اپنے سر تیرے تغافل کا بھی الزام لیا ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ غزل ایک بہت ہی شاذ بحر میں ہے ۔ اردو شاعری میں یہ وزن خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس وزن میں دو تین غزلیں اور ہیں اور اس عہد کی یادگار ہیں کہ جب میں بحروں کے ساتھ تجربات کررہا تھا ۔ شاید آپ احباب کو ایک آدھ شعر پسند آجائے ۔


اپنے سر تیرے تغافل کا بھی الزام لیا ہے
خود فریبی کا ستم دل پہ کئی بار کیا ہے

دل نے اس طرح مداوائے غمِ عشق کیا ہے
اک نیا زہر ترے ہاتھ سے ہر روز پیا ہے

غم ترا مجھ کو جلاتا نہیں کرتا ہے منوّر
ہاتھ پر آگ نہیں یہ تو ہتھیلی پہ دیا ہے

عشق سچّا ہو تو کرتا ہے ہر اک قید سے آزاد
رشتہ جھوٹا ہے کہ جس نے تجھے زنجیر کیا ہے

گفتگو تلخ تھی اے چارہ گرو مان لیا یہ
لب مرے زخم نہیں تھے کہ جنہیں تم نے سیا ہے


زندگی تجھ کو شب و روز یوں سینے سے لگا کر
کوئی جی کر تو دکھائے میں نے جس طور جیا ہے



ظہیرؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۵​
 
غم ترا مجھ کو جلاتا نہیں کرتا ہے منوّر
ہاتھ پر آگ نہیں یہ تو ہتھیلی پہ دیا ہے

عشق سچّا ہو تو کرتا ہے ہر اک قید سے آزاد
رشتہ جھوٹا ہے کہ جس نے تجھے زنجیر کیا ہے

گفتگو تلخ تھی اے چارہ گرو مان لیا یہ
لب مرے زخم نہیں تھے کہ جنہیں تم نے سیا ہے
بہت خوب ظہیر بھائی
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلاتن؟
 
ازراہٍ تفنن
یوں لگتا ہے کہ ہر مصرع ختم ہوتے ہوتے تھوڑا آگے نکل گیا ہے۔ :)
غالباً فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کی طرز پر زبان پر آ جانے کی وجہ سے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ظہیر بھائی
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلاتن؟

جی ہاں تابش بھائی ۔ رمل مثمن سالم مخبون بہت ہی قلیل الاستعمال ہے اردو میں ۔ اور شاید فارسی میں بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔
یہ بتائیے کہ پڑھنے میں کیسا ہے یہ وزن ۔ کچھ روانی ہے یاآخر مین سانس پھول جاتی ہے؟ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ازراہٍ تفنن
یوں لگتا ہے کہ ہر مصرع ختم ہوتے ہوتے تھوڑا آگے نکل گیا ہے۔ :)
غالباً فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کی طرز پر زبان پر آ جانے کی وجہ سے
ہا ہا ہا اہا ہا ۔ ابھی ابھی یہی بات میں نے پوچھی ہے آپ سے ۔ میں اور آپ ایک ہی وقت میں لکھ رہے تھے ۔
 
ہا ہا ہا اہا ہا ۔ ابھی ابھی یہی بات میں نے پوچھی ہے آپ سے ۔ میں اور آپ ایک ہی وقت میں لکھ رہے تھے ۔
مجھے اس سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔
سکول میں ہمارے ایک نسبتاً چھوٹے قد والے استاد جی نے نیا نیا موٹر سائیکل لیا۔ سکول میں موٹر سائیکل کی سمینٹڈ پارکنگ تھی اور اس سے آگے کیاری تھی۔ شروع شروع میں وہ اکثر پارک کرتے کرتے کیاری میں اتر جاتے تھے۔ اور پورا سکول یہ منظر دیکھنے کا منتظر ہوتا تھا۔ :)

