نوازشریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پرعبوری پابندی عائد

شاہد شاہ

محفلین
نوازشریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے پرعبوری پابندی عائد

عابد خان ترمیم 16 اپریل 2018

لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف ، مریم نواز سمیت سولہ ن لیگی رہنماوں کی عدلیہ مخالف تقاریر کی نشریات پر 15 دن کے لیے عبوری پابندی عائد کردی اور پیمراء کواس حوالے سے ملنے والی شکایات پر دو ہفتوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئےکہا کہا پیمراکی نگرانی کے بغیر تقاریر نشر نہیں ہوں گی۔

تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے نواز شریف اور مریم نواز شریف سمیت دیگر افراد کے خلاف عدلیہ مخالف تقاریر کی درخواستوں پر سماعت کی۔


درخواست گزاروں کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا عدلیہ مخالف تقاریر نشر کرنے سے روکنے میں ناکام رہا، اس حوالے سے متعدد درخواستیں دیں مگر اس پر کارروائی کی، آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت آزادی اظہار رائے کا حق قانون اور ضابطے سے مشروط ہے۔

دوران سماعت نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ کی دوبارہ فل بنچ کی کارروائی روکنے کی استدعا کی، اے کے ڈوگر نے موقف اختیار کیا کہ یہ کارروائی عدالت کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہیں۔

جسٹس عاطر محمود نے ریمارکس دیے ابھی اس کیس میں نواز شریف فریق نہیں بنے، نہ ہی ان کو نوٹس ہوا ہے۔

پیمرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ پیمرا کی اتهارٹی پر غیرضروری اعتراضات اٹهائے جا رہے ہیں، پیمرا نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عدلیہ مخالف تقاریر کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ دیا، تاہم کسی کی تقاریر پر پابندی عائد کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ پیمرا نے عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف درخواست تکنیکی بنیادوں پر خارج کر دی کیا درخواست خارج کر کے عدلیہ کی توہین کی اجازت دے دی گئی۔

فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے عبوری طور پر پیمرا کو نواز شریف مریم نواز سمیت سولہ اراکین اسمبلی کی توہین آمیز نشریات روکنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے پیمراء کو عدلیہ مخالف تقاریر سے متعلق درخواستوں پر پندرہ روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی۔

عدالت نے حکم دیا کہ پیمرا ان تقاریر کی سخت مانیٹرینگ کرے اور رپورٹ عدالت میں جمع کروائے فل بنچ خود بھی اس عمل کی نگرانی کرے گا جبکہ عدالت نے عدالتی دائرہ اختیار کے خلاف نوازشریف کی درخواست مسترد کر دی
 
اظہارِ رائے کی جو آزادی پاکستان جیسے جمہوری ملک میں حاصل ہے ،دنیا میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ( تمثیلات ( پیرے بل ) میں کیوں بات کرتے تھے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یعنی کہ، میاں صاحب کے مزید مقبول ہونے کا ایک نیا امکان پیدا کر دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عدلیہ گرتی ہوئی دیوار کو سہارا فراہم کر رہی ہے۔ شاید اب یہ دیوار گر نہ پائے گی۔
 

شاہد شاہ

محفلین
اظہارِ رائے کی جو آزادی پاکستان جیسے جمہوری ملک میں حاصل ہے ،دنیا میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
آزادی رائے بالکل حاصل ہے۔ عدلیہ اور فوج پر تنقید بیشک کریں البتہ غکیظ زبان، اور عوام کو اسکے خلاف اکسانے سے گریز کریں۔ کیونکہ عدلیہ اور فوج سیاسی ادارے نہیں ہیں۔ آج ہی نون لیگی گلو بٹوں نے عدلیہ کیخلاف مظاہرہ کیا ہے۔ یہ کونسے جمہوری ملک میں ہوتا ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
ججوں کے خلاف بدزبانی نازیبا ہے۔ تاہم، عدلیہ کا ٹریک ریکارڈ بھی مثالی نہ ہے۔دراصل، میاں نواز شریف اب بھی کافی بڑے حلقے کے مقبول رہنما ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کے دل میں یہ بات نہیں آنی چاہیے تھی کہ ان کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ شاید ایسا نہ ہو رہا ہو، تاہم، یہ تاثر قائم ضرور ہو گیا ہے۔ اس کا تدارک کیا جانا چاہیے۔ یعنی کہ سزا بنتی ہو تو دی جائے تاہم اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو غیر ضروری منفی ریمارکس سے حتی المقدور گریز کرنا چاہیے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
عدلیہ، فوج، مذہب اور کس کس موضوع پر بات منع ہو گی پاکستان میں؟
فوج اور عدلیہ پر بات کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ بات جس طرز میں کی جا رہی ہے اس پر پابندی لگائی گئی ہے۔ عدلیہ نے نواز شریف کو حدیبیہ پیپر ملز کے علاوہ ایک دو اور کیسز میں رعایت دے رکھی ہے۔ اسکے جواب میں کہتے ہیں ہم سُر خرو ہوئے۔ اور جہاں ریلیف نہیں مل رہا وہاں پورا ملک سر پر اٹھا رکھا ہے۔ پٹواریوں کے سوشل میڈیا پیجز عدلیہ اور افواج کے خلاف غلاظت سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ صرف عام میڈیا پر یہ گند اچھالنے سے روکا گیا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
عدلیہ نے نواز شریف کو حدیبیہ پیپر ملز کے علاوہ ایک دو اور کیسز میں رعایت دے رکھی ہے۔
کیا یہ رعایت دینی چاہیے تھی؟ ایسا ہے تو پاناما کیس میں اس سے بڑی رعایت بنتی تھی۔ اقامہ نکال کر سزا سنا دی گئی۔ عدالتیں بھلے رعایت نہ دیں، تاہم، ججز خود کو غیر ضروری بیان بازی سے روکیں، تب بات بنے گی۔
 

