شہید غازی اور غازی شہید

اک ہوا چل نکلی ہے دین کا نام استعمال کرنے کی اور اس میں ہم سب بہے جا رہے ہیں۔ نجانے اپنے اجتماعی گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے کہ دین کے نام پر اس سے بڑے گناہ کئے جا رہے ہیں اور اس پر شرمندہ بھی نہیں بلکہ اسے عین دین قرار دیتے ہیں۔ محمد عربی فداہ ابی و امی کے لائے ہوئے دین کو پرزہ پرزہ کرتے، اس کی آڑ میں مفاد حاصل کرتے ہیں‌اور پھر بھی دین کے ٹھیکیدار۔ آپ سب لوگ جو عبدالرشید غازی مرحوم سے ہمدردی رکھتے ہیں ان سب سے ایک سوال ہے۔ ازراہِ کرم صرف قرآن اور شریعت کے مطابق جواب دیجئے گا۔ قرآن کی رو سے ایک عورت پر زنا کی تہمت لگانے والے کی (جو اس کے ثبوت میں چار گواہِ شرعی نہ لا سکے) کا کیا مقام اور کیا سزا ہے؟ برائے مہربانی صرف قرآن ، حدیث اور اجماعِ ائمہ سے جواب عطا فرمائیے گا۔ اگلا سوال اس سوال کے جواب پر۔

السلام علیکم،

میں یہاں لال مسجد والوں کے کام کو تحفظ دینے کے لیے نہیں جواب دے رہا، لیکن میں کسی غلط بات پر چپ بھی نہیں رہ سکتا، بھائی مانا انھوں نے غلطی کی اور اپنی غلطی سے بڑھ کر سزا پائی۔ لیکن جھاں تک اس عورت پہ الزام اور گواہان کا تعلق ہے تو میں آپ کا ضرور کہوں گا کہ کاش آپ نے چینل ون پر خشنود کا پروگرام ٹاکرا دیکھا ہوتا (جو اس نے حصوصی طور پر اس معاملے پر کیا تھا)، تو آج آپ کا سوال یہ ہوتا کہ اتنے لوگ (اور وہ بھی اہل محلہ) جب ٹاکرا پر اس خاتون کے بارے میں گواہی دے چکے ہیں تو حکومت نے ابھی تک کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا۔
 
اک ہوا چل نکلی ہے دین کا نام استعمال کرنے کی اور اس میں ہم سب بہے جا رہے ہیں۔ نجانے اپنے اجتماعی گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے کہ دین کے نام پر اس سے بڑے گناہ کئے جا رہے ہیں اور اس پر شرمندہ بھی نہیں بلکہ اسے عین دین قرار دیتے ہیں۔ محمد عربی فداہ ابی و امی کے لائے ہوئے دین کو پرزہ پرزہ کرتے، اس کی آڑ میں مفاد حاصل کرتے ہیں‌اور پھر بھی دین کے ٹھیکیدار۔ آپ سب لوگ جو عبدالرشید غازی مرحوم سے ہمدردی رکھتے ہیں ان سب سے ایک سوال ہے۔ ازراہِ کرم صرف قرآن اور شریعت کے مطابق جواب دیجئے گا۔ قرآن کی رو سے ایک عورت پر زنا کی تہمت لگانے والے کی (جو اس کے ثبوت میں چار گواہِ شرعی نہ لا سکے) کا کیا مقام اور کیا سزا ہے؟ برائے مہربانی صرف قرآن ، حدیث اور اجماعِ ائمہ سے جواب عطا فرمائیے گا۔ اگلا سوال اس سوال کے جواب پر۔

خرم ، کسی عورت پر زنا کا الزام نہیں بلکہ زنا کا اڈا چلانے کا الزام تھا اور چار نہیں چار درجن گواہ تھے اس کے اور اہل محلہ نے پولیس میں متعدد بار اس کی شکایت بھی درج کی تھی جس پر پولیس کے اعلی افسران کا بیان تھا کہ اس عورت کے ہاتھ ایوان اقتدار تک ہیں اور اس کے خلاف ہم کاروائی نہیں کر سکتے۔ اب آپ جواب دیں کہ ایسا بدکاری کا اڈہ لوگوں کی شکایات کے باوجود چل رہا ہو اور حکومتی سرپرستی میں چل رہا ہو اور قانون اس کی پشت پر ہو تو اگر لوگوں نے مل کر کاروائی کی اور چھوڑ‌ بھی دیا گیا بغیر نقصان پہنچائے تو کتنا بڑا جرم ہوا یہ بمقابلہ اس جرم کے جو وہ عورت سرعام کر رہی تھی۔

بعد میں بھی اس عورت نے ایوان اقتدار کو یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ اگر میرے خلاف کاروائی ہوئی تو آدھی اسمبلی کو سب کے سامنے بے نقاب کر دوں گی، اسے مشہور بائیں بازو کے کالمسٹ منو بھائی نے اپنے کالم میں وضاحت سے بتایا تھا۔ زمینی حقائق کو بھی پیش نظر رکھیں اور قانون کے مطابق کاروائی کی گنجائش پر بھی بات کرنے سے پہلے پاکستان میں قانون کی حالت دیکھ لیجیے گا ورنہ بات تخیلاتی اور مثالی لگی گی حقیقت سے میل نہیں کھائے گی۔

ان سب باتوں کے بعد مجھے خوشی ہوتی اگر حکومت اغوا یا زبردستی کا مقدمہ قائم کرتی اور اس کے ذمہ داران کے خلاف کیس دائر کرتی اور اس کی پیروی کرتی۔ قانون کی حکمرانی کو اپنے عمل سے ثابت کرتی اور جو اس کی خلاف ورزی کرتا اس پر قانون کے مطابق کاروائی کرتی مگر حکومت نے جو کیا وہ درندگی ، وحشت اور بربریت کی خوفناک مثال تھی اور تاریخ اس کے لیے کبھی حکمرانوں کو معاف نہ کرے گی جنہوں نے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے خون اور ظلم کا بازار گرم کیا اور اب تک گرم کیا ہوا ہے۔ اس دن کے بعد آج تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں فوج اور پولیس پر حملہ نہ ہوا ہو اور فوج نے لوگوں کو ہلاک کرنے کا بیرونی ایجنڈا خود سنبھال لیا ہے۔ دو تین دن قبل ہی وزیرستان میں جس طرح بمباری کرکے لوگوں کو ہلاک اور نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے اس کے بارے میں بھی سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے آپ نے ؟ لوگوں کو کیا بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں صرف امریکہ کے مفادات پر عمل ہوگا اور یہاں کے رہنے والے غلاموں سے بھی بدتر ہیں اور ان کے جان و مال کی حیثیت کسی مفتوح قوم سے بھی کم تر ہے۔ جتنا دل چاہے گا اور جہاں چاہیں گے حکمران عوام کا خون بے دریغ بہائیں گے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہ ہوگا۔ صرف میر علی سے اسی ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
 

خرم

محفلین
خرم ، کسی عورت پر زنا کا الزام نہیں بلکہ زنا کا اڈا چلانے کا الزام تھا اور چار نہیں چار درجن گواہ تھے اس کے اور اہل محلہ نے پولیس میں متعدد بار اس کی شکایت بھی درج کی تھی جس پر پولیس کے اعلی افسران کا بیان تھا کہ اس عورت کے ہاتھ ایوان اقتدار تک ہیں اور اس کے خلاف ہم کاروائی نہیں کر سکتے۔ اب آپ جواب دیں کہ ایسا بدکاری کا اڈہ لوگوں کی شکایات کے باوجود چل رہا ہو اور حکومتی سرپرستی میں چل رہا ہو اور قانون اس کی پشت پر ہو تو اگر لوگوں نے مل کر کاروائی کی اور چھوڑ‌ بھی دیا گیا بغیر نقصان پہنچائے تو کتنا بڑا جرم ہوا یہ بمقابلہ اس جرم کے جو وہ عورت سرعام کر رہی تھی۔

بعد میں بھی اس عورت نے ایوان اقتدار کو یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ اگر میرے خلاف کاروائی ہوئی تو آدھی اسمبلی کو سب کے سامنے بے نقاب کر دوں گی، اسے مشہور بائیں بازو کے کالمسٹ منو بھائی نے اپنے کالم میں وضاحت سے بتایا تھا۔ زمینی حقائق کو بھی پیش نظر رکھیں اور قانون کے مطابق کاروائی کی گنجائش پر بھی بات کرنے سے پہلے پاکستان میں قانون کی حالت دیکھ لیجیے گا ورنہ بات تخیلاتی اور مثالی لگی گی حقیقت سے میل نہیں کھائے گی۔

ان سب باتوں کے بعد مجھے خوشی ہوتی اگر حکومت اغوا یا زبردستی کا مقدمہ قائم کرتی اور اس کے ذمہ داران کے خلاف کیس دائر کرتی اور اس کی پیروی کرتی۔ قانون کی حکمرانی کو اپنے عمل سے ثابت کرتی اور جو اس کی خلاف ورزی کرتا اس پر قانون کے مطابق کاروائی کرتی مگر حکومت نے جو کیا وہ درندگی ، وحشت اور بربریت کی خوفناک مثال تھی اور تاریخ اس کے لیے کبھی حکمرانوں کو معاف نہ کرے گی جنہوں نے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے خون اور ظلم کا بازار گرم کیا اور اب تک گرم کیا ہوا ہے۔ اس دن کے بعد آج تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں فوج اور پولیس پر حملہ نہ ہوا ہو اور فوج نے لوگوں کو ہلاک کرنے کا بیرونی ایجنڈا خود سنبھال لیا ہے۔ دو تین دن قبل ہی وزیرستان میں جس طرح بمباری کرکے لوگوں کو ہلاک اور نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے اس کے بارے میں بھی سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے آپ نے ؟ لوگوں کو کیا بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں صرف امریکہ کے مفادات پر عمل ہوگا اور یہاں کے رہنے والے غلاموں سے بھی بدتر ہیں اور ان کے جان و مال کی حیثیت کسی مفتوح قوم سے بھی کم تر ہے۔ جتنا دل چاہے گا اور جہاں چاہیں گے حکمران عوام کا خون بے دریغ بہائیں گے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہ ہوگا۔ صرف میر علی سے اسی ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔

دیکھئے بھائی آپ سب میں سے کسی نے بھی میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ سوال تو سیدھا سادا تھا کہ اسلام میں‌ کسی بھی ایسے شخص کی سزا کیا ہے جو کسی عورت پر بدکاری کا الزام لگائے اور اس کے ثبوت میں چار گواہِ شرعی نہ پیش کر سکے۔ چار گواہوں کے بارے میں بھی عرض‌کر دوں‌کہ اسلام چار ایسے گواہ مانگتا ہے جنہوں‌نے اس عورت کو کسی اور مرد کے ساتھ حالتِ گناہ میں دیکھا ہو۔ آپ سب نے ادھر اُدھر کی بات تو خوب کی مگر اس سوال کا جواب نہ دیا۔ یہی رویہ ہے جس کی طرف میں‌نے اشارہ کیا تھا اپنی پچھلی پوسٹ میں۔ دیکھئے جب آپ بات اسلام کی کرتے ہیں تو صرف اسلام کی بات کیجئے اس میں ادھر اُدھر کے معروضی یا غیر معروضی حقائق کا عمل دخل نہیں۔ اب اگر ایک طرف قرآن کا واضح حکم ہے اور دوسری طرف آپ کے بیان کردہ بیانات تو ترجیح کسے ملے گی؟ قرآن کو یا حامد میر کو، خوشنود کو، اللہ دتہ کو یا منو بھائی کو؟ اسلام کے نام پر کیا جانے والا کام اپنی دلیل بھی اسلام سے ہی لائے تبھی معتبر ہے وگرنہ اس کی اسلام سے وہی نسبت جو بنی اسرائیل کے علماء کے فتاوٰی کی دینِ موسوی سے۔ باقی رہی بات جرم سے بڑھ کر سزا کی تو اب اس پر میں کیا کہوں؟ اگر مورچہ بند ہو کر ریاستی اداروں پر گولیاں‌چلانا اور اس سارے عمل کو کئی دنوں تک جاری رکھنا کوئی جرم ہی نہیں تو پھر جرم اللہ جانے کیا ہوتا ہے۔ باقی رہ گئی بات پاکستان میں‌لاقانونیت کی تو محب بھائی کیا واقعی لاقانونیت کا علاج اس سے بڑی لاقانونیت ہے؟ پاکستان کے نظام میں کروڑہا برائیاں ہیں مگر کیا ان کا علاج انارکی اور دہشت گردی ہے؟

