خواجہ سرا

حسن ترمذی

محفلین
کس طرح کی معذوری ؟؟؟ ۔۔۔ کیا ان کے ہاتھ پاؤں سلامت نہیں ہوتے ؟؟ کیا وہ محنت مزدوری نہیں کرسکتے ؟؟؟ ۔۔۔ انہیں دراصل "مرد" معاشرہ ایسا نہیں کرنے دیتا اپنی حیوانی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہیں ہم مرد ۔۔ ورنہ بطور انسان ان کے وہی حقوق ہیں جو کتاب مقدس میں وضع کیئے گئے ہیں ۔۔ چند جسمانی تبدیلیوں کے علاوہ کیا الگ ہے ان میں ؟؟ ہمارے ہاں واضح جسمانی نقائص والے لوگ بڑی محنت کرتے ہیں نام کماتے ہیں مثال بنتے ہیں ۔۔ تو ان کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہے ؟؟ ان کو تضحیک یا ہوس کی تسکین کے سامان کے طور پہ کیوں مختص کیا گیا ؟؟ ۔۔ اصل سوال یہ ہے
 

فرقان احمد

محفلین
بات یہ ہے کہ 'کیا ہے؟' اور 'کیا ہونا چاہیے؟' میں اک ذرا فرق ہے۔

مان لیتے ہیں، مرد انہیں محنت مزدوری یا ڈھنگ کا کام کرنے نہیں دیتے، یعنی کہ یہ ایک معاشرتی حقیقت ہے۔

اب بات کر لیتے ہیں،

'کیا ہونا چاہیے؟'

ہونا تو بہت کچھ چاہیے پر یہ سب ہو گا کیسے؟

جب تک یہ سب کچھ نہ ہو گا، تب تک کیا ہو گا؟

شعور بیداری کے لیے مسلسل کاوشیں!

شاید یہ پوسٹ بھی اسی مقصد کے لیے کی گئی، اور یہ سب بحث بھی اسی مقصد کے لیے ہو رہی ہے۔

امید ہے، کبھی نہ کبھی اس حوالے سے بہتر رویے دیکھنے کو ضرور ملیں گے۔
 
ما شاء اللہ اس دھاگے کو پڑھ کر احساس ہوا کہ ہم خود من حیث الانسان کتنے بڑے خواجہ سرا ہیں. جسے مار دیا اسے چھوڑ کر ایک دوسرے کو علمی خواجہ سرا ثابت کرنے کی کیا عظیم کوششیں ہوئی ہیں.... بہنا کو اب تک سمجھ آچکی ہوگی کہ... بھینس کے آگے بین بجانا اصل میں کسے کہتے ہیں
 

لاریب مرزا

محفلین
ما شاء اللہ اس دھاگے کو پڑھ کر احساس ہوا کہ ہم خود من حیث الانسان کتنے بڑے خواجہ سرا ہیں. جسے مار دیا اسے چھوڑ کر ایک دوسرے کو علمی خواجہ سرا ثابت کرنے کی کیا عظیم کوششیں ہوئی ہیں.... بہنا کو اب تک سمجھ آچکی ہوگی کہ... بھینس کے آگے بین بجانا اصل میں کسے کہتے ہیں
بھائی!! اظہارِ افسوس تو آپ نے بھی نہیں کیا۔ آپ کا مراسلہ کیا ہے؟؟ ان تبصروں پر مزید ایک تبصرہ، اور کچھ نہیں!!
 
