باجوہ ڈکٹرائین

عباس اعوان

محفلین
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پچھلے ۷۰ سال میں کبھی بھی سویلین قیادت نے فوجی معاملات یا عدلیہ کے معاملات میں ٹانگ اڑائی ہو۔ البتہ دوسری اطراف سے ایسا بارہا ہوچکا ہے تو بہتر ہوتا کہ باجوہ صاحب یہ تنبیہ اپنے ادارے یا عدلیہ کو دیتے۔
اپنی مرضی کی یاداشت ہے شاید۔ 1997 میں نااہل شریف نے اپنے گلو بٹوں کیساتھ عظمیٰ پر حملہ کر دیا تھا:
 

عباس اعوان

محفلین
فوج کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ کسی اور ادارے پر ہوئی تنقید پر ایسا دھمکی آمیز بیان دے؟ کیا عدلیہ کا فوج کے ساتھ کوئی گٹھ جوڑ ہے ؟ کیا سپریم کورٹ کے ججوں نے فوج کو اپروچ کیا اور کہا کہ ہمارے پر تنقید بند کراؤ ؟
عدلیہ اپنی سیکیورٹی اور احکام پر عملدرآمد کے لیے کسی بھی سیکورٹی ادارے کو بلا سکتی ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
ان کا کام ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، وہ کریں اور بس۔ باقی تمام قضیے ان کے متعلقہ نہیں ہیں
جب حکومت فوج کو حکم دے کہ سول انتظامیہ سے دھرنے والوں کے مزاکرات کسی نہج پر نہیں پہنچ پا رہے۔ ریاست کے دارلحکومت اور اس سے ملحقہ علاقوں کے عوام تین ہفتوں سے شدید تکلیف میں ہیں اور فیض آباد کو بزور طاقت خالی کروایا جائے
صحیح ہے جی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس لڑی کا عنوان ہی غلط ہے۔ اور شاید اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ نواز شریف صاحب ان باجوہ صاحب کے دور میں فارغ ہوئے ہیں وگرنہ باجوہ صاحب کو تشریف لائے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور ان "آٹھ" دنوں میں ان کی قریب آدھی مدت پوری بھی ہو گئی ہے جب کہ یہ "ڈاکٹرائین" تو 60، 70 برسوں سے اس ملک چل رہی ہے اور تب بھی ایسے ہی تھی جب نواز شریف اینڈ سپورٹرز اس ڈاکٹرائین کے سب سے بڑے حامی تھی۔ اسی ڈاکٹرائین کے ایک جنرل صاحب 1990ء کے الیکشن اور دوسرے 2013ء کے الیکشن نون لیگ کو دے گئے تھے تب یہ بالکل ٹھیک تھی۔ پس ثابت ہوا کہ جب یہ ڈاکٹرائین نون لیگ کو سُوٹ کرے تب حامی بن جاؤ جب سُوٹ نہ کرے تو اس پر تنقید شروع کر دو۔
 

