انڈین انتخابات

محمد وارث

لائبریرین
انڈیا کی پانچ ریاستوں میں پچھلے ماہ پولنگ ہوئی تھی جن کے رزلٹ آج آ رہے ہیں۔ جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہوئے ان میں اُتر پردیش (یو پی)، اُتر کھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور شامل ہیں۔

بی بی سی کی اس وقت کی رپورٹ کے مطابق، یو پی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو واضح سبقت حاصل ہے۔ بی جے پی اس وقت مرکز میں بھی حکمران ہے، جب کہ پنجاب میں کانگریس کو برتری حاصل ہے۔

یہ انتخابات اور موصولہ نتائج کئی حوالوں سے دلچسپ ہیں۔ خاص طور پر یو پی اور پنجاب کے۔

اتر پردیش
شمالی ہند میں واقع انڈیا کی یہ ریاست خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست ہے اور اس وقت اس کی آبادی 20 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ اس ریاست کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی لگ بھگ 20 فیصد (چار کروڑ) آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ انڈیا کے کئی ایک مشہور اور متنازع اور تاریخی اہمیت کے شہر اور مقامات اسی ریاست میں ہیں، جیسے لکھنؤ، کانپور، الہ آباد، فیض آباد، ایودھیا، بنارس، مراد آباد، غازی آباد، بریلی، جھانسی، اعظم گڑھ، دیوبند، علی گڑھ وغیرہ۔ تقسیم سے پہلے کی سیاست میں بھی یو پی کا ایک اہم کردار رہا ہے لیکن فی الحال اس کو چھوڑتے ہیں۔

اس ریاست کی سیاست حد سے زیادہ الجھی ہوئی ہے، ایک طرف یہاں اونچی جاتی (ذات) کے ہندؤں کی بڑی تعداد بستی ہے تو دوسری طرف پچھڑی جاتوں (نچلی ذاتوں) کے بھی کثیر ہندو موجود ہیں اور ہندوں کے کچھ مقدس ترین مقامات بھی یہیں ہیں اور پھر مسلمان کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد۔ اس وجہ سے یہ ریاست دائیں بازو (ہندتوا) اور بائیں بازو (سیکولر) کے سیاستدانوں کی آماجگاہ ہے، دائیں بازو والے جہاں ہندتوا کی بات کرتے ہیں وہیں بائیں بازو والے سیکولر ازم اور مسلمان ووٹ بنک کو ذہن میں رکھتے ہیں۔

تاریخی طور پر آزادی کے بعد سے1989ء تک یہاں کانگریس کا راج رہا۔ بیچ میں وقفے وقفے سے کچھ دوسری پارٹیوں کے وزیرِ اعلیٰ کچھ مہینوں کے لے آتے رہے جیسے 1967ٰء میں کرانتی دَل کے چوہدری چرن سنگھ وزیرِ اعلیٰ بنے تھے (جو بعد میں انڈیا کے وزیرِ اعظم بھی بنے)۔ اور پھر 1977ء میں دو سال کے لیے جنتا پارٹی کی یہاں حکومت رہی۔

1989ء میں جب مرکز میں راجیو گاندھی کی کانگریس کو شکست سامنا کرنا پڑا تھا اور مرکز میں وی پی سنگھ کی جنتا دَل کی حکومت بنی تھی تو اسی سال ریاست میں جنتا دل کی حکومت ملائم سنگھ یادو کی سربراہی میں بنی۔

یہ وہی وقت ہے جب بھاج پا (بی جے پی) انڈین سیاست میں اپنی گرفت مضبوط کر رہی تھی۔ 1990ء میں جب ایل کے ایڈوانی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے اپنی رام رتھ یاترا نکالی تھی تو ملائم سنگھ یادو ہی اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے واشگاف کہا تھا کہ وہ آڈوانی کو یو پی میں گھسنے نہیں دیں گے اور ان کو یو پی کی سرحد پر گرفتار کر لیا جائے گا، گو اس سے پہلے ہی آڈوانی کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو نے بہار میں گرفتار کر لیا تھا۔ اس تحریک کے دوران کٹر ہندو کی جانب سے ملائم سنگھ یادو کو "مولانا ملائم سنگھ یادو" کا طنزیہ خطاب دیا گیا تھا۔

