میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
لوگ قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ ایک خاتون کو سو کا کھلا چاہیے تھا۔ اس نے راہ گیر سے مانگا اور اپنے ساتھ والی سے کہا، یہ شخص ضرور شادی شدہ ہے۔ دوسری نے پوچھا، تم کیسے کہہ سکتی ہو؟

بولی، “ اس نے پہلے ادھر ادھر دیکھا، پھر بٹوہ نکالا اور اس نے کھولنے سے پہلے میری طرف پشت کر لی۔“

ہمارے ایک ماہر نفسیات دوست بھی ہر قیامت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اہل تصویر میں سے اہلیہ بتا دیتے ہیں۔ ہم نے انہیں ایک میاں بیوی کی تصویر دکھائی تو کہنے لگے یہ ضرور ان کی شادی سے پہلے کی تصویر ہے۔

وجہ پوچھی تو کہا، کسی بیوی کا ہاتھ خاوند کی جیب سے اتنے فاصلے پر نہیں ہو ہوتا۔

البتہ ایک بار ہم نے انہیں بھی مشکل میں دیکھا۔ ایک پرچے میں بیگم عابدہ حسین اور فخر امام کی تصویر چھپی تو سوچ میں پڑ گئے۔ پوچھا کیا سوچ رہے ہو؟

کہا، یہ پتہ نہیں چل رہا ہے ان میں سے بیوی کون سی ہے؟

(ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب عکس بر عکس سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
ادب برائے ادب

ادب برائے ادب میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا، ادب محض تفریح یا ذہنی عیاشی کے لیے نہیں، بلکہ اس کا مقصد اس سے بہت بلند ہے۔ اسے زندگی کی حقیقی اور بولتی چالتی زندگی کا آئینہ ہونا چاہیے۔ ادب کا مقصد ہے انسانی زندگی کی سچی تصویر کشی کرنا۔
(صالحہ عابدہ حسین)
 

شمشاد

لائبریرین
بزرگوں کی ایک خاص قسم وہ ہوتی ہے جو لطیفہ سن لینے کے بعد ہنسنے یا محض مسکرا دینے کی بجائے سنجیدگی سے پوچھتی ہے۔ “ پھر کیا ہوا؟ “ یا اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔“ یا یہ کہ “ غلطی اس کی تھی۔“ ایک بار ایسے ہی ایک خطرناک بزرگ کی موجودگی میں میں ایک لطیفہ سنا رہی تھی۔

ایک کسان کی بھینس بیمار تھی۔ وہ دوسرے کسان کے پاس گیا اور پوچھا۔ “ یار، تمہاری بھینس بیمار ہوئی تھی تو تم نے اسے کیا دوا دی تھی؟“

دوسرے کسان نے جواب دیا، “میں نے اپنی بھینس کو برادہ کُوٹ کر دیا تھا“

پہلا کسان گھر گیا اور اپنی بھینس کو برادہ کوٹ کر کھلا دیا۔ برادہ کھاتے ہی اس کی بھینس تڑپنے لگی اور تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ اس پر کسان کو بہت تاؤ آیا اور اسی وقت دوسرے کسان کے پاس جا کر بولا۔ “ تم نے اچھی دوا بتائی۔ میری بھینس تو برادہ کھاتے ہی مر گئی“
“ مر تو میری بھی گئی تھی۔“ دوسرا کسان بولا۔
“ تو پھر تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟“ پہلا کسان بگڑ کر بولا۔
“ تم نے پوچھا کب تھا، پوچھتے تو بتا دیتا۔“ دوسرا معصومیت سے بولا۔

لطیفہ نہایت غور سے سننے کے بعد ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے وہ بزرگ گویا ہوئے۔

“ افسوس، کسان کی بیوقوفی سے ایک بے زبان کی جان گئی۔“
(سرور جمال کے مضمون “ جنون لطیفہ “ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
طنز کا مقصد تلقین حقیقت ہوتا ہے۔ اور حقیقت بلا ضرورت تلخ ہوتی ہے۔ اس تلخی کو ایسے الفاظ میں بیان کرنا کہ وہ اس شخص اور سماج کو تو کم نقصان پہنچائے لیکن غیر شعوری طور پر اس کی اصلاح ہو جائے کہ جس پر وار کیا گیا ہے، حقیقی طنز ہے۔
(رشید احمد صدیقی)
 

