باجوہ ڈکٹرائین

ہر پاکستانی ملک میں سویلین بالادستی چاہتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ ادارے اپنی حدود میں کام کریں۔ مگر حقیقت میں ایسا تب تک نہیں ہوگا جب تک یہاں اعتماد کی فضا بحال نہیں ہوگی۔ مغرب اسی لئے کامیاب ہے کیونکہ وہاں اداروں کے مابین اعتماد ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خفیہ ادارے بھی ایک دوسرے کیساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ انکا مقصد اپنے اقتدار کی طوالت نہیں بلکہ عوام کی فلاح ہوتا ہے۔ جب سب اداروں کا مقصد ایک ہے تو باہم اعتماد کی فضا اپنے آپ قائم ہو جاتی ہے۔ جب ادارے ترقی کرتے ہیں تو ملک ترقی کرتا ہے۔ اور جب ملک ترقی کرتا ہے تو عوام خوشحال ہو جاتی ہے۔
یہ چیز۔۔۔۔۔۔(y)(y)(y)
 
آپکی بھی غلط فہمی ہے کہ ہر انسان بکنے کو تیار ہے۔ جن ججوں نے نواز شریف کو نااہل کیا انکو بھی خریدنے کی کوشش کی گئی، ڈرایا دھمکایا گیا مگر وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ ماضی میں اپنے خلاف فیصلے آنے پر نون لیگ عدلیہ پر حملے کر دیا کرتی تھی۔ اب وہ بھی جانتی ہے کہ افواج عدلیہ کو تحفظ دے رہی ہیں۔ اسلئے عوام کو انکے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے نواز کو پانامہ کرپشن پر نا اہل کیا گیا؟
 
نا اہلی کا معیار اگر غیر متنازع نہ ہو گا اور ایک نورا کشتی کی طرح زرداری اور عمران کو کھلی چھٹی دی جائیگی تو اس پہ اعتراض ضرور ہوں گے۔ ن- لیگ کا دہرا معیار فوجی مداخلت کی توثیق نہیں بن سکتا۔
جب بھی فوج نے مداخلت کی ہے، فوج اور ملک دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔ مشرف کے زمانے میں شہری علاقوں میں طالبان کی عملداری قائم تھی۔ ضیا نے جو چن چڑھائے وہ بھی ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ عدلیہ اور فوج کو ٹیکس گزار یا آئین نے یہ کام نہیں سونپا کہ وہ اپنے دائرۂ کار سے تجاوز کریں۔
 
