فارسی شاعری ّ"بہ خوبی ھمچومہ تابندہ باشی" امیر خسرو

بہ خوبی ھمچومہ تابندہ باشی
بہ ملک دلبری پاینده باشی

تیرے خوبصورت چہرہ چاند کی طرح چمکتا ہے ملک حسن پہ تیری بادشاہی سلامت رہے

من درویش را کشتی بہ غمزہ
کرم کردى الٰہی زندہ باشی

تیری قاتلانہ نکاہ نے مجھ غریب کو مار ڈالا کرم کیا تو نے خدا تجھے بسر زندگی دے

جہاں سوزى اگر در غمزہ آىى
شکر ریزی اگر در خندہ باشی

تمہاری نکاہِ ناز سے نظامِ دنیا بدل جاتا ہے اور تمہاری مسکراہٹ سے مٹھاس بکھر جاتی ہے

ز قید دو جہاں آزاد گشتم
اگر تو ھم نشینِ بندہ باشى

میں دونوں جہانوں کی قید سے آزاد ہو جاؤں اگر کبھی تو میرے ہمسفر ہو جائے

جفا کم کن کہ فردا روزِ محشر
زروی عاشقان شرمندہ باشی

جفا کم کرو کے کل قیامت کے دن کہیں عاشقوں کے آسامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے

بہ رندی و بہ شوخی ہمچو خسروؔ
ھزاران خان و مان برکندہ باشی

تمہاری شوخی اور زندہ دلی کے باعث خسرو جیسے ہزاروں دل تباہ ہو گئے
امیر خسروؔ
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یہ خسرو کی خوبصورت ترین غزلوں میں سے ہے اور میری پسندیدہ ترین۔ قوالوں نے بہت دلسوزی سے اسے گایا بھی ہے!
 
Top