اِگے پت اور انگریزی کی غزل _____ گل نوخیز اختر

یوسف سلطان

محفلین
ہمارے سکول میں چھٹی کلاس سے اے بی سی شروع کرائی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے تب ہم سب سی ۔یو۔پی ’’سپ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ اس انگریزی کا بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ اکثر ٹیچر بھی اسی کو صحیح سمجھتے تھے اور نمبر بھی اچھے مل جایا کرتے تھے۔ میٹرک تک مجھے Unfortunately کے سپیلنگ یاد نہیں ہوتے تھے، پھر میں نے دیسی طریقہ اپنایا، پورے لفظ کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور یوں سپیلنگ یاد ہوگئے۔زمانہ طالب علمی میں بھی میری انگلش ایسی ہی تھی جیسی آج ہے۔ سو میں نے ایک ماہر انگریزی سے ٹیویشن پڑھنا شروع کردی۔ موصوف خود بی اے کے سٹوڈنٹ تھے اور بڑی تسلی سے Huge کو ’’ہیوجی‘‘ پڑھایا کرتے تھے۔ الحمد للہ ان کی تعلیم کے نتیجے میں ہم دونوں انگریزی میں امتیازی نمبروں سے ناکام ہوا کرتے تھے۔
پچھلے دنوں سینما کا ایک بینر کھمبے پر ٹنگا دیکھا جس پر انگریزی فلم کا اردو میں لکھا نام پڑھ کر بے اختیار استاد صاحب یاد آگئے۔ اس بورڈ کی تصویر کالم کے اختتام پر شامل اشاعت ہے۔ فلم کا نام ہے Gods of Egypt ۔ ترجمہ کرنے والے صاحب کی انگریزی چونکہ کچھ زیادہ ہی بہتر ہے اس لیے انہیں لفظ Egypt کی سمجھ نہیں آئی تو انہوں نے فلم کا نام ’’گاڈ آف اِگے پت‘‘ رکھ دیا ہے۔ یقیناًاس میں پینٹر صاحب کی علمیت کا بھی خاصا عمل دخل ہے کیونکہ عموماً انگریزی فلموں کے ناموں کا ترجمہ یہ پینٹر حضرات ہی کرتے ہیں ۔ ملتان میں ایک ایسے ہی پینٹر ہوا کرتے تھے، کمال کا ترجمہ کرتے تھے اور حیرت انگیز بات یہ کہ ان کے ترجمے کے بعد ’ہاؤس فل‘ جاتا تھا۔
مجھے یاد ہے جب پہلی بار ملتان کے سینما گھروں میں ’گاڈزیلا‘ لگی تو موصوف نے اردو میں اسے ’گاڈ۔زہریلا‘‘ لکھا تھا۔قبلہ کو اگر فلم کے نام کا مطلب سمجھ میں آجاتا تو خود ہی ٹائٹل تخلیق کرلیا کرتے تھے۔ جب ’’ایول ڈیڈ‘ لگی تو پوسٹر پر تحریر فرمایا’’بے غیرت بدروحیں‘‘۔ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا اور تانبا وغیرہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب حضرت نے معروف فلم Above the law کا ترجمہ ’’ابو دی لا‘‘ کیا۔انگریزی کو اردو میں پڑھا جائے تو اکثر ایسا ہی ہوتاہے۔