ایک اور سوال ۔۔ کیا واقعی انسانوں میں مرد و عورت کے علاوہ کوئی تیسری جنس Exist کرتی ہے یا صرف عورت کا روپ دھارنے والے یا پرانے دور میں بادشاہوں کے طرف سے خصی کیئے جانے والے مردوں کے لیئے یہ لفظ استعمال کیا گیا ۔۔
یہاں بہت سے سوالات کئے گئے ہیں۔ ان سب سوالات اور ان کے جوابات سے یہ انداز لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہم سب کی ( مجھ سمیت ) معلومات اس بارے میں بہت کم ہے۔ طبی طور پر یہ طے ہے کہ مرد ، عورت اور دونوں کے ملاپ والے افراد ہوتے ہیں ، اور پھر بانجھ ہوتے ہیں۔ ایمان کے لئے ہم اللہ تعالی کے فرمان قرآں حکیم سے رجوع کرتے ہیں ۔ درج ذیل آیات دیکھئے ۔ ان آیات میں اللہ تعالی صاف صاف فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی چار قسم کے افراد تخلیق فرماتے ہیں کہ مذکر ، مؤنث ، بانجھ اور پھر مذکر اور مؤنث ایک ہی شخص میں ۔

42:49 لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ
اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے

42:50 أَوْ
يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ

یا اُنکو دیتا ہے جوڑے ہوئے بیٹے اور بیٹیاں اور کر دیتا ہے جسکو چاہے بانجھ وہ ہی سب کچھ جانتا کر سکتا
مندرجہ بالاء ان دو آیات میں اللہ تعالی واضح طور مذکر، مؤنث، یا وہ جن میں مذکر و مؤنث دونوں یا پھر بانجھ کی تخلیق کے بارے میں ہمیں علم بہم پہنچاتے ہیں۔ یہ سب اولاد آدم میں ہی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے آدم کی اولاد کو قابل عزت اور قابل تکریم بنایا ہے۔ اس لئے ان چاروں قسم کے افراد کو عزت دینا ہمارا فرض ہے۔ میڈیکل سائنس اور جینیٹکس دونوں سے ایسے چار قسم کے افراد کے بارے میں معلومات ملتی ہے۔ بہت سے لوگ جو مرد پیدا ہوتے ہیں ، عورت بننا چاہتے ہیں اور پھر سرجری کے بعد بن بھی جاتے ہیں۔ بہت سی عورتیں جو عورت پیدا ہوتی ہیں وہ مرد بننا چاہتی ہیں اور سرجری کے بعد بن بھی جاتی ہیں ۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کی جنس ان چاروں میں سے کیا ہے ، یہ سب عزت اور احترام کے قابل ہیں۔

ذرا سوچئے کہ اگر ایک مرد کا ایکسی ڈٰینٹ ہو جائے اور وہ اپنے جنسی اعضا کھو بیٹھے تو اب وہ کیا کہلائے گا۔ یہ معاملہ صرف جنسی اعضاء تک محدود نہیں بلکہ ذہنی سوچ ، جسمانی ساخت اور خواہشات مل جل کر ان مختلف قسموں کی جنس کی تشکیل کرتی ہیں۔

والسلام
 

فاتح

لائبریرین
خواجہ سرا انسان ہوتے ہیں۔ ہم سب کی طرح۔ معذوری البتہ محکم ہے کہ وہ انڈوکرائن ڈسفنکشن کا شکار ہوتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ ایک انسان اگر عام آدمی جیسی فزیولوجی نہیں رکھتا تو وہ معذور تو ہے۔ البتہ احترام اور عزت ایک معقول رویہ ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
ہمارے "مردانگی پرست" معاشرے میں بہرحال یہ خرابی تو ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کو ایک مکمل انسان تصور نہیں کرتے۔
یہاں تک تو صد فی صد آپ سے متفق ہوں۔

اور پھر بر صغیر میں خواجہ سراؤں کا اختیاری رہن سہن کچھ مزید دوری کا سبب بن گیا ہے۔
ہاں جملے کے اس حصے میں "اختیاری رہن سہن" پر یہ کہنا چاہوں گا کہ اس اختیار کے سوا ہم نے انہیں اور کرنے بھی کیا دیا ہے۔ جب معاشرہ انہیں آؤٹ کاسٹ کر دیتا ہے تو یہی رہن سہن اختیار کرنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے۔ گو کہ آپ بھی اسی خیال کے حامی ہیں اور یہی بات کہہ چکے ہیں کہ
ہمارے "مردانگی پرست" معاشرے میں بہرحال یہ خرابی تو ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کو ایک مکمل انسان تصور نہیں کرتے۔
 

