قرآن کی آڑ میں انکارِ حدیث ۔۔۔؟!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم !

جب بھی ہم منکرینِ حدیث قسم کے لوگوں سے سوال کرتے ہیں
یہ جو آپ کے ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے ، کیسے پتا چلے گا کہ یہ وہی قرآن ہے جو اللہ کا کلام ہے ؟
اس سوال کا خاطر خواہ جواب کوئی نہیں دے پاتا۔

حالانکہ پتا چلنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ممکن ہے۔
کوئی ہم کو بتائے کہ یہ کتاب '' قرآن '' ہے ‫!
اگر آپ کے والدین نے آپ کو بتایا کہ بیٹا ، یہ کتاب '' قرآن '' ہے اور یہ کتاب اُنہی آیات پر مشتمل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی تھیں ۔۔۔ تو آپ کے والدین کو یہ بات پھر کس نے بتائی؟ جس نے بھی بتائی، اُس کو کس نے بتایا؟ ۔۔۔ اس طرح یہ سلسلہ پیچھے اور پیچھے کی طرف جائے تو معلوم ہوگا کہ آیات خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی زبان سے سنائی تھیں جن کو '' کاتبینِ وحی '' نے لکھ لیا تھا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست (‫direct‬) آپ کو تو آیات نہیں سنائی تھیں ، پھر کس بنیاد پر آپ کو یقین ہے کہ جو قرآن آپ کو والدین نے دیا ، اِس میں وہی آیات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتری تھیں ؟

اس سوال کا جواب عموماََ درج ذیل آیت کے ذریعے دیا جاتا ہے کہ : یہ وہی آیات ہیں جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئیں ۔
بے شک ہم نے ہی نازل کی ہے یہ کتابِ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔۔۔ ( سورہ الحجر 15 ، آیت : 9)۔

یعنی ، اِس آیت سے ہی آپ کو پتا چلا ؟ ۔۔۔۔ یعنی '' قرآن '' کھول کر دیکھنے کے بعد ؟
تو سوالات یہ ہیں کہ :
یہ قرآن (جس میں سے آپ نے آیت ‫QUOTE کی ) آپ کو کہاں سے ملا ؟
کس نے دیا آپ کو؟
یا آپ نے کہیں سے خریدا ؟
جہاں سے بھی خریدا ، اُس شخص کو کس نے دیا ؟
جس شخص نے بھی یہ قرآن چھاپا اُس نے بھلا کہاں سے کاپی کیا ؟
کیا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست اُس چھاپنے والے کو قرآن سنایا تھا ؟ اگر نہیں ، تو پھر اُس نے کہاں سے کاپی کیا ؟ کیا گارنٹی ہے کہ اُس نے بالکل وہی آیات کاپی کیں جو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے '' کاتبینِ وحی '' کو سنائی تھیں؟

اگر آپ پھر وہی بات دہرائیں کہ ‫:
اللہ نے قرآن کو محفوظ رکھنے کی گارنٹی دی ہے ۔۔۔ ( سورہ الحجر 15 ، آیت : 9)۔
تو ہم پھر کہیں گے کہ یہ بات تو آپ کو قرآن کھولنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔
جب کہ ہمارا سوال یہی ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں '' قرآن '' آیا کہاں سے ؟

قرآن ، ایک مکمل کتاب کی شکل میں ‫compiled‬ ہوا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سنانے پر۔ اور ۔۔۔ اللہ کی آیات کو نہ تو خود اللہ نے اور نہ ہی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست آپ کو سنایا اور نہ کسی ناشر (‫publisher) کو۔
منکرینِ حدیث خود کہتے ہیں کہ ‫:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا '' قرآن '' اب بھی موجود ہے ، استنبول اور تاشقند میں۔

حالانکہ یہاں ان سے یہ سوالات بھی دریافت طلب ہیں کہ ۔۔۔
یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی ؟
کیا آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ؟
اگر دیکھا بھی تو کیسے یقین کیا ؟
کس نے کس بنیاد پر آپ کو یقین دلایا ؟

ہم ایسے سوالات کرنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ ۔۔۔ احادیث کے متعلق بھی منکرینِ حدیث تقریباََ اسی قسم کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔

بلاشبہ '' قرآن '' کو دنیا میں بھیجنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس بے شمار ذرائع تھے ۔۔۔ مگر جس '' ذریعے '' سے اُس نے بھیجا ، وہ ایک معلوم شدہ حقیقت (‫a known fact‬) ہے ، اور وہ یہی کہ ‫:
قرآن کو خود اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ نے پورا انحصار اِس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سچا مانیں گے ، وہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اعتماد پر قرآن کو ہمارا کلام مان لیں گے ‫!!

نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے قران اپنی زبان سے سنایا اور '' کاتبینِ وحی '' نے اُس کو لکھ لیا۔
لیکن یہ بات آپ کو یا ہم کو کیسے معلوم ہوئی ۔۔۔ ؟ یعنی یہ بات کہ ۔۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے زمانے میں کاتبینِ وحی سے نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے ؟
اور اُن تحریروں سے نقل کر کے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں قرآن کو '' مصحف '' کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے شائع کیں۔
یہ سب کچھ محض حدیث کی '' روایات '' سے ہی دنیا کو معلوم ہوا ہے ورنہ قرآن میں تو اس کا ذکر نہیں ‫!
اور نہ ہی حدیث کی اِن ہی '' روایات '' کے سوا اِس کی کوئی دوسری '' شہادت '' دنیا میں موجود ہے ۔

اب اگر حدیث کی '' روایات '' ہی سرے سے قابلِ اعتماد نہیں ہیں تو پھر کس دلیل سے دنیا کو یقین دلایا جائے گا کہ فی الواقع قرآن ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں لکھا گیا تھا ؟

‫> نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہم نے دیکھا نہیں ، مگر '' لوگوں '' نے کہا کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا میں آئے تھے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کیا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات کو قبول کیا۔
‫> قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا ، ہم نے نہیں دیکھا کہ کیسے اُترا ؟ اور نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کس طرح سنایا اور کس کو کس طرح لکھوایا؟ مگر '' لوگوں'' نے کہا کہ قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا تھا اور اُنہوں(صلی اللہ علیہ وسلم) نے جیسا کا تیسا (‫AS IT IS‬) لکھوایا اور وہی قرآن آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے قرآن کھولا ، پڑھا اور اس کے ایک ایک حرف پر ایمان لے آئے۔
‫> اور جب یہی '' لوگ '' کہتے ہیں کہ ۔۔۔ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اِس طرح نماز ادا کی ، اِس طرح زکوٰۃ دی ، اس طرح تنبیہ کی ، اِس طرح حرام / حلال قرار دیا ۔۔۔ تو یہاں ہم '' لوگوں'' کی بات پر اعتماد نہیں کرتے ؟؟ کیوں ؟؟
صرف اسی لیے کہ جو '' آزادی '' ہمارا نفس چاہتا ہے ، جو آزادی ہمیں اپنی خودساختہ شریعت لاگو کرنے کے لیے درکار ہے ۔۔۔ اُس آزادی کی راہ میں '' نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات (احادیث) '' بہت بڑی رکاوٹ ہیں ‫!!

دورِ حاضر کے محدثِ جلیل علامہ البانی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
شریعت کی تعبیر میں حدیث و سنّت دوسرے درجے کا مآخذ نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت وحی اور شریعت ہونے کی بناء پر یکساں حجت ہیں۔ دونوں کو ملا کر شریعت حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ کلامِ اللہ ہونے کے اعتبار سے ایک کو 'قرآن' کہا جاتا ہے تو مرادِ اِلٰہی ہونے کے اعتبار سے دوسرے کو حدیث و سنّت !
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ، آپ کے اقوال و افعال سے محبت ، اُن کی اتباع پر منتج ہونی چاہئے۔ احادیثِ نبوی کو دین فہمی میں اہمیت نہ دینا گویا شانِ نبوت اور حبّ ِ نبوی کا انکار ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ، شریعت کے شارح کی حیثیت کو ، کسی امّتی نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں واضح کیا ہے۔ (مسئلہ تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے صحیح طور پر ثابت ہو جانے کا ہے۔)

یہاں اس مسئلہ پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ : شریعت دورِ نبوی میں اور آج تک بالکل ایک رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی ایک امر صحابہ رضی اللہ عنہ کے لئے تو شریعت ہو اور ہمارے لئے نہ ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ کا دین صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ہمارے لئے یکساں نہیں ۔
ایک بات جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمائیں تو وہ اس کو ماننے کے مکلّف ہوں ، لیکن ہم مرورِ زمانہ کے بعد اس کے پابند نہ رہ جائیں، کیوں کر ایسے ہو سکتا ہے ؟؟!!

آخری اہم بات یہ کہ قرآن تفاصیل سے بحث نہیں کرتا اور یہ صرف حدیث و سنت ہے جو دین اور معاشرے کی تفصیلی صورت گری کرتی ہے۔
قرآن ، اللہ کی کتاب ہے ، وہ کلامِ باری تعالیٰ ہے ، اس کی حکومت بحر و بر پر چھائی ہوئی ہے ، وہ اللہ کی برہان اور مینارہٴ نور ہے ۔۔۔۔۔۔ غرض قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے جتنا بھی مبالغہ کر لیا جائے وہ صحیح اور برحق ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی قیمت یہ نہیں ہونی چاہئے کہ :
جس پر قرآن نازل ہوا تھا ، قرآن کے نام پر اس کی سنّت کو پیچھے پھینک دیا جائے اور اُمت چودہ سو (1400) سال سے جن احادیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر ان پر عمل پیرا اور ان کے تقدس کی قائل ہے ، قرآن فہمی اور "مولویت" کے نام پر ان کو بے وقعت کر دیا جائے ۔ ظاہر ہے یہ موقف اسلام دشمنوں کو تقویت دینے والا ہے !!
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک سوال:

