برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے

یاس کی چنگاریوں کو جب ہوا دیتی ہے شب
وسوسوں کی آگ سینے میں لگا دیتی ہے شب

ڈوبتے سورج کو دیکھا ہے کبھی کیا غور سے
روشنی کی شمع کو کیسے بجھا دیتی ہے شب

آسماں پر باجماعت ماند تاروں کے لیے
چاند جیسا خوبصورت مقتدا دیتی ہے شب

شہر میں تاریکیاں سرگوشیاں کرتی ہیں جب
روشنی کے سامنے زلفیں گرا دیتی ہے شب

چودھویں کے چاند کی کرنیں اسے چبھتی ہیں تو
بادلوں کی اوٹ میں اس کو چھپا دیتی ہے شب

عمر بھر کا عہد کرتی ہے ستاروں سے مگر
صبح صادق سے گلے مل کر بھلا دیتی ہے شب

رات کے پچھلے پہر کا منتظر رہتا ہوں میں
جب تہجد کے لیے مجھ کوجگا دیتی ہے شب​
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات.....
ردیف اگر 'رات' ہو تو؟ مجھے روانی میں زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہے ۔
باقی اشعار درست ہیں مجھے بس دو مصرعے قابل اصلاح لگھ
آسماں پر باجماعت ماند تاروں کے لیے
'ماند' سے مراد؟ ماند ہونا یا پڑنا تو کہا جاتا ہے لیکن بطور صفت عجیب لگ رہا ہے
اور
چودھویں کے چاند کی کرنیں اسے چبھتی ہیں تو
میں 'تو' کا طویل کھنچنا ناگوار لگتا ہے الفاظ بدل دیں جیسے
جب اسے چبھتی ہیں کرنیں چودھویں کے چاند کی
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
پہلی بات.....
ردیف اگر 'رات' ہو تو؟ مجھے روانی میں زیادہ بہتر محسوس ہوتی ہے ۔
سر آخری شعر میں دونوں مصرعوں میں رات کی وجہ سے کہیں شعر تو تاریک نہیں ہو جائے گا یعنی

رات کے پچھلے پہر کا منتظر رہتا ہوں میں
جب تہجد کے لیے مجھ کوجگا دیتی ہے رات

آسماں پر باجماعت ماند تاروں کے لیے
'ماند' سے مراد؟ ماند ہونا یا پڑنا تو کہا جاتا ہے لیکن بطور صفت عجیب لگ رہا ہے
سر پہلے مصرعہ یوں کہا تھا
آسماں پر باجماعت ان ستاروں کے لیے
اس میں لگا کہ "ان" بھرتی کا ہے اس لیے بدل دیا۔
یا یوں مناسب رہے گا
باجماعت آسماں پر دور تاروں کے لیے
چودھویں کے چاند کی کرنیں اسے چبھتی ہیں تو
میں 'تو' کا طویل کھنچنا ناگوار لگتا ہے الفاظ بدل دیں جیسے
جب اسے چبھتی ہیں کرنیں چودھویں کے چاند کی
ٹھیک ہے سر
 

الف عین

لائبریرین
با جماعت والے شعر کے الفاظ بھی بدلے جا سکتے ہیں
صف بہ صف یا ہاتھ باندھے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
رات کے پچھلے پہر کو بدل دو۔ محض پچھلے پہر ہی کافی ہے الفاظ بدل کر دیکھیں جیسے
اس لیے پچھلے پہر کا ...
سر یہ متبادل دیکھیے
ہر گھڑی پچھلے پہر کا منتظر رہتا ہوں میں
جب تہجد کے لیے مجھ کو جگا دیتی ہے رات
با جماعت والے شعر کے الفاظ بھی بدلے جا سکتے ہیں
صف بہ صف یا ہاتھ باندھے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے
سر یہ متبادل ٹھیک ہے
آسماں پر مقتدی جیسے ستاروں کے لیے
چاند جیسا خوبصورت مقتدا دیتی ہے رات
 

فلسفی

محفلین
دونوں متبادل اشعار پسند آئے
شکریہ سر


یاس کی چنگاریوں کو جب ہوا دیتی ہے رات
وسوسوں کی آگ سینے میں لگا دیتی ہے رات

ڈوبتے سورج کو دیکھا ہے کبھی کیا غور سے
روشنی کی شمع کو کیسے بجھا دیتی ہے رات

آسماں پر مقتدی جیسے ستاروں کے لیے
چاند جیسا خوبصورت مقتدا دیتی ہے رات

شہر میں تاریکیاں سرگوشیاں کرتی ہیں جب
روشنی کے سامنے زلفیں گرا دیتی ہے رات

جب اسے چبھتی ہیں کرنیں چودھویں کے چاند کی
بادلوں کی اوٹ میں اس کو چھپا دیتی ہے رات

عمر بھر کا عہد کرتی ہے ستاروں سے مگر
صبح صادق سے گلے مل کر بھلا دیتی ہے رات

ہر گھڑی پچھلے پہر کا منتظر رہتا ہوں میں
جب تہجد کے لیے مجھ کو جگا دیتی ہے رات​
 
Top