میں مشرف کی اکثر پالیسیوں سے قطعاً اتفاق نہیں‌کرتا مگر یہ جو کچھ ہو رہا ہے قبائلی علاقوں میں اس سے اختلاف بھی نہیں‌رکھتا۔ کسی بھی صورت ایک ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میں اس بات کے قطعا ً خلاف ہوں کہ امریکہ یا کسی بھی بیرونی طاقت کی خواہش پر ملک کے اندر کچھ بھی کیا جائے مگر اس بات کا بھی مخالف ہوں‌کہ ملک میں‌جس کے پاس چند سو یا ہزار مسلح افراد ہوں وہ ایک علاقہ پر اپنا حکم اپنا قانون چلانا شروع کر دے اور بالخصوص اسلام کے نام پر جبکہ اسلام سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ بھی نہ ہو۔
 

ساجد

محفلین
ساتھیو ،
مجھ کم علم کی رائے میں گزری باتوں پر بحث کو پھر سے چھیڑنا بے سُود ہے اس سے سوائے آپسی رنجشوں کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہونے والا۔
اگر زنا کی تعریف کے تعین اور اس مکروہ فعل پر اسلامی سزاؤں پر تفصیل سے بات کرنا ہو تو ایک الگ دھاگہ اس پر کھولا جا سکتا ہے جس میں لال مسجد اور حکومتی مشینری کے حوالے دئیے جانے کی بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں بات کی جائے۔
اسلام میں زنا کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔ اور اسی لحاظ سے اس پر سزا بھی سخت رکھی گئی ہے لیکن تعدیل کے عنصر کو یہاں بھی فراموش نہیں کیا گیا اور زانی مرد یا عورت کی ازدواجی حیثیت کے مطابق سزا کے اجراء کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ان سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب تک زانی یا زانیہ اپنے منہ سے منصف ، قاضی یا جج کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار نہ کر لے اس پر حد لاگو نہیں کی جا سکتی بصورتِ دیگر چار ایسے گواہان کی شہادت ہو جنہوں نے اپنی آنکھوں سے ان کو حالتِ زنا میں دیکھا ہو۔ حالتِ زنا میں دیکھنے کی تفصیل یہاں لکھنا مناسب نہیں ۔ ہم میں سے سب نے وہ واقعات پڑھے ہیں جب کسی آدمی نے نبی پاک علیہ صلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر زنا کا اقرار (اپنی مرضی) سے کیا تو آپ نے اس کی بات سن کر منہ دوسری طرف پھیر لیا ، اُس نے پھر نبی پاک کے سامنے آ کر اپنے گناہ کا اقرار کیا تو آپ نے پھر منہ پھیر لیا ، جب تیسری بار بھی اس نے نبی پاک کے سامنے آ کر اپنا گناہ قبول کیا تو اس پر حد جاری کی گئی اور حد جاری کرنے سے پہلے آپ سرکار نے اس زانی سے اس کے گناہ کی جس وضاحت سے تفصیل دریافت کی وہ انتہائی اہم ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ چار گواہوں نے گول مول الفاظ میں الزام لگا دیا اور حد لاگو کر دی جائے بلکہ اگر وہ اس حد تک بھی کہیں کہ ہم نے اس مرد اور عورت کو برہنہ حالت میں دیکھا تھا تب بھی زنا کی حد لاگو نہیں ہوتی۔ جب تک وہ اس فعل کے وقوع پذیر ہونے کے عینی شاہد نہ ہوں ان کی گواہی معتبر نہ ہو گی۔
اب آپ ہی بتائیے کہ کون ایسا بے وقوف ہو گا کہ اس مکروہ کام کے لئیے اتنا غیر محتاط ہو کہ چار آدمی اس کو یہ فعل کرتے دیکھ رہے ہوں۔ یہاں بھی گواہ کے لئیے عینی شاہد ہونے کی شرط رکھنے میں یہی حکمت ہے کہ کسی کی نظر کے دھوکے سے یا کسی کی غلط فہمی یا کسی کی ذاتی دشمنی سے کوئی اتنی سخت سزا کا مستحق نہ ٹھہرا دیا جائے ۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ چھپ چھپا کر یہ گناہ کرنے کی اجازت ہے ، جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے اور قرآن و حدیث میں اس کے قریب پھٹکنے سے بھی بڑی سختی سے منع کیا گیا ہے ، اور اگر کوئی اپنا گناہ دنیا کی نظروں سے چھپانے میں کامیاب ہو بھی گیا تو آخرت کے دن سخت عذاب سے نہیں بچ پائے گا کہ جب انسان کے اپنے جسم کے اعضاء بھی گواہی دیں گے۔
اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہئیے کہ حد جاری کرنا اور سزا پر عمل درآمد کرنا میری ، آپ کی یا کسی نتھو خیرے کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ایک اسلامی معاشرے میں موجود عدالتی نظام کے ذمہ داران (جج صاحبان) اس کی شنوائی اور عدالت اس پر فیصلہ کرے گی تب حکومت وقت کا محکمہ انصاف مجرم کی سزا پر عمل درآمد کرے گا۔
یہ نہیں کہ مجمع اکٹھا ہوا اور پکڑ کے الزام لگایا پھر دھلائی کر کے چھوڑ دیا۔یہ عمل انتہائی خطر ناک ہے اگر اس کو رواج دیا گیا تو معاشرتی امن و سکون عنقاء ہو جائے گا۔
 
محھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

دیکھئے بھائی آپ سب میں سے کسی نے بھی میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ سوال تو سیدھا سادا تھا کہ اسلام میں کسی بھی ایسے شخص کی سزا کیا ہے جو کسی عورت پر بدکاری کا الزام لگائے اور اس کے ثبوت میں چار گوہِ شرعی نہ پیش کر سکے۔ چار گواہوں کے بارے میں بھی عرضکر دوںکہ اسلام چار ایسے گواہ مانگتا ہے جنہوںنے اس عورت کو کسی اور مرد کے ساتھ حالتِ گناہ میں دیکھا ہو۔ آپ سب نے ادھر اُدھر کی بات تو خوب کی مگر اس سوال کا جواب نہ دیا۔ یہی رویہ ہے جس کی طرف میںنے اشارہ کیا تھا اپنی پچھلی پوسٹ میں۔ دیکھئے جب آپ بات اسلام کی کرتے ہیں تو صرف اسلام کی بات کیجئے اس میں ادھر اُدھر کے معروضی یا غیر معروضی حقائق کا عمل دخل نہیں۔ اب اگر ایک طرف قرآن کا واضح حکم ہے اور دوسری طرف آپ کے بیان کردہ بیانات تو ترجیح کسے ملے گی؟ قرآن کو یا حامد میر کو، خوشنود کو، اللہ دتہ کو یا منو بھائی کو؟ اسلام کے نام پر کیا جانے والا کام اپنی دلیل بھی اسلام سے ہی لائے تبھی معتبر ہے وگرنہ اس کی اسلام سے وہی نسبت جو بنی اسرائیل کے علماء کے فتاوٰی کی دینِ موسوی سے۔ باقی رہی بات جرم سے بڑھ کر سزا کی تو اب اس پر میں کیا کہوں؟ اگر مورچہ بند ہو گر ریاستی اداروں پر گولیاںچلانا اور اس سارے عمل کو کئی دنوں تک جاری رکھنا کوئی جرم ہی نہیں تو پھر جرم اللہ جانے کیا ہوتا ہے۔ باقی رہ گئی بات پاکستان میںلاقانونیت کی تو محب بھائی کیا واقعی لاقانونیت کا علاج اس سے بڑی لاقانونیت ہے؟ پاکستان کے نظام میں کروڑہا برائیاں ہیں مگر کیا ان کا علاج انارکی اور دہشت گردی ہے؟

میں مشرف کی اکثر پالیسیوں سے قطعاً اتفاق نہیںکرتا مگر یہ جو کچھ ہو رہا ہے قبائلی علاقوں میں اس سے اختلاف بھی نہیںرکھتا۔ کسی بھی صورت ایک ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میں اس بات کے قطعا ً خلاف ہوں کہ امریکہ یا کسی بھی بیرونی طاقت کی خواہش پر ملک کے اندر کچھ بھی کیا جائے مگر اس بات کا بھی مخالف ہوںکہ ملک میںجس کے پاس چند سو یا ہزار مسلح افراد ہوں وہ ایک علاقہ پر اپنا حکم اپنا قانون چلانا شروع کر دے اور بالخصوص اسلام کے نام پر جبکہ اسلام سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ بھی نہ ہو۔
السلام علیکم،

بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ میری پچھلی پوسٹ میں کونسی بات اسلامی تعلیمات سے متصادم لگی ہے۔ اور نہ ہی میں نے خشنود کے پروگرام کو (نعوز باللہ) قرآن پہ فوقیت دینے کی بات کی ہے۔ اور جہاں تک لال مسجد والوں کے کام پر اعتراض کی بات ہے تو میں نے یہ اعتراضات اسوقت کیے تھے جب لال مسجد کا معاملہ اپنے جوبن پر تھا اور بہت سے بھائی شائد ان سے بات کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے۔ آج جب وقت نے ان سب کے ساتھ اتنا ظلم کیا ہے تو کم از کم اتنا تو دل میں مانوں کہ ان کو ضرم سے بڑھ کر سزا دی گئی ہے۔ دوست معاملہ 6 ماہ تک چلتا رہا لیکں کوئی انگلی تک نہیں پھوٹی، اچانک وہ کونسی طاقتیں تھیں جنھوں نے ایک معاملہ جو بات چیت سے حل ہو سکتا تھا اور ہو رہا تھا، اسے پاکستان کی تاریخ کا بدترین خونی تصادم بنا دیا۔ اس بات پر سوچئیے گا ضرور۔ بھائی اپنے دل کو ٹٹولئے گا شائد کسی کونے کھدرے میں وہ احساسات موجود ہوں جو آپ محسوس نیں کر پا رہے ہو۔ ذرا دیکھنا جب قرآن پاک کے اوراق گندے نالے سے نکلے تو کیا آپ کا دل اسکو معمولی واقعہ گردانتا ہے۔ کیا ان طالب علموں کے جسموں کے ٹکرے ملبے سے برآمد ہوئے تو کیا آپ کا دل اس پر غمناک نہیں ہوتا۔ کیا لال مسجد کو دوبارہ کھلنے کے بعد ملبے سے ایک لاش کی برآمدگی اور اس لاش کی برآمدگی کے کچھ دیر بعد آبپارہ میں دھماکہ، اور پھر فورا لال مسضد کی غیر معینہ مدت کے لیئے بندش آپ کو سوچنے پر مجبور نہیں کرتا۔ بھائی آپ امریکہ میں ہو میں نے یہ سب اسلام آباد میں رہتے ہوئے محسوس کیا ہے۔

اور جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں آپ بھی جانتے ہیں، کہ کیا ہے، ویسے بھی ساجد بھائی نے سزا کو کافی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ لیکن سزا کامعاملہ تو تب آئے جب کوئی گواہ نہ لا سکے۔ اور اگر کوئی گواہی دیتا ہے اور کوئی ان کی گواہی پہ کان نہیں دھرتا تو اس میں کس کو مورد الزام ٹھرائو گے آپ، کس کو اس صورت میں سزا ملنی چاہئیے۔ اگر کسی کو ان لوگوں کی گواہیوں پر شک ہے تو کم از کم ایک دفعہ ان پر جرح کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا اور حکومتی حلقوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔

بھائی میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے، لیکن کیا ایسا نہیں ہے ہم نے قرآن اور احادیث کے حوالے صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے رکھ دیئے ہیں۔ آج ہم ان کو استعمال کرتے ہیں لوگوں پر لعن طعن کرنے کے لئے، دوصرے فرقہ کو کافر قرار دینے کے لئے، اور کبھی کبھی شائد حقیقت سے نظریں چرانے کے لیئے، اور بات کو طول دینے کے لئیے۔ جب کسی معاملے پر شریعت کے واضح احکامات ہیں تو اس میں ابہام کیسا۔ جب شریعت نے کہ دیا اگر کوئی حد کا الزام ثابت نہیں کر سکتا تو اس پر الٹا حد نافذ ہو جائے گی (شرائط لاگو ہیں)۔ تو اس کے لئے سوچ بچار کیوں۔

