سنّت کیا ہے ؟

باذوق

محفلین
پوسٹ نمبر : 7

پوسٹ نمبر : 7

باقی کتب لکھ کر تھوڑے سے دام کمانے والوں کے لئے اللہ تعالی کے واضح احکامات۔
اللہ اکبر !
محترمی و مکرمی اجمل صاحب نے بالکل درست فرمایا تھا کہ : آپ کو بالکل احساس نہیں کہ آپ کیا کر (کہہ) رہے ہیں ؟

محترمی فاروق صاحب ، سورہ البقرہ کی آیات ، آپ نے بڑے آرام سے کتبِ احادیث کے مولفین پر چسپاں تو کر دیں ، کاش کہ اس عمل سے پہلے ان دو آیات کی تفسیر بھی دیکھ لیتے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، اپنی تفسیر میں ، ان آیات کے ضمن میں صحیح بخاری کی ایک حدیث یوں پیش کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اے مسلمانو! اہلِ کتاب سے تم کیوں سوالات کرتے ہو۔ حالانکہ تمہاری کتاب جو تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بعد میں نازل ہوئی ہے ۔ تم اسے پڑھتے ہو اور اس میں کسی قسم کی بھی آمیزش نہیں ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ تو تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہے کہ اہلِ کتاب نے اس کتاب کو بدل دیا، جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی تھی اور خود ہی اس میں تغیر کر دیا اور پھر کہنے لگے یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے۔ ان کا مقصد اس سے صرف یہ تھا کہ اس طرح تھوڑی پونجی (دنیا کی) حاصل کر سکیں۔
پس کیا جو علم (قرآن ) تمہارے پاس آیا ہے وہ تم کو ان (اہلِ کتاب) سے پوچھنے کو نہیں روکتا۔ اللہ کی قسم! ہم نے ان کے کسی آدمی کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ ان آیات کے متعلق تم سے پوچھتا ہو جو تم پر (تمہارے نبی کے ذریعہ) نازل کی گئی ہیں۔

صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب : لا يسال اهل الشرك عن الشهادة، وغيرها ، حدیث : 2726

کیا بخاری کی اس حدیث کی تفسیر سے یہ ظاہر نہیں ہو رہا کہ ان آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہودی علماء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دنیا کی خاطر کتابِ الٰہی میں تحریف کرنے کا الزام لگایا ہے۔
یعنی جن آیات کا شانِ نزول کفار کے لیے تھا ، ہمارے محبی فاروق صاحب ، بغیر کسی تحقیق کے ، انہیں ان جلیل القدر مسلمان ہستیوں پر چسپاں کر رہے ہیں جنہوں نے دین کے دوسرے مآخذ (سنت) کو ہم تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔
ایسی ہی مذموم حرکت کی پیش گوئی آج سے کوئی چودہ سو سال پہلے عظیم المرتبت صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کر ڈالی تھی ، ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ( اس کو طبری نے وصل کیا) ، خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا۔
صحيح بخاري ، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم

اوپر صحیح بخاری سے ہی حوالہ دیا جا چکا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے احادیث کی ایک کتاب ’صحیفۂ علی‘ مرتب کی تھی ، جس میں دیت اور قیدیوں کے چھڑانے کے احکام درج ہیں ۔۔۔۔
ذرا بتائیے ۔۔۔ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ ۔۔۔ کیا خلیفۂ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محض تھوڑے سے دام کمانے کے لیے وہ کتاب لکھی تھی؟؟
کہاں ہیں وہ ثنا خوانِ تقدیسِ علی (رضی اللہ عنہ) ۔۔۔ جن کی غیرت صرف اس وقت جاگتی ہے جب باذوق ، کسی فورم پر ایسی وضعی روایات کو حذف کرتا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گھڑی جاتی ہیں اور تب باذوق کے خلاف ساری اردو کمیونیٹی میں ہنگامہ بپا کیا جاتا ہے ، ناصبیت کا الزام لگایا جاتا ہے ، مخالف یاھو گروپ تخلیق کیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور جب کوئی درپردہ عظیم المرتبت صحابہ کرام ، محدثین اور ائمہ عظام کے خالف دنیا پرستی کا نازیبا الزام لگائے تو ان کی غیرت کہاں جا کر سوئی رہتی ہے؟ ان احبابِ دلنواز کی خاموشی کیا صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ بھی خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ چلو ، کوئی تو ہمنوا نکلا کہ بخاری و مسلم کی احادیث کو مشکوک بتا رہا ہے !

