حسان خان

لائبریرین
امیر علی شیر نوائی اپنے فارسی قصیدے 'تُحفة الافکار' میں اپنے اُستاد و مرشد عبدالرحمٰن جامی کی مدح میں فرماتے ہیں:
بِکرِ معنی حالتِ جان‌بخش اگر زادش چه دور

شد نبیره عیسیٰ آن کس را، که مریم دُختر است
(امیر علی‌شیر نوایی)
اگر اُن کی دوشیزۂ معنی نے حالتِ جاں بخش کو متولّد کیا ہے تو بعید نہیں ہے؛ جس شخص کی دُختر مریم ہے، اُس کا نواسہ عیسیٰ تھا۔

تشریح: باکِرہ اُس لڑکی کو کہتے ہیں جو دوشیزہ ہو اور جس نے ہنوز ازدواج نہ کیا ہو، اِسی سبب سے حضرتِ مریم (ع) کو باکِرہ پکارا جاتا ہے۔ از طرفِ دیگر، اُن کے پسر حضرتِ عیسیٰ (ع) اپنی معجزاتی حیات بخشی کے لیے مشہور ہیں۔ امیر علی شیر نوائی نے مندرجۂ بالا بیت میں عبدالرحمٰن جامی کے قلم و دہن سے نکلنے والے معنی و مضمون کو جامی کی دُختر تصوّر کیا ہے اور اُس کو اُس کی تازگی کے باعث مریمِ باکِرہ سے تشبیہ دی ہے اور اُس معنی و مضمون کو خواننے یا سننے کے بعد قاری و سامع میں ظاہر ہونے والے زندگی کے آثار کو کنایتاً حضرتِ مسیح بتایا ہے۔ اور پھر کہا ہے کہ اگر جامی کے معانی سے حالتِ جاں بخش وجود میں آتی ہے تو یہ کوئی باعثِ تعجب شے نہیں ہے، کیونکہ اگر کسی شخص کی دُختر مریم ہو تو یقیناً وہ عیسیٰ ہی کو متولدّ کرے گی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فانی اگرچه جامی و شیرازی‌ات خوش است
نتْوان ز دست داد هم آیینِ دهلوی
(امیر علی‌شیر نوایی فانی)
اے فانی! اگرچہ تمہیں جامی و [حافظِ] شیرازی پسند ہیں [اور اُن کی طرزِ سخن زیبا و دل پذیر ہے؛ لیکن امیر خسرو] دہلوی کی روش کو بھی دست سے رہا نہیں کیا جا سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ذوقِ صوفی‌گری ار هست تو را
باید از خویش نظر بست تو را
(عبدالرحمٰن جامی)
اگر تمہیں تصوف و صوفی گری کا ذوق ہے تو تمہیں خود [کی ذات] سے نظر بند کرنا لازم ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اگر در عُمرِ خود روزی دمی بی او برآوردم
از آن وقت و از آن ساعت ز عُمرِ خود پشیمانم
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اگر میں نے اپنی عمر میں کسی روز اُس کے بغیر کوئی نَفَس کھینچا تھا تو میں اُس وقت اور اُس ساعت سے اپنی عُمر سے پشیمان ہوں۔
× نَفَس = سانس
 

حسان خان

لائبریرین
وفا را در دلِ خوبان اثر گر بودی، ای فانی
نبودی یار از آنِ بی‌وفایان، زانِ من بودی
(امیر علی‌شیر نوایی فانی)

اے فانی! اگر خُوبوں کے دل میں وفا کا اثر ہوتا تو یار بے وفاؤں کا نہیں ہوتا، [بلکہ] میرا ہوتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واقف ترا بہ تربتِ مجنوں‌ گذر فتاد
صد شکر یافت چشمِ تو جائے گریستن


واقف لاہوری (بٹالوی)

واقف، اتفاق سے تیرا گذر مجنوں‌ کی قبر پر ہوا، صد شکر کہ تیری آنکھوں کو گریہ کرنے کی جگہ مل گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
رفتی و دل از غمت فگار است هنوز
وز شوقِ تو چشمم اشک‌بار است هنوز
وا گَرد که جان ز هجر زار است هنوز
باز آی که دل در انتظار است هنوز
(امیر علی‌شیر نوایی)

تم چلے گئے اور دل تمہارے غم سے ہنوز زخمی ہے؛ اور تمہارے اشتیاق سے میری چشم ہنوز اشک بار ہے؛ لَوٹ جاؤ کہ جان ہجر سے ہنوز زار ہے؛ واپس آ جاؤ کہ دل ہنوز انتظار میں ہے۔
 
فانی اگرچه جامی و شیرازی‌ات خوش است
نتْوان ز دست داد هم آیینِ دهلوی
(امیر علی‌شیر نوایی فانی)
اے فانی! اگرچہ تمہیں جامی و [حافظِ] شیرازی پسند ہیں [اور اُن کی طرزِ سخن زیبا و دل پذیر ہے؛ لیکن امیر خسرو] دہلوی کی روش کو بھی دست سے رہا نہیں کیا جا سکتا۔