کیا صحیح بخاری میں اور صحیح مسلم میں تمام بیان کردہ احادیث یا روایات کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سو فیصدی درست اور حقیقی ہیں اور ان میں کوئی بھی بیرونی ملاوٹ نہیں؟ اور یہ بھی کہ وہ تمام کی تمام نبی پاک ص سے براہ راست منقول ہیں؟
 

باذوق

محفلین
ایک سوال:
کیا صحیح بخاری میں اور صحیح مسلم میں تمام بیان کردہ احادیث یا روایات کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سو فیصدی درست اور حقیقی ہیں اور ان میں کوئی بھی بیرونی ملاوٹ نہیں؟ اور یہ بھی کہ وہ تمام کی تمام نبی پاک ص سے براہ راست منقول ہیں؟
وہ تمام احادیث ، جن کی مکمل سند کے بیان کا امام بخاری نے اہتمام کیا ہے ، بےشک ان تمام احادیث کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔
صحیح بخاری میں ایسی تمام احادیث کے علاوہ کچھ وہ "تعلیقات" بھی ہیں جن کے لیے امام صاحب نے سند کے اہتمام کی ضرورت نہیں سمجھی اور وہ کسی باب کے عنوان یا اس کی وضاحت یا تشریح میں بیان کی گئی ہیں۔ اور ان میں سے بھی بیشتر وہ ہیں جو بخاری ہی کی صحیح حدیث کے طور پر کسی نہ کسی جگہ درج ہیں۔ باقی جو ہیں ان پر کلام کیا جا سکتا ہے۔
کسی بھی حدیث کی صحت کو جانچنے کے لیے ، چاہے وہ کسی بھی کتابِ حدیث میں درج ہو ، سند بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کسی روایت کے ساتھ اگر سند متصل نہ ہو تو محدثین اسے قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے۔ اسی بنیاد پر عبداللہ بن مبارک (رحمہ اللہ) کا قول مشہور ہے کہ :
سند دین ہے ، اگر سند نہ ہوتی تو جس کے جی میں جو آتا وہ حدیث کے نام پر بیان کرتا پھرتا۔

اس کے علاوہ ، صحیح بخاری میں صرف نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اقوال ، افعال و تقاریر نہیں ہیں بلکہ غزوات ، معاشرت ، صحابہ کرام کے افعال و اقوال وغیرہ کا بھی بیان ہے۔ تو جو فعل نبی سے منقول یا صحابہ کے اجماع سے معروف ہو ، اس کی اتباع کا تقاضا ہے کہ دین کو ہم سے بہتر وہی سمجھتے تھے۔
 
مولوی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ تارک سنت ہے، نماز کا طریقہ اس سنت جاریہ کے بعد بھی ڈھونڈھ رہا ہے اور مصر ہے کہ یہ تعلیم قرآن میں نہیں، بلکہ مولویت کی کتب روایات میں‌ہے۔

مولوی تارک حدیث ہے، اس کو حدیث‌پیش کریں تو اس کو منسوخ قرار دے کر ریجیکٹ کر دیتا ہے، لیکن منسوخ‌شدہ روایات کی لسٹ اس کے پاس نہیں ہے۔ نہ کوئی ثبوت ہے کہ یہ حدیث کب منسوخ‌ہوئی۔
مولوی تارک قرآن ہے، یہ قرآن کے ساتھ انسانوں کی لکھی ہوئی کتب روایات شامل کرتا ہے، وہ کتب روایات جس میں رسول کی احادیث کے علاوہ اسرائیلی روایات بھی شامل ہیں

جب بھی کسی نے اس طرف اشارہ کیا، تاریخ گواہ ہے کہ مولویت نے اسکو کٹوا دیا، سازش کی اور اپنی مولویت کی حفاظت کی۔
مولویت مذہب کی آڑ میں ایک مذموم سیاسی تحریک ہے۔ اس کے بارے میں‌مزید جانئیے اور قرآن و سنت اور درست احادیث کا خود مطالعہ کریں۔

یہ مولویوں‌کی پہچان ہے کہ وہ قرآن کے علاوہ بھی دوسری کتب روایات پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی تاویلات پیش کرتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
کیا امام بخاری سب سے بڑے؁ منکرِ حدیث نہیں تھے کہ انہوں نے لاکھوں احادیث مسترد کیں۔ :p
 