معذرت دوستو ! مندرجہ بالا پیراگراف میری جذباتیت صحیح ، مگر آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ باذوق بھی آپ ہی کی طرح عام سا مسلمان ہے اور جس کو اردو محفل پر آزادیء رائے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ احباب کو۔
 

باذوق

محفلین
پوسٹ نمبر : 8

پوسٹ نمبر : 8

مکرمی فاروق سرور خان صاحب
یہ صرف ایک حصہ ہے ۔۔۔ تصویر کے دوسرے رُخ کا۔
ابھی مجھے جواب دینا آپ کی جانب سے پھیلائے گئے بہت سارے مغالطات کا۔
اور آپ کو تو معلوم ہوگا ۔۔۔ اور جیسا کہ آپ سب دیکھ بھی رہے ہیں کہ ۔۔۔ میں نے یونہی اٹکل پچو سے درج بالا مواد نہیں لگایا ہے ، مکمل دو دن لکھنے پڑھنے اور تحقیق کرنے میں لگے۔ ظاہر ہے اگلے جواب کے لیے بھی مجھے کچھ وقت لگے گا، لہذا عرض کروں گا کہ مزید انتظار فرمائیے ۔
اور دلی معذرت ، اگر میری کوئی بات آپ کو ذاتی طور پر تکلیف دہ محسوس ہوئی ہو۔

بہت سے لوگ زبانی / قلمی گواہی دیتے ہیں کہ : ہم قرآن اور سنت ، دونوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
ہمارے بعض احباب کو اگر ناگوار نہ لگے تو عرض کروں گا کہ یہ ایک بچکانہ سی گواہی ہے۔
دنیا کے سارے ممالک میں ایک ایک قادیانی گواہی دیتا ہے کہ وہ اسی کلمہ پر یقین رکھتا ہے جو تمام مسلمانوں کا کلمہ ہے ۔۔۔ پھر بھی ۔۔۔ کون ہے جو قادیانی کو مسلمان جانے ؟؟
میری بات کا کوئی یہ غلط مطلب نہ نکالے کہ گواہی دینے والے مسلمانوں کی ’مسلمانی‘ پر باذوق شک کر رہا ہے۔
جی نہیں ! میں صرف یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ زبانی (قلمی) گواہیوں کی آڑ میں باطل کی اشاعت کی کوشش نیٹ کے کسی بھی کونے میں کی جائے ، وہاں اس کے توڑ کے لیے فی سبیل للہ و بہ توفیق اللہ کوئی نہ کوئی ایسا بندہ بھی ضرور آئے گا جو ’قرآن و سنت‘ پر زبانی یا قلمی ہی نہیں بلکہ قلبی و عملی ایمان بھی رکھتا ہو !
ان شاءاللہ۔
اور اس کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں غالباََ !!