عباس اعوان

محفلین
سب سے پہلے تو مجھے حیرت ہے کہ فوج کے سربراہ کو ان تمام معاملات پر بولنے کی ضرورت کیا ہے؟ ان کا کام ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، وہ کریں اور بس۔ باقی تمام قضیے ان کے متعلقہ نہیں ہیں لیکن ان پر لب کشائی کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ ریاست میں غیر اعلانیہ مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔
تمام پوسٹ بلکہ سارے قضیے کا لبِ لباب یوں کیا جا سکتا ہے:
ڈگیا کھوتے توں تے غصہ کمہار تے۔
نا اہل اپنی نا اہلی کا غصہ کہیں اور کیوں نکال رہے ہیں ؟ کس نے کہا تھا کہ بیرون ملک جائیدادیں بناؤ، کس آرمی والے نے کہا تھا کہ سارے ریکارڈ جلاؤ، ڈیم بنانے سے کس فوجی نے منع کیا ؟ ایکسپورٹس گرانے والے کون ہیں ؟ ٹریڈ ڈیفیسٹ کم کرنا کس کا کام ہے ؟ گورننس بہتر بنانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ ہسپتال اور سکول دینا کس کی ذمہ داری ہے ؟چور ڈاکو قاتل پکڑنا کس کا کام ہے ؟ صاف پانی فراہم کرنا، صفائی نصف ایمان پر عملدرآمد کرنا کس کے فرائض میں ہے ؟
مسلح چھوٹو گینگ سے نپٹنا تو دور کی بات، نہتے دھرنے والوں کو نہیں اٹھا سکے۔بس ماڈل ٹاؤن میں شہریوں کو گولیاں مروا لو۔
پوری پارٹی میں ایک بھی ڈھنگ کا آدمی نہیں تھا جس میں اتنی اہلیت ہو کہ وہ وزیرِ خارجہ بن سکے ؟ 4 سال آپ نے اس شخص کو وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ بنائے رکھا جو غیر ملکی تو دور ملکی صحافیوں سے بھی بغیر پڑھے لکھے مشیروں کے بات نہ کر سکے۔ ملک میں کم ہوتا زیرِ زمین پانی، سوکھتے دریا، گلوبل وارمنگ سے شدید متاثرہ موسم، نالج بیسڈ اکانومی، عالمی سیاست میں نئی صف بندیاں، سعودی عرب کا کلچرل یو ٹرن، ایران -مغرب ایٹمی ڈیل، ان سب کے بار ے میں نواز شریف کا کیا وژن ہے ؟ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف کو زیرِ زمین پانی کی قلت اور گلوبل وارمنگ کے ملک پر اثرات کا علم بھی ہے ؟؟؟
یہ ہے ان کی اوقات اور یہ ہے ان کی اہلیت۔
ڈگیا کھوتے توں تے غصہ کمہار تے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسری طرف نون لیگ اینڈ کو کا عدالتوں کے بارے میں رویہ بھی دیکھ لیں۔ جب تک عدالتیں ان کے حق میں فیصلہ دیتی رہیں (نسیم حسن شاہ اینڈ پارٹی) تب تک عدالتیں معزز بھی تھیں اور اعلیٰ بھی۔ جب فیصلہ خلاف آ جائے تو عدالت پر حملہ کر دیتے ہیں یا ان کے وزیر اور سینیٹرز ججوں کو سرِ عام مادر پدر آزاد اور ننگی گالیاں دینی شروع کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں جو کہ نون لیگ نے بنا دی اور بناتی رہی ہے، عدالتوں کی حفاظت کسی نے تو کرنی ہے۔ اور یہ حفاظت اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس تو کرنے سے رہی!
 

جب میں نے ابتدائی مراسلہ لکھنا شروع کیا تھا تو میرے ذہن میں یہ بات یا یہ خطرہ موجود تھا کہ بری سربراہ کے نظریات کے بارے میں لکھی گئی اس پوسٹ کو سیاسی جماعتوں بشمول ن لیگ، پی ٹی آئی و دیگر کے تناظر میں پڑھا، سمجھا اور ردعمل دیا جائے گا۔ پہلے یہ سوچا کہ ایک نوٹ نیچے لکھ دیتا ہوں کہ اسے کسی سیاسی، مذہبی جماعت کی حاشیہ برداری یا مخالفت میں نا لیا اور ناسمجھا جائے، لیکن پھر دانستہ رہنے دیا کہ کسی بھی مراسلہ نگار کی جمہوری و سیاسی استطاعت کا اندازہ ایسے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

