تم اک گورکھ دھندا ہو ۔ ناز خیالوی

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو

ہر ذرے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل میں کیسا ہے تو کیا ہے
تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دل میں دیکھا ہے
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
تم اک گورکھ دھندہ ہو

کوئی صف میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے
عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو

حیران ہوں
میں حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو ، کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بت ، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
اصل میں جو مل گیا ، لا الہ کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
فلسفی کو بحث میں اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
چھپتے نہیں ہو ، سامنے آتے نہیں ہو تم
جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبد و حرم ، یہ کلیسا و دہر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
بس تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو

نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی ، بن کے تجلی سے جلا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو “مہینوال” تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو​
ناز خیالوی​
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب شراکت
تم اک گورکھ دھندا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
 
"تم اک گورکھ دھندہ ہو"
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جَا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ذرے میں کس شان سے تُو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے تُو کیا ہے
تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تُو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دِل میں دیکھا ہے
ڈھونڈے نہیں ملتے ہو، نا ڈھونڈے سے کہیں تم
اور پھر یہ تماشا ہے کہ جہاں ہم ہیں وہیں تم
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
حرم و دیر میں ہے جلوۂ پُر فن تیرا
دو گھروں کا ہے چراغِ رُخِ روشن تیرا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جو اُلفت میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بُت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹُوٹے ہوئے دِل میں ملا ہے
عَدم بن کر کہیں تُو چھپ گیا ہے
کہیں تُو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تُو، تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تُو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تُو
تو پھر میں کیسے سمجھا تُو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو ، کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بُت ، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
عقل میں جو گھِر گیا ، لا انتہا کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
"فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں"
پتہ یُوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا
تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹُوٹے ہوئے دِل میں
"جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خُدا کیا ہے"
تم اک گورکھ دھندہ ہو
چھُپتے نہیں ہو ، سامنے آتے نہیں ہو تم
جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبد و حرم ، یہ کلیسا و دیر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
تم اک گورکھ دھندہ ہو
دل پہ حیرت نے عجب رنگ جما رکھا ہے
ایک اُلجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکر کیا ہے
کھیل کیا تم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے
روح کو جسم کے پنجرے کا بنا کر قیدی
اس پہ پھر موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے
دے کہ تدبیر کے پنچھی کو اڑانیں تم نے
دام تقدیر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے
کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تم نے
ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے
لامکانی کا بہر حال ہے دعویٰ بھی تمہیں
نَحنُ اَقرَب کا بھی پیغام سنا رکھا ہے
یہ برائی ، وہ بھلائی ، یہ جہنم ، وہ بہشت
اس اُلٹ پھیر میں فرماؤ تو کیا رکھا ہے
جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
عدل و انصاف کا معیار بھی کیا رکھا ہے
دے کے انسان کو دنیا میں خلافت اپنی
اک تماشا سا زمانے میں بنا رکھا ہے
اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مُردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سرِ طور کوئی
طور ہی ، برقِ تجلی سے جلا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بُجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو
جذب ومستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں اَنا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کُفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رُلا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسّی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہینوال تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جو کہتا ہوں مانا تمہیں لگتا ہے برا سا
پھر بھی ہے مجھے تم سے بہر حال گِلہ سا
چُپ چاپ رہے دیکھتے تم عرشِ بریں پر
تپتے ہوئے کربل میں محمد ﷺ کا نواسہ
کس طرح پلاتا تھا لہو اپنا وفا کو
خود تین دنوں سے وہ اگر چہ تھا پیاسا
دشمن تو بہر طور تھے دشمن مگر افسوس
تم نے بھی فراہم نہ کیا پانی ذرا سا
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا
کل تاج سجا دیکھا تھا جس شخص کے سر پر
ہے آج اسی شخص کے ہاتھوں میں ہی کاسہ
یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جواباً
اس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شناسا
حیرت کی اِک دُنیا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ایک جا پہ ہو لیکن پتہ نہیں معلوم
تمہارا نام سُنا ہے نشاں نہیں معلوم
دِل سے ارمان جو نکل جائے تو جگنو ہو جائے
اور آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے
جاپ یا ہُو کا جوبے ہُو کرے ہُو میں کھو کر
اس کو سلطانیاں مل جائیں وہ با ہُو جائے
بال بِیکا نہ کسی کا ہو چھری کے نیچے
حلقِ اصغر میں کبھی تِیر ترازو ہو جائے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
کس قدر بے نیاز ہو تم بھی
داستانِ دراز ہو تم بھی
راہِ تحقیق میں ہر گام پہ اُلجھن دیکھوں
وہی حالات و خیالات میں اَن بَن دیکھوں
بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
غور سے جب بھی کبھی دنیا کا درپن دیکھوں
ایک ہی خاک سے فطرت کے تضادات اتنے
کتنے حصوں میں بٹا ایک ہی آنگن دیکھوں
کہیں زحمت کی سلگتی ہوئی پت جھڑ کا سماں
کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں
کہیں پُھنکارتے دریا ، کہیں خاموش پہاڑ
کہیں جنگل ، کہیں صحرا ، کہیں گلشن دیکھوں
خوں رُلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے
کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نرِدھن دیکھوں
دن کے ہاتھوں میں فقط ایک سلُگتا سورج
رات کی مانگ ستاروں سے مزیّن دیکھوں
کہیں مُرجھائے ہوئے پھول ہیں سچائی کے
اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں پہ بھی جوبَن دیکھوں
شمس کی کھال کہیں کھینچتی نظر آتی ہے
کہیں سرمد کی اترتی ہوئی گردن دیکھوں
رات کیا شئے ہے سویرا کیا ہے
یہ اجالا یہ اندھیرا کیا ہے
میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر
کیوں یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
مسجد ، مندر ، یہ میخانے
کوئی یہ مانے ، کوئی وہ مانے
سب تیرے ہیں جاناں کاشانے
کوئی یہ مانے ، کوئی وہ مانے
کوئی ہونے کا تیرے قائل ہے
اِنکار پہ کوئی مائل ہے
اک خلق میں شامل کرتا ہے
اک سب سے اکیلا رکھتا ہے
ہیں دونوں تیرے مستانے
کوئی یہ مانے ، کوئی وہ مانے
سب ہیں جب عاشق تمہارے نام کے
کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے
دہر میں تُو ، حرم میں تُو
عرش پہ تُو ، زمیں پہ تُو
جس کی پہنچ جہاں تلک
اس کے لیے وہیں پہ تُو
ہر ایک رنگ میں یکتا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
مرکزِ جُستجو عالم رنگ و بُو
دم بدم جلوہ گر ، تُو ہی تُو چار سُو
ہُو ماحول میں کچھ نہیں اِلّا ھُو
تم بہت دِلرُبا ، تم بہت خُوبرو
عرش کی عظمتیں فرش کی آبرُو
تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو
آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو
اب تو کر دو عطا دید کا اک سبُو
آؤ پردے سے تم آنکھ کے رُوبرُو
چند لمحے مِلن ، دوگھڑی گفتگو
نازؔ جپَتا پھِرے جا بجا ، کُو بکُو
وَحدہ وَحدہ لا شریکَ لہ
اللہ ھُو ، اللہ ھُو ،
اللہ ھُو ، اللہ ھُو
نازؔ خیالوی
 