والسلام علیکم
وما علینا الا البلاغ
 

باذوق

محفلین
جن آیات کے اقتباسات آپ نے پیش کئے ہٰیں اور جس طرح آیت کے ٹکڑوں کے ٹکڑے کئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتب روایات آپ کیوں پروموٹ‌کرتے ہیں۔
فاروق صاحب ! میں اب تک آپ کا بہت ادب کرتا آ رہا ہوں اور ان شاءاللہ آگے بھی کروں گا ۔۔۔ مگر صرف ایک استدعا کے ساتھ !!
آپ آئیندہ سے “پروموٹ“ کا بےتکا لفظ استعمال کرنا قطعی بند کر دیں ، بڑی مہربانی ہوگی آپ کی۔ آپ کو بھی شائد معلوم ہی ہوگا کہ کسی کے گھونسے کی حد صرف وہاں تک ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے !!
آپ کیا سمجھتے ہیں ؟ دین کو کیا صرف آپ نے سمجھ رکھا ہے ؟
وہ تمام محدثین کرام اور ائمہ عظام ، جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے ناتے کائینات کی اس عظیم ترین شخصیت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک ایک قول ، فعل ، تقریر کو پوری پوری حفاظت کے ساتھ (بقول آپ کے) “پروموٹ“ کیا اور نسل در نسل منتقل کیا ۔۔۔ وہ بس ایویں ہی کیا تھا؟
اور آپ کیا کر رہے ہیں ؟ کبھی اپنے بھی گریبان میں جھانک لیا ہوتا۔
منعِ کتابت والی ایک صحیح حدیث کو تو بڑے طمطراق سے پیش کیا اور وہ بھی معنوی تحریف کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اور کتابت کا حکم دینے والی بیشمار صحیح احادیث کو ہضم کر گئے۔ کیا ہم کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ آپ پر سورہ البقرہ کی آیت نمبر : 159 پیش فرمائیں ؟
آپ جو غلط فہمیاں قرآن کے متعلق جس انداز سے پھیلا رہے ہیں اس کی ہر آیت کا جواب انشاء اللہ آُپ کو مل جائے گا۔
اور اپنے متعلق کیا خیال ہے جناب عالی کا؟
آپ دین کے دوسرے مآخذ ، حدیث کے متعلق کیا تعریف کے ڈونگرے برسا رہے ہیں یا ۔۔۔۔ ؟
الحمد للہ ! مجھے ان آیات کی تاویلات سے واقف کرانے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس کئی تفاسیر ہیں جن سے ان آیات کی تفصیل و تشریح و تفسیر کا بخوبی علم ہے۔
ویسے بھی میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ۔۔۔ جو تاویل آپ کریں گے ، ویسی ہی تاویل اگر صحابہ و محدثین ، کسی ایسی حدیث کی کرتے ہیں ، جو ہماری ناقص سمجھ میں نہ آئے ۔۔۔ تو اسے قبول کرنے میں آپ کو ہچکچاہٹ کیوں ہوتی ہے؟ ظاہر سی بات ہے کہ آپ اور ہم یہ اعتراف قطعاََ نہیں کر سکتے کہ کسی آیت یا حدیث کو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جانثار صحابہ سے زیادہ بہتر ہم سمجھتے ہیں!
کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ان آیات کا ریفرنس بھی دیتے اوپن برہان پر تاکہ لوگ اصل آیات بھی دیکھ سکتے۔
محترمی ! ذرا اچھی طرح دیکھ لیا کریں ۔ ہر آیت کے ساتھ مکمل حوالہ درج ہے۔
اور معاف کیجئے گا، آن لائن ریفرینس کا کام میں فی الحال انجام نہیں‌ دے سکتا۔
آپ اس طرح آدھی آدھی آیت کو دیکھیں گے تو پھر تو آپ یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہونگے کہ نما زکی ممانعت ہے۔ دیکھئے :
یہی تو ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ کسی حدیث کے ظاہری معانی پیش فرما کر آپ کو یہ حق کیسے حاصل ہو جاتا ہے کہ دنیا کو دھوکہ دیں ؟
 

باذوق

محفلین
3۔ کیا آپ اس درج ذیل حدیثِ رسول سے انکار کرتے ہیں؟ یہ آپ کی کتب روایات میں بھی ملے گی۔ دیکھ لیں؟
جنابِ عالی ، اچھا طریقہ ہے آپ کا بھی ! اور ذرا اپنے طنزیہ لہجے پر بھی غور فرمائیں ، مہربانی ہوگی۔
کیا یہ کتبِ روایات (آپ نے “روایات“ کے بجائے “احادیث“ کا نام نہ لینے کی گویا قسم کھا رکھی ہے) صرف ہماری ہیں؟ آپ کی نہیں ہیں؟ کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟ کیا آپ کا احادیث پر ایمان نہیں ہے؟ صاف صاف کہئے ، بھلا اس میں ڈرنے کی کیا بات ؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرما گئے ہیں کہ :
الا اني اوتيت الكتاب و مثلہ ۔
( میں قرآن کے ساتھ اس کی مثل ایک اور چیز بھی دیا گیا ہوں )۔
ابو داؤد ، كتاب السنة ، باب : في لزوم السنة ، حدیث : 4606
اور اس ’ایک اور چیز‘ سے سوائے ’حدیث‘ کے اور کوئی دوسری چیز مراد نہیں ہے ‫!

حضور ، یہاں سب جانتے ہیں کہ حدیثِ رسول کا انکار کون کر رہا ہے؟
جن مستند احادیث کو آپ “تاریخی روایات“ ، “تاریخی بیانات“ کہہ کر استہزاء کر رہے ہیں ، اس پر آپ کی کوئی نظر نہیں؟
تین مستند ریفرنس فراہم کر رہا ہوں: سب سے پہلا سعودی حکومت کا ہے۔
عربی:

From: Kingdom of Saudi Arabia
Ministry of Islamic Affairs, Endowments, Da'wah and Guidance
http://hadith.al-islam.com/Display/D...Doc=1&Rec=6851
حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن اسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى اللہ عليہ وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحہ وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوا ‏ ‏مقعدا من النار
اور میں قارئین سے ادباََ گذارش کروں گا کہ وہ اس حدیث کی تشریح بھی دیکھ لیں اسی صفحے پر جو امام نووی (رحمہ اللہ) نے کی ہے۔
اس تشریح کا مختصر اردو ترجمہ ، مولانا وحید الزماں کے قلم سے میں گزشتہ پوسٹ میں لگا چکا ہوں ، ایک بار پھر سہی :

اس حدیث میں جو ممانعت ہے وہ محمول ہے اُس شخص پر جو اچھا حافظہ رکھتا ہو لیکن لکھنے میں اور کتابت پر اعتماد کرنے میں اس کو ڈر ہو مگر جس کا حافظہ اچھا نہ ہو اس کو لکھنے کی اجازت ہے۔
بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہ اُس وقت کی حدیث ہے جب آپ کو ڈر تھا کہ کہیں قرآن اور حدیث مل نہ جائیں اور جب اس سے اطمینان ہو گیا تو آپ نے کتابت کی اجازت دے دی۔
بعض دوسرے محدثین اس حدیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں ، ان کی دلیل “حدیثِ قرطاس“ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کا حکم دیا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل آخری ایام کا واقعہ ہے۔ یعنی ، وہ عارضی حکم تھا جو دوسری اجازت یا حکم والی صحیح تر احادیث کے ذریعے ختم ہو گیا۔
اور بعض کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور میری حدیث ایک کتاب میں ملا کر نہ لکھو تاکہ پڑھنے والے کو شبہ نہ ہو۔

جب خود قرآن میں‌ ایک آیت ، کسی دوسری آیت کو منسوخ کر سکتی ہے تو ۔۔۔ بالکل اسی طرح‌ ایک حدیث ، کسی دوسری حدیث کو منسوخ بتا سکتی ہے !!
اور کتابت کی اجازت دینے والی سات احادیث بھی بطورِ ثبوت ، راقم اپنی پچھلی پوسٹ میں لگا چکا ہے۔
 
آپ اس طرح آدھی آدھی آیت کو دیکھیں گے تو پھر تو آپ یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہونگے کہ نما زکی ممانعت ہے۔ دیکھئے :

[ayah]4:43 [/ayah] نماز کے قریب مت جاؤ ۔۔۔۔۔۔
سلام ورحمۃ اللہ۔۔۔
اچھا وہ کیسے؟؟؟۔۔۔لنک دینے سے گریز کیجئے گا۔۔۔
تاکہ آسانی رہے۔۔۔
متمنی
وسلام۔۔۔
 
کارتوس صاحب، اس کی وضاحت یہ ہے کہ، جناب باذوق صاحب نے آیات کے ٹکڑے پیش کئے ہیں اور ان سے مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ان کو یہ بتایا جارہا ہے کہ ان کی منطق کہ آیات کے ٹکڑے کئے جائیں مناسب نہیں ہے۔ نماز کی ممانعت نہیں۔ پوری آیت یہ ہے۔

[ayah]4:43[/ayah] اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے

باذوق صاحب نے اس طرح آیات کے ٹکڑے کئے ہیں کہ معانی ہی بدل دئے ہیں۔
 
باذوق صاحب، آپ تھوڑی سی تکلیف اور فرمائیے اور بہیت کلیئر الفاظ‌میں‌یہ لکھئے کہ آپ کی کوشش کیا ہے؟‌ اور درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیے ۔

کیا قرآن کے علاوہ بھی کسی مزید کتاب پر من و عن ایمان لانا ہے؟
یہ کتب روایات، جن میں اقوال رسول(س)، اقوال صحابہ(ر) اور اقوالِ علماء‌موجود ہیں یہ کتب صرف علم و اعلام (نالج اور انفارمیشن) پر مشتمل انسانوں کی تصنیف شدہ ہیں اور یہ قابلِ تبصرات، تائید، اور تنقید ہیں؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اجرکم عنداللہ

سلسلہ گفتگو جاری رکھیے قرآن و سنت کے بارے میں مفید علمی مواد جمع ہو رہا ہے جو یقینا استفادہ عامہ و خاصہ کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے

لیکن قولوا للناس حسنا پر عمل رہنا چاہیے

کیا حدیث کی حیثیت کے تعین کے لیے یہی کافی نہیں:

[ayah]
َالنَّجْمِ إِذَا هَوَى{1} مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى{2} وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى{3} إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى{4} عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى{5}
[/ayah]
 
