پانی کی کوئی شکایت ہے نہ خوراک سے ہے

عرفان سعید

محفلین
(پروین شاکر سے معذرت کے ساتھ)

پانی کی کوئی شکایت ہے نہ خوراک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت تری املاک سے ہے

تجھ کو دفتر میں بھی بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
جھاڑو کا جیسے رویہ خس و خاشاک سے ہے

دریا کے بیچ چھلانگ لگا تو دی میں نے
اور مرا سارا بچاؤ کسی تیراک سے ہے

اتنے دانت ہیں ترے صاف کہ ہوتا ہے گماں
یہ سفیدی تو کسی اچھی سی مسواک سے ہے

علم کے موتی بھی اب نیٹ سے پھیلے تو ہیں
"معجزے کی وہی امید مگر 'چاک 'سے ہے"

یہ نمی تجھ کو گریبان پہ دِکھتی ہے مرے
دریا یہ تو مری آنکھوں سے نہیں ناک سے ہے

اس نے رہتے ہوئے یورپ میں اشارہ کاٹا
بات کی تو سنا ، وہ بھی ارضِ پاک سے ہے

صرف اک بار قبا شادی کی پہنی میں نے
اور مری ساری تھکاوٹ اسی پوشاک سے ہے

بازی اک شادی کی اور کھیلنا میں چاہتا ہوں
خوف انجانا ہے اک جو کے تری دھاک سے ہے

۔۔۔ عرفان ۔۔۔​
 

عرفان سعید

محفلین
Top