غدیر زھرا

لائبریرین
کونسا معرکہ محتاجِ تگ و تاز نہیں
کونسا عزم نئی جہد کا آغاز نہیں
ذوقِ تخلیق کے اعجاز بھرے ہاتھ میں آج
تیشہ فرہاد کا ہے، کُن کا حسیں ساز نہیں

—————

خودبخود کوئی عجب سانحہ کب ہوتا ہے
کچھ تو نازل شدہ ہونی کا سبب ہوتا ہے
اَن گنت راز گہہِ زیست کے در کھُلتے ہیں
دِل کو درپیش نیا مسئلہ جب ہوتا ہے

—————

نہ جان اتنا اہم اس کو کہ ہے ہم ہی سے عالم تو
ہیں زیر و بم ہمارے ہی نفس کی لے کے موسم تو!
ہمیں سے سیلِ موسیقی رواں ہے ذرّے ذرّے میں
عناصر کی نفیری میں سمے کی پھونک ہیں ہم تو

—————

(تخت سنگھ)​
 

غدیر زھرا

لائبریرین
تُو ہے گر سیلِ خرد، راہ سے ساحل کو ہٹا
رُوئے خُورشیدِ سحر سے مہِ کامل کو ہٹا
کوتہِ بینی تو دُھندلکا ہے کم آگاہی کا
چشمِ بینا ہے تو ہر پردۂ حائل کو ہٹا

—————

آج کی صبح نے یہ کیسی نظر ڈالی ہے
روشن اِک شمع سی انگ انگ میں کر ڈالی ہے
من کی جھولی جو کئی دن سے پڑی تھی خالی
رنگ و نکہت کے مدھر نور سے بھر ڈالی ہے

—————

غُسل کرتے ہیں جو عرفاں میں تو دل دُھلتے ہیں
الجھنیں بڑھتی ہیں تو عُقدے نئے کُھلتے ہیں
زیست کی قوسِ قزح کتنی بھلی لگتی ہے
جب پریشاں سے کئی رنگ بہم گُھلتے ہیں

—————

(تخت سنگھ)​
 

غدیر زھرا

لائبریرین
شمع کیسی نہ فروزاں جو سرِ محفل ہو!
دل وہ کیا شورشِ دنیا میں نہ جو شامل ہو
معرفت کاوشِ ادراک ہے وجۂ غم کی
معرفت کیا جو غمِ زندگی سے غافل ہو

—————

جھیل پہ نور کی چادر سی بچھی جاتی ہے
پھول ہیں خندہ بلب مست فضا گاتی ہے
"اِک نئی زیست کے احساس سے روشن ہو جا"
دل کی گہرائی سے رہ رہ کے صدا آتی ہے

—————

ہے تلاش ایسے اِک اندازِ نظر کی مجھ کو
مے پلاتا رہے شب بھر جو سحر کی مجھ کو
جس کے سایہ میں نظر آئیں شرر بھی غنچے
راہِ فردوس لگے راہ بھنور کی مجھ کو

—————

(تخت سنگھ)​
 

غدیر زھرا

لائبریرین
غرق ہے سارا جہاں خواب کی بے ہوشی میں
اک تحیر سا ہے آئینۂ خاموشی میں
کون ہے کون جو ایسے میں بھی کچھ کہنے سے!
باز آتا نہیں ہر سانس کی سرگوشی میں

—————

جب آنکھ دیکھنے والی کہیں بھی تکتی ہے
تو فرطِ گل کی نمو سے زمیں چھلکتی ہے!
اگر تو چاہے تو تیرے لئے یہی دھرتی
تمام حسن ہوا میں اچھال سکتی ہے

—————

بنتِ گل لعل بکف کتنی بھلی لگتی ہے
ہر کلی خندۂ جاناں میں ڈھلی لگتی ہے
رنگ و نکہت کا وہ عالم ہے رواں نس نس میں
کنجِ گلشن کی طرح دل کی گلی لگتی ہے

—————

(تخت سنگھ)​
 

غدیر زھرا

لائبریرین
اعتقادات کی ٹہنی سے جھڑا پتّا ہوں
انتشاروں کی غلاظت میں پڑا پتّا ہوں
کیا خبر چلنے لگے زور سے کس وقت آندھی
پھر بھی جینے کی عبث ہٹ پہ اڑا پتّا ہوں

—————

فطرت سے بشر بر سرِ پیکار رہا ہے!
فطرت کا چلن پھر بھی پُر اسرار رہا ہے
کیا کم ہے کہ اس پر بھی یہ نا چیز سا ذرّہ
ہر اژدرِ تخریب کو للکار رہا ہے

—————

فکرِ ادبار نہ پروائے اجل کرتے ہیں
وُہی منشائے مقدر کو خجل کرتے ہیں
پاک رہتے ہیں توہم سے انہی کے دامن
کھل کے ہستی کے معموں کو جو حل کرتے ہیں

—————

(تخت سنگھ)​
 
بہت خوب کلام۔ کمال خیالات ہیں۔
اس پر اپنا اک ناپائیدار سا قطعہ یاد آیا ہے کہ:

عقدہ کھلے ہے پھر یہ عقیدے میں بند ہو
ایمان کی غزل ہے، قصیدے میں بند ہو
یہ خود کا فہم صدیوں پرانی کتا ب ہے
پھر کیسے تیرا فہم جریدے میں بند ہو
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بہت خوب کلام۔ کمال خیالات ہیں۔
اس پر اپنا اک ناپائیدار سا قطعہ یاد آیا ہے کہ:

عقدہ کھلے ہے پھر یہ عقیدے میں بند ہو
ایمان کی غزل ہے، قصیدے میں بند ہو
یہ خود کا فہم صدیوں پرانی کتا ب ہے
پھر کیسے تیرا فہم جریدے میں بند ہو
واہ بہت خوب حسن بھیا :) ڈھیروں داد :)
اور واقعی تخت سنگھ کا تخیل کمال ہے :)
 

طارق شاہ

محفلین
کونسا معرکہ، محتاجِ تگ و تاز نہیں
کونسا عزم ! نئی جہد کا آغاز نہیں
ذوقِ تخلیق کے اعجاز بھرے ہاتھ میں آج
تیشہ فرہاد کا ہے، کُن کا حَسِیں ساز نہیں

بہت ہی خوب




 

غدیر زھرا

لائبریرین
کُفر ہے طنطنۂ قدر و قضا سے ڈرنا
کُفرہے گردشِ دوراں کی جفا سے ڈرنا
جادۂ زیست پہ وہ شمعِ خودی کی لو ہوں
جس نے سیکھا ہی نہیں تیز ہوا سے ڈرنا

—————

کیا کہا، سلسلۂ رنج و طرب کچھ بھی نہیں
تب تو فن، سوچ، ادب، گیان! یہ سب کچھ بھی نہیں
اے کج اندیش! تُو چمٹا ہے پھر اس سے کیوں کر
حاصلِ کشمکش زندگی جب کچھ بھی نہیں

—————

گرچہ موت اب بھی بڑے معرکے کی شکتی ہے
تاہم آفت ابھی کچھ عرصہ تو ٹل سکتی ہے
ساعتِ مرگ اب انسان کی معین تو نہیں
زندہ رہنے کی کوئی راہ نکل سکتی ہے

—————

(تخت سنگھ)​
 
Top