غوطہ اور جنگ کبرٰی

ضیاء حیدری

محفلین
غوطہ اور جنگ کبرٰی
احادیث ِنبویہ ﷺ میں جس خطہ ارضی کو ’شام‘ کہا گیا ہے‘ اس کی جغرافیائی حدود موجودہ مملکت شام سے بہت وسیع ہیں اس کی حدود کم وبیش شمالاً جنوباً، فرات سے عریش مصر اور شرقاً غرباً، جبل طے سے بحیرۂ روم تک ہیں۔ حالیہ جغرافیائی تقسیم کے تناظر میں شام سے مراد فلسطین‘ موجودہ شام‘ اردن اور لبنان کا علاقہ بنتا ہے۔
احادیث میں ’شام‘ سے مراد موجودہ شام کے علاوہ فلسطین‘ اردن اور لبنان بھی شامل ہے اس میں ’بیت المقدس‘ اور ’دمشق‘ کی اہمیت وفضیلت مخصوص ہے۔
بلادِشام کے بارے میں احادیث ِنبویہ میں بھی کئی ایک فضائل وبرکات منقول ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہ دعا فرمائی:
((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَامِنَا وَفِیْ یَمَنِنَا)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَفیِ نَجْدِنَا؟ قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَامِنَا وَفِیْ یَمَنِنَا)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَفِیْ نَجْدِنَا؟ فَاَظُنَّ ہٗ قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ: ((ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ)
”اے اللہ تعالیٰ! ہمارے لیے ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت فرما“۔ اس پر صحابہؓ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! اور ہمارے نجد میں بھی؟ (یعنی نجد میں بھی برکت کی دعا فرمائیں)۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دوبارہ دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن کو ہمارے لیے بابرکت بنا“۔ راوی کہتے ہیں کہ غالباً تیسری مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے (نجد میں برکت کی دعا کی درخواست پر) فرمایا: ”وہاں زلزلے اور فتنے برپا ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ برآمد ہو گا۔“