دراصل ہم میں سے اکثر نے (یا شاید سب نے) اپنی سوئی کسی نا کسی سیاسی، مذہبی، لسانی جماعت یا تحریک کےساتھ مستقلاً اٹکائی ہوئی ہے، تو اٹکی سوئی والی سوچ کے ساتھ ہم اپنے سیاسی رہنما یا جماعت کا نظریہ لیکر ہی کسی بھی بیان، واقعہ یا تعلق کو جوڑتے اور اس پر ردعمل دیتے ہیں۔ نہایت بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنے ذہن اور سوچ ان رہنماوں کی زبان سے نکلے ہوئے ہر قسم کے الغم بلغم کو گروی رکھ دئیے ہیں۔ ان کی ہاں میں ہاں اور ان کی ناں میں ناں ملانے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں۔

رہی بات باجوہ صاحب کی یا ان کی ڈکٹرائین کی تو میں محمد وارث صاحب کی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ایسا پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے چلا آ رہا ہے، لیکن اپنے اسی مراسلے کے آخر میں وہ اس بات کو بھی ن لیگ کے ماضی کی طرف لے گئے۔ :) پوسٹ نمبر 6 میں باجوہ ڈکٹرائین کے بارے میں جو جوابات میں نے دئیے تھے، وہ باجوہ صاحب کے سربراہی کے دوران ہوئے مختلف واقعات اور ان پر ان کے ادارے کا ردعمل تھا۔ نا ہی میں نے باجوہ صاحب سے پہلے ہوئے کسی واقعہ کو ان کی ڈکٹرائین سے جوڑا اور نا ہی ایسے کسی واقعہ کا حوالہ دیا۔ چونکہ یہ سب کچھ ن لیگ کے دور حکومت کے دوران وقوع پذیر ہوتا رہا تو مجبوراً مجھے باجوہ ڈکٹرائین کو باجوہ صاحب کے عرصہ سربراہی میں ہوئے واقعات کے ساتھ ہی ملانا پڑا۔ اس پر میرے کچھ معزز محفلین نے (شاید) اسے اس سیاسی پارٹی کا جواب سمجھ لیا ۔ معذرت کے ساتھ کہ ایسا نہیں تھا۔:)
 