مدیر کی آخری تدوین:
نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کے کھنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی برق تجلی سے مٹھا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈھلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہے کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعان
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
دیکھے یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شاہ مصر بنا دیتے ہو
جزب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں ان الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چھڑا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جسکو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
جستجو لے کہ تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلا کا بنا دیتے ہو
جوتھ سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوے تل میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہیوال تصور کرلے
اسکو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرادیتے ہو
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فلسفی کو بھیس کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
یہ غالب کا شعر ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
مرزا غالب
یہ شعر اس طرح ہے اور اکبر الہ آبادی صاحب کا ہے۔
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
 
گورکھ دھندھ
نُصرت فتح علی خاں کی گائی ہوئی قوالی "تم اک گورکھ دھندہ ہو" پوری دنیا میں مقبول ہوئی جس نے نصرت فتح علی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ،کروڑوں لوگوں نے سنی ،اس کی کئی ملین کاپیاں فروخت ہوئیں ،یو ٹیوب پر اس قوالی پر لاکھوں ہٹس ہیں مگر بد قسمتی سے اس قوالی کے خالق کو کوئی نہیں جانتا۔ انکا انتقال نہایت کسمپرسی کی حالت میں فیصل آباد کے قریب ایک چھوٹے سے علاقے میں دوائی نہ ملنے کی وجہ سے ہوا ۔اس غریب شاعر کے پاس اپنی دوائی خریدنے کے پیسے نہ تھے-
پروفیسر موہن سنگھ نے ایک پنجابی نظم "رب" لکھی تھی جو انکی مشہور کتاب "ساوے پتر" میں شامل ہے ناز خیالوی نے "تم اک گورکھ دھندہ ہو" کا آئیڈیا اسی نظم سے لیا تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں نظمیں ہی شاہکار ہیں دونوں نظمیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں پڑھیے اور اپنی قیمتی رائے سے نوازیئے
( پنجابی نظم رب" کا اردو ترجمہ بھی موجود ھے )
"ربّ" ۔۔۔۔ شاعر : پروفیسر موہن سنگھ
ربّ اک گنجھل دار بجھارت
ربّ اک گورکھ دھندا
کھولن لگیاں پیچ ایس دے
کافر ہو جائے بندہ
کافر ہونو ڈر کے جیویں
کھوجوں مول نہ کھنجھی
لائیلگّ مومن دے کولوں
کھوجی کافر چنگا
تیری کھوج وچ عقل دے کھنبھ جھڑ گئے
تیری بھال وچ تھوتھا خیال ہویا
لکھاں انگلاں گنجھلاں کھولھ تھکیاں
تیری زلف دا سدھا نہ وال ہویا
گھگی بجھّ گئی سنکھاں دی رو رو کے
پٹّ-پٹّ کے چور گھڑیال ہویا
چیک چیک کے قلم دی جیبھ پاٹی
اجے حلّ نہ تیرا سوال ہویا
تیری سک کوئی سجری سک تاں نہیں
ایہہ چروکنی گلے دا ہار ہوئی
ایہہ ادوکنی جدوں دا بتّ بنیا
نال دل دی مٹی تیار ہوئی
تیرے ہجر وچ کسے نے کنّ پاڑے
اتے کسے نے جٹاں ودھائیاں نے
بوہے مار کے کسے نے چلے کٹے
کسے رڑے 'تے راتاں لنگھائیاں نے
کوئی لمکیا کھوہ دے وچ پٹھا
اتے کسے نے دھونیاں تائیاں نے
تیرے عاشقاں نے لکھاں جتن کیتے
پر توں منہ توں زلفاں نہ چائیاں نے
تیری سکّ دے کئی تہائے مر گئے
اجے تیک نہ وصل دا جگ لبھا
لکھاں سسیاں مر گئیاں تھلاں اندر
تیری ڈاچی دا اجے نہ کھرا لبھا
کسے پھلّ-قرآن دا پاٹھ کیتا
کسے دل دا پترا کھولھیا وے
کسے نیناں دے ساگر ہنگال مارے
کسے ہکّ دا کھونجا پھرولیا وے
کسے گلھاں دے دیوے دی لوء تھلے
تینوں زلفاں دی رات وچ ٹولیا وے
رو رو کے دنیاں نے راہ پائے
پر توں ہسّ کے اجے نہ بولیا وے
دیدے کلنج مارے تیرے عاشقاں نے
اجے اتھرو تینوں نہ پوہے کوئی
تیری سونہ، کجھ رون دا مزہ ہی نہیں
پونجھن والا جے کول نہ ہوئے کوئی
تیری مانگ دی سڑک تے پیا جہڑا
اس نوں حیلیاں نال پرتایا توں
حرصاں، دولتاں، حسناں، حکومتاں دا
اوہدے راہ وچ چوغا کھنڈایا توں
کسے قیس نوں لگا جے عشقَ تیرا
اس نوں لیلی دا لیلا بنایا توں
کسے رانجھے نوں چڑھیا جے چا تیرا
اس نوں ہیر دی سیجے سوایا توں
ساڈے ہنجھوآں کیتا نہ نرم تینوں