شاہد شاہ

محفلین
دراصل، میاں نواز شریف اب بھی کافی بڑے حلقے کے مقبول رہنما ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کے دل میں یہ بات نہیں آنی چاہیے تھی کہ ان کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ شاید ایسا نہ ہو رہا ہو، تاہم، یہ تاثر قائم ضرور ہو گیا ہے۔
مقبول ہیں تو کیا ہوا؟ اس مقبولیت کو عدلیہ و افواج کی مخالفت میں کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا عدلیہ و افواج سیاسی ادارے ہیں؟ یاد رہے کہ ماضی میں نواز شریف کو اسی عدلیہ اور افواج کی طرف سے بڑے بڑے کیسز میں رعایت ملتی رہی ہے۔ این آر او بھی مل چکا ہے۔ ایسے میں امتیازی سلوک کی باتیں محض انتقامی کروائی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
مقبول ہیں تو کیا ہوا؟ اس مقبولیت کو عدلیہ و افواج کی مخالفت میں کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا عدلیہ و افواج سیاسی ادارے ہیں؟ یاد رہے کہ ماضی میں نواز شریف کو اسی عدلیہ اور افواج کی طرف سے بڑے بڑے کیسز میں رعایت ملتی رہی ہے۔ این آر او بھی مل چکا ہے۔ ایسے میں امتیازی سلوک کی باتیں محض انتقامی کروائی ہے۔
انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم، ججز کو بھی سیسلین مافیا اور گاڈ فادر جیسے الفاظ استعمال کر کے اس بدزبانی کا جواز فراہم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ججز کے ایسے غیر ضروری ریمارکس اور عدلیہ کی غیر معمولی فعالیت نے اِس موقر ادارے کے وقار کو کافی حد تک مجروح کیا ہے۔ کیا آپ کے سامنے ہماری عدلیہ کا ٹریک ریکارڈ موجود نہیں ہے؟ دراصل، اب زباں بندی نہ ہو سکے گی۔ سیاست دان اپنی راہ نکال لیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں نون لیگ اپنے بوجھ سے خود گر سکتی تھی؛ تاہم، ججز نے بظاہر اس مردہ گھوڑے میں پھر سے جان ڈال دی ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
کیا یہ رعایت دینی چاہیے تھی؟ ایسا ہے تو پاناما کیس میں اس سے بڑی رعایت بنتی تھی۔ اقامہ نکال کر سزا سنا دی گئی۔
نواز شریف کا خیال تھا کہ جیسا ماضی میں انکو عدلیہ کی طرف سے رعایت ملتی رہی ہے تو اسبار بھی ایسا ہی ہوگا۔ ۲۰ اپریل کے فیصلے پر جو مٹھائیاں کھائی گئی تھیں وہ اسی رعایت کی خراب عادت کا شاخسانہ تھا۔ بہرحال یہ اقامہ پر نکال دیا والا ڈرامہ میں ۲۸ جولائی کے فیصلے والا دن سے سن رہا ہوں۔ جب قوم تک مکمل حقائق نہیں پہنچنے نہیں دیے جاتے تو جس کا بول اونچا ہوتا ہے وہی نظریہ بن جاتا ہے۔ آئیے آج آپکو پانامہ فیصلے کا مکمل متن دکھاتا ہوں:
i) It is hereby declared that having failed to disclose his un-withdrawn receivables constituting assets from Capital FZE, Jebel Ali, UAE in his nomination papers filed for the General Elections held in 2013 in terms of Section 12(2)(f) of the Representation of the People Act, 1976 (ROPA), and having furnished a false declaration under solemn affirmation respondent No. 1 Mian Muhammad Nawaz Sharif is not honest in terms of Section 99(f) of ROPA and Article 62(1)(f) of the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan, 1973, therefore, he is disqualified to be a Member of the Majlis-e-Shoora (Parliament)
http://www.supremecourt.gov.pk/web/user_files/File/Const.P._29_2016_28072016.pdf
اب خود اندازہ کریں کہ پانامہ فیصلے کا پہلا حصہ جو اقامہ سے متعلق تھا پوری قوم کو ازبر ہو چکا ہے البتہ جو زیادہ اہم حصہ ہے یعنی عدالت عظمی میں جعلی دستاویزات جمع کروانا وہ کسی کو معلوم کیوں نہیں؟ کیونکہ صرف اس بنیاد پر سات سال سزا اور نا اہلی واجب ہو جاتی ہے۔ مگر پھر بھی تاریخ میں اقامہ پر نااہلی ہی یاد رکھی جائے گی کیونکہ یہ نون لیگ کا مؤقف ہے، عدلیہ کا نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
نواز شریف کا خیال تھا کہ جیسا ماضی میں انکو عدلیہ کی طرف سے رعایت ملتی رہی ہے تو اسبار بھی ایسا ہی ہوگا۔ ۲۰ اپریل کے فیصلے پر جو مٹھائیاں کھائی گئی تھیں وہ اسی رعایت کی خراب عادت کا شاخسانہ تھا۔ بہرحال یہ اقامہ پر نکال دیا والا ڈرامہ میں ۲۸ جولائی کے فیصلے والا دن سے سن رہا ہوں۔ جب قوم تک مکمل حقائق نہیں پہنچنے نہیں دیے جاتے تو جس کا بول اونچا ہوتا ہے وہی نظریہ بن جاتا ہے۔ آئیے آج آپکو پانامہ فیصلے کا مکمل متن دکھاتا ہوں:
http://www.supremecourt.gov.pk/web/user_files/File/Const.P._29_2016_28072016.pdf
اب خود اندازہ کریں کہ پانامہ فیصلے کا پہلا حصہ جو اقامہ سے متعلق تھا پوری قوم کو ازبر ہو چکا ہے البتہ جو زیادہ اہم حصہ ہے یعنی عدالت عظمی میں جعلی دستاویزات جمع کروانا وہ کسی کو معلوم کیوں نہیں؟ کیونکہ صرف اس بنیاد پر سات سال سزا اور نا اہلی واجب ہو جاتی ہے۔ مگر پھر بھی تاریخ میں اقامہ پر نااہلی ہی یاد رکھی جائے گی کیونکہ یہ نون لیگ کا مؤقف ہے، عدلیہ کا نہیں۔
'شاہ' صاحب! اقامہ ہو یا مبینہ جعلی دستاویز، اس کا پاناما کیس سے واجبی تعلق تھا۔ پہلے ان معاملات کا باقاعدہ ٹرائل ہونا چاہیے تھا؛ اس کے بعد سزا سنانی چاہیے تھی۔ جے آئی ٹی کی پراسرار تشکیل اور ادھوری رپورٹ پر متنازعہ فیصلہ شکوک و شبہات کو جنم دینے کا باعث بنا۔ یہی بات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی تھی غالباََ۔ اس مقدمے میں کمزور فیصلے اور ججز کے غیر مناسب ریمارکس کے باعث نواز شریف صاحب کی سیاست ایک بار پھر زندہ ہوئی ہے۔
 