شمشاد

لائبریرین
ایک شخص اپنے کھیت میں کھدائی کر رہا تھا۔ اسے سنگِ مرمر کی ایک نہایت حسین اور نظر فریب مورتی ملی۔ وہ اسے لیکر ایک ایسے شخص کے پاس گیا۔ جو پرانی چیزوں کا دل و جان سے عاشق تھا۔ اس نے ایک خطیر رقم دے کر وہ مورتی خرید لی اور دونوں اپنی اپنی راہ چلے گئے۔

بیچنے والا ، گھر جاتے ہوئے، اپنے دل میں کہہ رہا تھا، “کتنی جان اور کتنی زندگی ہے اس دولت میں، سچ مچ بڑی حیرت ہے کہ ایک عقلمند انسان، اتنی بڑی رقم، ایک گونگے اور بے جان پتھر کے ٹکڑے کے عوض کیسے دے سکتا ہے۔ جو ہزاروں برس سے زمین میں دبا پڑا ہو۔ جو کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ آیا ہو۔“

اور عین اسی لمحے خریدنے والا مورتی کو غور سے دیکھتا جا رہا تھا اور دل ہی دل میں کہتا جاتا تھا
“ کتنا مقدس ہے وہ حُسن جو تجھ میں ہے اور کتنی مبارک ہے وہ زندگی جو تیرے وجود میں شعلہ زن ہے۔ خدا کی قسم، میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انسان ایسی لطیف، ایسی نادر اور ایسی بے بہا چیز کو بے جان اور زائل ہو جانے والی دولت کے بدلے کیسے فروخت کر سکتا ہے۔“
(خلیل جبران)
 

شمشاد

لائبریرین
انگریزی کھانے اور دیسی کھانے میں تقریباً وہی فرق ہے جو انگریزی اور اردو بولنے میں ہے۔ جس طرح ایک نوآموز کی زبان سے انگریزی الفاظ یا محاورے پھسل پھسل جاتے ہیں اسی طرح انگریزی مٹر گوشت بھی ہمارے اناڑی چھری کانٹوں کی زد میں آتا ہے۔ اور پھر ہاتھوں سے کھانا خلافِ شان تھا۔ لہذہ جس طرح انگریزی جواب دے جائے تو اردو پر ہاتھ یا زبان صاف کر لی جاتی ہے، اسی طرح جہاں انگریزی چھری کانٹے سے کام نہ چلتا ہم آنکھ بچا کر انگلیوں سے ہی بوٹی اچک لیتے۔ گویا انگریزی کھانا اردو میں کھا لیتے۔ بعض حضرات ایسے تھے جو احترام میں اوزاروں کے بغیر کوئی چیز حلق میں نہ اتارتے تھے۔ ان میں سے کئی چھری کانٹا لیے پلیٹ میں مٹروں کا تعاقب کر رہے تھے اور مڑ ہیں کہ ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔ پیشتر اس کے ان مومن مٹروں کو کوئی گزند پہنچتا، بیرے پلیٹیں اُٹھا کر چل دیئے اور وہ صاحبان اپنا سا منہ اور چھری کانٹا لے کر رہ گئے۔ بعض اوقات یہ بھی معلوم نہ ہوتا تھا کہ بیرا جو کچھ سامنے رکھ گیا ہے اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے۔ چنانچہ کانی آنکھ سے ان انگریزوں کو دیکھتے اور پیچھے ان اماموں کے چمچے اور کانٹے اٹھا کر رکوع و سجود میں جاتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہوسٹس دو اقسام کی ہوتی ہیں، ارضی و سماوی - “ ارضی “ یعنی گرانڈ ہوسٹس نمازی شکل و صورت کی ہوتی ہیں۔ یعنی نماز پڑھیں نہ پڑھیں، پرہیزگار لگتی ہیں۔ ان سے بات کرتے ہوئے دل نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ دنیا فانی معلوم ہوتی ہے اور ان کی صحبت میں ہوائی جہاز کے بجائے نزدیک ترین مسجد کو بھاگ جانے کو جی چاہتا ہے۔

