تحفظ

اکمل زیدی

محفلین
کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ اسلام کی توہین روکنے کے لئے یورپی ممالک اور امریکہ پر اسلامی ممالک کی جانب سے دبائو ڈالا جائے کہ جس طرح انہوں نے مٹھی بھر یہودیوں کی مذہب کے تحفظ کے لئے قانون بنائے ہیں، اسی طرح دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کے مذہب کی توہین روکنے کے لئے بھی قوانین بنائے جائیں۔ جرمنی میں یہودی صرف ایک لاکھ انیس ہزار ہیں جبکہ مسلمانوں کی تعداد 45 لاکھ ہے۔ مگر جرمنی میں یہودیت کی توہین اور دوسری جنگ عظیم ان کے قتل عام کا انکار کرنے کے خلاف 1985ء میں ایک قانون بنایا گیا جس میں 1994ء میں ترمیم کی گئی، اس قانون کے تحت نازی علامات استعمال کرنا، یہودی مذہب کے خلاف بولنا یا تحریر کرنا اور یہودیوں کے قتل عام سے انکار کرنا جرم ہے۔ اس جرم کی سزا 5 سال تک قید ہے۔ فرانس میں یہودیوں کی تعداد صرف 5 لاکھ ہے جبکہ مسلمان 50 لاکھ ہیں۔ فرانس میں یہودی مذہب کی توہین کے خلاف 1984ء میں قانون بنایا گیا۔ اس قانون میں 1990ء میں ترمیم کی گئی۔ 2003ء میں اس میں مزید ترمیم کرکے سزا میں مزید اضافہ کیا گیا۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر ایک سے تین سال تک قید کی سزا ہے۔ اٹلی میں یہودیوں کی تعداد صرف 28 ہزار ہے جبکہ مسلمانوں کی تعداد 15 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اٹلی کی پارلیمنٹ نے 1967ء میں یہودیت کی توہین کے خلاف آرٹیکل آٹھ منظور کیا۔ اس قانون کے تحت یہودیوں کے قتل عام کا انکار اور ان کی توہین کرنا جرم ہے۔ اس جرم کی سزا تین سے بارہ سال تک ہوسکتی ہے۔ برطانیہ میں آباد یہودی 2 لاکھ 92 ہزار ہیں جبکہ مسلمانوں کی تعداد 29 لاکھ ہے۔ برطانیہ میں تین ایسے قانون ہیں جو یہودی مذہب کے تحفظ کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ پہلا قانون پبلک آرڈر ایکٹ 1986ء کہلاتا ہے۔ دوسرا قانون ایکٹ آف 1994، مذہبی نفرت پھیلانے کے خلاف ہے۔ تیسرا قانون ایکٹ آف 2006ء تحریری طور پر نفرت آمیز مواد پھیلانے کے خلاف ہے۔ ان جرائم کی سزا 7 سال قید اور جرمانہ ہے۔ اس کے علاوہ 1997ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں ایک نیا بل پیش کیا گیا جس میں ہولوکاسٹ کے انکار کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔ یہ بل ابھی منظور کے لئے پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ اسپین میں یہودی صرف 12 ہزار ہیں جبکہ مسلمان 10 لاکھ ہیں۔ 24 مئی 1996ء میں اسپین کی پارلیمنٹ نے آرٹیکل 510 منظور کیا۔ اس قانون کے تحت یہودی قوم ایک مذہب کے خلاف تقریر یا تحریر قابل سزا جرم ہے۔ اس جرم کی سزا ایک سے تین سال قید اور جرمانہ ہے۔ یہودیوں کی توہین پر صرف یورپی ممالک ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ بھی پیش پیش رہی ہے۔ 1992ء میں اقوام متحدہ نے یہودی مخالف جذبات کو ایک خطرہ قرار دیا اور اس کے خلاف دنیا بھر میں قانون سازی کرنے پر زور دیا۔ نومبر 2004ء میں اقوام متحدہ نے ایک اعلامیہ کے ذریعے تمام رکن ممالک سے نسل پرستی اور یہودیت کے خلاف توہین آمیز جذبات کے خلاف جدوجہد کرنے پر زور دیا۔ کیا سوا ارب سے زیادہ مسلمان ایک کروڑ یہودیوں کی طرح اپنے نبی پاکﷺ کی عظمت کے تحفظ کے لئے متحد ہوکر یورپ اور امریکہ سے اس سلسلے میں قانون سازی کا مطالبہ نہیں کرسکتے؟