اس غزل سے ویسے ہی یاد آ گیا۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے ظہیر بھائی آپ کو اپنی ای بک کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے
بہت شکریہ فہد! خوشی ہے کہ آپ کو پسند آئی ! اللہ آپ کو خوش رکھے اور کامیاب انسان بنائے ! آمین
فہد بھائی ، یہ غزلوں کا قصہ بہت عجیب ہے ۔ بلا مبالغہ درجن بھر ڈائریاں ہیں کہ جن میں میرے اپنےا شعار ، دوسروں کی شاعری ، نثرپارے ، روزنامچے اور دیگر الابلا لکھا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ان گنت چھوٹے بڑے پرزے اور صفحات کے کئی پلندے ۔ جب بھی میں سمجھتا ہوں کہ اب کام ختم ہوا کچھ اور چیزیں نکل آتی ہیں ۔ ایک ایک شعر اور غزل کےدو دو تین ورژن نکل آتے ہیں ۔ جنہیں کاٹنا چھانٹنا پڑجاتا ہے ۔ یوں یہ سلسلہ طویل ہی ہوتا جارہا ہے ۔
آپ سے وعدہ ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے پہلے ای بک ضرور بن جائے گی ۔ :)
 
گفتگو تلخ تھی اے چارہ گرو مان لیا یہ
لب مرے زخم نہیں تھے کہ جنہیں تم نے سیا ہے
لاجواب!
اور شاید فارسی میں بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔
دیوانِ شمس کے گنجور والے نسخے میں پچاس کے قریب غزلیات اس بحر میں ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مجھے اس سے ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔
سکول میں ہمارے ایک نسبتاً چھوٹے قد والے استاد جی نے نیا نیا موٹر سائیکل لیا۔ سکول میں موٹر سائیکل کی سمینٹڈ پارکنگ تھی اور اس سے آگے کیاری تھی۔ شروع شروع میں وہ اکثر پارک کرتے کرتے کیاری میں اتر جاتے تھے۔ اور پورا سکول یہ منظر دیکھنے کا منتظر ہوتا تھا۔ :)

اس غزل سے ویسے ہی یاد آ گیا۔ :)

علامہ اقبال کے بارے میں پڑھا تھا کہ بچپن ہی سے بہت موزوں طبع تھے اور اس ضمن میں ان کے کئی واقعات بھی ہیں ۔ ان کے اسکول میں ایک استاد بہت طویل قد کے ہوا کرتے تھے اور کچھ سخت گیر بھی تھے۔ بچوں نے ان کا نام ماسٹر جھنڈے خاں رکھا ہوا تھا ۔ ماسٹر صاحب نے شاید ایک روزکسی بات پر اقبال کی پٹائی وغیرہ کردی ۔ اقبال نے ماسٹر صاحب کے بارے میں ایک شعر موزوں کیا جو فوراً ہی پورے اسکول میں مشہور ہوگیا ۔ مطلب اس شعر کا کچھ یوں تھا کہ عاشق اپنے محبوب سے اپنا دل واپس مانگ رہا ہے اور محبوب جواباً کہہ رہا ہے کہ تمہارا دل میں نے ماسٹر جھنڈے خاں کے سر پر رکھ دیا ہے اگر ہمت ہے تو وہاں سے لے لو۔ یہ شعر ماسٹر جھنڈے خان تک بھی پہنچ گیا ۔ انہوں نے ہیڈ ماسٹرصاحب سے اقبال کی شکایت کی ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے اقبال کو اپنے دفتر میں طلب کرکے خوب ڈانٹ پلائی اور کہا کہ جرمانے کے طور پر کل صبح آٹھ آنے لے کر اسکول آنا ۔ اگلے دن اقبال صبح ہی صبح اسکول پہنچے اور ایک روپیہ ہیڈ ماسٹر کی خدمت میں پیش کیا ۔ ہیڈ ماسٹرصاحب بولے کہ جرمانہ تو صرف آٹھ آنے کیا تھا یہ ایک روپیہ کیوں ؟ اقبال نے جواب دیا کہ سر ، ماسٹر جھنڈے خاں کی شان میں ایک شعر اور ہوگیا ہے ۔

:):):)

اللہ اللہ کیا زمانے تھے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

بہت شکریہ ریحان ! نوازش!! اللہ خوش رکھے!!

دیوانِ شمس کے گنجور والے نسخے میں پچاس کے قریب غزلیات اس بحر میں ہیں۔

سلام ہے ان کی ہمت کو !

میری مراد تناسب سے تھی کہ ہزاروں لاکھوں غزلوں کے ذخیرے میں اس وزن میں نسبتاً کم ہی غزلیں ملتی ہیں ۔ خیر ، فرق تو اس سے پڑتا نہیں کوئی ۔ ویسے تابش بھائی کی بات درست ہے کہ مصرع کے آخر میں آکر زبان کچھ لڑکھڑا سی جاتی ہے اس میں ۔
 
Top