ناز خیالوی ''کہو سن لیں کہ شعر ان کو ہمارے کچھ نہیں کہتے" ناز خیالوی

کہو سن لیں کہ شعر ان کو ہمارے کچھ نہیں کہتے
کنائے بے ضرر ہیں ، استعارے کچھ نہیں کہتے

سب اندازے لگا لیتا ہے ان کی چال سے ورنہ
مُنجمّ سے زبانی تو ستارے کچھ نہیں کہتے

ڈبو دیتا ہے کیا کیا کشتیوں کو سامنے ان کے
سمندر کو مگر بے حِس کنارے کچھ نہیں کہتے

بس اتنا ہم نے دیکھا ہے محبت کی تجارت میں
منافعے کچھ نہیں دیتے، خسارے کچھ نہیں کہتے

ہمارے ہر عمل پر ہے کڑی ان کی نظر، پھر بھی
غنیمت ہے ہمیں بچے ہمارے کچھ نہیں کہتے

کرو مامور ہم کو آشیانوں کی حفاظت پر
کہ ہم شعلہ بجانوں کو شرارے کچھ نہیں کہتے

میں اُن کے نام کا کتبہ لکھے پھرتا ہوں ماتھے پر
وہ اس پر بھی کسی سے میرے بارے کچھ نہیں کہتے

کہاں کے منصف و عادل ،فقیہہ و محتسب کیسے
انہیں کے ہیں یہ سارے اُن کو سارے کچھ نہیں کہتے

ہنر ضبطِ نفس کا نازؔ آتا ہو جو انساں کو
رگوں میں جلتے بلتے خوں کے دھارے کچھ نہیں کہتے
ناز خیالوی
 
آخری تدوین:
بس اتنا ہم نے دیکھا ہے محبت کی تجارت میں
منافعے کچھ نہیں دیتے، خسارے کچھ نہیں کہتے

کہاں کے منصف و عادل فقیہہ و محتسب کیسے
انہیں کے ہیں یہ سارے اُن کو سارے کچھ نہیں کہتے
کیا کہنے ہیں، واہ بھئی واہ
 
Top