رسول اللہ ﷺ نے بلادِ شام کے لیے برکت کی دعا فرمائی ہے جو اس خطہ ارضی کی فضیلت کی دلیل ہے۔ اس حدیث میں نجد سے کیا مراد ہے؟ امام بخاری نے بھی اس حدیث پر ’الفتنۃ من قبل المشرق‘ کا باب باندھ کر یہ واضح کیا ہے کہ نجد سے مراد مدینہ کے مشرق کی سمت ہے۔ یعنی نجد ِ حجاز ہے‘ علما کرام شیطان کے سینگ کے طلوع ہونے سے شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی طرف اس کی نسبت کرتے ہیں‘
نجد جزیرہ نما عرب کا وسطی خطہ ہے۔یہ حدود یمامہ سے لے کر مدینہ منورہ تک کا علاقہ ہے یہاں کے نخلستان مشہور ہیں ہجرت کے بعد اسلام سے قبائل نجد کی جنگ رہی ثمامہ بن اثال اور مسیلمہ کذاب اور محمد بن کا تعلق نجد سے تھا،
سعودی صوبہ نجد ہی مدینہ شریف کے عین مشرق میں واقع ہے۔ اور عراق مسجد نبوی شریف کے شمال کی سمت ہے نہ کہ مشرق۔
نجد (ریاض، جو حالیہ سعودی عرب کا شہر ہے) میں فتنے ہی فتنے ہے۔ اس حدیث میں تین متعین خطوں کے نام لیے گئے ہیں لیکن کچھ احباب شام اور یمن کو تو علاقائی طورپر لیتے ہیں لیکن جب نجد کی باری آتی ہے تو یہ احباب نجد کے لغوی معنی نکال لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نجد ریاض مراد نہیں بلکہ ابھری ہوئی زمین مراد ہے، اور عرب میں بارہ نجد ہیں۔ حالانکہ حدیث کا لب و لباب واضع ہے کہ تین متعین خطے ہیں۔ جب ہم دو خطوں کے لغوی معنی اخذ نہیں کرتے ہیں تو پھر ہم تیسرے خطے کا لغوی معنی کیونکر اخذ کرسکتے ہیں؟. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جو خطہ نجد کے نام سے مشہور تھا دراصل وہی نجد کا خطہ اس حدیث میں مراد ہے.
عراق یا دیگر مقامات پر واقع نجد نام کے دیگر دیہات مسجد نبوی (مدینہ منورہ)کے شمال اور شمال مغرب میں ہیں۔ صرف اور صرف سعودی نجد ہی واحد علاقہ ہے جو مسجد نبوی (مدینہ منورہ)کے عین مشرق میں ہے۔ اور تو اور نجدی دارالحکومت ریاض فرمان مصطفے کے مطابق مسجد نبوی (مدینہ منورہ) کے عین مشرق میں واقع ہے حتی کہ ایک درجہ کا بھی فرق نہیں
شام کے بارے میں احادیث کی موجودہ حالات کے مطابق صحیح فہم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مثال کے طور مستدرک حاکم کی ایک صحیح روایت میں ہے کہ
يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ الْكُبْرَى فُسْطَاطُ الْمُسْلِمِينَ، بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا الْغُوطَةُ
ترجمہ: جب بڑی جنگ ہوگی تو اس وقت مسلمانوں کا گھر ایک ایسی جگہ ہوگی کہ جس کا نام "غُوطہ" ہے۔
فِيهَا مَدِينَةٌ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ، خَيْرُ مَنَازِلِ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ
ترجمہ: "اس غُوطہ کی سرزمین میں ایک شہر ہے کہ جس کا نام دمشق ہے تو بڑی جنگ کے زمانے میں مسلمانوں کا بہترین ٹھکانہ یہ شہر دمشق ہوگا۔"
تو مکمل روایت سے واضح ہوا کہ یہ "دمشق" کی بات ہو رہی ہے۔ اور یہ بھی واضح ہوا کہ حدیث میں بڑی جنگ کی بات ہو رہی ہے کہ جسے ہم تیسری جنگ عظیم کہہ سکتے ہیں۔ البتہ "غُوطہ" میں موجودہ بمباری اس جنگ عظیم کا ابتدائیہ ہو سکتا ہے کیونکہ تمام بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز شام میں موجود ہیں۔
 

ضیاء حیدری

محفلین
حضرت محمد ﷺ پر مال غنیمت کی تقسیم پر اعترا ض کرنے والا شخص اسی نجد کارہنے والا جو مدینہ کے مشرق میں جہاں سے محمد بن عبدالوہاب نمودار ہوا تھا، اور حدیث کا پس منظر بھی یہی ہے، اس حدیث میں شام یمن اور نجد کا ذکر ہوا ہے، وہابی شام سے مراد شام اور یمن سے یمن ہی لیتے ہیں جبکہ نجد سے مراد اونچائی کی زمین لیتے ہیں، اگر آپ دیکھیں تو ریاض اونچائی پر واقع ہے، ریاض سطح سمندر سے ۱۲۰۰میٹر کی بلندی پر جبکہ عراق ۵۰میٹر کی بلندی پر ہے۔ اور اگر مشرق کی سمت لیں تو مدینہ میں سورج ریاض کی جانب سے طلوع ہوتا ہے، اور اگر نقشہ دیکھیں تو مدینہ اور ریاض دونوں ۲۴ ڈگری پر واقع ہیں یعنی ریاض بالکل مشرق کی سمت میں مدینہ کی سیدھ پر واقع ہے
najd.jpg

old-najd.jpg
 

اکمل زیدی

محفلین
حضرت نوسترادامس نے اس بارے کیا فرمایا؟
شاید کچھ یوں:

NOSTRADAMUS QUATRAIN #1-87


Enormous-promontories on fire in the center of the mainland,

Enno-sigee feu du centre de terre,

Will cause trembling in the towers of the City of New (York);

Fera trembler au tour de Cite Neufve;

Two great rock-monoliths continuously will be attacked,

Deux grands rochiers longtemps feront la guerre,

This is when air-vessels will turn-around to a new course.