1991ء کے مرکزی (لوک سبھا) اور یو پی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی ایک مضبوط طاقت کے طور پر ابھری۔ یو پی میں بی جے پی کے کلیان سنگھ کی سربراہی میں حکومت بنی اور اسی عہد میں بابری مسجد کے انہدام کا سانحہ پیش آیا اور اسی دن مرکز نے ان کی حکومت برخاست کر کے صدر راج نافذ کر دیا۔

اس کے بعد سے یو پی کی سیاست تین پارٹیوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے، بی جے پی، ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کا جیسے اس انتہائی اہم ریاست کی سیاست میں صفایا ہی ہو چکا ہے۔ حالانکہ حالیہ الیکشن میں کانگریس نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے سماج وادی پارٹی سے اتحاد بنا کر حصہ لیا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ہی ہار گئے ہیں۔ 1991ء کے بعد بی چے پی نے 1997ء سے 2002ء تک اس ریاست پر حکومت کی جب کہ 1998ء سے 2004ء تک مرکز میں اسی پارٹی کے واجپائی کی حکومت تھی۔

اس وقت یہاں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے، اور مرکز میں بی جے پی کی۔ تازہ ترین نتائج کے مطابق یہاں پھر بی جے پی کی حکومت بننے جا رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت ہمیشہ ہی تنازعات میں گھری رہتی ہے اس لیے ایک بار پھر سے اس ریاست میں تنازعات کی سیاست دکھائی دے رہی ہے۔

پنجاب
پنجاب کو بھی انڈیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے کہ اس کی طویل سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے۔ 1966ء میں انڈین سرکار نے پنجاب کو تین حصوں، پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں تقسیم کر دیا تھا جس کے بعد باقی ماندہ پنجاب میں سکھوں کی اکثریت ہو گئی تھی۔

پنجاب کی سیاست میں کانگریس اور اکالی دَل دو ہی اہم جماعتیں رہی ہیں۔ آزادی کے بعد سے 1967ء تک یہاں کانگریس کی حکومت رہی اور اس کے بعد اکالی دل اور کانگریس وقفوں وقفوں سے حکومتیں کرتی رہیں جب کہ اس دوران کافی عرصے تک یہاں صدر راج بھی نافذ رہا۔

اندرا گاندھی، پنجاب کی سیاست کو خاص اہمیت دیتی تھیں اور 1977ء کے الیکشن میں شکست فاش کے بعد انہوں نے پنجاب میں کانگریس کی تنظیم نو اور اکالی دل کو پچھاڑنے کا ٹاسک اپنے چھوٹے صاحبزادے سنجے گاندھی کو دیا تھا جنہوں نے پنجاب کے کانگریسی وزیرِ اعلیٰ رہ چکے گیانی ذیل سنگھ کے ساتھ مل کر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا نہ صرف انتخاب کیا بلکہ ان کو اکالی دل کے مقابلے میں لے آئے لیکن بعد میں یہ حرکت ان کو مہنگی پڑی اور بھنڈرنوالہ کے خلاف سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹمپل میں آپریشن بلیو سٹار کرنا پڑا اور اسی کے نتیجے میں اندرا گاندھی کا قتل ہوا۔

طویل صدر راج کے بعد 1992ء میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں کانگریس کے بیانت سنگھ وزیر اعلیٰ بنے لیکن 1995ء وہ بھی تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے۔

پنجاب کے موجودرہ وزیر اعلیٰ اکالی دل کے پرکاش سنگھ بادل 2012ء میں پانچویں بار وزیرِ اعلیٰ بنے تھے، پہلی بار 1970ء میں بنے تھے اور اب 2007ء سے مسلسل وزیر اعلیٰ ہیں۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اکالی دَل اور بی جے پی دونوں کا بہت پرانا اتحاد ہے، اس وقت سے جب بی جے پی کا نام جَن سنگھ ہوا کرتا تھا۔ یہ نہ صرف مرکز میں اتحادی رہے ہیں بلکہ پنجاب میں بھی لیکن موجودہ انتخابات میں اب تک کے نتائج کے مطابق کانگریس کو اکیلے ہی حکومت بنانے کی اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔

جب کہ عام آدمی پارٹی پنجاب کے انتخابات میں شد و مد سے حصہ لینے اور حکومت بنانے کی تمام تر پیشن گوئیوں کے باوجود خاص کارکردگی نہیں دکھا سکی۔

یہ ایک انتہائی اہم نتیجہ ہے کیونکہ مرکز میں بی جے پی کے مودی کی حکومت ہے اور کانگریس کا پچھلے مرکزی عام انتخابات 2014ء میں صفایا ہو گیا تھا اور لوک سبھا میں ان کے پاس حکومت کو "کڑی چنوتی" دینے کے لیے بھی تعداد نہیں تھی۔ اب آئندہ دنوں میں پنجاب میں کانگریس کی حکومت بننے کے بعد بھارتی سیاست میں گرمی بڑھ جائے گی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی ناکامی کی کیا وجوہات ہیں ؟
اس موضوع پر اگلے آنے والے کئی دن تک انڈین میڈیا سر گرم بلکہ دست و گریبان رہے گا، فی الحال لگتا تو یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کے ساتھ وہی کچھ ہوا ہے جو پاکستان میں تحریک انصاف کے ساتھ ہوا تھا۔ سدھو صاحب کی سنیے۔
 
آخری تدوین:
اس موضوع پر اگلے آنے والے کئی دن تک انڈین میڈیا سر گرم بلکہ دست و گریبان رہے گا، فی الحال لگتا تو یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کے ساتھ وہی کچھ ہوا ہے جو پاکستان میں تحریک انصاف کے ساتھ ہوا تھا۔
دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 70 میں سے 67 نشستیں جیت لی تھیں۔ اس کے بعد پنجاب اور یوپی میں اس سے موجودہ نتیجے سے زیادہ بہتر کی توقع تھی۔
 

لاریب مرزا

محفلین
معلوماتی تحریر ہے۔ انڈیا میں سیاست پاکستان سے مختلف تو نہ ہو گی۔ ویسے ہم اپنے ملک کی سیاست سے بھی بے زار ہیں وارث بھائی، اور آپ کو انڈین سیاست میں بھی دلچسپی ہے۔ :) :)
 

فہد اشرف

محفلین
دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 70 میں سے 67 نشستیں جیت لی تھیں۔ اس کے بعد پنجاب اور یوپی میں اس سے موجودہ نتیجے سے زیادہ بہتر کی توقع تھی۔
عام آدمی پارٹی نے یو پی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ دہلی انتخابات میں عآپ کے 30 کے قریب سیٹیں تھیں اور اس نے کانگریس کے ساتھ مل کے حکومت بنائی تھی لیکن اتحاد زیادہ دن نہ چل سکا اور چھ مہینے بعد دہلی میں دوبارہ انتخابات ہوئے جس میں عام آدمی پارٹی 70 میں 67 سیٹوں پہ کامیاب رہی۔
 
آخری تدوین:
عام آدمی پارٹی نے یو پی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ دہلی انتخابات میں عآپ کے 30 کے قریب سیٹیں تھیں اور اس نے کانگریس کے ساتھ مل کے حکومت بنا لی تھی لیکن اتحاد زیادہ دن نہ چل سکا اور چھ مہینے بعد دہلی میں دوبارہ انتخابات ہوئے جس میں عام آدمی پارٹی 70 میں 67 سیٹوں پہ کامیاب رہی۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر پنجاب میں حصہ لیا تھا تو نتائج بہتر کیوں نہیں رہے؟ عام آدمی پارٹی کے
 

