برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش

دل میں ہزاروں وسوسے ڈالے ہوئے ہیں شرک کے
ہائے ہماری بے بسی ایسے بتوں کے سامنے

اِنّی قریب اس نے ہمارے پوچھنے پر کہہ دیا
ہم نے مگر اللہ سے رکھے ہوئے ہیں فاصلے

دل تین سو اور ساٹھ سے زائد بتوں کی بارگاہ
کچھ تو بنائے وہم نے کچھ خواہشوں نے گھڑ لیے

کیسا توکل ہے کہ ہو بس معجزے کے منتظر
تقدیر کو اپنی بدلتے کیوں نہیں اعمال سے

نیکی کی خواہش ماند ہے لیکن گناہوں کی ہوس
رسوا کیا اس نفس نے دونوں جہانوں میں مجھے

ذکرِ الہی کا ہے مقصد اور کیا اس کے سوا
انسان بس ہر حال میں اللہ کا بندہ رہے
ق
میرے مقدر میں اگر کچھ نیکیاں باقی نہیں
تو اے خدا اس جسم سے آزاد کردے اب مجھے
یا فضل سے اپنے بدل دے نیکیوں میں سب گناہ
بے شک امیدیں ہیں ترے بندوں کو تیرے فضل سے​
 

الف عین

لائبریرین
دل میں ہزاروں وسوسے ڈالے ہوئے ہیں شرک کے
ہائے ہماری بے بسی ایسے بتوں کے سامنے
یوں بہتر نہیں ہو گا؟

ڈالے ہوئے ہیں شرک نےدل میں ہزاروں وسوسے
ہائے ہماری بے بسی اپنے بتوں کے سامنے
باقی اشعار درست ہیں لیکن سب کی روانی بہتر کی جا سکتی ہے الفاظ بدل کر

یا فضل سے اپنے بدل دے نیکیوں میں سب گناہ
... گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کی بات کا درست ابلاغ نہیں ہو رہا
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر
دل میں ہزاروں وسوسے ڈالے ہوئے ہیں شرک کے
ہائے ہماری بے بسی ایسے بتوں کے سامنے
یوں بہتر نہیں ہو گا؟

ڈالے ہوئے ہیں شرک نےدل میں ہزاروں وسوسے
ہائے ہماری بے بسی اپنے بتوں کے سامنے
سر پہلا مصرع جیسا آپ نے لکھا پہلے ویسے ہی سوچا تھا لیکن "شرک نے" کے بجائے "شرک کے" زیادہ مناسب لگ رہا تھا یعنی "دل میں شرک کے وسوسے بتوں نے ڈالے ہوئے ہیں"۔
یا فضل سے اپنے بدل دے نیکیوں میں سب گناہ
... گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کی بات کا درست ابلاغ نہیں ہو رہا
جی سر میں دوبارہ اس غزل کو پیش کرتا ہوں تبدیلیوں کے بعد۔
 

فلسفی

محفلین
سر الف عین کچھ تبدیلیاں کی ہیں اب دیکھیے

شرکِ خفی کی وجہ سے دل میں ہزاروں وسوسے
ہائے بشر کی بے بسی وہم و گماں کے سامنے

اللہ نے تو پوچھنے پر کہہ دیا اِنّی قریب
پھر بھی مگر انسان نے رکھے ہوئے ہیں فاصلے

دل تین سو اور ساٹھ سے زائد بتوں کی بارگاہ
کچھ آزری ہے وہم کی کچھ خواہشوں نے گھڑ لیے

بس معجزے کا منتظر رہنا توکل تو نہیں
تقدیر کو اپنی بدلتے کیوں نہیں اعمال سے

نیکی کوئی سرزد نہیں ہوتی گناہوں کے سبب
دونوں جہانوں میں کیا اس نفس نے رسوا مجھے

ذکرِ الہی کا کوئی مقصد نہیں اس کے سوا
انسان بس ہر حال میں اللہ کا بندہ رہے
ق
میرے مقدر میں اگر کچھ نیکیاں باقی نہیں
تو روح کو آزاد کردے جسم کے زندان سے
یا پھر گناہوں کو بدل دے نیکیوں میں اے خدا
بے شک ترے بندے کو تجھ سے خیر کی امید ہے​
 

اظہرعباس

محفلین
سر الف عین کچھ تبدیلیاں کی ہیں اب دیکھیے

شرکِ خفی کی وجہ سے دل میں ہزاروں وسوسے
ہائے بشر کی بے بسی وہم و گماں کے سامنے

اللہ نے تو پوچھنے پر کہہ دیا اِنّی قریب
پھر بھی مگر انسان نے رکھے ہوئے ہیں فاصلے

دل تین سو اور ساٹھ سے زائد بتوں کی بارگاہ
کچھ آزری ہے وہم کی کچھ خواہشوں نے گھڑ لیے

بس معجزے کا منتظر رہنا توکل تو نہیں
تقدیر کو اپنی بدلتے کیوں نہیں اعمال سے

نیکی کوئی سرزد نہیں ہوتی گناہوں کے سبب
دونوں جہانوں میں کیا اس نفس نے رسوا مجھے

ذکرِ الہی کا کوئی مقصد نہیں اس کے سوا
انسان بس ہر حال میں اللہ کا بندہ رہے
ق
میرے مقدر میں اگر کچھ نیکیاں باقی نہیں
تو روح کو آزاد کردے جسم کے زندان سے
یا پھر گناہوں کو بدل دے نیکیوں میں اے خدا
بے شک ترے بندے کو تجھ سے خیر کی امید ہے​
بہت اعلیٰ ۔
 
Top