اصلاح برائے غزل

السلام علیکم۔ امید ہے کہ آپ سب دوست خیریت سے ہونگے۔
یہ میری پہلی غزل اور پہلے فارم پر پہلی پوسٹ ہے۔
تمام اساتذہ کرام اور احباب سے تنقید و تبصرے کی درخواست ہے۔​
سدا وہ اٹھی آسماں جل گیا ہے
یہ کس کا فغانِ نہاں جل گیا ہے

کَلَمحِ البصر* میں ہے وہ راز مضمر
خیالِ زمان و مکاں جل گیا ہے

جو تفسیر والیل کی پوچھتے ہو
قمر تو قمر کہکشاں جل گیا ہے

میں حبِ علی میں یہاں جل رہا ہوں
وہ بغضِ علی میں وہاں جل گیا ہے

کہاں مر گئے وہ وفاؤں کے پیکر
وہ عہدِ وفا اب کہاں جل گیا ہے

یہ کس شوخ نے لکھ دی مدحہ سرائی
ادب جل گیا ہے بیاں جل گیا ہے

گریبانِ حافظ میں کیا ڈھونڈھتے ہو
کہ دل جس جگہ تھا وہاں جل گیا ہے
* کلمح البصر میں قرآنی آیتِ مبارکہ کی طرف اشارہ ہے۔ سورت النحل آیت 77 میں اللہ پاک فرماتے ہیں: ’’قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اس قدر تیزی سے ہوگا جیسے آنکھ کا جھپکنا (کلمح البصر) یا ا س سے بھی تیز تر‘‘۔کلمح البصر کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ازل سے ابد تک کا وقت خدا کے لیے پلک جھپکنے جیسا ہے.

تنقید و تبصرے سے نواز کر اصلاح فرما دیں۔ جزاک اللہ خیر۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں فغاں کا جلنا سمجھ میں نہیں آیا۔
کلمح البصر کا غلط تلفظ یعنی غلط تقطیع ہے اس لیے بحر سے خارج ہے۔
مدحہ کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ محض مدح سرائی درست ہے، جو یہاں اس بحر میں نہیں آ سکتی۔
بیان کا جلنا بھی سمجھ میں نہیں آ تا۔
لیکن یہ معمولی غلطیاں ہیں، مجھے مبارکباد پہلے دینی تھی کہ پہلی غزل ہی خاصی پختہ لکھی ہے۔ باقی بہتری تو دھیرے دھیرے آئے گی۔ اور میرے خیال میں کبہت کم وقت میں ان شاء اللہ۔
 
جزاک اللہ خیر سر۔
- ’’مطلع میں فغاں کا جلنا سمجھ میں نہیں آیا‘‘۔
اسے اس تصور میں کسی کی چھپی ہوئی فریاد کا جل جانا مراد لیا ہے۔ میں اس پر نظرِ ثانی کروں گا انشاء اللہ۔

- ’’کلمح البصر کا غلط تلفظ یعنی غلط تقطیع ہے اس لیے بحر سے خارج ہے۔‘‘
کلمح البصر کو ’’كَلَمْحِ الْبَصَر‘‘ یوں لکھا جاتا ہے جو کہ میرے خیال سے تقطیع کے اعتبار سے بحر میں ہی ہے۔

- ’’مدحہ کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ محض مدح سرائی درست ہے، جو یہاں اس بحر میں نہیں آ سکتی۔‘‘
جزاک اللہ خیر۔ آئندہ اس کا خیال رکھوں گا۔

- ’’بیان کا جلنا بھی سمجھ میں نہیں آ تا۔‘‘
اس مصرع میں جلنا بمعنی حسد استعمال کیا ہے۔ کیا یہ استعمال درست ہے؟

’’لیکن یہ معمولی غلطیاں ہیں، مجھے مبارکباد پہلے دینی تھی کہ پہلی غزل ہی خاصی پختہ لکھی ہے۔ باقی بہتری تو دھیرے دھیرے آئے گی۔ اور میرے خیال میں بہت کم وقت میں ان شاء اللہ۔‘‘
وقت دینے کا اور حوصلہ افزائی کا شکریہ۔ آپ سے مزید رہنمائی کی ضرورت رہے گی۔
 
آپ احباب سے ’’قمر تو قمر کہکشاں جل گیا ہے‘‘ سے متعلق ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا شاعری میں ضرورت کے تحت اس طرح کبھی مؤنث کو مذکر کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو اس کے قواعد پر مطلع فرما دیں؟ جزاک اللہ خیر
 

الف عین

لائبریرین
بصر میں صاد پر جزم ہی ہے نا؟ میں نے اسی طرح تقطیع کر لے دیکھا تھا۔ اور اگر بَ صَ ر صحیح ہے تو یہ میری غلطی تھی۔
کہکشاں کو مذکر باندھنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ کیا یہ شعر کہنے ہی کی ضرورت تھی جو شعری ضرورت کا بہانہ بنایا جائے!!!!
 
Top