فہد اشرف

محفلین
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر پنجاب میں حصہ لیا تھا تو نتائج بہتر کیوں نہیں رہے؟ عام آدمی پارٹی کے
ایک وجہ تو یہ ہے کہ عآپ نے وزیر اعلی کے طور پر کوئی چہرہ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا تھا جس کے لیےلوگ ووٹ کرتے۔
دوسری سب سے بڑی وجہ کیپٹن امریندر سنگھ (کانگریس صوبائی صدر پنجاب) کا قد ہے، لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پنجاب میں راہل، سونیا یا کانگریس کی وجہ سے ن
نہیں امریندر سنگھ کی وجہ سے جیت ہوئی ہے ایک بات اور واضح رہے کہ 2012 کے الیکشن میں بھی امریندر سنگھ ہی فیوریٹ تھے لیکن کانگریس 46 سیٹ( واضح اکثریت سے 13 سیٹ کم) ہی جیت سکی تھی اور اکالی دل 56 نے بے جے پی کے اتحاد سے حکومت بنا لی تھی۔
 

فہد اشرف

محفلین
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر پنجاب میں حصہ لیا تھا تو نتائج بہتر کیوں نہیں رہے؟ عام آدمی پارٹی کے
اور اگر دہلی کے نتائج کے تناظر میں نہ دیکھا جو تو ایک نئی پارٹی کے لیے 117 میں 20 سیٹیں حاصل کرکے ریاست کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بن جانا بھی ایک کامیابی ہے، حالانکہ وہ اس سے زیادہ کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
معلوماتی تحریر ہے۔ انڈیا میں سیاست پاکستان سے مختلف تو نہ ہو گی۔ ویسے ہم اپنے ملک کی سیاست سے بھی بے زار ہیں وارث بھائی، اور آپ کو انڈین سیاست میں بھی دلچسپی ہے۔ :) :)
سیاست کے طور طریقوں سے تو میں بھی شدید بیزار ہوں لیکن سیاسیات بحثیت مضمون اور پولیٹکل ہسٹری بالخصوص میرے پسندیدہ ترین موضاعات ہیں مطالعے کے لیے۔ انڈین سیاست میں دلچسپی کچھ زیادہ ہی بنی ہوئی کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے آزادی کے بعد سے انڈیا کی سیاسی تاریخ پڑھ رہا ہوں اور ابھی مزید کچھ عرصہ پڑھنے کا ارادہ کا ہے کہ کچھ کتابیں لائن میں لگی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 70 میں سے 67 نشستیں جیت لی تھیں۔ اس کے بعد پنجاب اور یوپی میں اس سے موجودہ نتیجے سے زیادہ بہتر کی توقع تھی۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر پنجاب میں حصہ لیا تھا تو نتائج بہتر کیوں نہیں رہے؟ عام آدمی پارٹی کے
عام آدمی پارٹی کی پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے درکار سیٹیں نہ جیتنے کی کئی ایک وجوہات ہیں، اوپر میں نے 'تحریکِ انصاف' کی 2013ء میں پاکستان میں شکست کی طرف اشارہ کیا تھا کچھ یہی کچھ 'عام' کے ساتھ ہوا ہے۔

- 'نواں پنجاب' کا نعرہ 'نیا پاکستان' کی طرح چلا تو خوب لیکن ووٹ نہ دلوا سکا۔
- 'تبدیلی' کی بات اچھلی ضرور اور تبدیلی آئی بھی لیکن ویسی ہی جیسے پاکستان میں تھی۔ پی پی پی کی جگہ تبدیلی سے نون لیگ نے لے لی، تحریک انصاف منہ دیکھتی رہ گئی۔ اکالی کی جگہ تبدیلی سے کانگریس نے لے لی، 'عام' منہ دیکھتی رہ گئی۔
-الیکشن سے پہلے کے پولز نے عام آدمی پارٹی کی پنجاب میں فتح کے ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ چانسز بتائے تھے، تحریک انصاف کے متعلق بھی پول رزلٹس کچھ ایسے ہی تھے۔
-نتائج سے پہلے عام آدمی پارٹی کی قیادت، 117 میں سے 100 سیٹس جیتنے کا دعوی کر رہی تھی، ایسے ہی "اوور کانفٹڈنٹ" تحریک انصاف والے بھی تھے۔
-تحریک انصاف کی طرح عام آدمی پارٹی کا بھی زور سوشل میڈیا پر تھا۔

مزید اگر پنجاب کی سیاست کو دیکھیں تو ان ایلکشنز میں عام آدمی پارٹی نے تین ایشوز اٹھائے تھے