“ سماوی “ ایر ہوسٹس جہاز پر پائی جاتی ہے اور ان کی تاثیر بالکل مختلف ہوتی ہے۔ ان کی ہمسفری سے یادِ الٰہی میں نمایاں کمی آ جاتی ہے۔ البتہ ان کے قرب سے تولیدِ خون میں معتدبہ اضافہ ہوتا ہے اور ان کی معطر سانسوں کے طفیل، ہوائی جہاز کی ایر کنڈیشنگ کے باوجود زندگی میں حرارت آتی ہے اور یہ چلتی پھرتی رہیں تو دنیا رہنے کے قابل معلوم ہوتی ہے۔ انکی مہمان نوازی یوڈی کلون میں گھل کر جہاز کی فضا کو قطعی طور پر ایمان رُبا بنا دیتی ہے۔ جس سے مسافروں اور مسافرات کے اپنے اپنے ارمان اور رومان تحت الشعور میں کروٹ لے کر اچانک جاگ اٹھتے ہیں۔ حتی کہ بوڑھے اور بھاری بھر کم سینئر افسر بھی جو ریٹائرمنٹ کے دہانے پر کھڑے ہو کر آخری سرکاری دورے پر نکلے ہوتے ہیں، بار بار گھنٹی کا بٹن دباتے ہیں اور بار بار سنگتریاں طلب کرتے ہیں اور اسی بہانے اپنی ہلکی پھلکی میزبانوں سے خوش وقت ہو کر اپنی ہم وزن بیگمات سے تیس ہزار فٹ کی بلندی پر وقفہ نجات مناتے ہیں۔ الغرض “ ارض “ و “ سماوی “ ہوسٹسوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہمیں اتنا تو پتا تھا کہ عطااللہ عیسٰی خیلوی صاحب نے اتنی شادیاں نہیں کیں جتنی طلاقیں دی ہیں کہ وہ طلاق بھی یوں دیتے ہیں جیسے دعا دے رہے ہوں۔ ایک بار ایک دوست ان کی بیوی کے لیے تحفہ لینے بازار گیا، دکان پر بڑا رش تھا، دیر ہو گئی تو اس نے آ کر سب سے پہلے یہ پوچھا : “ لالہ، ابھی تک بھابھی وہی ہے ناں ؟“

لیکن ہمیں یہ خیال تک نہ تھا کہ وہ ایک دن محترمہ گلوکاری کو بھی طلاق دے دیں گے۔
پچھلے دنوں میڈم نور جہاں نے انکشاف کیا کو صرف دو آدمی ہیں جنہیں گلوکاری سے عشق ہے ایک میں اور ایک عطااللہ عیسٰی خیلوی، ہمارے لیے یہ بڑا انکشاف تھا کیونکہ ہم اس سے پہلے میڈم کو بھی آدمی نہیں عورت سمجھتے تھے۔ بہرحال گلوکاروں میں صرف عطااللہ کو میڈم نے آدمی مانا ہے جو بڑی بات ہے۔ اگرچہ عطااللہ کا گانا جو سن کر نکلے یہی کہتا ہے یہ اللہ کی عطا ہے۔ ہم نے ہمیشہ انہیں اللہ کا عطا ہی کہا ہے۔