خوب است
 
رباعی
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائی من پذیر
ور حساب مرا تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہان بگیر
- علامہ محمد اقبال (رحمة الله علیه)
 
اگرم حیات بخشی و گرم هلاک خواهی
سر بندگی به حکمت بنہم که پادشاهی

- شیخ سعدی شیرازی

ترجمه:
چاہے حیات بخشدو اور دل چاہے تو ہلاک کر دو

تیری حکمت پہ سر تسلیم خم ہے کہ تم بادشاہ ہو
 
نہ شود نصب دشمن، که شود ہلاک تیغت

سر دوستان سلامت، که تو خنجر آزمائی

- سیّدی فخرالدین عراقی (قدس سره)

ترجمه:


کسی دشمن ک انصیب کہاں کہ تیری تلوار سے ہلاک ہو

دوستوں کے سر سلامت رہیں تو خنجر آزمائی جاری رکھ
 

حسان خان

لائبریرین
این که گه مغرورِ زُهدم، گاه رندِ میکده
از تلوُّن‌هایِ حالِ خویش حیرت می‌کنم
(امیر علی‌شیر نوایی)
یہ کہ میں گاہے [اپنے] زُہد پر مغرور ہوتا ہوں، [اور] گاہے رندِ میکدہ [ہوتا ہوں]
میں اپنے حال کی [اِس] گوناگونیوں اور تبدیلیوں پر حیرت کرتا ہوں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
امیر علی شیر نوائی اپنے اُستاد و مرشد عبدالرحمٰن جامی کی وفات پر کہے گئے مرثیے میں کہتے ہیں:
خامه رو کرده سیه، سینهٔ خود را زده چاک
که خداوندِ من آن بر عُلَما اعلَم کُو؟

(امیر علی‌شیر نوایی)
قلم نے [خود کے] چہرے کو سیاہ کر کے خود کے سینے کو چاک کر دیا ہے کہ وہ میرا مالک جو اعلم العُلَماء (یعنی عالِموں میں عالِم ترین) تھا، کہاں ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به راهِ عشق اگر مشکلی فِتد فانی
ز روحِ حافظ و معنیِ جامی‌اش جویم
(امیر علی‌شیر نوایی فانی)
اے فانی! اگر راہِ عشق میں کوئی مشکل پیش آتی ہے تو میں [اُس کا حل] حافظِ شیرازی کی روح اور عبدالرحمٰن جامی کے باطن و معنی سے تلاش کرتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی کی ایک بیت پر امیر علی شیر نوائی کی تسدیس:
کردمی در خاکِ کویِ دوست مأوا کاشکی
سُودمی رخسارِ خود بر خاکِ آن پا کاشکی
آمدی بیرون ز کوی آن سَرْوْ‌بالا کاشکی
بُرقع افکندی ز رویِ عالم‌آرا کاشکی
دیدمی دیدارِ آن دل‌دارِ رعنا کاشکی
دیده روشن کردمی زان رویِ زیبا کاشکی

(امیر علی‌شیر نوایی)

اے کاش! میں خاکِ کوئے دوست میں [اپنا] مسکن بناتا؛ اے کاش! میں خود کے رُخسار کو اُس پا کی خاک پر مَلتا؛ اے کاش! وہ [یارِ] سرو قد [اپنے] کوچے سے بیرون آتا؛ اے کاش! وہ [اپنے] چہرۂ عالَم آرا سے بُرقع پھینک دیتا؛ اے کاش! میں اُس دلدارِ رعنا کا دیدار دیکھتا! اے کاش! میں اُس چہرۂ زیبا سے [اپنی] چشم روشن کرتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اے ز جاں خوشتر، بیا تا بر تو افشانم رواں
نزدِ تو مُردن بہ از تو دُور و حیراں زیستن


شیخ فخرالدین عراقیؒ

اے جان سے بھی زیادہ عزیز، آ کہ تجھ پر میں‌ اپنی جان قربان کر دوں کہ تیرے نزدیک ہو کر مرنا اِس سے بہتر ہے کہ تجھ سے دُور رہ کر حیران و پریشان جیا جائے۔
 
این که گه مغرورِ زُهدم، گاه رندِ میکده
از تلوُّن‌هایِ حالِ خویش حیرت می‌کنم
(امیر علی‌شیر نوایی)
یہ کہ میں گاہے [اپنے] زُہد پر مغرور ہوتا ہوں، [اور] گاہے رندِ میکدہ [ہوتا ہوں]
میں اپنے حال کی اِس گوناگونیوں اور تبدیلیوں پر حیرت کرتا ہوں
لا جواب انتخاب ہے آپ کا
 
Top