سیرت النبیؐ

عرفان سعید

محفلین
(پچھلے سال دسمبر میں یہاں فن لینڈ میں سیرت النبیؐ پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ خاکسار کو زندگی میں پہلی بار کسی پروگرام کے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سونپے گئے۔ پروگرام کے ابتدائی حصے کے لیے جو کچھ رقم کیا، اسے شریکِ محفل کرنے کی جسارت کر رہا ہوں)

ابتدا ہے اس ذاتِ باری تعالیٰ کے بابرکت نام سے، جو تمام جہانوں کا خالق و مالک ہے۔ جس کی بے پناہ رحمت نے ہمارے گناہوں کو ڈھانپ رکھا ہے۔ جس کی لاانتہا شفقت نے ہماری کوتاہیوں کو چھپا رکھا ہے۔



معزز حاضرین و سامعین! السلام علیکم ورحمۃ اللہ

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر اپنے آخری اور ابدی پیغام کو قران مجید کی صورت میں نازل کیا تو اس لازوال و باکمال کتاب کا آغاز ان الفاظ میں فرمایا۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ۙ

تمام تعریف و توصیف، ہر طرح کی حمد و ثنا، سب تحسین و ستائش صرف اس ذات کو زیبا ہے، جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ رب العالمین ہے۔یہی رب العالمین سورۃ الانشراح میں کائنات کے ذرے ذرے پر یہ عظیم الشان حقیقت افشا کر رہا ہے۔

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ۝ۭ

ریت کے ایک ایک ذرے پر، بارش کی ایک ایک بوند پر، سمندروں کے ایک ایک قطرے پر، آسمان کے ہر ایک ستارے پر، درختوں کے ہر ایک پتے پر، گلستانوں کے ہر ایک پھول پر، کائنات کی تمام مخلوقات پر، دنیا کے تمام انسانوں پر، عرش کے تمام فرشتوں پر، رب العالمین کی طرف سے یہ اعلان ہے۔

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ۝ۭ

میں اس کائنات میں ایک ایسی ہستی کو جلوہ گر کروں گا، جن کا ذکر کائنات کی ہر شے سے بلند کر دوں گا۔ اُن کا ذکر کائنات کی تمام حقیقتوں سے بڑی حقیقت، تمام صداقتوں سے بڑی صداقت، تمام عظمتوں سے بڑی عظمت قرار پائے گا۔

یہ اعلان اپنی جگہ، ایک احساس بھی ہے اور ایک نصیحت بھی، ایک امتیاز بھی ہے اور ایک شریعت بھی ،ایک فلسفہ بھی ہے اور ایک حقیقت بھی ، ایک تنبیہ بھی ہے اور ایک ہدایت بھی ، ایک پیغام بھی اور زندگی کی غایت بھی ، ایک بشارت بھی اور رب کی عنایت بھی ، ایک قانون بھی ہے اور ایک حکایت بھی ، ایک دستور بھی ہے اور ایک روایت بھی ، ایک اعلان بھی ہے اور ایک آیت بھی۔

وہ عظیم المرتبت ہستی جو ورفعنا لک ذکرک کے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہوئی، وہ کون ہے؟
یہ وہ ہستی ہے، جو عبد اللہ کا لختِ جگر، آمنہ کا لعل و گہر، آغوشِ حلیمہ کی زینت، عبدالمطلب کی تمکنت ، ابو طالب کی آنکھوں کا تارا، خدیجۃ الکبریٰ کا پیارا ، سرزمینِ عرب کا ماہتاب، دنیائے علم کا آفتاب ، مکہ کا ہادیٔ نام دار، مدینہ کا بے لوث تاجدار ہے۔
وہ ہستی جو، فخرِ افلاک و زمیں، رفعتِ عرش بریں،سبز گنبد کے مکیں، صادق و امیں، پیغمبرِ آخریں، خاتم المرسلیں، روحِ قرآنِ مبیں، ذکرِ رب العالمیں، رحمۃ اللعالمیں ہیں۔

یہ وہ بلند و بالا ہستی ہیں، جوتجلیٔ عرش کا اس زمین پر ظہور ہیں ، جن کے اقوال ہماری زندگی کا دستور ہیں ، جن کی یاد سے ہمارے دل معمور ہیں ، جو آپ کے اور میرے دلوں کا سرور ہیں ، جو آپ کی اور میری آنکھوں کا نور ہیں ، جو آپ کے اور میرے پیارے حضور،محمد الرسول اللہﷺ ہیں۔

خوش قسمت ہیں ہم کہ رسولِ مصطفیؐ کے ماننے والے ہیں، جاننے والے ہیں اور چاہنے والے ہیں
خوش قسمت ہیں ہم کہ سرکارِ دو عالمؐ پر ایمان رکھتے ہیں ، جن پر ایمان، دین کا بنیادی اصول ہے، جن کی تعلیمات کے بغیر زندگی فضول ہے، جن پر درود و سلام فرشتوں کا معمول ہے، جن کے ذکر ہی سے نماز مقبول ہے، جن کی یاد میں جنت کا حصول ہے۔

خوش قسمت ہیں ہم کہ اس رسولؐ کے امتی ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سورۃ الاحزاب میں یہ فرما رہا ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِ۔۔يْمًا 56؀

جب انسان اس آیت کو سنتا ہے تو اس کے افکار کا جہاں لرز اٹھتا ہے، تصورات کے پہاڑ کانپ اٹھتے ہیں، احساسات کے سمندر میں تلاطم برپا ہو جاتا ہے، تخیل کی پرواز تھم جاتی ہے، سوچ ، عقل ، فکر عاجز آ جاتی ہے، اور دل بے اختیار عقیدت اور محبت کے جذبات سے لبریز ہو کر، علامہ اقبال کی زبان سے پکار اٹھتا ہے۔

لوح بھی تو ، قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب

خوش قسمت ہیں ہم کہ آج اُس رسولِ مصطفیٰ، احمدِ مجتبیٰ، سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، شاہِ دو جہاں، پیغمبرِ آخرِ الزماں کی یاد میں یہاں جمع ہوئے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فورم پر سیرت سے متعلق ایک زمرہ موجود ہے۔ بہتر ہے کہ ایسی تحاریر وہاں ہی شئیر کی جائیں۔
 
Top