کرپشن
بیروزگاری
نشہ (ہیروئن)

لیکن عام آدمی پارٹی پنجاب کی روایتی سیاست میں "اِن" ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

عام آدمی پارٹی کے پاس کوئی پنجاب کا روایتی چہرہ نہیں تھا۔ اکالی دل کو مذہبی حمایت حاصل تھی اور کانگریس نے اپنا گرم و سرد چشیدہ مہرہ، امریندر سنگھ، میدان میں اتارا ہوا تھا۔ عام آدمی پارٹی کے پاس لوکل امیدوار ہی نہیں تھے، دہلی سے آئے ہوئے لوگ الیکشنز لڑ رہے تھے۔ بھگونت مان ایک کامیڈین لیڈ کر رہے تھے جب کہ یہ بھی شنید تھا کہ کجریوال خود وزیر اعلیٰ کے امیدوار تھے، ظاہر ہے یہ صورتحال حوصلہ افزا نہیں تھی۔ کجریوال سکھ نہیں ہیں بلکہ ہریانہ کے ہیں۔ اور پنجابی سکھوں اور ہریانیویوں کے درمیان ایک طرح سے دشمنی سی ہے۔

عام آدمی پارٹی کا زور سوشل میڈیا پر تھا لیکن پنجاب کی بڑی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور روایتی مذہبی و برادری سسٹم سیاسیات کی اسیر ہے۔ کمپین تو انہوں نے خوب چلائی لیکن ووٹ نہیں لے سکے۔

غیر رہائشی انڈینز (Non-Resident Indians NRI) کا کردار بھی بہت اہم رہا۔ پنجابیوں کی ایک کثیر تعداد بیرونی ممالک میں رہائش پذیر ہے اور یہ قریب قریب سارے ہی عام آدمی پارٹی کو اسپورٹ کر رہے تھے۔ انہوں نے بہت زیادہ فنڈز بھی دیے جس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کی مشکلات بڑھیں۔ بھاج پا کی دہلی سرکار نے ڈونرز کو خوردبین کے نیچے رکھ کر جانچا۔ کانگریس نے بہت شد و مد کے ساتھ عام آدمی پارٹی پر الزام لگایا کہ یہ این آر آئی سے پیسے لے رہے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو 'خالصتان' کے پیچھے تھے اور یوں عام آدمی پارٹی خالصتانیوں کو واپس سیاست میں لا کر سویا ہوا مسئلہ دوبارہ جگا دے گی۔

انڈین پنجاب کے تین بڑھے ریجنز ہیں، مالوہ، دو آبہ اور ماجھا۔ عام آدمی پارٹی کا زور جنوبی حصے مالوہ پر زیادہ تھا، لیکن شمالی اور شمال مغربی حصوں میں ان کی زیادہ سپورٹ نہیں تھی۔ ماجھا میں امرتسر واقع ہے اور دو آبہ میں جالندھر وغیرہ۔ یہ علاقے روایتی طور پر پنجابی اور سکھوں کی سیاست کا گڑھ رہے ہیں۔

لیکن ان سب باتوں کے باوجود زیادہ مایوسی اس وجہ سے لوگوں کو ہوئی کہ عام آدمی پارٹی نے بہت سارے دعوے کر دیے تھے اور پھر میڈیا نے تو ان کو گدی پر براجمان کر ہی دیا تھا ورنہ عام آدمی پارٹی کی کارکردگی اتنی بری نہیں رہی۔

-عام آدمی پارٹی نے قریب قریب 24 فیصد ووٹس حاصل کیے ہیں لیکن ان کو صرف 17 فیصد سیٹیں ملی ہیں۔ کانگریس نے 39٪ ووٹس لے کر 66٪ سیٹیس لی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بس ایک ہی آنچ کی کمی رہ گئی اور عام آدمی پارٹی جہاں جہاں ہاری ہے وہاں بہت کم مارجن سے ہاری ہوگی۔ اکالی دل کی حالت اس سے بھی بری ہے، وہ 25٪ ووٹ لے کر صرف 13٪ سیٹیس جیت سکے۔ اس سے مزید ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس جہاں جہاں سے جیتی ہے وہاں بہت ہی کم مارجن سے جیتی ہوگی۔ اس خیال کو حلقہ وار نتائج دیکھ کر جانچا جا سکتا ہے۔