بہرحال یہ آج پتا چلا کہ گلوکاری ان کی محبوبہ نہیں زوجہ تھی۔ حالانکہ آج بھی کسی کی محبوبہ بھاگ جائے تو وہ تھانے میں رپٹ بعد میں درج کراتا ہے، عطاء کی کیسٹوں کو پہلے خریدتا ہے۔ ان کی کیسٹوں کے بکنے کی تعداد سے ملک میں ناکام عاشقوں کی مردم شماری بلکہ نامردم شماری کی جا سکتی ہے۔
(یونس بٹ کی کتاب “عکس بر عکس“)
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے یہاں ناموں کا ایک انداز یہ ہے کہ انگریزی کا قائدہ سامنے رکھا اور اس کے حروفِ تہجی میں سے ایک دو کو چمٹی سے اٹھا کر اس کے بعد خان، احمد یا دین وغیرہ لگا لیا۔ اے حمید، بی احمد، ڈبلیو دین، زیڈ خان وغیرہ حتی کہ شہروں اور عہدوں کے ناموں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ ہم نے پڑھا کہ ڈی آئی خان میں مسٹر این ایم نے پی ڈبلیو ڈی کے ایس ڈی او کا عہدہ سنمبھال لیا ہے۔

ہمارے ادب میں آل احمد اور ن م راشد پہلے ادیب تھے جنہوں نے اردو کے قائدے کی سرپرستی کی۔ ہمارے بزرگ اور مہربان اے-ڈی اظہر صاحب اب اس عمر میں آ کر مسلمان ہوئے ہیں۔ یعنی خود کو الف دال اظہر لکھنے لگے ہیں۔ بہر صورت یہ بھی ان کی اردو پرستی کی دال ہے۔

حروف تہجی میں ایک قباحت البتہ ہے۔ آپ احمد دین کو الف دین تو لکھ سکتے ہیں، لیکن بدرالدین کو ب دین نہیں لکھ سکتے۔ پڑھنے میں ازالہ حیثیت عرفی کا اندیشہ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دن بڑی بہن نے ماں سے پوچھا “ بی بی (سب بچے ماں کو بی بی کہتے تھے) یہ عورتوں پر اتنا ظلم کیوں ہوتا ہے‌؟ “ ماں یکایک رو دی پھر آنسو پونچھ کر کہنے لگی۔

“ ہمارے ہاں رواج ہی ایسا ہے، ہندو، مسلمان، سکھ، سب لوگوں کے گھروں میں ریت ایک ہی ہے۔ تمہیں کیا بتاؤں بچو، گھر آئی بہو کے کیسے کیسے امتحان لیے جاتے تھے۔ ہندوؤں میں ایک رسم تھی کہ پہلی رات سسرال کی سب عورتیں بہو کے بدن پر زور زور سے چٹکیاں لیتی تھیں۔ اگر بہو تڑپ اٹھی خیر یہ تو بڑی بات ہے، اس نے “ سی “ بھی کر دی تو سمجھا جاتا تھا کہ بہو بسے گی نہیں۔ ایک امیر ہندو کے بیٹے کی شادی ہوئی، دلہن گھر میں آئی تو شام کو اس کی نند نے اس کے کپڑے بدلوائے، ایک میلا سا کرتا اور شلوار پہنا دی، کچھ دیر بعد بہو کا رنگ بدلنا شروع ہوا، حتٰی کہ وہ بغیر “سی“ کیئے غش کھا کر گر پڑی۔ سب کو پریشانی ہوئی، کہ اچھی خاصی تھی۔ اس کو کیا ہو گیا، ادھر اُدھر دیکھا۔ کسی کی سمجھ میں بات نہ آئی۔ جس نند نے کپڑے بدلنے کو دیے تھے، وہ بول اٹھی، کہ “ بس یہ کرتا پہنتے ہی اس کا رنگ پیلا پڑنے لگا تھا، بولی نہیں، بس کچھ دیر بعد بے ہوش ہو گئی۔“