ساڈی آہ نے کیتا نہ چھیک تینوں
اسیں سڑ گئے وچھوڑے دی اگّ اندر
لاگے وسدیاں آیا نہ سیک تینوں
کسے چھنا بنایا جے کھوپری دا
توں بلھیاں نال چھہائیاں نہ
کسے دل دا رانگلا پلنگھ ڈاہیا
تیرے ناز نوں نیندراں آئیاں نہ
کسے جتیاں سیتیاں چمّ دیاں
تیری بے-پرواہی نے پائیاں نہ
رگڑ-رگڑ کے متھے چٹاک پے گئے
اجے رحمتاں تیریاں چھائیاں نہ
مار سٹیا تیریاں روسیاں نے
پھوک سٹیا بے-پرواہی تیری
لے کے جان توں اجے نہ گھنڈ چایا
خبرے ہور کی اے منہ وکھائی تیری
جے توں منہ توں زلفاں ہٹا دیویں
بٹ بٹ تکدا کل سنسار رہِ جائے
رہِ جائے بھائی دے ہتھ وچ سنکھ پھڑیا
بانگ ملاں دے سنگھ وچکار رہِ جائے
پنڈت ہراں دا رہِ جائے سندھور گھلیا
جام صوفی دا ہویا تیار رہِ جائے
قلم ڈھیہہ پئے ہتھوں فلاسفر دی
منکر تکدا تیری نہار رہِ جائے
اک گھڑی جے کھلھا دیدار دے دئیں
ساڈا نت دا ریڑکا چکّ جاوے
تیری زلف دا سانجھا پیار ہووے
جھگڑا مندر مسیت دا مکّ جاوے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم اک گورکھ دھندہ ہو" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر : ناز خیالوی
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جَا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ذرے میں کس شان سے تُو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے تُو کیا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تُو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دِل میں دیکھا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ڈھونڈے نہیں ملے ہو، نا ڈھونڈے سے کہیں تم
اور پھر یہ تماشا ہے کہ جہاں ہم ہیں وہیں تم
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
حرم و دیر میں ہے جلوۂ پُر فن تیرا
دو گھروں کا ہے چراغاں، اِک رُخِ روشن تیرا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جو اُلفت میں تمہاری کھو گیا ہے
اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے
نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے
مگر ٹُوٹے ہوئے دِل میں ملا ہے
عَدم بن کر کہیں تُو چھپ گیا ہے
کہیں تُو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تُو تو پھر انکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تُو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تُو
تو پھر میں کیسے سمجھا تُو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو ، کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بُت ، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
عقل میں جو گھِر گیا ، لا انتہا کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
تم اک گورکھ دھندہ ہو
پتہ یُوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا
تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹُوٹے ہوئے دِل میں
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خُدا کیا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
چھُپتے نہیں ہو ، سامنے آتے نہیں ہو تم
جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم
حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم
یہ معبد و حرم ، یہ کلیسا و دیر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
دل پہ حیرت نے عجب رنگ جما رکھا ہے
ایک اُلجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکر کیا ہے
کھیل کیا تم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے
روح کو جسم کے پنجرے کا بنا کر قیدی
اس پہ پھر موت کا پہرہ بھی بٹھا رکھا ہے
دے کہ تدبیر کے پنچھی کو اڑانیں تم نے
دام تقدیر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے
کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تم نے
ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے
لامکانی کا بہر حال ہے دعویٰ بھی تمہیں
نَحنُ اَقرَب کا بھی پیغام سنا رکھا ہے
یہ برائی ، وہ بھلائی ، یہ جہنم ، وہ بہشت
اس اُلٹ پھیر میں فرماؤ تو کیا رکھا ہے
جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
عدل و انصاف کا معیار بھی کیا رکھا ہے
دے کے انسان کو دنیا میں خلافت اپنی
اک تماشا سا زمانے میں بنا رکھا ہے
اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مُردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سرِ طور کوئی