آخری بات یہ کہ عام آدمی پارٹی کی دہلی میں تاریخی کامیابی ایک اور بات تھی۔ دہلی لوکل گورنمنٹ کی سیاست گلی محلوں کی سیاست ہے، بڑی ریاستوں کی سیاست شہروں اور دیہاتوں کی سیاست ہے ان میں بہت فرق ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پہلی صحیح حکومت انڈیا میں 1998ء میں بنی تھی لیکن دہلی کی سیاست میں وہ کئی دہائیوں ہی سے سرگرم تھے۔ بی جے پی کا دہلی کا پہلا میئر 1958ء میں بنا تھا جب وہ جَن سَنگھ کے نام سے تھے اور دہلی کارپوریشن میں وہ بہت سرگرم تھے۔ ایل کے ایڈوانی کی بھی صحیح سیاست دہلی کارپوریشن سے شروع ہوئی تھی لیکن ریاستوں اور مرکز میں حکومت بنانے کے لیے انہیں کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑا۔ کیجریوال کو بھی پنجابی ووٹروں نے انتظار کرنے کو کہا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یو پی میں بی جے پی کی کلین سویپ ایک تاریخی فتح سمجھی جا رہی ہے اور ہے۔ تین چوتھائی بلکہ 80٪ سیٹیں بی جے پی نے جیتی ہیں اور اس 'مودی لہر' کو 91-1990 کی 'رام لہر' سے بھی بڑی لہر قرار دیا گیا ہے۔

بھاج پا کے حمایتوں نے 2019ء کے مرکزی لوک سبھا کے الیکشنز کی تیاری کرتے ہوئے یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ اپوزیش 2019ء کے الیکشنز بھول جائے اور 2024ء کے الیکشنز کی تیاری کرے کہ اگلے الیکشن میں تو پھر بس مودی ہی ہوگا۔ یوپی اور اترا کھنڈ میں بھاج پا کی کامیابی سے ان کے بھارتی سینٹ میں بھی اکثریت ہو جائے گی جو کہ بی جے پی کو قانون سازی کے لیے بہت مدد دے گئی۔
 
عام آدمی پارٹی کی پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے درکار سیٹیں نہ جیتنے کی کئی ایک وجوہات ہیں، اوپر میں نے 'تحریکِ انصاف' کی 2013ء میں پاکستان میں شکست کی طرف اشارہ کیا تھا کچھ یہی کچھ 'عام' کے ساتھ ہوا ہے۔

- 'نواں پنجاب' کا نعرہ 'نیا پاکستان' کی طرح چلا تو خوب لیکن ووٹ نہ دلوا سکا۔
- 'تبدیلی' کی بات اچھلی ضرور اور تبدیلی آئی بھی لیکن ویسی ہی جیسے پاکستان میں تھی۔ پی پی پی کی جگہ تبدیلی سے نون لیگ نے لے لی، تحریک انصاف منہ دیکھتی رہ گئی۔ اکالی کی جگہ تبدیلی سے کانگریس نے لے لی، 'عام' منہ دیکھتی رہ گئی۔
-الیکشن سے پہلے کے پولز نے عام آدمی پارٹی کی پنجاب میں فتح کے ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ چانسز بتائے تھے، تحریک انصاف کے متعلق بھی پول رزلٹس کچھ ایسے ہی تھے۔
-نتائج سے پہلے عام آدمی پارٹی کی قیادت، 117 میں سے 100 سیٹس جیتنے کا دعوی کر رہی تھی، ایسے ہی "اوور کانفٹڈنٹ" تحریک انصاف والے بھی تھے۔
-تحریک انصاف کی طرح عام آدمی پارٹی کا بھی زور سوشل میڈیا پر تھا۔

مزید اگر پنجاب کی سیاست کو دیکھیں تو ان ایلکشنز میں عام آدمی پارٹی نے تین ایشوز اٹھائے تھے

کرپشن
بیروزگاری
نشہ (ہیروئن)

لیکن عام آدمی پارٹی پنجاب کی روایتی سیاست میں "اِن" ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