میں صرف اتنا کہتا ہوں اگر کسی کو جو گواہان سامنے آئے تھی ان پر شک تھا تو مفتیان اکرام/قاضی صاحبان کے سامنے ان سے پوچھ گچھ کر لیتے، اور اگر وہ گواہ جھوٹے ہوتے یا حد کا الزام ثابت نہ ہوتا تو اس صورت میں شریعہ کے مطابق کاروائی ہو تی۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اب ایک نئی بحث چل پڑی ہے۔

باقی رہی بات وزیرستان کی تو دوست آپ تاریخ پاکستان پڑھو تو آپ کو پتا چلے گا آج جن کو ہم تختہ مشق بنا رہے ہیں، وہ پاکستان پہ سب سے زیادہ جان دینے والے رہے ہیں (مانا شائد کچھ باغی زہن بھی ہوں لیکن اکثریت پاکستان اور پاکستان آرمی پر جان دیتی رہی ہے)۔ جب قیام پاکستان کے فورا بعد بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا تو یہ غیور قبائلی ہی تھے جو قیامت بن کر ٹوٹے اور آج جتنا کشمیر آزاد ہے وہ انہی کی کوششوں کا ثمر ہے، اس دور میں افواج پاکستان کو ان لوگوں کا مکمل تعاون حاصل رہا۔ اور اسی طرح 1965 اور 1971 کی لڑائی میں بھی ان کا کردار سب کے سامنے ہے۔ وہاں ان لوگوں کے کچھ اپنے رواج ہیں، جن کی پاسداری بابائے قوم محمد علی جناح نے بھی کی اور ان کو ان کے رواجوں کے مطابق رہنے کی اجازت دی، جس میں ان کے تمام مسئل کا حل جرگہ کرتا ہے، اور یہ پچھلے ساٹھ سالوں سے چل رہا ہے۔ بلکہ موجودہ حکومت نے بھی اسی طریقہ کے ساتھ اچھا خاصہ وقت گزارا ۔ تو آج ایسا کیا کہ ہم کو یوں محسوس ہو رہا ہے، وہ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس لئے کہ امریکہ کو خطرہ ہے، بجائے ہم امریکہ کو بتائیں کی اس کی پالیسیوں نے دنیا میں اس کے خلاف نفرت کی فضا قائم کی ہے، ہم ان کے اشاروں پر اپنی ہی زمیں بارود و خوں سے رنگین کر رہے ہیں، ہم اپنی ہی زمین پر نفرت کی وہ فصل بو رہے ہیں جو خدا نخواستہ تناور درخت بن گیا تو ... ۔ خون کسی قبائلی کا بہے یا میری فوج کے کسی جوان کا گھائو میرے ملک کے سینے پر لگتا ہے، بارود اگر وزیرستان میں پھٹے یا بنوں، سوات، تربیلا غازی میں تو لہو لہان پاکستان ہوتا ہے۔ بارود کے اس دھویں میں دم پورے پاکستان کا گھٹتا ہے۔

آج ہم سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر ان لوگوں کی قربانیوں کا تمسخر نہیں اڑا رہے جو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے لگاتے اپنے سینے چھلنی کرواتے رہے۔ کیا ہم بابائے قوم کی روح کے ساتھ مزاق نہیں کر رہے جنھوں نے کہا تھا

قیام پاکستان کا مقصد محض ایک علاقے کا حصول نہیں بلکہ اس کا مقصد ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا ہے، جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں

آپ یہ اپنے دل سے پوچھو، کیا سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے، کیا ہم اس ملک کے قیام کے حقیقی مقصد کے حصول کے لئیے کوشاں ہیں، یا ہم کسی بیرونی قوت کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ۔ کیا ہم شریعت سے اس لئے گریزاں ہیں کے اس سے ہماری نان نہاد روشن خیالی پر ضرب پڑتی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا لیبل لگا کر اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئیے ایک ذات ہے جو دیکھ رہی ہے، اس نے آٹھ اکتوبر کو اپنی موجودگی کا احساس اس غافل قوم کو دلایا، میں کسی اور کی بات نہیں کرتا اس وقت میں نے بھی بڑے دعوے کیے، میں یہ کروں گا وہ کروں گا ۔ بس اب آئندہ غفلت نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آج میں پھر دنیاوی کاموں میں اتنا مگن ہوں کہ غفلت کی چادر تنی ہوئی ہے۔

بھائی میں آپ کی بات سے متفق ہوں ہم کو اپنے رویوں کو بدلنا ہو گا۔ اپنی زات کے خول سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا۔ ہمیں مسلماں مسلمان کی رٹ لگانے کی بجائے اسلام کی روح کو سمجھنا ہو گا۔ اسلام کو ایک مذہب کی حیثیت سے نہی ایک دین کی حیثیت سے سمجھنا ہو گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم سے پہلے مسلماں جب عروج پر تھے تو ان کے پاس ایسا کیا تھا جو آج ہمارے پاس نہیں۔ آخر ایسا کیا تھا ہمارے پاس کہ اس قوم میں صلاح الدیں ایوبی، یوسف بن تاشفین، خالد بن ولید، طارق بن زیاد، موسٰی بن نصیر وغیرہ جیسے جری نوجوانان نے جنم لیا۔ ہم کو اپنی صفوں میں میر جعفر، میر صادق کو کھوجنا ہو گا، جو ہم میں ہم جیسا لبادہ اوڑے بیٹھے ہیں اور ہم کو ہی آپس میں لڑا رہے ہیں۔

اور آخری بات، کیا ریاست کے اندر ریاست صرف قبائل نے بنائی ہوئی ہے، ان جاگیرداروں کا کیا جو اپنے مزارعوں کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں، جہاں آپ کی پولیس اس وڈیرے کی مرضی کے بنا کچھ نہیں کر سکتی، جہاں آخری مرضی اس جاگیردار کی ہوتی ہے۔ تو کیا خیال ہے آپ کا ان کے خلاف بھی آپریشن سائلنس نہ ہو جائے۔

سوچئے سمجھیئے بچیئے


اگر بے دھیانی میں کچھ غلط لکھ دیا ہے تو میں اللہ تعالٰی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دست بستہ معافی کا طلب گار ہوں اور اگر کسی بھائی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں اس سے بھی معزرت خواہ ہوں۔
 

ایسا نہیں ہے کہ چار گواہوں نے گول مول الفاظ میں الزام لگا دیا اور حد لاگو کر دی جائے بلکہ اگر وہ اس حد تک بھی کہیں کہ ہم نے اس مرد اور عورت کو برہنہ حالت میں دیکھا تھا تب بھی زنا کی حد لاگو نہیں ہوتی۔ جب تک وہ اس فعل کے وقوع پذیر ہونے کے عینی شاہد نہ ہوں ان کی گواہی معتبر نہ ہو گی۔


معزرت کے ساتھ اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ کسی اڈے کے خلاف گواہی دینے کے لیئے بندہ یا تو وہاں گاہک بنے، اور پھر اعتراف کر کے اپنے اوپر حد لگوائے تا کہ ان زمہ داران کو سزا مل سکے۔

چلیں ایک مثال لیتے ہیں، ایک گھر میں زنا ہو رہا ہے، اور وہ فراغت پا چکتے ہیں اسی وقت پولیس کا چھاپہ پڑا اور ان کو برہنہ پکڑ لیا گیا، اب کیا پولیس والے ان کے خللاف گواہی دے سکتے ہیں ؟ کیوں کہ انھوں نے انکو صرف برہنہ پکڑا ہے نہ کہ زنا ہونے کے دوران رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔

اب اگر کوئی مرد عورت برہنہ ہیں اور وہ میان بیوی بھی نہیں تو پھر انکے برہنہ ہونے کا مقصد کیا ہے ؟ ظاہر ہے وہ کوئی دلہا دلہن کا کھیل تو نہیں کھیل رہے۔
 
مجرم کی ازدواجی حیثیت پر منحصر ہے۔
زنا کی سزا، موت قرآن سے ثابت نہیں ہے۔ یہ لوگوں کا بنایا ہوا قانون ہے جسے کوئی اجماع ائمہ، کوئی طریقتِ صحابہ اور کوئی سنت رسول سے ثابت کرتا ہے۔ یہ کورٹ کچہری اب تک تو حکومت کا کام رہا تھا۔ ٹیچرز یہ کام سنبھال لیں، یہ کسی کتاب سے ثابت نہیں۔ بہت سے لوگ شدت جذبات میں اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ پھر سزا پاتے ہیں۔ ہر دور میں حکومت کی عزت کرنا فرض رہا ہے۔ اللہ کی اطاعت۔ رسول کی اطاعت، اور تم میں سے حکومت کرنے والوں کی اطاعت کا سبق پڑھانے والے جب یہ سبق بھول جائیں تو سمجھو خدا کے حکم کو بھولے پھر اللہ کے حکم کو جو بھولے اور عوام الناس کو گمراہ کیا تو اس کی سزا کیا ملی ہے اللہ کی طرف سے۔ ہم سب جس بات کےگواہ ہیں۔ کوئی برقعے میں بھاگا تو کوئی جہنم رسید ہوا۔ لاحول ولا قوۃ‌ ! آج پھر اسی مسجد میں اللہ کا نام گونج رہا ہے۔ اللہ کا قرآن پڑھئیے اور دیکھئے قرآن کیا کہتا ہے۔ بہت سے شر و فساد سے بچے رہیں گے۔
 