زیک

مسافر
افسوس کہ انسان کو انسان سمجھنا اتنا مشکل ہے۔

خواجہ سرا ان مردوں کو کہا جاتا تھا جنہیں بادشاہ اپنے محلوں میں خدمت سر انجام دینے کے لیے خصی کر دیا کرتے تھے۔
گو کہ یہ لفظ درست طور پر تیسری جنس کی ترجمانی نہیں کرتا لیکن فی الوقت موجود الفاظ میں سے با عزت ترین یہی نظر آتا ہے ورنہ ہیجڑا، کھسرا، زنخا، نامرد، زنانہ، وغیرہ جیسے الفاظ میں تحقیر و تضحیک شامل ہے۔
کچھ حیرت ہوئی کہ transgender کے لئے خواجہ سرا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ الیشا کے لئے شاید مؤنث کا صیغہ (؟) استعمال ہو گا۔
 
یہاں تک تو صد فی صد آپ سے متفق ہوں۔


ہاں جملے کے اس حصے میں "اختیاری رہن سہن" پر یہ کہنا چاہوں گا کہ اس اختیار کے سوا ہم نے انہیں اور کرنے بھی کیا دیا ہے۔ جب معاشرہ انہیں آؤٹ کاسٹ کر دیتا ہے تو یہی رہن سہن اختیار کرنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے۔ گو کہ آپ بھی اسی خیال کے حامی ہیں اور یہی بات کہہ چکے ہیں کہ

میرے خیال اور مشاہدے کے مطابق کچھ تو مجبوری اور کچھ انکا اپنا اختیار بھی ہے اس میں۔
جبکہ دوسری طرف میں نے اللہ میاں کی ایسی ہی مخلوق کو حلیم کا باقاعدہ کاروبار کرتے بھی دیکھا ہے کچھ عرصے پہلے تک۔ کراچی میں ہی۔
 
افسوس کہ انسان کو انسان سمجھنا اتنا مشکل ہے۔


کچھ حیرت ہوئی کہ transgender کے لئے خواجہ سرا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ الیشا کے لئے شاید مؤنث کا صیغہ (؟) استعمال ہو گا۔

در اصل خواجہ سرا ایک ایسی ثقافتی مخلوق ہے جو بر صغیر کے علاوہ اس طرح کہیں نہیں پائی جاتی۔
دوسری طرف یہ بھی عرض ہے کہ انڈیا اور پاکستانی خواجہ سراؤں پر فزیولوجیکلی کوئی تحقیق تاحال نہیں ہوئی ہے۔
ان کے معاملات سادہ ٹرانس سیکس اور ہوموسیکشویلیٹی وغیرہ کے نہیں ہیں۔ بلکہ ابھی تک تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا جنسی رجحان کس طرح کا ہوتا ہے، آیا کہ ہوتا بھی ہے یا نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
کچھ حیرت ہوئی کہ transgender کے لئے خواجہ سرا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ الیشا کے لئے شاید مؤنث کا صیغہ (؟) استعمال ہو گا۔
صرف "خواجہ" کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ وہ شخص جسے کیسٹریٹ کیا گیا ہو
سرا کے معنی گانے والا ہوتے ہیں جیسے غزل سرا
اب ایسا مظلوم شخص گانے کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا لہٰذا خواجہ کے آگے سرا لگادیا گیا اور یہ بن گیا خواجہ سرا
یہاں تک تو یہ لفظ مذکر ہی تھا کیونکہ خواجہ سرا دراصل تو مرد ہی ہوتے تھے جنہیں بادشاہوں نے خصی کروایا ہوتا تھا لیکن بعد میں جب یہ لفظ "نسبتا" کم تحقیر کا حامل لگا تو ٹرانس جینڈرز نے خود کو یہی کہلوانا شروع کر دیا باوجود اس کے کہ وہ اپنے نام خواتین و الے چنتے یا چنتی ہیں اور گفتگو میں فعل کی مونث حالت یعنی آ رہی ہوں جا رہی ہوں وغیرہ استعمال کرتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
مستانہ ہیجڑا