کیا امام بخاری سب سے بڑے؁ منکرِ حدیث نہیں تھے کہ انہوں نے لاکھوں احادیث مسترد کیں۔ :p
کس نے کتنی احادیث مسترد کیں، اسکا ایک اقتباس ایک 1925 کی حدیث کی کتاب سے یہاں کہ 600000 میں سے 98.80٪ احادیث کو مسترد کردیا اور صرف 7250 کو تسلیم کیا۔ ؟؟؟
 

باذوق

محفلین
مسترد ؟؟

کیا امام بخاری سب سے بڑے؁ منکرِ حدیث نہیں تھے کہ انہوں نے لاکھوں احادیث مسترد کیں۔ :p
کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں امام بخاری نے احادیث "مسترد" کر دیں۔
ہم نے تو اب تک "چھوڑ" دیں سنا تھا۔
چھوڑنا اور مسترد کرنا ۔۔۔ اس میں‌ فرق کرنا شائد آپ کو بھی آتا ہوگا۔

اور یاد رکھئے ۔۔۔ یہاں‌ پر وضعی اور منکر روایات کی بات نہیں‌ ہو رہی۔ ایسی روایات کو تو ہر محدث ، "مسترد" کرتا ہے !!
 

فاتح

لائبریرین
نہایت عمدہ معلومات ہیں۔ خصوصاً مجھ سے کم فہم اور لاعلم شخص کے لیے تو نہایت ہی معلوماتی پوسٹ ہے۔ شکریہ!

ایک دو سوالات ذہن میں آ رہے تھے۔ اگر اجازت ہو تو پوچھتا چلوں۔

کیا قرآن شریف کی آیات کو رسول اللہ صلی اللہ سلم کے زمانہ میں بوقتِ نزول ہی تحریر کر لیا جاتا تھا؟
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود اس کی پروف ریڈنگ بھی فرماتے تھے؟
کیا احادیث کی کتابت اور پروف ریڈنگ بھی اسی طور سے ہوئی؟
شکریہ!

اور یاد رکھئے ۔۔۔ یہاں‌ پر وضعی اور منکر روایات کی بات نہیں‌ ہو رہی۔ ایسی روایات کو تو ہر محدث ، "مسترد" کرتا ہے !!
کسی حدیث کے "مسترد" / "رد" / "چھوڑنے" کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم

قرآن خود اتباع نبوی یعنی سنت نبوی پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے
[arabic]
{قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ }

[/arabic][ayah]آل عمران31[/ayah]

اس سے سنت کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے

اور سنت احادیث کے ذریعہ ہی معلوم ہوتی ہے
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جہاں بے شمار درست اور صحیح احادیث ہیں وہاں کچھ لوگوں نے مفاد پرستی، سازش اورذاتی مقاصد کے حصول کے لیے احادیث وضع کرنے کی فیکٹریاں بھی لگائیں اور ان کارخانوں کے ذریعہ احادیث کے نام پر بے شمار بے بنیاد اور من گھڑت باتوں کو فروغ دیا گیا

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کتب احادیث کو مرتب اور مدون کرنے والے لوگ بتقاضائے بشری خطا و سہو سے محفوظ نہیں تھے اور انہوں نے اپنی کتب میں ایسی روایات کو ناداستہ، سہوا یا غلطی سے جگہ دیدی
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر مصنف ، مرتب کا ذاتی رجحان اور تعلق خاطر اس کی مرتب یا مدون کردہ کتابوں پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اور وہ غیر شعوری طور پر ان کتابوں میں ایسا ہی مواد جمع کرتا ہے جو اس کے تعلق خاطر اور رجحان قلبی سے لگا کھاتا ہو کتب احادیث کے مرتبین بھی اس فطری کمزوری سے پاک نہیں تھے ان کے ہاں بھی یہ کمزوریاں موجود ہیں
کسی کتاب کے بارے میں اگر امت اس بات پر متفق ہو جائے کہ یہ صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی صحت کو قرآن کی صحت کے برابر تسلیم کر لیا جائے اس کی صحت کے بارے میں بس اتنا ہی عقیدہ رکھنا درست ہہے کہ یہ باقی کتب حدیث کی نسبت زیادہ صحیح ہے لیکن یہ قرآن کی طرح غلطیوں سے پاک اور مبرا ہرگز نہیں اس میں بھی بشری کمزوریوں کے تحت کچھ نہ کچھ ایسا موجود ہونے کے اماکانات ہیں جس پر کلام کیا جا سکے
لیکن آجکل تو اس قسم کا رجحان فروغ پا رہا ہے کہ فلاں شخص نے امام بخاری کی فلاں حدیث پر تنقید کر دی ہے کیا اس کے ساتھ کھانا پینا جائز ہے؟؟؟ کیا اس کا نکاح باقی رہا وغیرہ