یہ ڈکٹرائن ماضی کی کچھ تلخ غلطیوں یا کوتاہیوں کے بعد وجود میں آئی۔ افواج سے پہلے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے جمہوری اقتدار پر قبضہ کیا۔ مانا کہ اسوقت بھی جمہوری حکمران نااہل تھے مگر پھر اس بنیاد پر اقتدار سال ہا سال اپنے پاس رکھنا غلط تھا۔ پھر افواج سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے چھینا ہوا سیاسی اقتدار بذریعہ جمہوری الیکشن عوام کو واپس کر دیا۔ ۱۹۷۰ کے صاف اور شفاف ترین الیکشن سے نکلنے والی جمہوری اشرافیہ نے اپنی انا کی جنگ لڑ کر آدھا ملک ڈبو دیا۔ افواج پھر بھی بھٹو کے ساتھ کھڑی رہیں یہاں تک کے اگلے الیکشن کے بعد پھر وہی دنگا فساد شروع ہو گیا جو پچھلے الیکشن پر ہوا تھا۔ اگر ہر الیکشن کے بعد سول قیادت نے بے لگام گھوڑا ہی بننا ہے تو بہتر ہے اقتدار فوج کے پاس رہے جب تک یہ نااہل اشرافیہ ماضی سے سبق نہیں سیکھتی۔
ضیا کے مرنے کے بعد پہلے الیکشن میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی مگر اسوقت تک فوج کے سول قیادت سے تعلقات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ ۱۹۹۰ کا الیکشن انہوں نے مخالف پارٹیوں کے ساتھ ملکر جیت لیا۔ اسوقت جن سیاسی جماعتوں نے فوج کیساتھ ملکر جمہوریت کے خلاف سازش کی تھی آج وہی ووٹ کو عزت دو کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔
۹۰ کی دہائی میں فوج اور سول قیادت کا ٹکراؤ جاری رہا یہاں تک کہ مشرف نے تنگ آکر مارشل لا لگا دیا۔ ایسے میں جمہوری اشرافیہ ایسی غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ مگر مشرف نے بھی پھر وہی ۱۹۷۰ والی غلطی دہرا کر نا اہل حکمرانوں کو ہمارے سروں پر مسلط کر دیا۔
اب فوج کو بھی عقل آ گئی ہے کہ وہ سیدھا اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ نیز جمہوری اشرافیہ بھی خبردار ہے کہ افواج کو آن بورڈ لئے وہ ملک سے متعلق بڑے فیصلے نہیں کر سکتے۔ اس اقتدار اور قوت کی تقسیم کو دہشت کا توازن کہہ دیا جائے تو کچھ برا نہیں ہوگا۔
ہر پاکستانی ملک میں سویلین بالادستی چاہتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ ادارے اپنی حدود میں کام کریں۔ مگر حقیقت میں ایسا تب تک نہیں ہوگا جب تک یہاں اعتماد کی فضا بحال نہیں ہوگی۔ مغرب اسی لئے کامیاب ہے کیونکہ وہاں اداروں کے مابین اعتماد ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خفیہ ادارے بھی ایک دوسرے کیساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ انکا مقصد اپنے اقتدار کی طوالت نہیں بلکہ عوام کی فلاح ہوتا ہے۔ جب سب اداروں کا مقصد ایک ہے تو باہم اعتماد کی فضا اپنے آپ قائم ہو جاتی ہے۔ جب ادارے ترقی کرتے ہیں تو ملک ترقی کرتا ہے۔ اور جب ملک ترقی کرتا ہے تو عوام خوشحال ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی حالیہ صورت حال یہ ہے کہ جمہوری سیاسی قیادت عظمی، نیب اور وقار کے پیچھے پڑی ہے۔ وقار، عظمی اور نیب اپنے اداروں کے دفاع میں سیاست کرنے پر مجبور ہے۔ حالانکہ انکا کام سیاست کرنا ہے ہی نہیں۔ یہاں سول قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اداروں کو تحفظ دے۔ انکے فیصلوں کو تسلیم کرے۔ نہیں تو ملک انار کی کی طرف جائے گا۔ پھر عظمی، وقار، حزب اختلاف اور نیب ایک طرف جبکہ سول قیادت اور انکے گلو بٹ دوسری طرف ہوں گے۔
غیر متفق۔
ہمارے ہاں چند ادارے خود کو ملک سے بالا تر سمجھتے ہیں، بلکہ ان اداروں کے سربراہان۔ بد ترین جمہوری دور بھی فوجی دور سے بہتر رہا ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
آپ کا کیا خیال ہے نواز کو پانامہ کرپشن پر نا اہل کیا گیا؟
نواز شریف کو اسی بات کا رونا ہے کہ انہیں پانامہ کرپشن پر نااہل نہیں کیا اقامہ پر کر دیا۔ جبکہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کرپشن پر نااہلی صرف نیب کے ٹرائل کورٹ میں ممکن ہے۔ سپریم کورٹ نے اسی لئے باقی کا کام نیب کے سپرد کیا ہے۔ جس پر آئے روز میڈیا میں واویلا کھڑا کیا جاتا ہے۔ آج مریم نواز کا نیب سے متعلق مضحکہ خیز بیان سامنے آیا کہ کرپشن کا الزام آپنے لگایا ہے، آپ ثابت کریں ہم نے یہ جائیدادیں کیسے بنائی۔ یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ ایسی اشرافیہ کے ہوتے ہوئے عوام بیچاری کیا کرے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
نا اہلی کا معیار اگر غیر متنازع نہ ہو گا اور ایک نورا کشتی کی طرح زرداری اور عمران کو کھلی چھٹی دی جائیگی تو اس پہ اعتراض ضرور ہوں گے۔
عمران خان نے اپنے گھر کی تمام دستاویزات جمع کروائی تھیں۔ وہ چاہتے تو کوئی قطری لیٹر دے کر نا اہل ہو جاتے۔ جہانگیر ترین بھی اپنی بیرونی جائدادیں چھپانے پر نااہل ہوا ہے۔ زرداری ۹۰ کی دہائی میں کرپشن پر کئی سال جیل کی سزا کاٹ چکا ہے۔ دہرا معیار اگر کوئی ہے تو وہ نواز شریف کو بار بار ملنے والی ڈھیل ہے جو اب ختم ہو چکی ہے
 
نواز شریف کو اسی بات کا رونا ہے کہ انہیں پانامہ کرپشن پر نااہل نہیں کیا اقامہ پر کر دیا۔
جیسے کرپشن ٹرائل کے لئے سپریم کورٹ مقدمہ احتساب عدالت کو بھیج دیا ویسے ہی اہلیت یا ناہلیت کےٌ فیصلے کے لئے مقدمہ الیکشن ٹریبیونل کو کیوں نہ بھیج دیا گیا؟
 
آرمی آپریشن میں جمہوری اشرافیہ نے بنگلہ دیش میں قتل و غارتگری کی تھی؟
بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے مگر اس کے لئے محض آرمی کو قصوروار ٹھہرانہ درست نہیں، اس میں اپنوں کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سازش بھی شامل تھی۔
 

شاہد شاہ

محفلین
جیسے کرپشن ٹرائل کے لئے سپریم کورٹ مقدمہ احتساب عدالت کو بھیج دیا ویسے ہی اہلیت یا ناہلیت کےٌ فیصلے کے لئے مقدمہ الیکشن ٹریبیونل کو کیوں نہ بھیج دیا گیا؟
کیونکہ سپریم کورٹ کو آئینی طور پر یہ اختیار حاصل ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
اس میں اپنوں کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سازش بھی شامل تھی۔
اصل سازش تو اپنے گھر سے ہی شروع ہوئی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع نا ممکن ہے، کشمیر میں بار بار پنگے لینے کی کیا ضرورت تھی؟
 
اصل سازش تو اپنے گھر سے ہی شروع ہوئی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع نا ممکن ہے، کشمیر میں بار بار پنگے لینے کی کیا ضرورت تھی؟
باجوہ صاحب اس وقت ’نکے‘ سے تھے اس لیے یہ الزام ان پر نا منڈیں۔
 
Top