۔۔۔
وہ آج لہر میں تھا
مسی کی چھب دکھا کے
نتھنے پھلا پھلا کے
انگلی نچا نچا کے
اس نے مزے میں آ کے
ہنس کر کہا کہ سالو
میں تو جنم جنم سے
اپنے ہی آنسوؤں میں
ڈوبا ہوا پڑا ہوں
شاید ضمیر عالم کے
تنگ مقبرے میں
زندہ گڑا ہوا ہوں

-- ساقی فاروقی
 

فاتح

لائبریرین
مستانہ ہیجڑا

۔۔۔
وہ آج لہر میں تھا
مسی کی چھب دکھا کے
نتھنے پھلا پھلا کے
انگلی نچا نچا کے
اس نے مزے میں آ کے
ہنس کر کہا کہ سالو
میں تو جنم جنم سے
اپنے ہی آنسوؤں میں
ڈوبا ہوا پڑا ہوں
شاید ضمیر عالم کے
تنگ مقبرے میں
زندہ گڑا ہوا ہوں

-- ساقی فاروقی
یہ شاید ساقی فاروقی کی نظم کا صرف آخری حصہ ہے
 

arifkarim

معطل
رہی بات ہم جنس پرستوں کی تو جزوی طور پر تو "شاید" اسے جینیاتی یا پیدائشی کہا جا سکتا ہے لیکن اکثر کے ہاں یہ ایک اختیاری شے ہے خصوصاً ان معاشروں میں جہاں مرد و عورت کا آزادی سے ملنا مشکل ہے مثلاً پاکستان۔ ایسے معاشروں میں یہ پیدائشی سے کہیں زیادہ اختیاری عمل ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ کچھ میسر نہیں۔ میں کوئی پرسنٹیج یا شرح معین تو نہیں کر سکتا لیکن پاکستان میں ایسے لوگوں کی شرح بہت زیادہ ہے یا کم از کم آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ ہے جو ہم جنس پرستی کو ایک متبادل کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔
فاتح آپنے جس قدر تکلیف اور درد کیساتھ اس "مردوں کے معاشرے" میں رہنے والے مردوں کی زدحالی کا ذکر کیا ہے۔ جہاں وہ بیچارے شادی سے قبل ہم جنس پرستی اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور شادی کے بعد بیوی کی غلامی قبول کرنے پر۔ ایسے نام نہاد مردوں کے معاشرے کو تو جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینک دینا چاہئے۔ حقوق مرداں کی تنظیمیں کہاں ہیں ؟ :)
 

فاتح

لائبریرین
کسی بھی فیٹس کی تخلیق کے لئے کیا ایکس اور وائی کروموسوم دونوں چاہئے ہیں؟
بچپن میں یعنی سکول کے زمانے میں تو یہی پڑھا تھا کہ ایکس اور وائی کروموسومز انسانوں اور کئی دیگر جانوروں میں جنس کا تعین کرتے ہیں۔ ایکس اور وائی کروموسومز ہوں تو مرد۔ ایکس اور ایکس کروموسومز ہوں تو عورت۔
چونکہ بایولاجی میری فیلڈ نہیں لہٰذا سکول اور کالج کے بعد دوبارہ کبھی تفصیل سے اس موضوع کو پڑھا نہیں۔ ابھی آپ کے سوال کے باعث وکی پیڈیا کے "انٹر سیکس intersex" صفحے کوکھنگالا اور اس کے پہلے پیرا گراف میں اس کے متعلق گو کہ لکھا تو ہوا ہے لیکن میں اسے سمجھ نہیں پایا۔
Such variations may involve genital ambiguity, and combinations of chromosomal genotype and sexual phenotype other than XY-male and XX-female.[2][3]
 