باقی یہ سوال کہ احادیث کی جانچ پڑتال اور ان کی صحت کو پرکھنے کا عمل ہونا چاہیے یا نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب سے کتب حدیث کی تالیف کا کام شروع ہوا تب سے ہی حدیث کی جانچ پڑتال کا کام بھی جاری ہے
محدثین اور علما نے حدیث کی جانچ کے اصول اور ضوابط مقرر کر دیے
اور انہی اصولوں اور ضوابط کے مطابق جانچ پڑتال کا یہ سلسلہ روز اول سے جاری و ساری ہے اور محدثیں کسی حدیث کو صحیح قرار دے کر تسلم کر لیتے ہیں اور کسی کو غلط یا موضوع قرار دے کر اس کا انکار کردیتے ہیں

ایک اور سوال کیا حدیث کی جانچ پڑتال کے لیے جو اصول اور قواعد و ضوابط مقرر کر دیے گئے ہیں وہ کافی و شافی ہیں اور اس کے بعد کسی نئے ضابطہ کی ضرورت نہیں اس کا جواب بھی یہی ہے کہ تحقیق کی نئی نئی جہتوں اور حرف مقصد تک درست ترین رسائی کے لیے ان اصولوں میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور چانچ پرکھ کے لیے پہلے سے موجود شرائط میں مزید سختی بھی پیدا کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنے سے بعض وہ روایات بھی سکین کی جا سکتی ہیں جو اس سے پہلے نہ ہو سکی تھیں

ایک اور سوال کہ احادیث کی روایت درایت اور ردو قبول کا معاملہ کو ئی نئی بات ہے جواب یہ ہے کہ یہ تو روز اول سے جاری ہے
پھر کیا وجہ کہ متقدمین میں سے اگر کوئی یہ کام کرے تو وہ محدث قرار پاتا ہے اور متاخرین میں سے اگر کوئی ایسا کرے تو وہ منکر حدیث کے مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے میں تو اسے محص تعصب اور تنگ نظریی ہی کہوں گا
 

اجمل

محفلین
باذوق صاحب نے بہت تفصیل سے بات سمجھائی ہے لیکن ہم میں بہت سے ایسے ہیں جن کیلئے ایسی تفصیل ضروری ہوتی ہے ۔
شاکر قادری صاحب نے بھی درست لکھا ہے ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں ان کے یہ لکھنے کا کہ انسان سے غلطی ہو سکتی ہے ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ کسی سے غلطی ہوئی ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر میں درست سمجھا ہوں تو کیا ہم اس ساری بات کو اس طرح سے سمیٹ سکتے ہیں کہ

1۔ قرآن پاک کے درست ہونے پر کسی کو نہ شک ہے اور نہ ہونا چاہئے
2۔ احادیثِ رسول کےبارے بھی کسی کو کوئی شک نہیں اور نہ ہی کسی ایک بھی حدیث کو مسترد کرنے کا سوچا جا سکتا ہے
3۔ احادیث‌کی کتب میں روایات کی ملاوٹ ہو سکتی ہے اور ہے بھی
4۔ وہ تمام کتب جو احادیث کو بیان کرتی ہیں، ان کو سو فیصد درست نہیں مانا جا سکتا اور نہ ہی سو فیصد غلط
5۔ احادیث بیان کرنے والی تمام کتب پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ لیکن ان کی اپنی اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا
 
قران کے حوالہ جات:

اگر میں درست سمجھا ہوں تو کیا ہم اس ساری بات کو اس طرح سے سمیٹ سکتے ہیں کہ

1۔ قرآن پاک کے درست ہونے پر کسی کو نہ شک ہے اور نہ ہونا چاہئے

[AYAH]2:2[/AYAH][ARABIC] ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/ARABIC]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے
[AYAH]2:44[/AYAH] [ARABIC]أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْ۔تُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ [/ARABIC]
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب (بھی) پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟

[AYAH]41:3[/AYAH] [ARABIC]كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ[/ARABIC]
(اِس) کتاب کا جس کی آیات واضح طور پر بیان کر دی گئی ہیں علم و دانش رکھنے والی قوم کے لئے عربی (زبان میں) قرآن (ہے)
2۔ احادیثِ رسول کےبارے بھی کسی کو کوئی شک نہیں اور نہ ہی کسی ایک بھی حدیث کو مسترد کرنے کا سوچا جا سکتا ہے
[AYAH]2:151[/AYAH] [ARABIC]كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ [/ARABIC]
اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے

3۔ احادیث‌کی کتب میں روایات کی ملاوٹ ہو سکتی ہے اور ہے بھی
[AYAH]2:91[/AYAH] اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ ایمان لاؤ اس پر جو نازل کیا ہے اللہ نے تو وہ کہتے ہیں ایمان لاتے ہیں ہم اس پر جو نازل کیا گیا ہم پر اور انکار کرتے ہیں ماننے سے ہر اس چیز کے جو اس کے علاوہ ہے حالانکہ وہ حق ہے جو تصدیق کرتا ہے اس (کتاب) کی جو ان کے پاس موجود ہے۔ ان سے کہو آخر کیوں قتل کرتے رہے ہو تم اللہ کے نبیوں کو اس سے پہلے اگر تھے تم ایمان والے؟

[AYAH]2:176[/AYAH] [ARABIC] ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ[/ARABIC]
یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ نے کتاب حق (سچ) کے ساتھ نازل فرمائی، اور بیشک جنہوں نے کتاب میں اختلاف ڈالا وہ مخالفت میں (حق یعنی سچ سے) بہت دور (جا پڑے) ہیں

[AYAH]3:78[/AYAH] اور بیشک ان میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبانوں کو مروڑ لیتے ہیں تاکہ تم ان کی الٹ پھیر کو بھی کتاب (کا حصّہ) سمجھو حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے، اور کہتے ہیں: یہ (سب) اﷲ کی طرف سے ہے، اور وہ (ہرگز) اﷲ کی طرف سے نہیں ہے، اور وہ اﷲ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور (یہ) انہیں خود بھی معلوم ہے

4۔ وہ تمام کتب جو احادیث کو بیان کرتی ہیں، ان کو سو فیصد درست نہیں مانا جا سکتا اور نہ ہی سو فیصد غلط
[AYAH]3:7[/AYAH] وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِ اثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے

5۔ احادیث بیان کرنے والی تمام کتب پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ لیکن ان کی اپنی اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا
حدیث : خبر - معنی کے لئے قرآن کی آیت دیکھئے
سورۃ البروج:85 , آیت:17 هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ
کیا آپ کے پاس لشکروں کی خبر پہنچی ہے

[AYAH]2:177[/AYAH] [ARABIC]لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ[/ARABIC]
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

قرآن ہی فرق بتانے والی الکتاب ہے۔ اس کا تھوڑا تھوڑا مطالعہ ہم کو درست اور غلط کا بہتر فرق بتاتا ہے۔
[AYAH]2:185[/AYAH] رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ
[AYAH]3:4[/AYAH] (جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لئے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بیشک جو لوگ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے سنگین عذاب ہے، اور اﷲ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے
[AYAH]25:1[/AYAH] (وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو جائے


قران پڑھئے کہ کہ اللہ نے اس کو ذکر کے لئے آسان بنایا ہے:
[AYAH]54:17[/AYAH] [ARABIC]وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [/ARABIC]
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے
 
مفتی اعظم الممکۃ العربیۃ اسعودیۃ، شیخ‌ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز کا خط

نوٹ: اس خط کی سکین شدہ کاپی آپ میری ویب سائٹ پہ دیکھ سکتے ہیں، اصل خط انگریزی میں ہے۔


11 اپریل 1999
مطابق 24 ذی الحجہ، 1419 ھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے دینی سرمائے کی حفاظت کے لئے عقاب کی طرح ہوشیار رہنا ہوگا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ اسلام دشمن عناصر نے ہماری کتابوں کو ہدف بنا رکھا ہے۔ حیرت جب ہوتی اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ ہماری پناہ گا کیا ہے؟ القران۔

اپنی کتاب حضور رسالت مآب صلعم کے اس قول کریم سے شروع کیجئے۔
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

مع السلامۃ ،

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
مفتی اعظم، مملکۃ العربیۃ السعودیۃ

انگریزی ترجمہ: احمد علی المّری، الریاض
نظرثانی: دکتور احمد اے خالد، جدہ
اردو ترجمہ : بریگیڈیر افواج پاکستان، ڈاکٹر شبیر احمد، سابق معالج خاص ملک فیصل- الباکستانی
 

رضا

معطل
p10.gif
 

فرید احمد

محفلین
نوٹ: اس خط کی سکین شدہ کاپی آپ میری ویب سائٹ پہ دیکھ سکتے ہیں، اصل خط انگریزی میں ہے۔


11 اپریل 1999
مطابق 24 ذی الحجہ، 1419 ھ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے دینی سرمائے کی حفاظت کے لئے عقاب کی طرح ہوشیار رہنا ہوگا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ اسلام دشمن عناصر نے ہماری کتابوں کو ہدف بنا رکھا ہے۔ حیرت جب ہوتی اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ ہماری پناہ گا کیا ہے؟ القران۔

اپنی کتاب حضور رسالت مآب صلعم کے اس قول کریم سے شروع کیجئے۔
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

مع السلامۃ ،

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
مفتی اعظم، مملکۃ العربیۃ السعودیۃ