ساجد

محفلین
کاشف بھائی ، سب سے پہلے تو میں اردو محفل پر آپ کو خوش آمدید کہوں گا۔
معزرت کے ساتھ اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ کسی اڈے کے خلاف گواہی دینے کے لیئے بندہ یا تو وہاں گاہک بنے، اور پھر اعتراف کر کے اپنے اوپر حد لگوائے تا کہ ان زمہ داران کو سزا مل سکے۔
میرے بھائی ، شاید آپ میرے کہنے کا مطلب ٹھیک طرح سے نہیں سمجھے۔ میں نے ذکر کیا تھا زنا کے ثبوت ، اقرار اور گواہوں کے بارے میں ۔ فحاشی کے اڈے میرا موضوع کلام نہیں تھا۔ ویسے آپ کو یہ پڑھ کر حیرانی ہو گی کہ یہاں سعودیہ میں بھی پولیس چھاپے مار کر فحاشی اور جسم فروشی کے اڈوں کا قلع قمع کرتی ہے لیکن دنیا کا یہ قدیم ترین پیشہ اتنے سخت قوانین کے بعد پھر سے پاؤں جما لیتا ہے۔ بہر حال اس پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔
آپ نے ذکر کیا کہ گواہی دینے کے لئیے کیا بندہ خود گاہک بنے ؟؟؟ نہیں محترم ، ایسے مکروہ کام کا گاہک بننے کے لئیے تو کوئی بھی آپ کو نہیں کہے گا۔ اور آپ کی دوسری بات کہ اعتراف کر کے خود اپنے اوپر حد لگوائے تا کہ ان ذمہ داران کو سزا مل سکے ، مجھے سمجھ نہیں آئی۔
چلیں ایک مثال لیتے ہیں، ایک گھر میں زنا ہو رہا ہے، اور وہ فراغت پا چکتے ہیں اسی وقت پولیس کا چھاپہ پڑا اور ان کو برہنہ پکڑ لیا گیا، اب کیا پولیس والے ان کے خللاف گواہی دے سکتے ہیں ؟ کیوں کہ انھوں نے انکو صرف برہنہ پکڑا ہے نہ کہ زنا ہونے کے دوران رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔
ہاں اگر کسی جگہ زنا ہو رہا ہے اور چھاپہ پڑنے سے پہلے "ایکشن" ختم ہو چکا ہے اور پولیس کو برہنہ حالت میں کچھ لوگ وہاں سے ملے ہیں تو پولیس کی گواہی سے بھی آسان اور "مجرب" کام ان کے میڈیکل ٹیسٹ کروانا ہیں۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہمارے اداروں میں کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ میڈیکل ٹیسٹ میں بھی گڑ بڑ کر دی جاتی ہے تو اس میں نہ تو مذہب کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی اس جرم کو ثابت کرنے کے اسلامی طریقہ کار کا۔
اب اگر کوئی مرد عورت برہنہ ہیں اور وہ میان بیوی بھی نہیں تو پھر انکے برہنہ ہونے کا مقصد کیا ہے ؟ ظاہر ہے وہ کوئی دلہا دلہن کا کھیل تو نہیں کھیل رہے۔
بات آپ نے بڑی پتے کی کہی ۔ میاں بیوی کے رشتے کے علاوہ مرد و عورت کا ایک دورے پر اپنا ستر کھولنا بہت گناہ اور شرم کی بات ہے لیکن اس کو زنا کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا۔ مذہبی نقطہ نظر سے زنا اسی وقت ثابت ہو گا کہ ،
۔۔ زانی یا زانیہ اپنے گناہ کا (قاضی ،جج ،عدالت) کے سامنے خود اقرار کر لے۔
۔۔ چار قابلِ اعتماد گواہ ہوں اور وہ اس بات کا حلفیہ اقرار کریں کہ انہوں نے یہ عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے (صرف اشارہ کنایہ کافی نہیں)۔
۔۔ علماء کے اجتہاد کے مطابق ایمانداری سے مرتب کردہ طبی رپورٹ ان کے زنا کا ثبوت پیش کر دے۔
اور یہ جرم ثابت کرنے اور سزا دلوانے کا سارا کام سر انجام دینے کی بنیادی شرط ہے کہ ایک اسلامی معاشرے کی عدالت میں ثبوت پیش کئیے جائیں ۔ پنچایت ، مولوی ، مدرس ، پولیس ، ملنگ ، سیانے ، جرگے ، بابے ، پیر ، مرید ، یا طالب علم کوئی بھی اس پر حد جاری کرنے کا مجاز نہیں ، سوائے عدالت کے۔
اور ستم ظریفی یہ ہے کہ آنٹی شمیم پر نہ تو کسی عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی نے عدالت میں جا کر اس کے خلاف گواہی دی۔ حالانکہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت آنٹی شمیم کے گھر اور لال مسجد سے کچھ دور نہ تھی۔ پولیس میں صرف شکایت لکھوائی جاتی ہے اور ایف آئی آر کی بنیاد پر انصاف کے لئیے لاٹھیاں اٹھا لینا ایک مہذب معاشرے کا وطیرہ نہیں۔
آنٹی شمیم بھی ابھی زندہ ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی موجود ہے ۔ کیا خیال ہے اب اس آنٹی نے "دھندہ" بند کر دیا ہو گا؟؟؟ یا مزید آنٹیاں یہ کام نہیں کر رہیں تو پھر یہ کیوں ہوا کہ اب تک اسلام آباد کی کسی عدالت میں کیس درج نہیں ہوا؟؟؟ ٹھیک ہے زنا کے ثبوت کے لئیے بہت سخت احکام ہیں لیکن اگر ان بد کاروں کو عدالتوں میں گھسیٹا جائے تو ہم اپنا قومی اور دینی فریضہ تو پورا کر سکتے ہیں نا؟؟؟ اور دنیا کا انصاف ان کو سزا نہ دے سکا تو منصفوں کا منصف ، بادشاہوں کا بادشاہ ، خالقِ کائنات تو ان پر پکڑ کرے گا۔
کاشف بھائی ، یہ سیاست سالی چیز ہی ایسی ہے کہ شریفوں کو بھی ذلیل کر دیتی ہے اور لال مسجد کے معاملے میں دونوں فریقوں نے جس گندی سیاست کا مظاہرہ کیا اس نے ہم عوام کو دست و گریباں کر دیا ہے۔ ورنہ آج میں اور آپ یہاں زنا پر بحث کرنے کی بجائے پاکستان میں جہالت اور صحت عامہ کی انتہائی مخدوش صورت حال کی بہتری کے اقدامات پر بات کر رہے ہوتے۔ ان لوگوں کی خود کشیوں پر نظر ڈالتے جو غربت کا لقمہ بن گئے۔ کل عید ہو گی ہم کتنے معصوم پھول جیسے بچوں کو گندے اور پھٹے کپڑوں میں ملبوس بھیک مانگتے دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر کر گزر جائیں گے۔ کتنے ہی پاکستانی کوڑے کے ڈرموں میں پھینکا ہوا بچا کھچا کھانا ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ ہم بہت کچھ جانتے ہیں لیکن اس بات سے بے خبر ہیں کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی ہیپا ٹائٹس کی کسی نہ کسی سٹیج میں ہے۔
کاش ہم دوسروں کے عیبوں پر کڑی نظر رکھنے کی بجائے اپنی اصلاح اور اپنی قوم کی فلاح کی طرف توجہ کر لیا کریں۔
والسلام علیکم و رحمۃاللہ
 

فاتح

لائبریرین
محمد کاشف مجید بھائی!
آپ نے قبائلیوں اور ان کے جرگوں کا ذکر کیا ہے تو کیا دنیا کا کوئی بھی ذی ہوش اُن ان پڑھ جرگوں کے فیصلوں کو (جن کی اکثریت ظالمانہ فیصلوں پر مبنی ہوتی ہے) منصفانہ قرار دے سکتا ہے؟
کیا عورتوں کو ننگا پھرانا یا ایک شخص کی غلطی پر اس کے خاندان کی لڑکیوں کو بطور جرمانہ مخالف فریق کے حوالے کیا جانا حد درجہ ذلالت اور بے غیرتی نہیں؟
جی ہاں! میں نے یہ دو الفاظ ہوش و حواس میں رہ کر لکھے ہیں کہ ان سے کم درجہ کا کوئی لفظ ان نام نہاد جرگوں کی تعریف نہیں کر سکتا۔

میں بھی بیٹی اور بہنوں والا ہوں اور یقیناً آپ بھی ہوں گے۔ کیا ہم ان کھلی کھلی بے غیرتی پر مبنی سزاؤں کو صرف جہالت کا نام دے سکتے ہیں؟

اس کے علاوہ ہم انہی قبائلی علاقوں کی سوغات، پاکستان میں اسلحہ اور ہیروئن کی بھرمار کو کیسے بھول سکتے ہیں جس نے ہماری نسلیں برباد کر دی ہیں؟

اگر ریاست کا حصہ ہیں تو ریاست کے قوانین کی پابندی بھی لازم ہے۔

معذرت خواہ ہوں کہ میرا لہجہ ترش ہے مگر ان ظالموں کے بے انتہا مظالم پر اس سے کم کی توقع ہی فضول ہے۔
 

خرم

محفلین
وعلیکم السلام پیارے بھائی

بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ میری پچھلی پوسٹ میں کونسی بات اسلامی تعلیمات سے متصادم لگی ہے۔
نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں‌تھی۔ میرا مطلب صرف یہ تھا کہ اگر کسی چیز کا معیار، پیمانہ یا طریقہ قرآن اور حدیث میں مقرر کر دیا گیا ہے تو پھر اس معاملہ میں کسی تیسرے فریق کی گواہی کی ضرورت نہیں‌رہتی۔

آج جب وقت نے ان سب کے ساتھ اتنا ظلم کیا ہے تو کم از کم اتنا تو دل میں مانوں کہ ان کو ضرم سے بڑھ کر سزا دی گئی ہے۔
بھیا یہ اختلافی معاملہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ لال مسجد والوں‌کو پولیس والوں کو اغواء کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر انہیں پولیس اور فوج پر فائرنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جب انہیں کہا گیا کہ ہتھیار ڈال کر باہر آجائیں تو ایسا کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ کیا اس صورت میں وہ تمام جانیں بچائی نہ جا سکتی تھیں؟ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ جی انہیں چھوڑ دیتے تو جانیں بچ جاتیں۔ آپ صرف یہ بتائیں کہ اگر ان کو جانے دیا جاتا تو پاکستان کا وہ کونسا شہر اور قصبہ ہے جہاں‌لال مسجدیں نہ کھل جاتیں؟ ہر کوئی چند بندوقیں پکڑتا اور اپنے تخلیق کردہ "شرعی" احکام نافذ کرتا پھرتا۔ اور اس کی زد میں‌سب سے زیادہ آپ ہم وہی لوگ آتے جو ان کی حمایت کرتے ہیں۔ جیسے آج مہمند ایجنسی سے خبر آئی ہے کہ پمفلٹ آگئے ہیں‌کہ عید کے دن لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ سیر کے لئے باہر نہ نکلیں وگرنہ بم مار کر اُڑا دئے جائیں‌گے۔ یہ ہے ان جاہلوں‌کا اسلام۔ رسولِ عربی صلعم کی امت سے ان لوگوں کی محبت ہی ان کے ایمان کی ارزانی کی دلیل ہے۔
ذرا دیکھنا جب قرآن پاک کے اوراق گندے نالے سے نکلے تو کیا آپ کا دل اسکو معمولی واقعہ گردانتا ہے۔
قطعا نہیں میرے بھائی مگر یہ بتائیے کہ اس کا ذمہ ان لوگوں‌کے سر نہیں جن کا دعوٰی تو اس قرآن کی خدمت تھا اور انہوں‌نے اسے کشور کشائی کا ایک ذریعہ بنا لیا؟
کیا ان طالب علموں کے جسموں کے ٹکرے ملبے سے برآمد ہوئے تو کیا آپ کا دل اس پر غمناک نہیں ہوتا۔
ہوتا ہے بھائی مگر کیا ان طالب علموں کو، ان کے ماں باپ کو اس بات کی سمجھ نہیں‌تھی کہ یہ کس راستہ پر چل رہے ہیں؟ چھ روز تک ان سب کو باہر آنے کے لئیے کہا جاتا رہا؟ اگر آجاتے تو کیا قیامت آ جاتی؟ کیا یہ کوئی جنگ تھی؟ ہرگز نہیں۔ اگر ان کا کام احتجاج کرنا تھا تو وہ احتجاج تو یہ لوگ رجسٹر کروا چُکے تھے۔ پھر اتنی انتہا تک جانا اور وہ بھی اس شخص کے لئے جو ہر گھنٹہ اپنی بات بدلتا تھا۔ جب آپ گناہ اور بغاوت کی راہ پر چل نکلو میرے بھائی تو آپ طالب نہیں باغی ہوتے ہو۔ طالب کا کیا کام اسلحہ سے؟
کیا لال مسجد کو دوبارہ کھلنے کے بعد ملبے سے ایک لاش کی برآمدگی اور اس لاش کی برآمدگی کے کچھ دیر بعد آبپارہ میں دھماکہ، اور پھر فورا لال مسضد کی غیر معینہ مدت کے لیئے بندش آپ کو سوچنے پر مجبور نہیں کرتا۔ بھائی آپ امریکہ میں ہو میں نے یہ سب اسلام آباد میں رہتے ہوئے محسوس کیا ہے۔
کرتا ہے بھائی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ کہ ہمارے یہاں مذہب کو دہشتگردی کا ایک آلہ بنا لیا گیا ہے۔ ہم لوگ حرام کی کمائی سے حلال گوشت خریدتے ہیں اور مساجد کو چندے دیتے ہیں۔ ہمارے علماء ان چندوں کو بخوشی وصول کر کے ان پیسوں کو استعمال کرتے ہیں۔ بدلہ میں وہ رشوت خوری، چور بازاری، اقرباء پروری، ناجائز منافع خوری، قبضہ گروپ اور ان جیسے "معصوم" جرائم پر تو خطبہ نہیں‌دیتے، ہاں موسیقی، ٹی وی اور ایسے دیگر مضامین پر ان کی زبان بہت چلتی ہے۔ ہمارا "اسلامی" معاشرہ اس حمایت کے عوض مولوی کی ہر اس بات کی تائید کرتا ہے جو ہمارے زندگی میں مداخلت نہ کرے۔ اس مالِ حرام پر جب ایک طالب پلتا ہے تو پیارے بھائی کیا اس کا علم اور کیا اس کا تقوٰی؟ جب جسم میں‌دوڑ ہی حرام کا مال رہا ہو، تو ان سب کی بات ہی کہاں‌آئی۔