نور وجدان

لائبریرین
میوٹیشن
ڈاکٹر بلند اقبال کینڈا
بشکریہ اردو افسانہ فارم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی کچھ بھی کہے مگر سچ تو یہی تھا کہ اس میں علی بخش کا کچھ بھی قصور نہیں تھا وہ تو اور مردوں کی طرح اپنے باپ کے y کروموسوم اور ماں کے x کروموسوم سے مل کر ہی بنا تھا۔ خلیوں کی تقسیم بھی درست تھی اور نیوکلیس کے ملاپ بھی۔ جینز Genes کی ترتیب بھی سہی تھی اور الیلز Alleles کی ساخت بھی۔ بس کوئی آوارہ کو انزائیم Co-Enzyme تھا جو عین وقت پر میٹابولزم Metabolism میں حصہ نہ لے سکا اور بنا آواز کے اپنے ارتقاء سے ہی خارج Delete ہو گیا اور علی بخش کے سیکس ہارمونز کے رسپٹرز Receptors کی شکل بدل گیا۔ اس قیامت کا نہ تو علی بخش کو ہی پتہ چلا اور نہ ہی اس کے باپ مولوی کریم بخش کو۔
پھر محلے میں علی بخش کی پیدائش پر خوب ہی لڈو بٹے، کان میں اذان ہوئی اور پھر رسم مسلمانی۔ مولوی کریم بخش نے دونوں ہاتھ جوڑ کر خدا وند کریم سے رحمتوں کی گڑگڑا کر بھیک مانگی اور پوری عاجزی سے اپنے پیارے بیٹے کو دین کی بھلائی اور خلق خدائی کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی ٹھانی۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلے۔ مولوی کریم بخش نے بیٹے کی تربیت میں کوئی بھی کسر نہ چھوڑی۔ پاکیزہ مذہبی ماحول اور اعلیٰ مشرقی تربیت کے اثرات علی بخش کے جملہ کردار میں جھلکتے تھے۔ کردار کے اثرات چہرے مہرے پر بھی جیسے چاند سورج بن کر چمکتے تھے۔ ابھی وہ گیارہ سال ہی کے تھے کہ قرآن پاک حفظ کر لیا اور پھر تبلیغ الٰہی کہ اسرار و رموز سے واقفیت کی غرض سے کبھی باپ کے ساتھ اور کبھی ان کے رفقاء کار کے دامن کو تھام کر دور دراز کے شہروں اور گاؤں کے چکر لگانے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ارد گرد کے ماحول اور تربیت نے کچھ ایسا رنگ جمایا کہ تحریر و تقریر میں بلاغت آتی چلی گئی۔ الفاظ بے تکان لبوں سے نکلتے اور اثرات اس قدر جذباتی شدت اور مذہبی حدت سے بھرے ہوتے کہ سننے والوں پر رقت سی طاری ہو جاتی، دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دل تصورِ وحدانیت سے مغلوب ہو جاتے، آنکھیں عشق رسول سے نم ہو جاتیں اور سر رکوع میں خم ہو جاتے۔ جب جب رفقائے کرام نجی محفلوں میں کم عمر بیٹے کی امامت و بلاغت کا تذکرہ مولوی کریم بخش سے کرتے تو ان کی پیشانی خدا وند پاک کی بارگاہ میں شکرانے کے لیے سجدہ ریز ہو جاتی اور گڑگڑا کر اس کی رحمتوں پر شکر گزار ہو جاتی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے علی بخش کا بچپن جوانی کی دہلیز کو چھونے لگا اور پھر ایک رات ان کے قدو کاٹھ نے جوانی کی جو بھرپور انگڑائی لی تو جیسے ادھ موئی کلیوں میں ٹوٹ کر بہار آگئی۔ اگلی صبح علی بخش حیران نگاہوں سے اپنے بدلتے بدن کے زاویوں کو خلوصِ دل سے تک رہے تھے۔ فجر کی اذان میں ان کی آواز میں وہ کرب تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے تو نمازی خداوند کریم سے خود اپنی آوازوں کے لیے بھی کچھ ایسے ہی لطف و کرم کی فریاد کرنے لگے۔