یقین کیجئے جب گورمے ریسٹورنٹ بھی کھلا تھا تو اکثریت اسے ’’گورنمنٹ‘‘ سمجھی تھی۔آج بھی’’ شیورلے ‘‘ کار کا نام ’’شیورلیٹ‘‘ زبان زد عام ہے، Nike کو میرے جیسے ’’نائک‘‘ پڑھتے ہیں ۔ویسے ایسی انگریزی پڑھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ ’چمسٹری اور کنالج‘ سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔میرے ایک دوست کو سخت غصہ ہے کہ انگریزوں نے ہماری اردو پر ڈاکا ڈال لیا ہے اور اب ہر بندہ رومن انگریزی میں اردو لکھنے لگا ہے۔انہوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے انگریزی کو اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔پچھلے دنوں ان کے چھوٹے بچے کو بخار تھا، موصوف نے اردو میں انگریزی کی درخواست لکھ کر بھجوا دی۔’’ڈیئر سر! آئی بیگ ٹو سے دیٹ مائی سن از اِل اینڈ ناٹ ایبل ٹو گوسکول، کائنڈلی گرانٹ ہم لیو فار ٹو ڈیز۔ یورس اوبی ڈی اینٹلی‘‘۔ جونہی ان کی درخواست پرنسپل صاحب تک پہنچی انہوں نے غور سے درخواست کا جائزہ لیا، کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک خاتون ٹیچر کو بلایا اور درخواست دکھا کر مطلب پوچھا، خاتون کچھ دیر تک غور سے درخواست دیکھتی رہیں، پھر اچانک ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، کپکپاتی ہوئی آواز میں بولیں’’سر! یہ کسی نے آپ پر انتہائی خطرناک تعویز کرایا ہے‘‘۔
مجھے تسلیم ہے کہ میں انگریزی نہیں جانتا اسی لیے ابھی تک ’’ڈاکٹرائن‘‘ کو لیڈی ڈاکٹر سمجھتا ہوں۔اللہ جانتا ہے میں تو ایک عرصے تک School کو ’سچول‘ اور College کو ’کولیگ‘ اور Asia کو آسیہ پڑھتا رہا ہوں۔انگریزی کو ذبع کیے بغیر مزا ہی نہیں آتا۔میرے دوست کا کہنا ہے کہ ہماری’’کیئرلیسیوں‘‘ کی وجہ سے انگریزی کا تلفظ خراب ہورہا ہے۔میرا خیال ہے غلط کہتا ہے، انگریزی کی بوٹیاں نوچنے کی لذت بے مثال ہے۔ جو مزا ’’موویاں‘‘ دیکھنے میں ہے وہ Movies میں کہاں۔ویسے بھی انگریزی خود بھی ایک پہیلی ہے، بندہ پوچھے جب Cut کٹ ہے، تو Put پَٹ کیوں نہیں؟؟؟مختلف ملکوں کے نام بھی عجیب و غریب ہیں۔’’شام‘‘ کا نام ’’Evening ‘‘ کی بجائے ’’syria ‘‘کیوں ہے؟یورپ کے سپیلنگ Europe کیوں ہیں بھائی؟E کہاں سے ساتھ آگیا؟؟؟بنکاک کو Bangkok لکھنے کا کیا تُک ہے؟بلاوجہ G اندر گھسا یا ہوا ہے۔اس طرح پیزا کے لفظ میں بھی T کو شامل باجا رکھا ہوا ہے۔ یہ سب چیزیں غلط ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ جتنا ہوسکے انگریزی کو ٹھیک کریں۔
انگریزی کی بہتری کے لیے میرے پاس کچھ مفید تجاویز ہیں جس کے بعد جیسے ہم خود ٹھیک ہوئے ہیں ویسے ہی انگریزی بھی ٹھیک ہوجائے گی۔پہلی تجویز تو یہ ہے کہ انگریزی سے ہر قسم کے ایسے الفاظ نکال دینے چاہئیں جو پہلی نظر میں بیہودگی کا مرقع نظر آتے ہیں۔چونکہ انگریزی کے بہت سے الفاظ ہماری زندگیوں میں شامل ہوچکے ہیں لہذا اب انگریزی بھی ہماری ہے۔ انگریزوں سے اسے چھین لینا چاہیے کیونکہ اردو کا دور تو اب ختم ہوچکا ہے۔ اردو اب صرف فیس بک کی اردو آپشن میں ہی اچھی لگتی ہے ، وہاں بھی کوئی اسے سلیکٹ کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔

(گل نوخیز اختر)
 
آخری تدوین:
مضمون پڑھ کر تو بےاختیاربارہا دہرایا ہوا یہ مصرع ایک بار پھرگنگنانے کو جی چاہا

میں نے یہ جانا کہ گویا "یہ سب کچھ " میرے دل میں ہے

گاڈز آف اگے پت کا پوسٹر تو خود ہم نے اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھا ہے اور گھنٹوں عش عش کرتے رہےہیں۔

اسی طرح "ابوو دی لا" پڑھ کر کبھی ہم نے سوچا تھا کہ شاید پنجابی میں اپنے ابے کو وردی اتارنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔

اتنا کچھ کہنے کے باوجود ہمارا ماننا ہے کہ اس مضمون میں کچھ بہت ہی اہم الفاظ سے صرف نظر کیا گیا ہے مثلاً پیروٹ Parrot بمعنی طوطا یا بقول حکیم سعید توتا وغیرہ۔

ایک مرتبہ کاذکر ہے ہم نے ایک پیاری سی گڑیا سے تقاضا کیا

"بیٹا پوم Poem سناؤ؟"

تو اس نے بسندِ استانی ہماری خوب خبر لی کہ " انکل! پوم نہیں ہوتا پویم ہوتا ہے۔" وہ دن اور آج کا دن ، ہم اس لفظ کو پویم ہی کہتے ہیں۔

فاضل مصنف نے شیورلیٹ کاتذکرہ کیا تو ہمیں رینالٹ بھی یاد آگئی۔ فوکسی اور فوکس ویگن گو اپنے اصلی ناموں سے ہی پکارے گئے، البتہ ہم نے کچھ انگریزی زدہ جوانوں کو اسے ووکس ویگن بھی پکارتے ہوئے سنا۔

پیزا کا تذکرہ ہوا تو ہمارے منہ میں بھی اپنے پسندیدہ بن کروسانٹ Croissant کا مزہ آنے لگا۔

ادھر ہماری مقامی کمپنیاں بھی عوام کے مزاج کو سمجھتی ہیں اورD'juice کا ترجمہ ڈی جوس، اور KNORR کا ترجمہ کنور ہی کرتی ہیں۔

(باقی آئیندہ)
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
مضمون پڑھ کر تو بےاختیاربارہا دہرایا ہوا یہ مصرع ایک بار پھرگنگنانے کو جی چاہا

میں نے یہ جانا کہ گویا "یہ سب کچھ " میرے دل میں ہے

گاڈز آف اگے پت کا پوسٹر تو خود ہم نے اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھا ہے اور گھنٹوں عش عش کرتے رہےہیں۔

اسی طرح "ابوو دی لا" پڑھ کر کبھی ہم نے سوچا تھا کہ شاید پنجابی میں اپنے ابے کو وردی اتارنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔

اتنا کچھ کہنے کے باوجود ہمارا ماننا ہے کہ اس مضمون میں کچھ بہت ہی اہم الفاظ سے صرف نظر کیا گیا ہے مثلاً پیروٹ Parrot بمعنی طوطا یا بقول حکیم سعید توتا وغیرہ۔

ایک مرتبہ کاذکر ہے ہم نے ایک پیاری سی گڑیا سے تقاضا کیا

"بیٹا پوم Poem سناؤ؟"

تو اس نے بسندِ استانی ہماری خوب خبر لی کہ " انکل! پوم نہیں ہوتا پویم ہوتا ہے۔" وہ دن اور آج کا دن ، ہم اس لفظ کو پویم ہی کہتے ہیں۔

فاضل مصنف نے شیورلیٹ کاتذکرہ کیا تو ہمیں رینالٹ بھی یاد آگئی۔ فوکسی اور فوکس ویگن گو اپنے اصلی ناموں سے ہی پکارے گئے، البتہ ہم نے کچھ انگریزی زدہ جوانوں کو اسے ووکس ویگن بھی پکارتے ہوئے سنا۔

پیزا کا تذکرہ ہوا تو ہمارے منہ میں بھی اپنے پسندیدہ بن کروسانٹ Croissant کا مزہ آنے لگا۔

ادھر ہماری مقامی کمپنیاں بھی عوام کے مزاج کو سمجھتی ہیں اورD'juice کا ترجمہ ڈی جوس، اور KNORR کا ترجمہ کنور ہی کرتی ہیں۔
بہت خوب ۔
ضرور ،منتظر
 
Top