انگریزی ترجمہ: احمد علی المّری، الریاض
نظرثانی: دکتور احمد اے خالد، جدہ
اردو ترجمہ : بریگیڈیر افواج پاکستان، ڈاکٹر شبیر احمد، سابق معالج خاص ملک فیصل- الباکستانی
فاروق صاحب کا اصل مدعا یہ ہے کہ مولویت نے کتب روایات کی آڑ میں قرٓن کو پس پشت ڈال دیا ہے،
اس کو ثابت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شروع قران سے ایک کے بعد ایت فاروق صاحب بیان کریں اور بتاتے چلیں مولویت نے کس آیت کا کس طریقہ سے انکار کیا ؟
بہتر ہوگا کہ اسی صحیح طریقہ سے مرتب انداز میں نقطہ بہ نقطہ اپنی بات فاروق صاحب ثابت کرتے جائیں ۔
 
فاروق صاحب کا اصل مدعا یہ ہے کہ مولویت نے کتب روایات کی آڑ میں قرٓن کو پس پشت ڈال دیا ہے،
اس کو ثابت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شروع قران سے ایک کے بعد ایت فاروق صاحب بیان کریں اور بتاتے چلیں مولویت نے کس آیت کا کس طریقہ سے انکار کیا ؟
بہتر ہوگا کہ اسی صحیح طریقہ سے مرتب انداز میں نقطہ بہ نقطہ اپنی بات فاروق صاحب ثابت کرتے جائیں ۔

بھائی یہ آپ کا اپنا دیا ہو رنگ ہے، یہ آپ کو ایک بچہ بھی بتا دے گا۔ لہذا آُپ اپنے اس عندیہ پر عمل کیجئے اس پر ایسی کتب کی ابتدا کیجئے۔
میں اپنی تصنیفات میں‌ رسول اللہ صلعم کے اس قول کے مطابق احتیاط کا قائل ہوں۔ اسی مقصد کے لئے یہ لکھا۔ آپ کی حد درجہ بے ایمانی کا میں قائل ہوچکا ہوں۔ قرآن پڑھتے رہئے، اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائیں گے۔

آپ کا کوئی مفید سوال ہو تو فرمائیے اور اگر صرف کردار کشی کا شوق ہے تو یہ اللہ آپ کو مبارک کرے۔
 

فرید احمد

محفلین
آپ کی حد درجہ بے ایمانی کا میں قائل ہوچکا ہوں۔
کوئی دلیل ؟

کتب روایات کو آپ ایرانیوں کی سازش بھی لکھتے ہیں ، اور کہیں اس کے حوالے بھی دیتے ہو !

میں پہلے ہی پوچھ چکا ہوں کہ کتب روایات کے بارے میں " ہاں یا نا " میں صاف جواب ایک مرتبہ لکھ دیں ، بحث اگے چلے گی ، میری طرح اوروں کو بھی اس کا انتظار ہے ۔
اگر کچھ روایات معتبر اور کچھ نا معتبر تو اس کی فہرست شامل کر دیں ۔
دعوی آپ نے کیا ہے ، مولویوں پر کہ انہوں نے کتب روایات کا سیاسی استعمال کر کے ظاہر میں ایمان اور پس پشت انکار کا ، دلیل اسی طرح ہو گی کہ یکے بعد دیگرے آیات پیش کریں اور مولویوں کے انکار اور سیاسی استعمال کو واضح کریں
لمبا مضمون تحریر کر کے بات کو گول کر جانا حقیقت پسندی نہیں ۔
 
کوئی دلیل ؟

کتب روایات کو آپ ایرانیوں کی سازش بھی لکھتے ہیں ، اور کہیں اس کے حوالے بھی دیتے ہو !

میں پہلے ہی پوچھ چکا ہوں کہ کتب روایات کے بارے میں " ہاں یا نا " میں صاف جواب ایک مرتبہ لکھ دیں ، بحث اگے چلے گی ، میری طرح اوروں کو بھی اس کا انتظار ہے ۔
اگر کچھ روایات معتبر اور کچھ نا معتبر تو اس کی فہرست شامل کر دیں ۔
دعوی آپ نے کیا ہے ، مولویوں پر کہ انہوں نے کتب روایات کا سیاسی استعمال کر کے ظاہر میں ایمان اور پس پشت انکار کا ، دلیل اسی طرح ہو گی کہ یکے بعد دیگرے آیات پیش کریں اور مولویوں کے انکار اور سیاسی استعمال کو واضح کریں
لمبا مضمون تحریر کر کے بات کو گول کر جانا حقیقت پسندی نہیں ۔

ہاں یا نہ پر جواب یہاں‌دیکھ لیں میں آپ کے سوالات کے جوابات ایک سے زائد بار دے چکا ہوں۔ آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح‌مولویت نے حق حاکمیت کو حق ملکیت میں تبدیل کیا۔ اور اپنے تبصرے بھی فرما سکتے ہیں۔ آپ نے رسولِ کریم کے اقوال میں احتیاط برتنے والے قول رسول کریم کے معنے جو دیے وہ کس طرح بنتے ہیں رسول کریم کے اس قول سے؟

