفلین
منیب صاحب کچھ دے دلا دیتے ۔۔۔چاہے وہ جھوٹ ہی کہہ رہی ہوں یا ڈرامہ بازی سے کام لے رہی ہوں ۔۔۔کیونکہ کہیں کوئی قول نظر سے گذرا تھا کے "لوگوں کا آپ پر dependکرنا بھی آپ پر اللہ کےکرم کی ایک نشانی ہے"
واللہ اعلم باِلصواب
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن اس وقت میرا دل نہیں مانا۔
مجھے زیادہ تر بابا فقیر اچھے لگتے ہیں۔
سفید داڑھیوں والے۔ اورنج کپڑوں والے۔
اُنھیں میں چائے بھی پلاتا ہوں :coffeecup:
ویسے کبھی نہیں بھی پلاتا۔
فقیر فقیر پہ depend کرتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
برصغیر میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم پیشہ وارانہ گداگری اور اس کے نت نئے طریقے لوگوں کے "دردِ دل" ہی کے وجہ سے پھیلی ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا جو کچھ نہ دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم دلوں کے حال نہیں جانتے اور مستحق اور غیر مستحق کا فیصلہ کرنا بہت دشوار بھی ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے عقلِ شریف بھی اسی فیصلے اور سوچنے سمجھنے کے لیے عطا کی ہے۔ قرائن سے صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ کون پیشہ ور گداگر ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
برصغیر میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم پیشہ وارانہ گداگری اور اس کے نت نئے طریقے لوگوں کے "دردِ دل" ہی کے وجہ سے پھیلی ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا جو کچھ نہ دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم دلوں کے حال نہیں جانتے اور مستحق اور غیر مستحق کا فیصلہ کرنا بہت دشوار بھی ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے عقلِ شریف بھی اسی فیصلے اور سوچنے سمجھنے کے لیے عطا کی ہے۔ قرائن سے صاف ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ کون پیشہ ور گداگر ہے۔
لیکن وارث بھائی کیا کچھ حسب استطاعت دینے میں کچھ حرج نہیں جو ہاتھ پھیلا دے اسے ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن وارث بھائی کیا کچھ حسب استطاعت دینے میں کچھ حرج نہیں جو ہاتھ پھیلا دے اسے ؟
میرے خیال میں تو صرف مستحقین کو دینا چاہیئے۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اور صدا لگا دینا پیشہ ور گداگر کے لیے دنیا کا سب سے آسان کام ہے اور کسی سفید پوش مستحق کے لیے یہی کام دنیا کا سب سے مشکل کام۔

پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ پیشہ وارانہ گداگری ایک ناسور، ایک برائی ہے یا نہیں اور اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک برائی ہے تو اس صورت میں ان کو بھیک دینا ایک طرح سے برائی میں مدد کرنے کے مترادف ہے۔

اسلام میں صدقات اور خیرات کی بہت فضیلت ہے اور ہمارے آئمہ اور بزرگوں کی ایسی لاتعداد روایات بھی منقول ہیں کہ کسی سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہیں بیجتے تھے چاہے اپنے پاس کچھ رہے نہ رہے، سب درست اور ہمارا ان سب باتوں پر صدق دل سے یقین اور ایمان بھی ہے اور ایسے واقعات ایمان افروز بھی ہوتے ہیں اور صدقات و خیرات کرنے کے لیے انسان کو متحرک بھی کرتے ہیں اور خیرات و صدقات دینے بھی چاہیئں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا ان زمانوں میں پیشہ ور گداگر بھی ہوتے تھے جیسے اب ہیں، ہر سڑک ہر چوراہے پر، ہر میلے ہر ٹھیلے پر، ہر ہسپتال کے باہر، ہر میدان کے اندر، واللہ میں اپنے گھر اور دفتر سے باہر کسی ایسی جگہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جہاں یہ پیشہ ور گداگر موجود نہ ہوں۔ بلکہ اب تو ان کی پہنچ گھروں اور دفتروں کے اندر بھی ہے!
 

سید عمران

محفلین
مریم صاحبہ نے وارث صاحب کی جس تحریر کا حوالہ دیا ہے اگر اس میں سے یہ مطلب نہ نکلا تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ آپ کی جیب سے ہمارے کھانے کے بل کا پیسہ نکلا!!!
غلط ،مریم بہنا نے کسی تحریر کا اقتباس ہی نہیں لیا تو آپ نے ایسے کیسے سمجھ لیا ۔:p
 

سید عمران

محفلین

سید عمران

محفلین
Top