اس پر کسی بڑی بوڑھی کو خیال آیا کہ کرتے کو دیکھو، کرتے کے اندر دیکھا تو ایک بہت بڑا کنکھجورا بہو کے سینے پر چمٹا ہوا تھا۔ اس کے سارے ڈنک لڑکی کے سینے میں کُھب چکے تھے۔ بڑی مشکل سے چمٹا گرم کر کے اس کنکھجورے کو نکالا گیا۔ لڑکی اگلی صبح تک بے ہوش رہی، وید کو بلایا گیا۔ اس نے کوئی دارو دیا جس سے لڑکی کی جان بچ گئی۔ گھر کا مالک کوئی اچھا آدمی تھا۔ اس نے گھر کی سب عورتوں کو زبان سے دھنک کر رکھ دیا کہ اب اگر کسی عورت نے میری بہو کے کمرے میں قدم رکھا تو اسے جان سے مارنے سے پہلے اس کی ہڈیاں توڑ کر رکھ دوں گا۔
(حمید نسیم کی خودنوشت “ناممکن کی جستجو“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے شہر میں ایک پرانا قصہ مشہور ہے۔ کوئی شاعر تھے، انہوں نے رات کو ایک شعر کہا جسے سنانے کے لیے وہ بےتاب ہو گئے۔ رات کو ایک بجے کوئی قدرداں سخن فہم کہاں سے آتا، ناچار انہوں نے اپنی اہلیہ کو جگایا اور ان سے کہنے لگے، “ سنو، ایک شعر ہوا ہے۔“
بیوی بولیں، “ ہاں تو پھر کیا کریں؟“
وہ کہنے لگے، “شعر سنو!“
“ سناؤ “، شعر سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہیں، پھر کہنے لگیں، مطلب سمجھاؤ۔
شاعر صاحب شعر کے معنی بتاتے جاتے تھے اور بیوی کے چہرے پر مختلف اثرات ظاہر ہوتے جاتے تھے۔ جب شاعر صاحب مطلب سمجھا چکے بیوی کے چہرے پر مزید حیرت تھی۔ وہ کہنے لگیں، “ میری عمر اللہ رکھے ، اب ساٹھ سال ہو رہی ہے، اور تمہارا کہنا ہے کہ تم ۔۔۔ اتنا جھوٹ بولتے ہو، تمہاری بخشش بھی ہو گی کہ نہیں۔“
(چوہدری محمد علی ردولوی کی کتاب “ کشکول “ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟
اس بزرگ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا۔
“ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔“
(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب “چراغ تلے“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
اکبر الہ آبادی کے ایک دوست قمرالدین بدایونی (مصنف بزم اکبر) ایک دفعہ سائیکل سے گر گئے۔ جب اکبر الہ آبادی کو معلوم ہوا تو کہنے لگے، ان کو کس نے کہا تھا کہ بائیسکل پر سوار ہوں۔ وہ تو ہے ہی مجسم روگ۔ مرض بائی (buy) شروع ہوتا ہے پھر سِک (sick) ہوتا ہے پھر اِل (ill) ہوتا ہے۔ یوں بائی سِک اِل بنتا ہے۔
 

تیلے شاہ

محفلین
شمشاد نے کہا:
ہمارے یہاں ناموں کا ایک انداز یہ ہے کہ انگریزی کا قائدہ سامنے رکھا اور اس کے حروفِ تہجی میں سے ایک دو کو چمٹی سے اٹھا کر اس کے بعد خان، احمد یا دین وغیرہ لگا لیا۔ اے حمید، بی احمد، ڈبلیو دین، زیڈ خان وغیرہ حتی کہ شہروں اور عہدوں کے ناموں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ ہم نے پڑھا کہ ڈی آئی خان میں مسٹر این ایم نے پی ڈبلیو ڈی کے ایس ڈی او کا عہدہ سنمبھال لیا ہے۔

ہمارے ادب میں آل احمد اور ن م راشد پہلے ادیب تھے جنہوں نے اردو کے قائدے کی سرپرستی کی۔ ہمارے بزرگ اور مہربان اے-ڈی اظہر صاحب اب اس عمر میں آ کر مسلمان ہوئے ہیں۔ یعنی خود کو الف دال اظہر لکھنے لگے ہیں۔ بہر صورت یہ بھی ان کی اردو پرستی کی دال ہے۔

حروف تہجی میں ایک قباحت البتہ ہے۔ آپ احمد دین کو الف دین تو لکھ سکتے ہیں، لیکن بدرالدین کو ب دین نہیں لکھ سکتے۔ پڑھنے میں ازالہ حیثیت عرفی کا اندیشہ ہے۔