آصف اثر

معطل
میں صرف ایک وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ فیک آڈیو ٹیپس دہائیوں سے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔
باقی مجھے موجودہ منافقانہ سیاسی نظام سے کوئی دلچسپی نہیں جس میں عوام تباہ وبرباد ہوگئے ہیں۔ اکثر تو کیا بیشتر سیاسی، اسٹیبلشمنٹ اور دیگر شخصیات کے کرتوت اور سیاہ کارنامے بھی مدنظر رکھنے چاہیے۔ جب تک موجودہ نظام کو چلانے والوں کا علم نہ رکھا جائے تب تک یہ باتیں سمجھ میں آنا مشکل ہے۔
اس طرح کے ڈاکٹرائن میں چیف نہیں بلکہ پالیسی میکرز کی اہمیت ہوتی ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
پس ثابت ہوا کہ جب یہ ڈاکٹرائین نون لیگ کو سُوٹ کرے تب حامی بن جاؤ جب سُوٹ نہ کرے تو اس پر تنقید شروع کر دو۔
نون لیگ کا یہ دوغلہ رویہ صرف ڈکٹرائین تک محدود نہیں ہے۔ کائنات کی ہر وہ شے جو انکے خلاف اٹھتی ہے، یہ اسکے خلاف ہو جاتے ہیں۔بیشک وہ درست ہو۔ اور جو کوئی بھی انکے ساتھ اچھا کرتا ہے۔ یہ اسکے ساتھ ہو جا تے ہیں بیشک وہ غلط ہو۔
پاکستانی حدود کی تک بات تو اب بہت پرانی ہو گئی ہے۔ دو سال قبل جب پانامہ لیکس کا طوفان اٹھا تھا تو اسکے معتبر جرمن صحافیوں کو تحریک انصاف اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ معاملہ عدالت عظمی تک پہنچا تو پانامہ لیکس سے ملنے والی اصل دستاویزات کو اخبار کے تراشے کہا گیا۔ یہ ہیں وہ ذرائع کا لالی پاپ عوام کو دیکر عظمی میں قطری لیٹر جمع کر وا دینے والی جماعت اپنے دائمی قائد کی نااہلی پر سراپا احتجاج ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جو عظمی میں پانامہ فیصلہ سے قبل سڑکوں پر فیصلے کرنے والوں گو برا بھلا کہتی ہے۔ اب عظمی اور وقار کی ملی بھگت کا الزام لگاتی ہے۔ اب ہر جگہ انہیں بوٹ، بوٹ پالشی، اور آرمی کی ڈکٹرائنز دکھائی دے رہی ہیں۔ خدا گواہ ہے، آج انہیں باجوہ کی طرف سے کوئی جدہ ڈیل مل گئی تو سارا کیوں نکالا کا رونا دھونا یکدم ختم ہو جائے گا۔ مگر ہائے افسوس اس بار کوئی ادارہ ان سے ڈیل کرنے کیلئے راضی نہیں ہے۔ اسلئے عوام کو ان اداروں کیخلاف اکسایا جا رہا ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
نہایت بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنے ذہن اور سوچ ان رہنماوں کی زبان سے نکلے ہوئے ہر قسم کے الغم بلغم کو گروی رکھ دئیے ہیں۔ ان کی ہاں میں ہاں اور ان کی ناں میں ناں ملانے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے مگر سو فیصد درست نہیں ہے۔ اگر پاکستانی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ملک کے قیام کے بعد واحد جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے کونسا تیر مار لیا؟ فوج کی پہلی بار مداخلت سے قبل جو سیاسی بھونچال آیا ہوا تھا، اسوقت ووٹ کو طاقت دو والی اشرافیہ کدھر مر کھپ گئی تھی؟ عباس اعوان کی بات بالکل درست ہے۔ انتہا درجہ کے نااہل جمہوری حکمرانوں کو جب نااہل کیا جاتا ہے تو وہ بچوں کی طرح رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے فوج کی مدد لئے بغیر ان سے کچھ ہوتا نہیں ہے۔ بعد میں اسی ادارے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اگر اتنے پھنے خان ہیں تو اپنی سول پولیس سے دھرنا ختم کرکے دکھا دیتے۔ تب ہم بھی ووٹ کی طاقت اور سویلین بالا دستی کو تسلیم کر لیتے۔ مگر یہاں تو مصیبت میں فوج کے پاؤ اور راحت میں اسکا گریبان پکڑ لیا جاتا ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
رہی بات باجوہ صاحب کی یا ان کی ڈکٹرائین کی تو میں محمد وارث صاحب کی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ایسا پچھلے ساٹھ ستر سالوں سے چلا آ رہا ہے، لیکن اپنے اسی مراسلے کے آخر میں وہ اس بات کو بھی ن لیگ کے ماضی کی طرف لے گئے۔
