من
محفلین
شکریہ تابش جی یہی کہا گیا ہے سمجھانے کے لیے شکریہ ویسے میں تھوڑی سی تبدیلی کر دی تاکہ سمجھنا آسان ہواس کو اگر ایسے پڑھیں تو سمجھ آئے گا۔
جو تحفے ہیں دیے غم، آپ نے ہم کو دم رخصت
یہاں غم نے تحفے نہیں دیے، بلکہ مخاطب نے غم تحفے میں دیے ہیں۔
شکریہ تابش جی یہی کہا گیا ہے سمجھانے کے لیے شکریہ ویسے میں تھوڑی سی تبدیلی کر دی تاکہ سمجھنا آسان ہواس کو اگر ایسے پڑھیں تو سمجھ آئے گا۔
جو تحفے ہیں دیے غم، آپ نے ہم کو دم رخصت
یہاں غم نے تحفے نہیں دیے، بلکہ مخاطب نے غم تحفے میں دیے ہیں۔
شکریہ لیکن اسکی پھر کیا آسکتا؟درست کی گئی ہے اصلاح۔ البہ میں ایک خامی کی طرف اور نشان دہی کر دوں۔ جو اتنی اہم نہیں۔ وہ یہ کہ ’زندان‘ کو مکمل باندھنا اچھا نہیں لگتا۔
اسکی جگہ پھر کیا آسکتاشکریہ لیکن اسکی پھر کیا آسکتا؟
تصویریں کی تقطیع تصویر ہو رہی پہلے مصرعے میں۔پھٹی تصویریں ماضی کی ہیں کچھ دیمک زدہ یادیں
جلا دو گھر یہ بوسیدہ سا کچھ سامان رکھا ہے
یہ شعر اب کچھ ایسے ہے؟؟
ذرا سی کوشش ا س غزل کو اور بہتر بنا سکتی ہے۔"زندان" لفظ ہے۔ یعنی 'ز' سے نہ کے 'ذ' سے۔
دوسرا یہ کہ "بنجر نگاہیں" ایسا فصیح لہجہ تو نہیں ہے۔ آپ اسے بہتر کر سکتے ہیں۔ نگاہوں کا بنجر ہونا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
غم جاناں کی صورت میں کوئی ذندان رکھا ہے
مری بنجر نگاہوں میں چھپا طوفان رکھا ہے
پھٹی یادوں کے بارے میں بات ہو چکی ہے۔
پھٹی یادوں کی تصویریں ہیں کچھ ماضی کے پردے ہیں
جلا ڈالو یہ گھر بوسیدہ سا کچھ سامان رکھا ہے
جدائی کی گھٹن کے بجائے شاید آپ 'جدائی میں گھٹن' کی بات کہنا چاہ رہے ہیں۔
جدای کی گھٹن محسوس ہوتی ہے مگر جاناں
ہوا کے واسطے ہم نے در امکان رکھا ہے
'جو غم تحفے میں ہم نے آپ سے پائے دمِ رخصت' ایک ممکنہ شکل ہو سکتی ہے۔
جو تحفے میں دیے غم اپ نے ہم کو دم رخصت
انہی کا نام ہم نے اب متاع جان رکھا ہے
اس شعر کا مطلب ہی سمجھ نہیں آیا۔ کس نے کہا؟ کس سے کہا؟
کہا تھا لوٹ کر واپس میں اؤں تو سجا رکھنا
ابھی تک اپکی خاطر یہ گھر ویران رکھا ہے
بہت بہت شکریہ میں پھر سے کوشش کرونگی اس پرایک مبتدی کی حیثیت سے آپ کی غزل کے حوالے سے چند باتیں عرض کر رہا ہوں۔ آپ کو پسند آئیں تو ٹھیک ورنہ نظر انداز کر سکتے ہیں۔
اپنی گزارشات اقتباس میں شامل کر دی ہیں۔
ذرا سی کوشش ا س غزل کو اور بہتر بنا سکتی ہے۔