اور جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں آپ بھی جانتے ہیں، کہ کیا ہے، ویسے بھی ساجد بھائی نے سزا کو کافی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ لیکن سزا کامعاملہ تو تب آئے جب کوئی گواہ نہ لا سکے۔
ارے بھائی گواہِ شرعی کی بات ہے۔ جس طرح کی شہادت قرآن اور سنت سے اور اجماعِ ائمہ سے ثابت ہے۔ یہاں فاتح بھائی نے میڈیکل ٹیسٹ کی بات کی ہے مگر میرے ناقص فہم کے مطابق جب قرآن، سنت اور ائمہ سے کسی معاملہ کا ثبوت ہو جائے تو اس میں مزید اضافہ ناجائز ہے (زنا بالجبر کا معاملہ البتہ اور ہے)۔ بہرحال یہ ایک علٰیحدہ موضوع ہے۔ فی الحال تو یہی بات کہ جب کوئی کام شریعت کے دعوٰی سے کیا جائے تو اس کا طریق بھی شرعی ہونا چاہئے۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے کہ "اگر کوئی کسی پارسا عورت پر الزام لگائے اور چار آدمی بطورِ گواہ نہ پیش کر سکے تو اس کی سزا اسی دُرے ہیں اور تمام عمر کے لئے اس کی گواہی کبھی بھی معتبر نہ سمجھو"
اب اس صورت حال میں آپ فرمائیے کہ اگر کوئی شخص جو اپنے آپ کو عالمِ قرآن بھی کہتا ہے، کسی بھی عورت پر الزامِ گناہ لگاتا ہے اور پھر یہ اعتراف بھی برسرِ عام کرتا ہے کہ اس کے پاس چار گواہانِ شرعی نہیں ہیں تو اس شخص کی قرآن کے مطابق کیا حیثیت ہے؟ جذباتیت سے ہٹ کر سوچئے۔ اور اب ایک ایسا شخص جس کی گواہی ہی تمام عمر کے لئے از روئے قرآن ساقط ہو گئی، اس کے حکم پر دین کے لئے سر کٹانا چہ معنی دارد؟ کیا ضروری نہیں کہ اگر کوئی بھی دین کے نام پر کوئی اعلان کرے تو اس سے پہلے بات کرنے والے کی پڑتال کر لی جائے بجائے اس کے کہ صرف یہ دیکھا کہ جی صاحب باریش ہیں اور ایک مسجد و مدرسہ پر قابض ہیں لہٰذا سب ٹھیک ہی کہتے ہوں گے؟

میں صرف اتنا کہتا ہوں اگر کسی کو جو گواہان سامنے آئے تھی ان پر شک تھا تو مفتیان اکرام/قاضی صاحبان کے سامنے ان سے پوچھ گچھ کر لیتے، اور اگر وہ گواہ جھوٹے ہوتے یا حد کا الزام ثابت نہ ہوتا تو اس صورت میں شریعہ کے مطابق کاروائی ہو تی۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اب ایک نئی بحث چل پڑی ہے۔
ارے بھائی اس کا اعتراف تو خود غازی صاحب مرحوم نے ٹی وی پروگرام "میرے مطابق" میں کیا تھا کہ ان کے پاس شرعی گواہان موجود نہیں ہیں۔ بات ریکارڈ پر ہے۔

وہاں ان لوگوں کے کچھ اپنے رواج ہیں، جن کی پاسداری بابائے قوم محمد علی جناح نے بھی کی اور ان کو ان کے رواجوں کے مطابق رہنے کی اجازت دی، جس میں ان کے تمام مسئل کا حل جرگہ کرتا ہے، اور یہ پچھلے ساٹھ سالوں سے چل رہا ہے۔
بابائے قوم رحمتہ اللہ علیہ کے فیصلہ اس وقت کے مطابق تھے۔ آج اگر ان کے اپنے رواج کا مطلب یہ ہے کہ اُدھر سے خودکش بمبار تیار ہو کر دُنیا میں ہر طرف اور بالخصوص پاکستان کے اندر پھیل جائیں تو کیا پھر بھی ہم اُسی فیصلہ پر اٹکے رہیں گے؟ دیکھئے بھائی جب آپ کسی ملک کے شہری ہونے کے دعویدار ہیں تو پھر آپ پر اس ملک کا قانون بھی لاگو ہونا چاہئے۔ اب بابائے قوم نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ازبک، تاجک، عرب جو کوئی بھی دہشت گرد ہو اُسے پناہ دے دینا تاکہ وہ تمہاری ہی فوج سے لڑے اور تمہارے گھر میں بیٹھ کر تمہیں ہی آنکھیں دکھائے۔
اس لئے کہ امریکہ کو خطرہ ہے، بجائے ہم امریکہ کو بتائیں کی اس کی پالیسیوں نے دنیا میں اس کے خلاف نفرت کی فضا قائم کی ہے، ہم ان کے اشاروں پر اپنی ہی زمیں بارود و خوں سے رنگین کر رہے ہیں، ہم اپنی ہی زمین پر نفرت کی وہ فصل بو رہے ہیں جو خدا نخواستہ تناور درخت بن گیا تو ...
میرے بھائی امریکہ کو کس سے خطرہ ہے؟ خطرہ تو ہمیں خود ہے۔ امریکہ کا یہ قبائلی کیا بگاڑ لیں گے؟ امریکہ تو چاہتا ہے کہ یہ قبائلی طاقتور ہوں، انارکی پھیلے پاکستان میں، ان کے ذریعے وہ چین میں دہشت گردی کروائے، وسط ایشیا کی ریاستوں میں ہمیشہ دہشت گردی رہے تاکہ یہ خطہ کبھی بھی مغرب کے مفادات کے لئے کوئی خطرہ نہ بن سکے۔ یہ لوگ جو ٹی وی کو حرام کہتے ہیں لیکن لوگوں‌کو مارنے کی ویڈیو بناتے ہیں؟ جن کے نزدیک اسلام صرف ظاہر ہے اور اسلام کا مطلب یہ ہے کہ انسان مادی طور پر چودہ سو صدیاں پیچھے چلا جائے مگر استعمال سیٹلائیٹ فون کرتے ہیں اور گاڑیاں چلاتے ہیں۔ جن کے نزدیک عورتوں کا پڑھنا لکھنا جرم ہے۔ جن کے نزدیک ہنسنا جرم ہے داڑھی منڈوانا جرم ہے۔ ان لوگوں سے امریکہ کو خطرہ ہوگا؟ ارے بھائی یہ لوگ تو امریکہ اور مغرب کے سب سے بڑے ہتھیار ہیں۔ غیر مسلم تو دور کی بات ان لوگوں کے افعال و کردار سے تو مسلمان نعوذ باللہ اسلام سے دور ہو سکتے ہیں اور شاید ہو بھی رہے ہیں۔ اور اگر یہ لوگ طاقت میں آتے ہیں تو بھائی ڈنڈے امریکی بیبیوں کو نہیں میری اور آپکی ماؤں بہنوں کو پڑیں گے۔ داڑھی منڈوانے پر سر عام ذلت امریکیوں کی نہیں میری اور آپکی ہوگی۔ یہ ایک وبا ہے میرے بھائی ایک فتنہ ہے۔ خدا کے لئے سمجھئے۔ یہ ایک ایسا عفریت ہے جس نے اگر ہماری سوسائٹی میں جڑ پکڑ لی تو ہم لوگ موت مانگیں اور وہ بھی ہم سے روٹھ جائے گی۔ اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین
خون کسی قبائلی کا بہے یا میری فوج کے کسی جوان کا گھائو میرے ملک کے سینے پر لگتا ہے، بارود اگر وزیرستان میں پھٹے یا بنوں، سوات، تربیلا غازی میں تو لہو لہان پاکستان ہوتا ہے۔ بارود کے اس دھویں میں دم پورے پاکستان کا گھٹتا ہے۔
بالکل درست کہا میرے بھائی۔ مگر لڑائی قبائل اور فوج کی نہیں‌ہے۔ لڑائی فوج کی ہے ان جہالت کے علمبرداروں سے جو خود کو طالبان کہلاتے ہیں۔ اور چند مفاد پرست قبائلی اس لئے اس کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے مخصوص مفادات مزید محکم ہوتے ہیں۔

آپ یہ اپنے دل سے پوچھو، کیا سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے، کیا ہم اس ملک کے قیام کے حقیقی مقصد کے حصول کے لئیے کوشاں ہیں، یا ہم کسی بیرونی قوت کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ۔
بالکل سب ٹھیک نہیں ہورہا بھائی لیکن قبائلی علاقوں میں طالبان نامی قوت کو بھرپور قوت سے کچلنا ازحد ضروری ہے۔ خدا نہ کرے کہ آپ کے گھر پمفلٹ آئیں کہ اگر عید کے دن خوشی منائی تو مار دئے جاؤ گے۔ نہیں‌بھائی نہیں اس دن سے بچنے کے لئے ہر قربانی جائز ہے۔

کیا ہم شریعت سے اس لئے گریزاں ہیں کے اس سے ہماری نان نہاد روشن خیالی پر ضرب پڑتی ہے۔
بالکل ایسا ہی ہے بھائی لیکن شریعت جرم و سزا نہیں ایک فلاحی مملکت کا تصور ہے۔ روشن خیالی تو ایک بکواس ہے جس نے اپنی موت آپ مر جانا ہے۔ لیکن جس چیز کو شریعت کہہ کے مارکیٹ کیا جارہا ہے اس کا شریعت سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا روشن خیالی کا۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا لیبل لگا کر اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو رہے ہیں۔
اور مولویوں کی حمایت کر کے بھی۔

لیکن یہ یاد رکھنا چاہئیے ایک ذات ہے جو دیکھ رہی ہے، اس نے آٹھ اکتوبر کو اپنی موجودگی کا احساس اس غافل قوم کو دلایا، میں کسی اور کی بات نہیں کرتا اس وقت میں نے بھی بڑے دعوے کیے، میں یہ کروں گا وہ کروں گا ۔ بس اب آئندہ غفلت نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آج میں پھر دنیاوی کاموں میں اتنا مگن ہوں کہ غفلت کی چادر تنی ہوئی ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب پر ہمیشہ اپنی رحمت رکھے۔ ہم اس سے اس کی رحمت اور بخشش کے طلبگار ہیں۔

ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم سے پہلے مسلماں جب عروج پر تھے تو ان کے پاس ایسا کیا تھا جو آج ہمارے پاس نہیں۔ آخر ایسا کیا تھا ہمارے پاس کہ اس قوم میں صلاح الدیں ایوبی، یوسف بن تاشفین، خالد بن ولید، طارق بن زیاد، موسٰی بن نصیر وغیرہ جیسے جری نوجوانان نے جنم لیا۔ ہم کو اپنی صفوں میں میر جعفر، میر صادق کو کھوجنا ہو گا، جو ہم میں ہم جیسا لبادہ اوڑے بیٹھے ہیں اور ہم کو ہی آپس میں لڑا رہے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جو آج ہمیں اُٹھ کر یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہی نہیں۔ یہ لوگ جن کے دلوں میں نہ اللہ کی عزت، نہ اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور نہ آپ صلعم کی امت سے کوئی پیار ہے اور اپنے آپ کو دین کے ٹھیکیدار کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ جو روشن خیالی کے نام پر ہمارے دین اور ہماری اقدار کو ملیامیٹ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ‌ ہیں اور ہمیں ان دونوں سے لڑنا ہے۔ لیکن کوئی بھی لڑائی لڑنے سے پہلے اپنے دشمن کو جاننا بہت ضروری ہے۔

اور آخری بات، کیا ریاست کے اندر ریاست صرف قبائل نے بنائی ہوئی ہے، ان جاگیرداروں کا کیا جو اپنے مزارعوں کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں، جہاں آپ کی پولیس اس وڈیرے کی مرضی کے بنا کچھ نہیں کر سکتی، جہاں آخری مرضی اس جاگیردار کی ہوتی ہے۔ تو کیا خیال ہے آپ کا ان کے خلاف بھی آپریشن سائلنس نہ ہو جائے۔
یقینًا پیارے بھائی بالکل کیوں نہیں۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے۔
 

فاتح

لائبریرین
جیسے آج مہمند ایجنسی سے خبر آئی ہے کہ پمفلٹ آگئے ہیں‌کہ عید کے دن لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ سیر کے لئے باہر نہ نکلیں وگرنہ بم مار کر اُڑا دئے جائیں‌گے۔ یہ ہے ان جاہلوں‌کا اسلام۔ رسولِ عربی صلعم کی امت سے ان لوگوں کی محبت ہی ان کے ایمان کی ارزانی کی دلیل ہے۔

ذرا یہ اصل اندوہناک خبر بھی پڑھ لیجیے جس میں عید کے دن باہر نہ نکلنے والے پمفلٹ تو محض بائی پراڈکٹ ہیں۔:mad:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/10/071012_six_beheaded_as.shtml
 

