ایک کہانی (شیخ شفیق موڑ) - قسط 22

سید رافع

محفلین
شیخ شفیق موڑ - سو لفظوں کی کہانی


لڑکا ابوظہبی سے واپس آیا تھا۔

خلا کا معاملہ درپیش تھا سو وہ ابوظہبی چلا گیا تھا۔

دو مہینے ابوظہبی گزارنے کے بعد جب لڑکا کراچی آفس پہنچا تو وہاں ایک دوست نے ایک شیخ شفیق موڑ کا تذکرہ کیا۔

شیخ شام کواپنے گھر کے سب سے نچلی منزل پر ایک کمرے میں بیٹھتے تھے۔گھر تین منزلہ تھا۔اوپر انکے دوسرے بھائی رہتے تھے۔

وہ سعودی عرب سے واپس آئے تھے لیکن وہ قادری سلسلے سے وابستہ تھے۔

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ والد کی جانب سے امام حسن علیہ السلام سے ہوتے ہوئے جناب علی المرتضی علیہ السلام سے جا ملتے۔ جبکہ والدہ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام سے ہوتے ہوئے جناب ابو تراب علی المرتضی علیہ السلام سےجا ملتے۔ آپ کے ہاتھوں لاکھوں لوگوں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ نے ملتان پاکستان تک کا سفر کیا۔ علم حاصل کرنے کے بعد 25 سال عراق کے صحراوں اور جنگلوں میں طویل ریاضات کیں۔ آپ نے چار شادیاں کیں جن سے 49 بچے ہوئے۔آپ حنبلی تھے۔

شیخ رات بارہ بجے کے بعد اپنے احباب کے ساتھ مل کر کہیں جاتے اور کوئی عمل کرتے۔ ان کے قبضے میں چند جنات تھے جو غیر مسلم جنات کو مسلمان کرنے میں مدد کرتے۔اسکے علاوہ جو مرد عورت یا بچے عجیب و غریب آوازیں نکالتے وہ ان کے جنوں سے بات کرتے۔پھر یا تو وہ جن بات چیت سے چلے جاتے یاوہ انکو کسی کپڑے یا دوپٹے سے کستے اور وہ اپنے اس تکلیف دینے کی وجہ بذبان مریض ہی بتاتے۔

لڑکا کئی بار ان کے پاس گیا اور بارہا ایسے مناظر دیکھے۔

لڑکے کی باری آتی ہے۔

لڑکا اپنے ذاتی معاملے کو ان سے بیان کرتا ہے۔

وہ دعا کرتے ہیں ہیں۔ پھر آنکھ بند کر کے کچھ پڑھتے ہیں۔

پھر کہتے ہیں کہ کیا آپ کو اپنے کندھوں پر کچھ بوجھ محسوس ہوا۔

لڑکے کو کچھ بوجھ سا لگا تو تھا سو حامی میں سر ہلا دیا۔لیکن صد فیصد یقین نہ تھا۔

انہوں نے کچھ پڑھ کر پھونکا۔ پھر کہا کہ آپ یہ پانی استعمال کیجیے۔

اس اثناء میں ایک اور صاحب آتے ہیں اور آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔

وہ شیخ کو سلام نہیں کرتے۔

ان کے زلفیں تھیں۔

وہ سر سے ٹوپی اتارتے ہیں اور سر کو اوپر نیچے ہلانا شروع کر دیتے ہیں۔

لڑکے کے جانے تک وہ یونہی سر ہلاتے رہے۔

عشاء کا وقت ہوا تو شیخ اٹھے تو ایک عورت نے اعتراض کیا کہ ہم کو دیکھ کر جائیں۔

شیخ نے کہا اگر وہاں یعنی جماعت کو جائیں گے تو کچھ لے کر آپ کے لیے آئیں گے۔

شیخ کی محفل میں پردے کا انتظام نہ تھا۔

لڑکا بھی شیخ کے ساتھ ہو لیتا ہے۔ راہ چلتے ہوئے شیخ کہتے ہیں کہ جماعت میں ہر چالیس میں سےایک اللہ کا متقی بندہ ہوتا ہے۔ وہ اس سے نماز اور دعا کی قبولیت کا زیادہ امکان جماعت میں ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔

عشاء کے بعدایک اورلڑکا آتا ہے۔ وہ بمشکل ہی کچھ بول پاتا تھا۔ شیخ سے اسکی پرانی جان پہچان تھی۔ شیخ اس سے پچھلے دن کے جنوں کی تعداد پوچھتے ہیں جو مسلمان ہوئی۔ وہ بتاتا ہے 122۔ شیخ اس سے تین ہٹی پر نور علی شاہ بابا کے مزار پر حاضری کا پوچھتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ وہ گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی اس علت سے جان چھٹے سو کہتا ہے کہ اب اس سے یہ کام اور نہیں ہوتا۔ شیخ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم کو علمم نہیں کہ یہ کتنا بڑا کام کر رہےہو۔ مطلب غیر مسلم جنوں کو مسلمان کر کے۔

رات کافی ہو چکی ہوتی ہے۔ لڑکا مصافحہ کر کے شیخ سے اجازت لیتا ہے۔

اگلی شام لڑکا پھر شیخ کے گھر پہنچتا ہے تو ایک نو عمر لڑکی آئی ہوئی تھی۔ وہ بار بار غراتی تھی۔

شیخ لڑکے سے مصافحہ کرتے ہیں۔ انکو اندازہ ہو جاتا ہے کہ لڑکے کو بے پردگی پسند نہیں آ رہی۔

اب جو لڑکی غراتی ہے تو اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ شیخ بھی اٹھتے ہیں اور اپنے ہاتھ میں موجود ایک کپڑے کو موڑ موڑ کر بل دیتے جاتے اور کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکتے جاتے ہیں۔

شیخ اس لڑکی کے ذریعے اس جن سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اب ایسا کرے گا! لڑکی ادھ موہ ہوئی جا رہی تھی۔

لڑکی کہتی ہے کہ اب ایسا نہیں کروں گا۔ لیکن شیخ ایک اور بل اپنے ہاتھ کے کپڑے کو دیتے ہیں اور لڑکی ستھ ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ شیخ کپڑے کی گرفت ڈھیلی کرتے ہیں۔

سر کو اوپر نیچے ہلانے والے صاحب پھر آتے ہیں اور شیخ کو بغیر سلام کیے ٹوپی اتار کر سر اوپر نیچے ہلانا شروع کر دیتے ہیں۔

ایک مرد کے کمر پر مکی لگا کر کچھ عمل کرتے ہیں اور انکے ساتھ آئی عورت پر کچھ دم کرتے ہیں۔

شیخ لڑکے سے کہتے ہیں کہ عورتوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ پانی چھڑکنا پڑتا ہے اور منہ سے دم کی ہوا کی آواز نکالی پڑتی ہے کہ انکو مطمئن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ورنہ صرف دعا کرنا بھی کافی ہے۔

لڑکے سے کہتے ہیں کہ آپ جو کوششیں کر رہے ہیں محض انکا ہی نتیجہ ہے کہ دلہن کے گھر والے خلا سے باز آئے۔ اپنے بھائی کی بچی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہانہوں نے استخارہ کیا صحیح نہ آیا لیکن پھر بھی شادی کی سو اب کافی مسائل کا سامنا ہے۔

شیخ کے پاس کوئی مرد آتا ہے اور کچھ بات کہتا ہے۔ شیخ گہری گہری سانسیں لیتے ایسا جیسا کہ اوپر اڑنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

بہرحال اس قسم کے مناظر سے پر یہ مجالس رہیں۔

بالآخر ایک شام بطور شکریہ کے لڑکا اپنی دلہن کے ساتھ شیخ کے گھر جاتا ہے۔ وہ اس طرح دونوں کو ساتھ دیکھ کر بہت دعائیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں یوں آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔

لڑکا اپنے اولاد نہ ہونے کا تذکرہ کرتاہے۔ وہ تین ہٹی کے مزار سے گلاب کی چند کلیاں لانے کو کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ دونوں جائیں۔ فاتحہ کریں اور کلیاں لائیں۔