طور ہی ، برقِ تجلی سے جلا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بُجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو
جذب ومستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں اَنا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کُفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسّی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہینوال تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
جو کہتا ہوں مانا تمہیں لگتا ہے برا سا
پھر بھی ہے مجھے تم سے بہر حال گلہ سا
چُپ چاپ رہے دیکھتے تم عرش بریں پر
تپتے ہوئے کربل میں محمد ﷺ کا نواسہ
کس طرح پلاتا تھا لہو اپنا وفا کو
خود تین دنوں سے وہ اگر چہ تھا پیاسا
دشمن تو بہر طور تھے دشمن مگر افسوس
تم نے بھی فراہم نہ کیا پانی ذرا سا
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا
کل تاج سجا دیکھا تھا جس شخص کے سر پر
ہے آج اسی شخص کے ہاتھوں میں ہی کاسہ
یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جواباً
اس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شناسا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
حیرت کی اِک دُنیا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ایک جا پہ ہو لیکن پتہ نہیں معلوم
تمہارا نام سُنا ہے نشاں نہیں معلوم
تم اک گورکھ دھندہ ہو
دِل سے ارمان جو نکل جائے تو جگنو ہو جائے
اور آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے
جاپ یا ہُو کا جوبے ہُو کرے ہُو میں کھو کر
اس کو سلطانیاں مل جائیں وہ با ہُو ہو جائے
بال بِیکا کسی کا نہ ہو چھری کے نیچے
حلقِ اصغر میں کبھی تِیر ترازو ہو جائے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
کس قدر بے نیاز ہو تم بھی
داستانِ دراز ہو تم بھی
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
راہِ تحقیق میں ہر گام پہ اُلجھن دیکھوں
وہی حالات و خیالات میں اَن بَن دیکھوں
بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
غور سے جب بھی کبھی دنیا کا درپن دیکھوں
ایک ہی خاک سے فطرت کے تضادات اتنے
کتنے حصوں میں بٹا ایک ہی آنگن دیکھوں
کہیں زحمت کی سلگتی ہوئی پت جھڑ کا سماں
کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں
کہیں پُھنکارتے دریا ، کہیں خاموش پہاڑ
کہیں جنگل ، کہیں صحرا ، کہیں گلشن دیکھوں
خوں رُلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے
کوئی دھنوان یہاں پر کوئی جوگن دیکھوں
دن کے ہاتھوں میں فقط ایک سلُگتا سورج
رات کی مانگ ستاروں سے مزیّن دیکھوں
کہیں مُرجھائے ہوئے پھول ہیں سچائی کے
اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں پہ بھی جوبَن دیکھوں
رات کیا شئے ہے سویرا کیا ہے
یہ اجالا یہ اندھیرا کیا ہے
میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر
تم یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
دیکھنے والا تجھے کیا دیکھتا
تو نے ہرہر دم جس سے پردہ کیا
تم اک گورکھ دھندہ ہو
مسجد ، مندر ، یہ میخانے
کوئی یہ مانے ، کوئی وہ مانے
سب تیرے ہیں جاناں آشانے
کوئی یہ مانے ، کوئی وہ مانے
اک ہونے کا تیرے قائل ہے
انکار پہ کوئی مائل ہے
اصلیت یہ پھر تُو جانے
کوئی یہ مانے ، کوئی وہ مانے
اک خلق میں شامل کرتا ہے
اک سب سے اکیلا رکھتا ہے
ہیں دونوں تیرے مستانے
کوئی یہ مانے ، کوئی وہ مانے
کوئی یہ مانے ، کوئی وہ مانے
سب ہیں جب عاشق تمہارے نام کے
کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے
دہر میں تُو ، حرم میں تُو
عرش پہ تُو ، زمیں پہ تُو
جس کی پہنچ جہاں تلک
اس کے لیے وہیں پہ تُو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
ہر ایک رنگ میں یکتا ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
مرکزِ جُستجو عالم رنگ و بُو
دم بدم جلوہ گر ، تُو ہی تُو چار سُو
اونچے ماحول میں کچھ نہیں اِلّا ھُو
تم بہت دِلرُبا ، تم بہت خُوبرو
عرش کی عظمتیں
فرش کی آبرُو
تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو
آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو
اب تو کر دو عطا دید کا اک سبُو
آؤ پردے سے تم آنکھ کے رُوبرُو
چند لمحے مِلن ، دوگھڑی گفتگو
نازؔ جپَتا پھِرے جا بجا ، کُو بکُو
وَحدہ وَحدہ لا شریکَ لہ
اللہ ھُو ، اللہ ھُو ، اللہ ھُو
اللہ ھُو ، اللہ ھُو ، اللہ ھُو
اللہ ھُو ، اللہ ھُو ، اللہ ھُو
 
Top