مغرب کی جانب سے آزادی اظہار کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ جب گوگل سے یوٹیوب پر گستاخانہ فلم کی بندش کا مطالبہ کیا گیا تو جواب میں وہی روایتی جملہ دہرایا گیا کہ آزادی اظہار پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق 14 ستمبر 2012ء کی اشاعت میں گوگل کے بارے میں ناقابل انکار شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا گیا کہ Jewish Press کی یکم اگست 2012ء کی اشاعت کے مطابق گوگل نے ایک نہیں 1710 ویڈیوز جن مں خاصی بڑی تعداد کا تعلق ہولوکاسٹ سے تھا، 24 گھنٹے کے اندر اپنی ویب سائٹ سے ہٹادیئے۔ کیا یہ آزادی اظہار پر قدغن نہیں؟ یہ دہرا معیار کب تک جاری رہے گا؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے جسے ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے اپنے کالم ’’شہ رگ‘‘ میں لکھتے ہیں: ایک جرمن مسلم اسکالر سے ایک ٹی وی انٹرویو جسے لاکھوں افراد نے دیکھا، میں اسلام اور دہشت گردی کے بارے میں سوال کیا گیا تو مسلم اسکالر نے جواب دیا کہ پہلی جنگ عظیم کس نے شروع کی تھی؟ کیا مسلمانوں نے؟ دوسری جنگ عظیم کس نے شروع کی تھی؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے آسٹریلیا میں 2 کروڑ سے زائد قدیم قبائلی باشندوں کو قتل کیا؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے شمالی امریکہ میں 10 کروڑ انڈینز قتل کئے؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے جنوبی امریکہ میں 5 کروڑ انڈینز کو قتل کیا؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے 18 کروڑ افریقیوں کو غلام بنایا؟ جس میں سے 88% کو جرمانے کے بعد بحر اوقیانوس میں پھینک دیا گیا؟ کیا مسلمانوں نے؟ کس نے ویت نام، عراق، افغانستان پر جنگ مسلط کی؟ کیا مسلمانوں نے؟ یقیناً یہ سب مسلمانوں نے نہیں کئے۔ لہذا آپ کو دہشت گردی کی واضح تعریف کرنا ہوگی کیونکہ اگر کوئی غیر مسلم کچھ برا کرتا ہے تو یہ جرم ہے لیکن اگر کوئی مسلمان وہی چیز کرتا ہے تو یہ دہشت گردی ہے۔ آپ کو یہ دہرا معیار ختم کرنا ہوگا پھر ہم اس موضوع پر بات کرسکیں گے کیونکہ اس دہرے معیار نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔
دنیا کا کوئی ملک حتیٰ کہ اقوام متحدہ تک دہشت گردی کی کوئی تعریف نہیں کرسکتا جبکہ اسلام 14 سو سال قبل دہشت گردی کی واضح تعریف کرچکا ہے۔ حدیث نبویﷺ کا مفہوم ہے: کسی نے کسی شخص کو خوفزدہ کرنے کے لئے آنکھ دکھائی یا غور سے دیکھا تو یہ بھی دہشت گردی ہے۔ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ ہمیں اسلام ہی سکھا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے 57 اسلامی ممالک اور ڈیڑھ سو کروڑ مسلمان ہیں مگر بدقسمتی سے ان میں کوئی سربراہ مملکت ایسا نہیں جو امت مسلمہ کی قیادت و رہنمائی کرسکے، جس کی آواز سنی جاتی ہو، ہمارے مسلم حکمرانوں اور دانشور طبقے کو اس سلسلے میں عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ عالمگیر تحریک چلا کر توہین رسالت، مذہب و کتاب پر قانون سازی کرنا ہوگی۔ آزادی اظہار کے نام پر مذہبی جذبات مجروح کرنے والے ہر عمل کو تعزیر جرم بنانا ہوگا۔
اداریہ۔ جھوٹ وفریب پر مبنی یہودی نظرہولوکاسٹ
 
Top