ظہر اور عصر کی نماز علی بخش نے گھر پر ہی ادا کی۔ مولوی کریم بخش نے حیران نگاہوں سے بیٹے کو دیکھا تو باپ سے نظریں بچا کر اپنی زندگی کا پہلا جھوٹ کہا اور طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کیا۔ آہستہ آہستہ محفلوں اور مذاکروں میں شرکت کم ہونے لگی اگر مجبوراً آنا بھی پڑتا تو آخری قطار میں بیٹھ جاتے اور پھر جلد ہی نظریں بچا کر نکل جاتے۔ خود کو محض اپنے کمرے تک محدود کرنے لگے اپنا زیادہ وقت قرآن شریف کی تلاوت میں گزارتے اور نہیں تو ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتے اور چپ چاپ آسمان کو تکتے رہتے۔
پھر کچھ ہی دنوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی علی بخش کی چال نسوانی ہوتی چلی گئی اور جسم بے ادبی کی حد تک لباس سے نمایاں ہونے لگا۔ مولوی کریم بخش نے بیٹے کے جسم کے بدلتے ہوئے تیور دیکھے تو آنکھیں حیرانی سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور شرم سے زمین میں گڑتی چلی گئیں۔ بہت دنوں تک گفتگو میں دوری برداشت نہ ہوئی اور بالآخر ایک روز بیٹے کے کمرے میں آئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ آخر بہت صبر و تحمل کے بعد ایک جملہ ادا کیا ’وہ بڑا رب الجلیل ہے اس کے ہر کام میں مصلحت چھپی ہوتی ہے، مگر کیا تم نے حکیم و طبیب سے بھی کچھ دریافت کیا؟‘ علی بخش باپ کے سوال پر شرم کے مارے زمین میں گڑ گئے اور پھر ان سے نظریں ملائے بغیر ہی زمین کو تکتے ہوئے کہنے لگے۔ ’جی ڈاکٹرز کہتے ہیں پیدائش سے قبل ہی خلیوں کی تقسیم میں کچھ بگاڑ پیدا ہو گیا تھا، کوئی چیز شائد میوٹیشن Mutation ہوتی ہے، اسی کی وجہ سے اور اب علاج ممکن نہیں‘‘ یہ کہہ کر باپ کے پیروں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور سسک سسک کر کہنے لگے۔ ’ابا جی! اب میں کیا کروں؟ اب کیسے لوگوں سے نظریں ملاؤں؟ کیسے عبادت کے لیے گھر سے نکلوں؟ مجھ سے سہا نہیں جاتا، خود کشی حرام نہ ہوتی تو کب کا جان دے چکا ہوتا۔‘ باپ نے روتی سرخ خشمگیں سے بیٹے کو دیکھا اور آہستہ سے کہا۔ ’بیٹے اب شائد تمہارے لیے تبلیغ الٰہی اور امامت مسلمہ کے تمام در بند ہوگئے ہیں، عوام الناس تمہاری بلاغت کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے مگر ہاں، ایک دروازہ شائد ابھی بھی کھلا ہوا ہے، مراقبہ.... کہتے ہیں کہ یہ سکون کا ذریعہ ہے‘ یہ کہہ کر مولوی کریم بخش نے روتے ہوئے بیٹے کے کمرے کا دروازہ بند کیا اور آنسو پوچھتے ہوئے مسجد چلے گئے۔
لفظ ’’میوٹیشن‘‘ کسی چمگادڑ کی طرح علی بخش کے دماغ سے چپک گیا تھا۔ وہ جب جب آنکھیں بند کرتے اور مراقبے میں جانے کی ٹھانتے تو بہت سی چمگادڑیں ان کے خیالوں میں اتر آتیں اور پھر چاروں جانب سے انہیں گھیر لیتیں۔ کبھی کبھی تو یہ یلغار اس قدر شدید ہو جاتی کہ وہ گھبرا کر آنکھیں کھول دیتے اور پھر گہری گہری سانس لیتے۔ انہیں لگتا جیسے سچ مچ کی چمگادڑیں ان کے بدن پر چپک گئی ہیں اور ان کی بوٹیاں نوچ رہی ہیں۔