لڑکا دیکھتا ہے کہ اسکی دولہن کچھ بے جان سے ہو رہی ہے۔ شاید اس پر اس محفل کے عجیب و غریب لوگوں کا اثر تھا یا پھر شیخ نے کسی جن سے اسکے کندھے پر زور ڈالا تھا۔

بہرحال لڑکا اجازت لیتا ہے اور دونوں گھر لوٹتے ہیں۔

ایک صبح لڑکا تین ہٹی کے مزار اپنی دولہن کے ساتھ جاتا ہے۔ ایک عجیب منظر تھا۔ مزار کے باہر گلاب کے پھول اور چادریں فروخت کرنے والوں کی آدھی درجن دکانیں تھیں۔ لڑکا مزار کے اصل حصے میں داخل ہوتا ہے اور دولہن عورتوں کے حصے میں۔ کئی لوگ زنجیروں میں بندھے تھے۔ کئی لوگ مزار کے ادگرد بیٹھے تھے۔ لڑکا فاتحہ پڑھتا ہے اور جلد واپس گلاب کی چند کلیاں قبر کے چہرے کی جانب سے اٹھا کر باہر آتا ہے۔ دولہن بھی واپس آتی ہے اور اسی قسم کی عورتوں کا تذکرہ کرتی ہے جو عجیب و غریب حالتوں میں تھیں۔

شام کر لڑکا شیخ کے پاس پہنچتا ہے۔ گلاب کی پتیاں دیکھ کر وہ مسکراتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ لڑکے کو یہ مزار کی پتیاں کھانا ذرا پسند نہیں آیا۔



منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا محسوس کر لیتا ہے کہ اگر شیاطین اور انکے ساتھیوں کو ایک طرف کرنا ہے تو کم از کم فقہ حنفی کے ماننے کو ایک کرنا ہو گا۔ پھر آہستہ آہستہ جوڑتے جوڑتے اس توحید تک پہنچا جائے جو جناب رسول عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی۔ لڑکا ایک دستاویز رفع رنجش تیار کرتا ہے اور شیخ ایف بی ایریا نمبر 15 کے پاس پہنچتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
زلفی بھائی اپنی کہانی کا نام "ایک کہانی" کرلیجیے۔ چونکہ اس کہانی کی کسی بھی قسط میں سو لفظ نہیں ہیں، لہٰذا ہم نے اس کی پچھلی قسطوں کا نام "ایک کہانی" کردیا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
زلفی بھائی اپنی کہانی کا نام "ایک کہانی" کرلیجیے۔ چونکہ اس کہانی کی کسی بھی قسط میں سو لفظ نہیں ہیں، لہٰذا ہم نے اس کی پچھلی قسطوں کا نام "ایک کہانی" کردیا ہے۔
توجہ دلانے کا شکریہ بھائی۔
یہ توجہ شیخ کورنگی اول والی قسط اور شیخ یہودی والی قسط میں دلای جا چکی ہے اور بوجہ میں نے اس کہانی کا عنوان سو لفظوں کی کہانی منتخب کیا ہے حالانکہ سو نہیں۔ جو اس تضاد کو جذب کر لے گا وہ ہی کہانی کی اصل تک پہنچ پائے گا۔

چونکہ آپ نے بلا مشورہ عنوان تبدیل کر ہی دیا ہے تو میں "کئی سو لفظوں کی کہانی" کا عنوان رکھوں گا۔ اردو ادب میں بارہا ایسی کہانیاں لکھیں گئی ہیں جن کا عنوان ایک استعارہ ہوتا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
زلفی بھائی اپنی کہانی کا نام "ایک کہانی" کرلیجیے۔ چونکہ اس کہانی کی کسی بھی قسط میں سو لفظ نہیں ہیں، لہٰذا ہم نے اس کی پچھلی قسطوں کا نام "ایک کہانی" کردیا ہے۔

ابتداء کی قسطوں میں سے آپ بیتی - کے الفاظ بھی حذف کر دیں تو ایک جیسا عنوان ہو جاےگا۔
 
Top