اپنے شہر کے بارے میں پڑھ کر بہت اچھا لگا :D
 

شمشاد

لائبریرین
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حکومت کا کوئی ملازم داڑھی رکھنا چاہے تو اس کی پیشگی اجازت لینے کے لیے باقاعدہ درخواست دینی پڑے کہ عالی جاہ ! چونکہ فدوی کا داڑھی رکھنے کا ارادہ ہے اس لیے اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ گویا داڑھی نہ ہوئی اسلحہ ہو گیا جس کے لیے لائسنس کی ضرورت ہے۔

صاحبو ! سابق شاہ ایران کے عہد میں یہ قانون نافذ تھا۔ وہاں حکومت وقت کے ملازمین کو اجازت حاصل کیے بغیر داڑھی رکھنے کی ممانعت تھی۔
(افضل علوی کی کتاب “ دیکھ لیا ایران “ سے)
 

شمشاد

لائبریرین
[align=justify:1f808f1122]حفیظ صاحب کی تازہ تصنیف “ چیونٹی نامہ “ کو بہت دلچسپ پایا۔ عرصے سے وہ اس کتاب کا ذکر کر رہے تھے۔ وہ نثر پر بھی شعر کی سی عرق ریزی کرتے ہیں۔ کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم جملہ نہ اٹکتا ہے نہ لٹکتا ہے۔ چیونٹیوں کر طرزِ زندگی اور نظامِ حکومت کی جزئیات اس سلامت سے بیان کی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر اس قدر دیدہ ریزی کی ہے کہ وہ اب چیونٹیوں کی شکلیں پہچان لیتے ہیں۔ انہوں نے ایک ایک چیونٹی جمع کر کے کتاب بنائی ہے۔[/align:1f808f1122]
 

شمشاد

لائبریرین
ہولناک خبریں

ناشتے کی میز پر اخبار کھولا تو عجیب ہولناک خبریں پڑھنے کو ملیں۔ مثلاً بیویوں سے مار کھانے والے، پاکستان میں ہر سال اڑھائی لاکھ مرد بیویوں کے طمانچے کھاتے ہیں اور پاکستانی بیویاں شوہروں پر کھولتا ہوا چائے کا پانی پھینک دیتی ہیں، نوکدار جوتوں سے زخمی ہونے والے شوہروں کو کئی روز بستر علالت پر رہنا پڑتا ہے۔ بیویوں کے ناقابل برداشت مظالم پڑھ کر میرے تو رونگٹھے کھڑے ہو گئے۔ گلا خشک ہو گیا، بدن لرزنے لگا۔

پھر اسی خبر کو دوبارہ پڑھنے لگا، معلوم ہوا کہ یہ ظلم کی داستانیں تو امریکا کی ہیں اور میں ذاتی تجربات کی دہشت کی وجہ سے امریکہ کی بجائے پاکستان اور پاکستانی بیویاں وغیرہ پڑھتا گیا۔
(چِک چُک - مستنصر حسین تارڑ)
 

شمشاد

لائبریرین
میری ڈائری خاصی اداس ہے۔ کافی دنوں سے اس پر کچھ نہیں لکھا گیا، نہ مجھے فرصت ملی اور دوسرے تو ہیں ہی بہت زیادہ مصروف۔ :cry:
 

شمشاد

لائبریرین
دنیا میں موجود سب سے بڑی یونیورسٹی کی عمارت روس میں ہے۔ ماسکو کے جنوب میں قائم “ ایم وی لومونوسف اسٹیٹ یونیورسٹی کی عمارت 787 فٹ 5 انچ بلند ہے، اس میں 32 منزلیں ہیں اور اس یونیورسٹی میں کمروں کی تعداد 40 ہزار ہے۔ اس یونیورسٹی کی تعمیر 1949 میں شروع کی گئی تھی اور 1953 میں مکمل ہوئی تھی۔
(تراشے جو زندہ رہیں گے)
 
Top