بالآخر آہستہ آہستہ مراقبے میں وقت بڑھنے لگا۔ چمگادڑیں تو اب بھی نظر آتی تھیں مگر اب ان کی شکلیں بدلنے لگی تھیں۔ اب کبھی کبھی وہ جو مراقبے کی نیت سے آنکھیں بند کرتے تو کینسر اور پولیو کے ادھ مرے مریض اور بچے نظر آنے لگتے جو کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پر رینگتے ہوتے اور ان کے جسموں پر کہیں کہیں چمگادڑیں چپٹی ہوئی انہیں چاٹ رہی ہوتیں۔ کبھی کبھار جو آنکھیں بند ہوتیں تو انہیں سر سبز و شاداب میدانوں میں بنجر زمینیں نظر آنے لگتیں جن سے لپٹی ہوئی چمگادڑیں زمین کا رس چوس رہی ہوتیں اور کبھی جو آنکھیں بند کرتے تو خیالوں میں طوفانوں کے جھکڑ اور زلزلوں سے ہلتی ہوئی زمین نظر آنے لگتی، جیسے بہت سی چمگادڑیں زمین میں دانت گاڑ کر اسے ہلا رہی ہوتیں اور جب وہ بالکل ہی خالی الذہن ہو جاتے تو اچانک بہت سارے ہجڑے انہیں ایک ساتھ روتے اور بین کرتے دکھائی دیتے اور انہیں ایسا لگتا جیسے چمگادڑیں ان کے بدن پر چپکی ہوئی ان کا خون چوس رہی ہوں۔ شائد ہی کوئی ایسا مراقبہ ہوتا جو ان کو سکون بخشتا۔ ہر بار ہی ان کی روح زخمی ہوتی، ہر بار ہی انہیں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا۔
آخر کار ایک رات تھک ہار کر مراقبے کا خیال چھوڑنے کا ارادہ کر لیا اور ایک آخری مراقبے کی نیت سے جائے نماز پر بیٹھے۔ پہلے قرآن شریف کی تلاوت کی اور پھر آنکھیں بند کر کے پوری یکسوئی سے اپنے رب الجلیل کو یاد کرنے لگے۔ اچانک آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے اور وہ روتے روتے سسکیاں بھرنے لگے اور پھر خود کے جسمانی کرب کے بجائے ساری دنیا کے روحانی کرب کو یاد کرنے لگے۔ اچانک انہیں لگا کہ جیسے ان کے جسم اور روح کا رشتہ کچھ لمحوں کے لیے ٹوٹ سا گیا ہو اور پھر ان کی روح جیسے کائنات کے چاروں اور پھیلے ہوئے آسمانی رنگوں میں تحلیل ہونے لگی۔ کچھ ہی دیر میں ان کی نظروں نے ایک عجیب ہی منظر دیکھا جیسے بہت سارے ستارے اور سیارے ان کے گرد ناچ رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے قریب آتے، آپس میں ملتے اور دور ہو جاتے۔ نئے ستاروں کی تقسیم ہوتی چلی جاتی اور کہکشاں نت نئے خوشنما رنگوں سے سجتی چلی جاتی۔ پھر سیارے تقسیم ہونے لگتے اور ان کے نیوکلس آپس میں جڑتے چلے جاتے اور پھر نئی ترتیب بنتی اور پھر روشنی کے جھماکے ہوتے اور نئی نئی ساخت کے سیارے بنتے چلے جاتے۔ اچانک علی بخش کو لگا جیسے کوئی آوارہ عنصر Element اپنی تبدیلیوں میں حصہ نہ لے سکا اور بنا آواز کے اپنے ارتقائی عمل سے خارج Delete ہو گیا۔ علی بخش کو یوں لگا جیسے وہ سیارہ روشن ہوتے ہوتے اچانک تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا اور پھر اس تاریک سیارے سے سیاہی روشن کرنوں کی طرح پھوٹنے لگی اور اس شدت سے چاروں طرف پھیلی کہ لمحے بھر کے لیے علی بخش کو سوائے تاریکی کے کچھ نہ نظر آیا اور پھر..... کچھ چمگادڑوں کے پروں کے پھڑپھڑانے کی آوازیں گونجنے لگی۔ پسینے سے شرابور علی بخش نے ڈوبتے ہوئے دل کے ساتھ گھبرا کر آنکھیں کھول دی۔ دور چھت کے اک کونے میں ایک چمگاڈر الٹی لٹکی ہوئی اپنے پروں کو پھڑپھڑا کر چپکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
علی بخش نے اپنی بے چین دھڑکنوں پر قابو پایا اور آہستہ سے اٹھنے کی کوشش کی مگر لڑکھڑا کر دوبارہ جائے نماز پر بیٹھ گئے اور پھر سجدے میں گر گئے اور روتے ہوئے بڑبڑانے لگے..... تو کیا..... تو کیا رب الکریم یہ زمین بھی؟ کائنات میں میوٹیشن کا نتیجہ ہی ہے؟
===================================================