یہ ڈکٹرائن ماضی کی کچھ تلخ غلطیوں یا کوتاہیوں کے بعد وجود میں آئی۔ افواج سے پہلے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے جمہوری اقتدار پر قبضہ کیا۔ مانا کہ اسوقت بھی جمہوری حکمران نااہل تھے مگر پھر اس بنیاد پر اقتدار سال ہا سال اپنے پاس رکھنا غلط تھا۔ پھر افواج سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے چھینا ہوا سیاسی اقتدار بذریعہ جمہوری الیکشن عوام کو واپس کر دیا۔ ۱۹۷۰ کے صاف اور شفاف ترین الیکشن سے نکلنے والی جمہوری اشرافیہ نے اپنی انا کی جنگ لڑ کر آدھا ملک ڈبو دیا۔ افواج پھر بھی بھٹو کے ساتھ کھڑی رہیں یہاں تک کے اگلے الیکشن کے بعد پھر وہی دنگا فساد شروع ہو گیا جو پچھلے الیکشن پر ہوا تھا۔ اگر ہر الیکشن کے بعد سول قیادت نے بے لگام گھوڑا ہی بننا ہے تو بہتر ہے اقتدار فوج کے پاس رہے جب تک یہ نااہل اشرافیہ ماضی سے سبق نہیں سیکھتی۔
ضیا کے مرنے کے بعد پہلے الیکشن میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی مگر اسوقت تک فوج کے سول قیادت سے تعلقات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ ۱۹۹۰ کا الیکشن انہوں نے مخالف پارٹیوں کے ساتھ ملکر جیت لیا۔ اسوقت جن سیاسی جماعتوں نے فوج کیساتھ ملکر جمہوریت کے خلاف سازش کی تھی آج وہی ووٹ کو عزت دو کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔
۹۰ کی دہائی میں فوج اور سول قیادت کا ٹکراؤ جاری رہا یہاں تک کہ مشرف نے تنگ آکر مارشل لا لگا دیا۔ ایسے میں جمہوری اشرافیہ ایسی غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ مگر مشرف نے بھی پھر وہی ۱۹۷۰ والی غلطی دہرا کر نا اہل حکمرانوں کو ہمارے سروں پر مسلط کر دیا۔
اب فوج کو بھی عقل آ گئی ہے کہ وہ سیدھا اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ نیز جمہوری اشرافیہ بھی خبردار ہے کہ افواج کو آن بورڈ لئے وہ ملک سے متعلق بڑے فیصلے نہیں کر سکتے۔ اس اقتدار اور قوت کی تقسیم کو دہشت کا توازن کہہ دیا جائے تو کچھ برا نہیں ہوگا۔
ہر پاکستانی ملک میں سویلین بالادستی چاہتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ ادارے اپنی حدود میں کام کریں۔ مگر حقیقت میں ایسا تب تک نہیں ہوگا جب تک یہاں اعتماد کی فضا بحال نہیں ہوگی۔ مغرب اسی لئے کامیاب ہے کیونکہ وہاں اداروں کے مابین اعتماد ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے خفیہ ادارے بھی ایک دوسرے کیساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ انکا مقصد اپنے اقتدار کی طوالت نہیں بلکہ عوام کی فلاح ہوتا ہے۔ جب سب اداروں کا مقصد ایک ہے تو باہم اعتماد کی فضا اپنے آپ قائم ہو جاتی ہے۔ جب ادارے ترقی کرتے ہیں تو ملک ترقی کرتا ہے۔ اور جب ملک ترقی کرتا ہے تو عوام خوشحال ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی حالیہ صورت حال یہ ہے کہ جمہوری سیاسی قیادت عظمی، نیب اور وقار کے پیچھے پڑی ہے۔ وقار، عظمی اور نیب اپنے اداروں کے دفاع میں سیاست کرنے پر مجبور ہے۔ حالانکہ انکا کام سیاست کرنا ہے ہی نہیں۔ یہاں سول قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اداروں کو تحفظ دے۔ انکے فیصلوں کو تسلیم کرے۔ نہیں تو ملک انار کی کی طرف جائے گا۔ پھر عظمی، وقار، حزب اختلاف اور نیب ایک طرف جبکہ سول قیادت اور انکے گلو بٹ دوسری طرف ہوں گے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، آپ ملک ریاض سے پوچھ لیں ہر آدمی کی ایک قیمت ہوتی ہے اور مفاد، جو پہلے جدہ بھیج سکتے تھے اب بھی بھیج سکتے ہیں
آپکی بھی غلط فہمی ہے کہ ہر انسان بکنے کو تیار ہے۔ جن ججوں نے نواز شریف کو نااہل کیا انکو بھی خریدنے کی کوشش کی گئی، ڈرایا دھمکایا گیا مگر وہ اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ ماضی میں اپنے خلاف فیصلے آنے پر نون لیگ عدلیہ پر حملے کر دیا کرتی تھی۔ اب وہ بھی جانتی ہے کہ افواج عدلیہ کو تحفظ دے رہی ہیں۔ اسلئے عوام کو انکے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔
 
Top