Puis are-thuse rou-gira nouveau fleuve.
 

ضیاء حیدری

محفلین
معلوماتی اور بہت محنت سے تیار کیا گیا ہے
اب ہم کیا کریں
اللہ عزوجل ہمیں دین کی صحیح فہم عطا فرمائے، اور گمراہ ہونے سے بچائے، میں نے تھریڈ اس وجہ سے بنایا تھا کہ کچھ لوگ بال کی کھال نکال کر یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ نجد سے مراد ریاض کا علاقہ نہیں ہے۔
 

ضیاء حیدری

محفلین

باب: بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے بیان میں
حدیث نمبر : 1037
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی بر کت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما“پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہو گا۔
صحیح بخاری
محمد بن عبدالوہاب کا تعلق نجد سے اور وہی سے فتنہ وہابیت اٹھا تھا،
 

سید عمران

محفلین
باب: بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے بیان میں
حدیث نمبر : 1037
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی بر کت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما“پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہو گا۔
صحیح بخاری
محمد بن عبدالوہاب کا تعلق نجد سے اور وہی سے فتنہ وہابیت اٹھا تھا،
شیطان کے سینگ سے قطعی طور پر عبد الوہاب کیسے مراد لیے گئے؟؟؟
 
آخری تدوین:

ضیاء حیدری

محفلین
شیطان کے سینگ سے قطعی طور پر عبد الوہاب کیسے مراد لیے گئے؟؟؟

نجد یا مشرق کی طرف سے ایک فتنہ اٹھنے کی خبر تو حدیث میں دی گئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہابیت نجد سے اٹھی ہے۔ ان لوگوں نے حجاز مقدس کو تاراج کیا، وہاں کے مسلمانوں پر کفر و شرک کے فتوے لگائے اور عوام تو عوام، علماء کو تہہِ تیغ کیا۔ جب نجد و حجاز میں ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھی گئی تو اسلام کے شیدائی اور مجاہد ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہاں خلافتِ راشدہ کے نمونے کی جمہوری حکومت قائم کی جاتی لیکن دنیا نے دیکھا کہ حریمین شریفین کی مقدس سرزمین پر ہزاروں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے اور صحابہئ کرام اور صالحین ِ امت کے تمام مزارات کو تاراج کرنے کے بعد وہاں ”جلالۃ ملک”(آلِ شیخ) کی شہنشاہیت قائم کی گئی ہے۔ جس کا اسلام کے خلاف ایک فتنہ کا کردار ہے۔
 

سید عمران

محفلین
نجد یا مشرق کی طرف سے ایک فتنہ اٹھنے کی خبر تو حدیث میں دی گئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہابیت نجد سے اٹھی ہے۔ ان لوگوں نے حجاز مقدس کو تاراج کیا، وہاں کے مسلمانوں پر کفر و شرک کے فتوے لگائے اور عوام تو عوام، علماء کو تہہِ تیغ کیا۔ جب نجد و حجاز میں ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھی گئی تو اسلام کے شیدائی اور مجاہد ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہاں خلافتِ راشدہ کے نمونے کی جمہوری حکومت قائم کی جاتی لیکن دنیا نے دیکھا کہ حریمین شریفین کی مقدس سرزمین پر ہزاروں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے اور صحابہئ کرام اور صالحین ِ امت کے تمام مزارات کو تاراج کرنے کے بعد وہاں ”جلالۃ ملک”(آلِ شیخ) کی شہنشاہیت قائم کی گئی ہے۔ جس کا اسلام کے خلاف ایک فتنہ کا کردار ہے۔
اگر مستقبل میں اس سے بڑا کوئی فتنہ کھڑا ہوگیا تو کیا ’’فتنۂ وہابیت‘‘ پر آپ کا فتویٰ کالعدم تصور کیا جاسکتا ہے؟؟؟
 
Top