خرم

محفلین
ارے بھائی ان کا قانون لاقانونیت ہے۔ اس طرح کے کام کرکے یہ لوگ عام عوام پر اپنی دہشت اور دھاک بٹھاتے ہیں تاکہ ان کی من مانی روکنے والا کوئی نہ ہو۔ یہ تو ہے ان کا دین۔ خود ہی مدعی، خود ہی گواہ اور خود ہی منصف۔ اللہ پاکستان کو ان شر پسندوں سے بچائے وگرنہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔
 

خاور بلال

محفلین
میں عزت ماٰب ناقدین سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا لال مسجد سانحے کا کوئی انسانی پہلو بھی ہے؟ یہ ایک سوال ہے۔ امید ہے اس کا جواب کوئی نہیں دے گا۔

ہماری دنیا میں انسانیت کا بہت چرچا ہے۔ انسانی حقوق تو ایک طرف جانوروں کے لیے دردِ دل رکھنے والے بھرے پڑے ہیں۔ یہاں تک کہ ہزاروں این جی اوز اور ان کے لاکھوں کارکنان جانوروں کے تحفظ کیلئے اپنی بے لوث خدمات پیش کرتے ہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی حاضر ہوئے، ان کے پاس چڑیا کے دو ننھے منھے بچے تھے جنہیں پگڑی میں احتیاط سے لپیٹا ہوا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہاں سے لائے ہو۔ فرمایا راستے میں ایک گھونسلے سے اٹھائے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان بچوں کی ماں سخت بیتابی سے سر پر منڈلارہی تھی۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑیا اور اس کے بچوں کی محبت اتنی غالب آئی کہ ان ننھے منھے بچوں کو ان کے گھونسلے میں پہنچانے کی ہدایت کی۔ چڑیا کے ننھے بچے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت! قربان جائیے۔

محبت کا کیا ہے۔ کسی چیز سے بھی ہوسکتی ہے۔ مثلاً ماں سے محبت، اولاد سے محبت، مال سے محبت، پیٹ سے محبت، خیالی پلاؤ سے محبت، جھوٹ سے محبت، دھوکے سے محبت، امریکا سے محبت، پاک فوج سے محبت، کتے بلیوں سے محبت، آنٹی شمیم سے محبت وغیرہ وغیرہ۔ سانحہ لال مسجد نے بہتوں کی قلعی کھول دی ہے، محض ملائیت سے نفرت اور نظریاتی و مسلکی اختلاف کی بنا پر بعض لوگ اس المیے کے انسانی پہلو پر بات کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ محبت کی ایک نئی قسم ہے اور اسے کہتے ہیں نفرت سے محبت۔

یہاں سر سید احمد کا ذکر ہوجائے تو بہتوں کو افاقہ ہوگا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سرسید احمد نے انسانی ہمدردی کے تحت کچھ انگریزوں کی جان بچائی۔ مسلمان غلام تھے اور انگریز ان کے ظالم آقا، لیکن اس کے باوجود سر سید نے انسانی ہمدردی کا پہلو ایجاد کرلیا اور اسکی خوب داد بھی وصول کی۔ اسے کہتے ہیں انسانی ہمدری۔ خیر سے انسانی ہمدردی ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہے لیکن یہ اکثر کتے بلیوں کے حصے میں آتی ہے۔

بہت سے لوگوں کو دن میں چراغ لےکر ایسی چیزیں تلاش کرنے کا مرض ہوتا ہے جو سامنے موجود ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سانحہ لال مسجد کے محرک کے طور پر آنٹی شمیم کا نام لیا جاتا ہے۔ جبکہ آنٹی شمیم صرف ایک ضمنی حوالہ تو ہوسکتی ہیں محرک نہیں۔ اصل محرک لال مسجد کا وہ رویہ ہے جو اس نے “پاک فوج کی ملک دشمنی“ کیخلاف اپنایا۔ اور یہ سامنے کہ بات ہے اسے تلاشنے کے لیے کسی چراغ یا لالٹین کی ضرورت نہیں۔ قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے ناپاک ہاتھوں سے سینکڑوں معصوم جانیں، کئی بستیاں اور مدرسے بربریت کا نشانہ بنے، جس کی مخالفت میں لال مسجد سرِ فہرست تھی۔ لال مسجد کو اس حرکت کا مزہ چکھانے کے لیے پاک فوج نے خاص انوائرمینٹ ترتیب دیا اور لال مسجد کو کرائسس کی جانب دھکیلا، لال مسجد والوں کی ناقص بصیرت اور ڈیڑھ ہشیاری نے ان کرائسس کو جواز فراہم کردیا یوں بھولو پہلوان نے اس کشتی میں تنکا پہلوان کو پچھاڑ دیا۔ تنکا پہلوان نے بالآخر شکست تسلیم کرلی لیکن بھولو پہلوان نے قومی مفاد میں اسے جان سے ماردیا۔ ہماری قوم نے اس کشتی کو خوب انجوائے کیا اس طرح لال مسجد انٹرٹینمنٹ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اللہ اللہ خیر صلا

قبائلی علاقوں کا نام سنتے ہی خون خوان آدم خور قبائل ذہن میں آجاتے ہیں، جو آستینیں چڑھائے معصوم لوگوں کو ڈھونڈرہے ہوں اور کہتے ہوں مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں۔ ہمارے بھولے بھالے لوگ دودھ پیتے بچے ہیں اس لیے وہ اس تصور پر فوراً یقین کرلیتے ہیں۔ ان بھولے بھالے دوھ پیتے بچوں کو سوہن حلوے کے دھوکے میں موتی چور کے لڈو پیش کردیے جائیں تو فوراً پہچان جائیں گے اور لینے سے انکار کردیں گے۔ لیکن حساس معاملات میں سچ پہچاننے کی زحمت نہیں کریں۔ آخر یہ قبائلی ہیں کیا بلا؟

پاکستان وجود میں آیا ہی ہے کہ انڈیا نے آزاد کشمیر اور سرحدی علاقوں میں فوجیں اتاردیں۔ قائدِ اعظم رحمتہ اللہ پاک فوج کو حکم دیتے ہیں کہ بزورقوت اپنے علاقے آزاد کرائے جائیں۔ بجائے حکم کے تعمیل کرنے کے پاک فوج کے انگریز چیف صاف انکار کردیتے ہیں۔ قائدِ اعظم نحیف و کمزور ہیں۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچ چکے ہیں، قدرت نے یہ غم بھی قائدِ اعظم کے حصے میں رکھا تھا۔ بانئ پاکستان کا حکم اور پاک فوج کا انکار۔۔۔ تھو تھو

ایسے میں پاکستان کے غیور قبائلی قائدِ اعظم کی پکار پر لبیک کہتے ہیں۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر کئی گنا بڑے دشمن سے ٹکراجاتے ہیں۔ سروں کی فصل کٹتی ہے، بہادری و شجاعت کی نئی مثال قائم ہوتی ہے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار اور جانثاری کا یہ مظاہرہ انصارِ مدینہ کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ اس طرح مقبوضہ علاقوں بڑا حصہ پاکستان کے حصے میں آجاتا ہے (یہ ٹارزن کی کہانی نہیں)۔ احسان مندی کا تقاضا یہ تھا کہ قبائلیوں کو عقیدت کے نذرانے دیے جاتے، ان کی قدر کی جاتی۔ ان کی حالت بدلی جاتی۔ ان کو پاکستانی معاشرے سے ہم آہنگ اور جدید تعلیم سے روشناس کرایا جاتا۔ جہالت کی رسمیں ختم کرنے میں کردار ادا کیا جاتا، ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔ کچھ نہیں کرسکتے تھے تو برے وقت میں ان کا ساتھ ہی دیا جاتا لیکن معلوم ہے ان وفا کے پیکروں کو پاک فوج نے کیا صلہ دیا؟ ۔۔۔۔ ہم کہ ٹھہرے اجنبی، اتنی مداراتوں کے بعد

قبائلیوں میں بہت سی غلط رسومات اور خامیاں سہی لیکن یاد رہے قبائلی بلا کے مہمان نواز ہوتے ہیں۔ اسلحے سے محبت کرتے ہیں اور ان کی روایت دشمن کو بھی گھر میں پنادہ دیتی ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے محسنوں کو بھول جاتے۔ امریکہ نے پاکستان کے کندھوں پر چڑھ کر افغانستان پر حملہ کردیا، بچے کھچے افغان و عرب مجاہدین نے گوریلا وار کی اسٹریٹیجی بنائی اور قبائلی علاقوں کو بیس کیمپ کے لیے چنا۔ قبائلی ان کو چشم ماروشن دلِ ماشاد کہتے ہیں اور اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں۔ افغانستان کی دفاعی جنگ میں قبائلی امریکا کے مقابلے میں مجاہدین کے مددگار ہیں اور اپنی روایتی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ جان کی قیمت پر بھی مہمان مجاہدین کو پاکستان یا امریکا کے حوالے کر دیں۔ انہیں اپنے انجام کی پروا ہوتی تو کبھی قائدِ اعظم کی اپیل پر پاکستان کی خاطر جان کی بازی نہ لگاتے۔
آگ کو کھیل پتنگوں نے سمجھ رکھا ہے
سب کو انجام کا ڈر ہو یہ ضروری تو نہیں

امن کی بھولی بھالی فاختائیں حیرت سے پوچھتی ہیں کہ یہ قبائلی پاکستان کے دشمن کیوں ہوگئے؟ انہیں کون بتائے کہ جب امریکا نے پاکستان کے کندھوں پر چڑھ کر افغانستان پر چڑھائی کی تو یہ بہترین وقت تھا کہ حکمران اس بات کا ادراک کرتے کہ بات کہاں تک جائیگی۔ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کی تاریخ ساز تحریک برپا ہوئی اور ہم مجاہدین بالخصوص حکمت یار کے پشت پناہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ گلبدین حکمت یار پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی تھے، مگر پھر ہم نے مجاہدین اور حکمت یار کوترک کردیا اور ایک وقت آیا کہ حکمت یار پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ مجاہدین کی جگہ ہم نے طالبان برپا کیے اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے انہیں ایک دن میں تسلیم کرایا۔ نصیر اللہ بابر نے سعودی ذمہ داروں سے کہا؛ طالبان افغانی نہیں ہیں، یہ تو ہمارے بچے ہیں۔ اور پھر ہم نے ایک ٹیلی فون کال پر اپنے ہی بچوں کو خود ذبح کرڈالا۔ سوال یہ ہے کہ امن پسند ہونے کا مطلب کیا stupid ہونا ہے۔ بھولی بھالی معصوم فاختاؤں کو امن کی راگنی ہمیشہ ظالموں کے حق میں ہی کیوں سوجھتی ہے۔ اگر معصومیت کا یہی مفہوم ہے تو اس تناسب سے اپنے جنرل پرویز مشرف تو سرتاپا انتہائی معصوم ہیں۔ وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان اور بلوچستان میں معصوموں کا بہت اچھا بندوبست کررہے ہیں۔ اس سے قبل وہ افغانستان میں معصوم لوگوں کے بندوبست میں امریکا کے ساتھ بھرپور تعاون کرچکے ہیں۔ ظاہر ہے معصوم لوگوں کی پرواہ کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کتنے معصوم ہیں نا یہ لوگ۔ چوں چوں کرتے چوزے بھی ان کی معصومیت کو شرماتے ہیں۔ کتنی معصومیت سے افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے کردیا تھا۔ ان معصوموں نے گذشتہ پانچ سال میں امت کے تصور کے پرخچے اڑادیے۔ امت کے ہزاروں بے گناہ فرزندوں کو پکڑ پکڑ کر کافروں اور مشرکوں کے حوالے کیا، چنانچہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ان معصوموں کی مہربانی ہے۔ یہ معصوم جواز میں کہتے ہیں کہ ہم یہ نہ کرتے تو امریکا ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچادیتا۔ حیرت ہے ان کی معصومیت پر، یہ چغد کے لڈو اتنی معمولی بات نہیں سمجھتے کہ زلزلے کا ایک معمولی جھٹکا آپ کو پتھر کے دور میں پہنچا سکتا ہے۔