عام آدمی پارٹی کے پاس کوئی پنجاب کا روایتی چہرہ نہیں تھا۔ اکالی دل کو مذہبی حمایت حاصل تھی اور کانگریس نے اپنا گرم و سرد چشیدہ مہرہ، امریندر سنگھ، میدان میں اتارا ہوا تھا۔ عام آدمی پارٹی کے پاس لوکل امیدوار ہی نہیں تھے، دہلی سے آئے ہوئے لوگ الیکشنز لڑ رہے تھے۔ بھگونت مان ایک کامیڈین لیڈ کر رہے تھے جب کہ یہ بھی شنید تھا کہ کجریوال خود وزیر اعلیٰ کے امیدوار تھے، ظاہر ہے یہ صورتحال حوصلہ افزا نہیں تھی۔ کجریوال سکھ نہیں ہیں بلکہ ہریانہ کے ہیں۔ اور پنجابی سکھوں اور ہریانیویوں کے درمیان ایک طرح سے دشمنی سی ہے۔

عام آدمی پارٹی کا زور سوشل میڈیا پر تھا لیکن پنجاب کی بڑی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور روایتی مذہبی و برادری سسٹم سیاسیات کی اسیر ہے۔ کمپین تو انہوں نے خوب چلائی لیکن ووٹ نہیں لے سکے۔

غیر رہائشی انڈینز (Non-Resident Indians NRI) کا کردار بھی بہت اہم رہا۔ پنجابیوں کی ایک کثیر تعداد بیرونی ممالک میں رہائش پذیر ہے اور یہ قریب قریب سارے ہی عام آدمی پارٹی کو اسپورٹ کر رہے تھے۔ انہوں نے بہت زیادہ فنڈز بھی دیے جس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کی مشکلات بڑھیں۔ بھاج پا کی دہلی سرکار نے ڈونرز کو خوردبین کے نیچے رکھ کر جانچا۔ کانگریس نے بہت شد و مد کے ساتھ عام آدمی پارٹی پر الزام لگایا کہ یہ این آر آئی سے پیسے لے رہے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو 'خالصتان' کے پیچھے تھے اور یوں عام آدمی پارٹی خالصتانیوں کو واپس سیاست میں لا کر سویا ہوا مسئلہ دوبارہ جگا دے گی۔

انڈین پنجاب کے تین بڑھے ریجنز ہیں، مالوہ، دو آبہ اور ماجھا۔ عام آدمی پارٹی کا زور جنوبی حصے مالوہ پر زیادہ تھا، لیکن شمالی اور شمال مغربی حصوں میں ان کی زیادہ سپورٹ نہیں تھی۔ ماجھا میں امرتسر واقع ہے اور دو آبہ میں جالندھر وغیرہ۔ یہ علاقے روایتی طور پر پنجابی اور سکھوں کی سیاست کا گڑھ رہے ہیں۔

لیکن ان سب باتوں کے باوجود زیادہ مایوسی اس وجہ سے لوگوں کو ہوئی کہ عام آدمی پارٹی نے بہت سارے دعوے کر دیے تھے اور پھر میڈیا نے تو ان کو گدی پر براجمان کر ہی دیا تھا ورنہ عام آدمی پارٹی کی کارکردگی اتنی بری نہیں رہی۔

-عام آدمی پارٹی نے قریب قریب 24 فیصد ووٹس حاصل کیے ہیں لیکن ان کو صرف 17 فیصد سیٹیں ملی ہیں۔ کانگریس نے 39٪ ووٹس لے کر 66٪ سیٹیس لی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بس ایک ہی آنچ کی کمی رہ گئی اور عام آدمی پارٹی جہاں جہاں ہاری ہے وہاں بہت کم مارجن سے ہاری ہوگی۔ اکالی دل کی حالت اس سے بھی بری ہے، وہ 25٪ ووٹ لے کر صرف 13٪ سیٹیس جیت سکے۔ اس سے مزید ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس جہاں جہاں سے جیتی ہے وہاں بہت ہی کم مارجن سے جیتی ہوگی۔ اس خیال کو حلقہ وار نتائج دیکھ کر جانچا جا سکتا ہے۔