"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "

جب بھی کوئی روائت آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

اس کے معنے کس حساب سےدرج ذیل بنتے ہیں۔ آپ اس کی وضاحت فرمائیں اور بتائی کی کونسی ایمانداری پر آپ عمل کرنا چاہتے ہیں؟ :
فاروق صاحب کا اصل مدعا یہ ہے کہ مولویت نے کتب روایات کی آڑ میں قرٓن کو پس پشت ڈال دیا ہے،
اس کو ثابت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شروع قران سے ایک کے بعد ایت فاروق صاحب بیان کریں اور بتاتے چلیں مولویت نے کس آیت کا کس طریقہ سے انکار کیا ؟
بہتر ہوگا کہ اسی صحیح طریقہ سے مرتب انداز میں نقطہ بہ نقطہ اپنی بات فاروق صاحب ثابت کرتے جائیں ۔

آپ کے سوالات کے جواب میں نے دے دئے، اب آپ مندرجہ بالا سوال کا جواب دیجئے اور مزید سوال یہ ہے آپ سے :
1۔ کیا آپ نے مکمل قرآن با معانی پڑھا ہے؟
 

فرید احمد

محفلین
کسی چیز کے قول رسول صلی اللہ علیہ و سلم ثابت ہو جانے کے بعد یہ مفروضہ کہ کتاب اللہ کے خلاف ہو ، ایک دجل ہے ۔
میں کہ چکا ہوں کہ وہ روایات پیش فرمائیں جن کے سہارے مولویت نے قرآن کا انکار کیا
مولویوں کے اعمال افعال کو پیش نہ کریں ، میں یہ بات بصد اصرار کہوں گا کہ جن افعال کی نسبت آپ مولویت کی طرف کرتے ہو وہ مولویوں کے نہیں ، پورے مسلم معاشرے کے ہیں ، خصوصا مسلم حکمرانوں کے ۔ مولویوں کے ہی نہیں

قرآن فہمی کا انکار مولویوں نے کبھی نہیں کیا ، موجودہ دہشت گردی اڈے ؟ ؟ ؟ قران فہمی کے لیے مولویوں نے قائم کیے ہیں ۔ مگر کس کو گوارا ہے ؟ مخالفت اسی لیے ہے کہ اس طرح قرآن فہمی سے قرانی نظام قائم ہو جائے گا ۔ دیکھ تو لیا کہ پڑوس میں کیا ہوا !

دوسری بات یہ کہ وہ روایات ایرانی سازش والی کہاں ہے ؟ ایک طرف آپ کے جواب میں ہے کہ
" قول رسول صلعم کی مسلمہ حیثیت ہے "
مگر وہ قول رسول کہاں ہے ؟ ایرانی سازش تو آپ کو قبول نہیں

سائل کا جواب دینے کے بجائے اپنی طرف سے بدلا ہوا سوال بنا کر پھر اپنا جواب درج کرنا فریب ہے ۔

میں نے قرآن شریف مکمل سمجھ کر پڑنے کی بار بار کوشش کی ہے ۔ بلکہ فہم قرآن کے درس بھی برسوں دیے ہیں ۔
قرآن میں بیسیوں جگہ پر رسول کی پیروی ، اتباع ، مخالفت نہ کرنے کا حکم ہے ، اس حکم قرآنی سے کیا وہ اقوال و افعال اس قابل نہیں کہ ان پر بھی ب حکم قرآن ایمان لایا جائے ؟
قول رسول کی پرکھ کے لیے آپ نے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا ہے ، وہ ایرانی سازش والی کتاب سے ہے یا کہیں اور سے ؟
اور اس پرکھ کے مطابق کتنی احادیث ہیں جو آپ کے نزدیک قابل قبول نہیں ؟
میں آپ سے پوچھوں گا کہ
نماز کے اوقات خمسہ ، ابتدا ور انتہا کی وضاحت کے ساتھ
رکعاتوں کی تعداد
نماز کا طریقہ
کس طرح قرآن سے ثابت ہے ؟
اگر قرآن سے نماز ثابت ہے ، اور بقایا چیزیں حدیث سے ثابت ہیں تو پھر قرآن کے حکم کے پیش نظر نماز کی ان تفصیلات والی احادیث پر ایمان ضروری ہے یا نہیں ؟
نماز بطور مثال ہے اور بھی چیز کو لے کر سوال کیے جا سکتے ہیں
میرے خیال سے کچھ وہ باتیں جو مختلف دھاگوں میں تحریر کرتے ہیں، اس کو بھول جاتے ہیں اور دوسرئ جگہ کچھ اور لکھ مارتے ہیں ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top