میرے خیال میں یہ افسانہ اس موضوع کا بہترین عکاس ہے اس کے بعد تمام سولات ختم ہوجائیں گے کہ خواجہ سرا کیا ہوتے ہیں ۔۔۔

 
کسی بھی فیٹس کی تخلیق کے لئے کیا ایکس اور وائی کروموسوم دونوں چاہئے ہیں؟

فیٹس کے لیے تو نہیں۔ البتہ جنسی تعیین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
بعض حالات میں کسی رینڈم خرابی کی وجہ سے ایسا نہیں بھی ہو پاتا۔ لیکن فیٹس پھر بھی ڈویلپ ہو جاتا ہے۔ جیسے ٹرنر سنڈروم (Turner Syndrome) میں۔ جس میں عورت کے پاس سیکس کروموزام میں صرف ایک ایکس ہوتا ہے۔ دوسرا ایکس یا تو مکمل یا پھر کچھ حصہ غائب ہوتاہے۔ لیکن یہ خلافِ جمہور ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
لاہور میں ڈاکٹر انجم ثاقب صاحب خواجہ سراؤں کی بحالی کے لئے کافی کام کر رہے ہیں۔پچھلے سال میں نے بھی اُن کی خواجہ سراؤں کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کی۔ جہاں ڈاکٹر صاحب نے ان سے باتیں کیں۔ان کے ساتھ سب نے کھانا کھایا۔کتنے خواجہ سرا اتنی عزت پہ رو رہے تھے۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنی کتاب "اخوت کا سفر" بھی دی۔
اس تقریب میں شرکت کے لئے مجھے اور میرے بچوں کو بہت لمبا سفر طے کرنا پڑا تھا لیکن واپسی پہ ہمارے دل بہت مطمئن اور شاد تھے۔
1934277_814774821966044_1748318487713870652_n.jpg
 
Top