امن کی بھولی بھولی، شرمیلی شرمیلی، چھیل چھبیلی چاند سی فاختائیں سبق پڑھا رہی ہیں کہ اسٹیٹ کیخلاف بندوق اٹھانا جرم ہے۔ ہمیں یقین ہے جب اسٹیٹ کی خاطر جان کی بازی لگانے کا وقت آئیگا تو یہ امن کی فاختائیں چارپائیوں کے نیچے چھپتی پھر رہی ہوں گی۔ منہ کے پکوڑوں کی معرکہ آرائی ہوتی ہے تو امن کے شیدائی آگے آگے رہتے ہیں۔ خاص کر آنٹی شمیم جیسوں کا معاملہ ہوتو ان کی انسانیت کا درد جاگ اٹھتا ہے اور دل، جگر، گردے، پتے، کیلجے غرض ہر جگہ درد شروع ہوجاتا ہے اور یہ نچڑی ہوئی گنڈیری کی طرح مریض الموت نظر آتے ہیں لیکن؛
بھولی صورت ہے باتیں ہیں بھولی
منہ میں کچھ ہے مگر دل میں کچھ ہے
لاکھ چہرہ سہی چاند جیسا
دل کے کالوں سے اللہ بچائے

ظاہر ہے ہذیانی انداز میں امن امن پکارنے سے امن قائم نہیں ہوتا۔ امن ظلم سے نجات کے بغیر ممکن نہیں اور ظلم سے نجات کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور قربانیوں کے نام سے امن کے متوالوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے، سکتے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ امن کے یہ شیدائی امن کا ہذیان بکتے بکتے اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ کوئی ان کے باپ کی پگڑی اچھال دے تو یہ فوراً اللہ والے بن جاتے ہیں، عفوودرگزر کی اسلامی تعلیمات یاد آجاتی ہیں۔ توبہ توبہ ، ایسے اللہ والوں سے اللہ بچائے۔ ایسوں کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ جائیں اور جاکر بازارِ حسن کی زینت بنیں۔

جن حکمرانوں کی اطاعت کی باتیں ہورہی ہیں ہم انہیں اچھی طرح جانتے ہیں ان کی اسلام سے وابستگی اسی سے ظاہر ہوتی ہے کہ ساری امت سے لاتعلق ہوکر انہوں نے “سب سے پہلے پاکستان“ کی تھیوری ایجاد کی اور اس کو قوم پر مسلط کردیا۔ قوم کے روشن خیال اس تھیوری کو کورس کے انداز میں دہرانے لگے۔ جس طرح پکے راگ میں ایک ہی آواز کو الگ الگ سروں میں باربار دھرایا جاتا ہے یہاں تک کہ سامعین ہاتھ جوڑ کر معافی نہ مانگ لیں اسی طرح ہماری قوم کے روشن خیال ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر “سب سے پہلے پاکستان“ کا راگ الاپنے لگے۔ سب سے پہلے پاکستان ۔ ۔ سب سے پہلے پاکستان ۔ ۔ سب سے پہلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوم کو اٹھتے بیٹھے “سب سے پہلے پاکستان کی“ جماہیاں آیا کرتی تھیں۔ کھانسی سے پہلے “سب سے پہلے پاکستان“ ، کھانسی کے بعد “سب سے پہلے پاکستان“ یہاں تک کہ کھانے کے بعد ڈکار کی ادائیگی بھی اس طرح ہونے لگی کہ سب سے پہلے پاکستان کے سُر نمایاں ہوتے تھے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے حکمران وہ لوگ ہیں جو دنیا کے جانے مانے دہشت گردوں، قاتلوں، غنڈوں، بھتہ خوروں، لچوں لفنگوں اور قوم پرستوں کے سردار ہزہائی نیس الطاف حسین کو گود میں لیے بیٹھے ہیں۔ یہ طاقت کے نشے میں چور امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں اور امت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ، ان کے ہاتھ مظلوموں کے خون سے آلودہ ہیں۔ ناموسِ دینِ ہاشمی سے ان کو کوئی نسبت نہیں۔ یہ جرنیل خود کو پاکستان کا مائی باپ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی رہی سہی ہڈیاں بھنبھوڑنے والے، قارون کے انڈے بچے تو مفاہمتی آرڈیننس کے ذریعے بخشش پاسکتے ہیں لیکن لال مسجد والوں کے لیے لال بتی؟ سوال یہ ہے کہ یہ انسانوں کا معاشرہ ہے یا نیم حیوانی سطح پر بسر کرنے والے وحشی جنگلیوں کا قبیلہ؟

لال مسجد والے دودھ کے دھلے نہیں ہیں، ان سے ہر طرح کا اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کیا کہ امن کے تمام راستے مسدود کردیے جائیں اور وحشت و درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں انسانوں پر جنگ مسلط کرکے ان کو چھلنی کردیا جائے۔ یہ کوئی کرکٹ میچ تھا کہ بیس اوورز میں کھیل ختم پیسہ ہضم۔ اتنی تمیز تو خلائی مخلوق میں بھی ہوگی کہ حریف بے بس ہوجائے تو اس سے زندگی کا حق نہیں چھینا جاتا۔ لال مسجد کی دھمکی سن کر تو اچھے خاصے مرغے انڈہ دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔

تجربہ ہے کہ بچے کے منہ میں جب تک چوسنی رہتی ہے، وہ نہیں روتا۔ لیکن جیسے ہی چوسنی اسکے منہ سے نکال لی جائے تو بلکنے لگتا ہے۔ ہماری قوم کا بھی یہی حال ہے۔ ہر ایک کے منہ میں ایک چوسنی ٹھونس دی گئی ہے اور پوری قوم، قومی مفاد میں یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ جب تک منہ میں چوسنی موجود ہے ایک چوں بھی نہیں کرنی بھاویں کچھ ہوجاوے۔

یہ گلیوں کے آوارہ و بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ جنکا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مرجانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اُٹھائے
تو انسان سب سر کشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبالیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلادے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلادے

آئیے! کتوں سے انسانیت کا سبق سیکھیں
 
خرم بھائی شاید آپ نے بھی صرف حکومتی موقف ہی پڑھا اور سنا ہے اور حقائق کی تہہ میں جانے کی کوشش نہیں کی۔

لال مسجد کے پولیس کو اغوا کرنے سے پہلے ہماری اعلی پولیس نے جامعہ حفصہ کی دو معلمات کو اغوا کیا تھا اور ہماری ایجنسیوں نے بیس کے قریب طلبا کو اٹھا لیا تھا جو ان بہت سے لوگوں کی طرح آج بھی لا پتہ ہیں جن کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ پولیس اور فوج پر فائرنگ فوج کی طرف سے اندھا دھند فائرنگ کے نیتجے میں مزاحمت کے طور پر کی گئی تھی اور فوج اور پولیس کا اعلی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، اسی پولیس اور فوج نے رات دو بجے کرفیو نافذ کرکے صبح دو نمازیوں کو سیدھی فائرنگ کرکے ہلاک کر ڈالا، اب یہ خبر آپ تک نہیں پہنچی ہوگی کیونکہ یہ خبر وہاں رہنے والے مکینوں نے تو دیکھی مگر کوئی بھی ٹی وی چینل پانچ سو میٹر دور رہے بغیر صرف اور صرف حکومت کی طرف سے آنے والی خبروں پر انحصار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا اعتراف طلعت ، حامد میر ، ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگراموں میں بھی کیا کہ اس دفعہ ہم صحیح رپورٹنگ نہ کرسکے اور حکومتی پروپیگنڈے کا شکار رہے کیونکہ ہمیں آگے جانے کی اجازت نہ تھی۔
ہتھیار ڈال کر باہر آ جانے میں جو امر مانع تھا وہ سب نے دیکھ لیا، ان تمام طلبا کو جیل بھیج دیا گیا اور کچھ ابھی تک جیل میں ہیں حالانکہ یہ رضاکار طور پر باہر آئے جو ہتھیار کے ساتھ ہوتے ان پر حکومت کس کس طرح کے فرضی مقدمات نہ بناتی اس کے لیے تخیل کی بہت بلند پرواز چاہیے۔ انتہا درجے کی سادگی کہوں اسے یا صرف حکومت کی حمایت کہ جانے بچانے کی ذمہ آپ حکومت سے لے کر ایک گروہ پر ڈال رہے ہیں اور جان لے کون رہا تھا ، لال مسجد والے کہ حکومت۔ کیا لوگوں نے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری کا معاہدہ حکومت کے ساتھ کر رکھا ہے یا باقی گروہان کے ساتھ۔ سراسر حکومت کے ظلم اور جبر کو لال مسجد کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں لوگ اور اس ظلم کی حمایت کرتے ہوئے ذرا برابر بھی نہیں لرزتے۔ لال مسجد میں وحشیانہ قتل و غارت کے بعد اب کونسا پاکستان کا شہر اور قصبہ ہے جو محفوظ ہے ، اس دن کے بعد ایک بھی دن گنوا دیں جب فوج پر حملہ نہ ہوا جب پولیس اور فوج کے لوگ ہلاک نہ ہوئے ہوں اور لوگوں کی نفرت میں بے پناہ اضافہ نہ ہوا ہو۔ دوسری بات یہ کہ چند لوگوں کے جانے سے جن میں اکثریت انہی طلبا کی ہے جنہیں حکومت نے جانے بھی دیا ہے کیا قیامت آنی تھی ، کیا ملک کی سیکوریٹی فورسز کام کرنا بند کر دیتی کیا ان لوگوں پر نظر نہیں رکھی جا سکتی تھی جو حکومتی نام نہاد دعووں کے مطابق دہشت گرد تھے ، کیا تمام ایجنسیوں کا کام صرف سیاستدانوں ، ججوں کے فون ٹیپ کرنا اور ان کے ساتھ ڈیل کرنا ہی ہے اور امن امان انہوں نے امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔
سب سے پہلے تو آپ کی یہ بات انتہائی طور پر غلط ہے کہ بندوقیں پکڑ کر شرعی احکام نافذ ہو رہے تھے ، یہ کام اسلام آباد کے وسط میں ہو رہا تھا اور یہاں اسلحہ کا استعمال پاکستان کے کسی بھی شہر سے سب سے کم ہے، لال مسجد روڈ پر ہی آئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر ہے اور چند کلومیٹر پر حکومت کی پوری مشینری ۔ حکومت جان بوجھ کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ایشو بنا رہی تھی اور جب جب حکومت کہیں ذلیل ہوتی تو وہ لال مسجد ایشو کو اجاگر کر دیتی تھی تاکہ لوگوں کی توجہ اس طرف آ جائے اور لال مسجد آپریشن بھی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کیس میں حکومت کی زبردست ہزیمت کے اگلے دن ہی شروع کر دیا گیا تھا اور اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔
سرحد اور اس کے قبائلی علاقوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے اور اس کے لیے بھی کچھ لوگ صرف حکومتی اور حکومتی سوچ رکھنے والے ‘روشن خیال‘ دانشوروں کو سن کر ہی ذہن بنا رہے ہیں بغیر معاملہ کی حقیقت کو دیکھے بغیر۔ یہ مہمند ایجنسی کیا پچھلے چند سال قبل ہی معرض وجود میں آئی ہے اور ساٹھ سال بعد انہیں خیال آیا کہ عید کے دن لوگوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ سیر کے لیے باہر نہ نکلنے دیا جائے وگرنہ انہیں بم مار دیا جائے، سوات ، ٹانک ، باجوڑ ، وزیرستان ، وانا کیا یہ مشرف کے دور میں تازہ تازہ پاکستان میں داخل ہوئے ہیں اور انہوں نے پاکستان کو اپنے اسلام سے مشرف کرنے کا فریضہ اٹھا لیا۔ انتہائی حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ جب طالبان کی باقاعدہ حکومت تھی افغانستان میں اور طالبان کی پرزور حمایت بلکہ انہیں بھرپور طاقت نہ صرف پیپلز پارٹی پہنچایا کرتی تھی بلکہ حکومتی ایجنڈے میں شامل تھا یہ نکتہ۔ ( جو اب دوبارہ یو ٹرن لے کر مخالفت کر رہی ہے ) اس وقت ان علاقوں میں ایسی کوئی کاروائی سننے تک میں نہیں آئی اور نہ کوئی خود کش حملہ ہوا نہ اتنی بڑی تعداد میں طالبان کی حمایت میں ہوتے ہوئے بھی صوبہ سرحد میں ایسی کوئی تحریک چلی مگر امریکہ کے حملے اور مشرف کی حمایت کے بعد خود کش حملوں اور انتہا پسندی کا شور ہی اٹھ گیا اور ہر دوسرا شخص دہشت گرد نظر آنے لگا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ دہشت گرد آسمان سے ٹپک پڑے ہیں اور ساٹھ سال سے اس سنہری موقع کی تلاش میں تھے۔
اب دوسری وجہ پر ذرا غور کر لیں جس پر بہت کم غور کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ افغانستان میں پچھلے سات سال سے امریکہ کی بے رحم کاروائیوں سے لاکھوں لوگ ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں ، پورے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور پھر بھی کنٹرول حاصل نہیں کیا جا سکا ملک پر۔ اب اپنی اس ہزیمت کو چھپانے کے لیے پاکستان پر مسلسل الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور ایک میڈیا وار کے ذریعے اسامہ کو ہر دوسرے دن پاکستان کے کسی شہر میں دکھایا جاتا ہے اور پاکستان کے علاقوں پر کئی بار بمباری کرکے پاکستان کی خودمختاری کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور اب پاکستان سے مسلسل ان علاقوں میں وہی سفاکانہ بمباری اور آپریشن کروایا جا رہا ہے جو وہ خود افغانستان میں برسوں سے کر رہے ہیں۔ مشرف اور بینظیر کے ذریعے انتہا پسندی کا نعرہ بلند کیا ہوا ہے اور صرف اسے ہی مسئلہ بتایا جا رہا ہے تاکہ لوگ بھوک ، تعلیم ، افلاس اور محرومیوں پر آواز نہ اٹھا سکیں اور جسے دل چاہے اسے دہشت گرد قرار دے کر اس کا منہ بند کر دیا جائے۔
قبیلہ محسود جسے ہم نے آج دہشت گرد بنا دیا ہے وہی قبیلہ ہے جس نے قائد اعظم کے احکامات کی تعمیل میں قربانیاں دیتے ہوئے آزاد کشمیر تک رسائی حاصل کی تھی اور آج جو کشمیر آزاد ہے وہ اسی قبیلے کی جرات کی وجہ سے ہے مگر افسوس ہم نے آج انہیں انسان سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے اور ان کو تعلیم ، فراست اور سیاسی عمل سے اپنے ساتھ شامل کرنے کی بجائے گولی اور بارود سے انہیں درست کرنے کا عزم کر لیا ہے ۔ یہ خام خیالی دل سے نکال دیں کہ طاقت کے ذریعے ہم انہیں سیدھا کر لیں گے ، تاج برطانیہ نے بھی ان سے صلح ہی کی تھی اور امریکہ بھی ان سے جیت نہیں سکا اور ہمیں بھی ان سے صلح ہی کرنی ہوگی چاہے کتنی ہی انسانی جانوں کی قیمت پر ہو۔