'شاہ' صاحب! اقامہ ہو یا مبینہ جعلی دستاویز، اس کا پاناما کیس سے واجبی تعلق تھا۔ پہلے ان معاملات کا باقاعدہ ٹرائل ہونا چاہیے تھا؛ اس کے بعد سزا سنانی چاہیے تھی۔ جے آئی ٹی کی پراسرار تشکیل اور ادھوری رپورٹ پر متنازعہ فیصلہ شکوک و شبہات کو جنم دینے کا باعث بنا۔ یہی بات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی تھی غالباََ۔ اس مقدمے میں کمزور فیصلے اور ججز کے غیر مناسب ریمارکس کے باعث نواز شریف صاحب کی سیاست ایک بار پھر زندہ ہوئی ہے۔

ہم سُخن فہم ، شریفوں کے طرف دار نہیں
آپ کی باتوں سے ہم کو کوئی انکار نہیں​
 

شاہد شاہ

محفلین
پہلے ان معاملات کا باقاعدہ ٹرائل ہونا چاہیے تھا؛ اس کے بعد سزا سنانی چاہیے تھی۔
جیسا آجکل نیب کی عدالت میں ہو رہا ہے؟ روزانہ کی بنیادوں پر گواہان کی میڈیا پر بے عزتی، انتقامی کاروائی اور پروپگنڈہ؟ پانامہ پیپرز افشا ہونے پر نواز شریف نے خود خط لکھ کر عظمی میں اپنی صفائی کا فرمان جاری کیا تھا۔ اب وہاں وہ فتح یاب نہیں رہے تو غصہ اداروں پر کیوں نکال رہا ہیں؟
 
کوئی کیس آئے تو شہادتوں کو ریاست میں لاگو کیے گئے قوانین کے مطابق جانچنا اور ان کے مطابق فیصلہ کرنا ججوں کا کام. خلاص

اس سے بڑھ کر کچھ بهی کریں گے تو متاثرہ فریق کا ردعمل خوشگواریت لیے ہوئے نہیں ہو گا.
 
Top