آخری بات یہ کہ عام آدمی پارٹی کی دہلی میں تاریخی کامیابی ایک اور بات تھی۔ دہلی لوکل گورنمنٹ کی سیاست گلی محلوں کی سیاست ہے، بڑی ریاستوں کی سیاست شہروں اور دیہاتوں کی سیاست ہے ان میں بہت فرق ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پہلی صحیح حکومت انڈیا میں 1998ء میں بنی تھی لیکن دہلی کی سیاست میں وہ کئی دہائیوں ہی سے سرگرم تھے۔ بی جے پی کا دہلی کا پہلا میئر 1958ء میں بنا تھا جب وہ جَن سَنگھ کے نام سے تھے اور دہلی کارپوریشن میں وہ بہت سرگرم تھے۔ ایل کے ایڈوانی کی بھی صحیح سیاست دہلی کارپوریشن سے شروع ہوئی تھی لیکن ریاستوں اور مرکز میں حکومت بنانے کے لیے انہیں کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑا۔ کیجریوال کو بھی پنجابی ووٹروں نے انتظار کرنے کو کہا ہے۔
اس تفصیلی تجزیے کا بہت بہت شکریہ
ایک وجہ تو یہ ہے کہ عآپ نے وزیر اعلی کے طور پر کوئی چہرہ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا تھا جس کے لیےلوگ ووٹ کرتے۔
دوسری سب سے بڑی وجہ کیپٹن امریندر سنگھ (کانگریس صوبائی صدر پنجاب) کا قد ہے، لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پنجاب میں راہل، سونیا یا کانگریس کی وجہ سے ن
نہیں امریندر سنگھ کی وجہ سے جیت ہوئی ہے ایک بات اور واضح رہے کہ 2012 کے الیکشن میں بھی امریندر سنگھ ہی فیوریٹ تھے لیکن کانگریس 46 سیٹ( واضح اکثریت سے 13 سیٹ کم) ہی جیت سکی تھی اور اکالی دل 56 نے بے جے پی کے اتحاد سے حکومت بنا لی تھی۔
یوں لگتا ہے کہ مستحکم کئی دہائیوں پر محیط جمہوری نظام کے باوجود بھارتی سیاست بھی شخصیت پرستی کی اسیر ہے
 

فہد اشرف

محفلین
اس تفصیلی تجزیے کا بہت بہت شکریہ

یوں لگتا ہے کہ مستحکم کئی دہائیوں پر محیط جمہوری نظام کے باوجود بھارتی سیاست بھی شخصیت پرستی کی اسیر ہے
کسی حد تک، اور یہ چیز دنیا کی ہر جمہوریت میں پائی جاتی ہے۔ عوام میں دو طرح کے ووٹر ہوتے ہیں ایک جو پارٹی کے وفادار ہوتے ہیں اور ہمیشہ اسی کو ووٹ کرتے ہیں دوسرے کینڈیڈیٹ کو دیکھ کے ووٹ کرتے ہیں موخرالذکر کی تعداد زیادہ ہوتی اور یہی لوگ جمہوریت کو استحکام بخشتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ان انتخابات کے بعد گوا میں دلچسپ صورتحال سامنے آئی ہے۔ ریاستی اسمبلی کی 40 سیٹوں میں سے کانگریس 17 سیٹیں جیت کر اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی جب کہ مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی 13 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔ لیکن گوا کے گورنر نے کانگریس کی بجائے بی جے پی کو حکومت بنانے کی دعوت دے ڈالی ہے کیونکہ بی جے پی نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے گورنر کو حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ 21 ارکان کی حمایت کی فہرست دے دی ہے۔

اسی سلسلے میں بھارت کے وزیرِ دفاع منوہر پاریکر نے اپنی وزات سے استغفیٰ دے دیا ہے تا کہ وہ گوا کے وزیرِ اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھا سکیں، گورنر نے ان کو اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے 15 دن کی مہلت دی ہے۔

بی جے پی مرکز میں حکمران ہے سو اکثریتی پارٹی نہ ہونے کے باوجود وہ یقینا گوا میں اپنی حکومت بنا لیں گے۔
 
Top