خدارا انسانوں کو انسان بھی سمجھیے ، انہیں صرف دہشت گرد ، انتہا پسند اور مولوی سمجھنا چھوڑ کر ورنہ وہ اس رویے میں آپ سے کہیں زیادہ متشدد ہیں اور اس عمل سے وہ یہی سمجھیں گے کہ یہ کلیہ قابل عمل ہے کہ طاقت سے منوایا جائے اپنے آپ کو ، آپ بھی طاقت استعمال کر رہے ہیں وہ بھی کریں گے جبکہ ہم تو خود کو تعلیم یافتہ ، بردبار ، تحمل مزاج اور معاملہ فہم بھی سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ طرز عمل ہمارا انہی جیسا ہے ۔۔۔۔۔طاقت کا اندھا استعمال۔
 

ساجد

محفلین
محب ،
قبائلیوں کی پاکستان سے محبت اور قربانیوں پر شبہ نہیں ہے ۔ میں نے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں کچھ وقت گزارا ہے اس لئیے ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ ان قبائلیوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک رکھا گیا ۔ ان کے علاقوں میں تعلیم ، روزگار اور صحت کی سہولتوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سرحد پر آباد ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بیرونی افکار کا شکار ہو گئے۔ لیکن سہولتوں اور تعلیم کی عدم فراہمی میں سب سے زیادہ قصور ان کے اپنے ملکوں ، مولویوں اور سرداروں کا ہے۔ یہ ایک مثلث ہے جو قبائلیوں کو کنڈلی مار کر بیٹھی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جہاں تعلیم عام ہو جاتی ہے وہاں قبائلی رسم و رواج رخصت ہو جاتے ہیں ، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان سرداروں کی سرداریوں اور ملکوں کی ملوکیت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ تو یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جب بھی گورنمنٹ صوبہ سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں یا بلوچستان میں سکولوں کی تعمیر شروع کرتی ہے تو اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔ ان سکولوں کی عمارتوں کو کیوں گرایا جاتا ہے اور سکولوں کی تعلیم کو کفر کی تعلیم کا نام کیوں دے دیا جاتا ہے؟ اس کی بجائے اس مثلث کا ایک کونہ مولوی صاحبان ان کو اپنے ذاتی مدرسوں کی طرف کیوں کھینچتے ہیں؟۔ اور پھر ان مدرسوں کو رجسٹر کروانے سے کیوں انکاری ہیں؟ اور کیا یہ اتفاق ہے کہ ان مدرسوں کے فارغ التحصیل طالب علم اختلاف کرنے والوں کو موت سے کم کی سزا پر راضی ہی نہیں ہوتے؟
اب ایک مولوی صاحبان پر توقع تھی کہ ان کا بہت اثر و رسوخ ہے قبائل میں لیکن انہوں نے قرآن اور سنت کی تعلیم عام کر کے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف کفر اور شرک کے فتوے جاری کرنے اور قبائلیوں کی لڑاکا جبلت کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے استعمال کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشن بنائے گئے فرقہ بازی پھیلانے کے لئیے۔ دوسروں کی مسجدوں اور مزاروں پر قبضے کئیے گئے۔ لڑکیوں کو تعلیم سے روک دیا گیا۔
سرداروں کو اپنے مخالفوں پر دھاک بٹھانے کے لئیے اپنی ذاتی افواج کے لئیے تازہ خون کی ضرورت رہتی ہے اور سرداروں نے بھی ان قبائلیوں سے خون کا خراج وصول کیا۔
ملکوں نے ایک طرف حکومتوں کا ساتھ دے کر موجیں لوٹیں تو دوسری طرف اپنی ملوکیت کے لئیے بادشاہوں کی طرز پر اپنی حویلیوں اور قلعوں کی رونق بنانے کے لئیے ان کو تعلیم کی بجائے بندوق سے روشناس کروایا۔
محب بھائی ، ہم کس کس کو الزام دیں ۔ کون ہے کہ جس نے ان قبائلیوں کا استحصال نہیں کیا؟؟؟ ذرا بتائیے تو سہی کہ کیا ان کے اپنوں نے بھی ان کو ایک اچھی اور پر امن زندگی بسر کرنے کا کبھی موقع دیا؟؟؟ ان کے سادہ لوح نوجوانوں کے ذہنوں میں شروع ہی سے نفرت اور خونخواری کا زہر نہ تو حکومتِ پاکستان نے بھرا اور نہ ہی پاک آرمی نے۔ یہ اسی مثلث کا کمال ہے کہ جو روزِ اول سے لے کر آج تک ان کو اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرتی اآئی ہے اور ابھی بھی اپنے کام میں مشغول ہے۔
آج کا عام قبائلی تو اتنا بے بس ہے کہ وہ اپنی آواز بھی ہم تک نہیں پہنچا سکتا۔ آپ پاکستان میں ہیں جائیے اور دیکھئیے کہ ان بیچاروں کا کیا حال ہے۔ کسی کا جوان بیٹا مر جاتا ہے تو کسی کا شیرخوار منوں مٹی تلے جا سوتا ہے ۔ حکومت کہتی ہے کہ طالبان کی گولی کا نشانہ بنا اور طالبان کہتے ہیں کہ فوج نے قتل کیا ۔ ان کا یہ ڈرامہ ان مسکینوں کے لئیے کس قدر جان لیوا ہوتا ہے کیا ہم نے کبھی اس طرف غور کیا؟؟؟
محب ، یہ جاہل خونی ، قبائلیوں کے نام پہ دھبہ ہیں ۔ ان کا کوئی مذہب نہیں۔ یہ شیطان کے پیرو کار ہیں۔ ازبکستان ، تاجکستان اور افغانستان سے آنے والوں نے پاکستانی عوام اور ان قبائلیوں کی روایتی مہمان نوازی کا صلہ یہ دیا کہ ان کو ریاست سے بغاوت پر اکسا دیا اور افغانستان میں امریکی مداخلت کی مدافعت کی آڑھ میں پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا دیا کہ دنیا میں اب کوئی ملک ان خونیوں کو پناہ نہیں دیتا تھا۔
میں کہتا ہوں کہ قبائلی آج بھی محبِ وطن ہے وہ پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، پٹھان اور کشمیری سے بھی بڑھ کر پاکستان کا وفادار ہے لیکن اس خونیوں نے ان کو پاک آرمی کے سامنے کھڑا کر دیا کہ اب ان کا مفاد اسی میں ہے۔ وجہ سادہ سی ہے کہ یہ قاتل اور لٹیرے اسلحے کی تجارت اور غیر قانونی سمگلنگ میں ملوث ہیں اور پاک آرمی کی چوکیاں ان کے کاروبار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ مزید یہ کہ غیر ملکی تخریب کاروں کو پناہ دینے میں اب ان لوگوں کو مشکل پیش آ رہی ہے اس لئیے بھی فوج کو اپنے علاقے سے بے دخل کرنا ان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
یہ دہشت گردوں کے گروہ ہیں جو لوگوں کو قتل کرنے ، دھمکیاں دینے ، گلے کاٹنے ، خود کش حملے کرنے اور فوج سے تصادم میں مصروف ہیں۔ عام قبائلی کا نہ تو ان سے کوئی واسطہ ہے اور نہ کچھ لینا دینا۔
آپ کی بات ہی آگے بڑھاؤں گا کہ 60 سال تک تو کوئی تخریب کار نہ تھا پھر اچانک ہی اتنے سارے تخریب کار کہاں سے آ گئے ۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں سوچئیے تو آپ جان جائیں گے کہ ان کی برین واشنگ کی گئی ہے ۔ اور اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ مذہب کو استعمال کیا جائے تا کہ اس ڈرامے کے اصل خالق کی طرف کسی کی توجہ نہ ہونے پائے اور یہ اصل خالق انکل سام ہی ہے جو پاکستان کے عوام اور فوج کو آمنے سامنے تصادم کروانے کے بعد اپنے نیو ورلڈ آرڈر کا اطلاق یہاں کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ بات اس کو معلوم ہے کہ یہ قبائلی پاک آرمی سے بھی زیادہ سخت جان ہیں اس لئیے اس نے پہلا وار اسی جگہ کر دیا ہے کہ جہاں سے ہمیں زیادہ سے زیادہ کمزور کیا جا سکتا ہے۔ عراق اور افغانستان میں وہ اسی حکمتِ عملی کے تحت گھسا تھا اور اب وہ یہاں بھی یہی کھیل کھیل رہا ہے لیکن ہم ایک دوسرے کا گریبان نوچ رہے ہیں کہ قصور وار کون ہے۔
آج قبائلی دونوں طرف سے مارے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو ان کے اپنے ہیں جو ان پر ترقی کے دروازے بند کئیے ہوئے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کہ جو ان پر فضائی حملے کر کے ان کی بستیاں اجاڑ رہا ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والے ہر طوفان کا رخ ایک شیطانی طریقے سے پاک آرمی کی طرف موڑ رہا ہے۔
ہم کو اس موقع پر بہت سمجھ سے کام لینا ہے اور کسی صورت میں بھی ان لوگوں کے آگے نہیں جھکنا کہ جو قتل و غارت اور لاقانونیت کے علمبردار ہیں۔ ایک بار یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو پھر آپ بھول جائیں کہ پاکستان کا کوئی کونہ ان کی خونخواری سے محفوظ رہے گا۔
 
سید ابرار صاحب اور ان احباب کو جنہوں نے حقیقت کو سمجھا اور بات کی مدینہ سے دعا ہے

سید ابرار صاحب کو خصوصی سلام

انڈیا کے مسلمانوں کو سلام

باقی جنہوں نے ادھر ادھر کی ماری ہے اور موضوع سے ہٹ کر بات کی ہے انکو خدا ہدایت دے

اور ہمیں بھی آمین
 
Top