پوسٹ نمبر : 2

واہ جناب ، بہت خوب !
یعنی ، اگر کوئی اٹھ کر خود قرآن میں موجود اہانتِ رسول اور قرآنی احکامات کا تناقض بیان کرنے لگ جائے تو کیا عامۃ المسلمین پر یہ حکم صادر کر دیا جائے گا کہ : وہ قرآن سے دور رہیں ؟
یہ سب مثالیں جو آپ نے دی ہیں بلکل غلط ہیں اور ان کے یہ معانی قطعاَ‌نہیں جو آپ نے ٹکڑے کاٹ کر بیان کئے ہیں۔ یہ تو اللہ کے کلمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہوا۔
چند مثالیں دیکھ لیں ۔ یہ مثالیں عرصہ قبل راقم نے یہاں بھی پیش فرمائی تھیں اور فردِ مقابل ان کو دیکھ کر جو رفو چکر ہوئے ہیں تو اُس فورم پر آج تک ان کا پتا نہیں ، جواب دینا تو دور کی بات۔

قرآنی تناقضات :
‫1) زمین چھ دن میں تخلیق ہوئی ۔۔۔۔ (سورہ : 7 ، آیت : 54 )۔
زمین آٹھ دن میں تخلیق ہوئی ۔۔۔۔ (سورہ : 41 ، آیات : 9 تا 12 )۔
[AYAH]7:54[/AYAH]
بیشک تمہارا رب اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی کائنات) کو چھ مدتوں (یعنی چھ اَدوار) میں پیدا فرمایا پھر (اپنی شان کے مطابق) عرش پر استواء (یعنی اس کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجراء) فرمایا۔ وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔ خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔ اﷲ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کی (تدریجاً) پرورش فرمانے والا ہے
[AYAH]41:9[/AYAH] فرما دیجئے: کیا تم اس (اﷲ) کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دِن (یعنی دو مدّتوں) میں پیدا فرمایا اور تم اُس کے لئے ہمسر ٹھہراتے ہو، وہی سارے جہانوں کا پروردگار ہے

[AYAH]41:10[/AYAH] اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہے
[AYAH]41:11[/AYAH] پھر وہ سماوی کائنات کی طرف متوجہ ہوا تو وہ (سب) دھواں تھا، سو اس نے اُسے (یعنی آسمانی کرّوں سے) اور زمین سے فرمایا: خواہ باہم کشش و رغبت سے یا گریزی و ناگواری سے (ہمارے نظام کے تابع) آجاؤ، دونوں نے کہا: ہم خوشی سے حاضر ہیں
[AYAH]41:12[/AYAH] پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی (تاکہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت نہ کر سکے)، یہ زبر دست غلبہ (و قوت) والے، بڑے علم والے (رب) کا مقرر کردہ نظام ہے

[AYAH]7:54 [/AYAH] میں صرف [ARABIC]خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ [/ARABIC] یعنی زمین اور اسکا سماوات کی تخلیق کی بات ہو رہی ہے۔

[AYAH]41:9[/AYAH] [ARABIC]خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ [/ARABIC] یعنی صرف تخلیق ارض‌کی بات ہو رہی ہے۔
[AYAH]41:10[/AYAH] - غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں - میں مہیا فرمائے۔

[AYAH]41:11[/AYAH] باقی کائنات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہ یہ دھواں تھا۔
[AYAH]41:12[/AYAH] اس باقی کائنات کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہ پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے

یہ دو آیات کا سیٹ ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتا، کیونکہ واضح‌طور پر مختلف اشیاٌ کی طرف اشارہ ہے۔

‫2) برائی شیطان کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیات : 117 تا 120 )۔
برائی انسان کی اپنی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 79 )۔
سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 78 )۔
یہاں بھی مکمل آیات دیکھئے جو معنی آپ نکالنے کی کوشش میں مصروف ہیں قطعاَ نہیں نکلتے۔
[AYAH]4:117[/AYAH] یہ (مشرکین) اللہ کے سوا محض زنانی چیزوں ہی کی پرستش کرتے ہیں اور یہ فقط سرکش شیطان ہی کی پوجا کرتے ہیں۔

[AYAH]4:78[/AYAH] (اے موت کے ڈر سے جہاد سے گریز کرنے والو!) تم جہاں کہیں (بھی) ہوگے موت تمہیں (وہیں) آپکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں (ہی) ہو، اور (ان کی ذہنیت یہ ہے کہ) اگر انہیں کوئی بھلائی (فائدہ) پہنچے توکہتے ہیں کہ یہ (تو) اللہ کی طرف سے ہے (اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت اور واسطے کا کوئی دخل نہیں)، اور اگر انہیں کوئی برائی (نقصان) پہنچے تو کہتے ہیں: (اے رسول!) یہ آپ کی طرف سے (یعنی آپ کی وجہ سے) ہے۔ آپ فرما دیں: (حقیقۃً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے

[AYAH]4:79[/AYAH] (اے انسان! اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابئ نفس کی طرف منسوب کر)، اور (اے محبوب!) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور (آپ کی رسالت پر) اللہ گواہی میں کافی ہے

تو بھائی آپ کی درج کردہ اور صنع کردہ معلومات تو ابتداء میں ہے غلط ہوگئی ہیں۔ اپنا ڈاکومینٹ دوبارہ سے پڑھ کر درست کرکے پوسٹ کیجئے تو پھر رہی سہی باتوں کے جواب دیتا ہوں۔ ان بے ربط اور بے معنی باتوں‌کا کیا جواب دوں۔ کیوں بے سر پیر کی ہانک کر قرآن کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
 
اجرکم عنداللہ
کیا حدیث کی حیثیت کے تعین کے لیے یہی کافی نہیں:

[AYAH]]َالنَّجْمِ إِذَا هَوَى{1} مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى{2} وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى{3} إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى{4} عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى{5}[/AYAH]

جی حدیث رسول صلعم کے لئے یقیناَ کافی ہے۔ اس کے علاوہ بھی آیات میں یہاں دے چکا ہوں کہ حدیث رسول صلعم پر ایمان لانا ضروری ہے۔

باذوق صاحب چاہتے ہیں کہ ہم ان کتب روایات پر قرآن کی طرح ایمان لے آئیں جن میں‌
1۔ حدیث رسول صلعم
2۔ اقوال اصحابہ و خانوادہ رسول صلعم
3۔ اقوال علماء

انسانوں نے ترتیب دئے ہیں اور ان کتابوں‌کی تدوین کے غیر معیاری ہونے کے باوجود ان کو قرآن کے مترادف بلکہ بہتر سمجھتے ہیں۔ قرآن میں‌ تضادات نکالنے کی ناکام کوششوں میں‌مصروف ہیں۔
اب وہ ہمارے ساتھ حدیث سلنگنگ میں مصروف ہیں کہ لے میں‌تجھ پر یہ حدیث مارتا ہوں، تو کونسی مارے گا :( افسوس صد افسوس

اور اتنی سی بات ماننے کو تیار نہیں کہ یہ جمل کتب روایات انسانوں کی ترتیب شدہ ہیں اور تبصرات، تائیدات، تنقیدات اور اغلاط سے مبرا نہیں ہیں۔

یہ قرآن کے بارے میں انتہائی کنفوژن کا بھی شکار ہیں اور بے ربط قسم کی تاویلات سے اس کتاب مقدس کو غلط ثابت کرنے میں مشغول ہیں۔ اس سے ان کے مقاصد کا اندازہ ہوتا ہے۔

کتب روایات ‌میں جن غلطیوں کی نشاندہی ہوچکی ہے وہ 90 صفحات پر مشتمل ہے۔ مولوی کی نالائقی کی طرف کوئی غیر مولوی اشارہ کرے ، یہ ان کو قابل قبول نہیں۔ کہ ان کے نزدیک صرف مولوی مسلمان ہے باقی سب ایویں ہی ہیں :)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ذرا یہ دیکھیں


اور یہ بھی دیکھیں

اور جواب دیں کہ علمائے کرام اور محدثین عظام پر سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں یا اس کے برعکس علمائے کرام اور محدثین عظام کے ہاں کچھ ایسا قابل گرفت مواد موجود بھی ہے، مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔​



السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
بزرگوار مکرمی شاکر القادری صاحب!۔ سات سو ایکس (721) پوسٹس لِیپ دینے سے کیا آپ علمی مرتبے کے اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں‌ جہاں ‌پر بیٹھ کر آپ علماء اور محدثین کے مواد پر گرفت کریں‌گے؟؟؟۔۔۔ میں اس بحث سے دور رہنا چاہتا ہوں اس لئے میرے ساتھ تعاون کریں۔۔۔

سب کا بھلا سب کی خیر۔۔۔
وسلام۔۔۔

واہ ۔۔۔ کیا انداز گفتگو ہے
اس دفعہ آپ کوئے اور مسجد کی منڈیر والی مثال دینا بھول گئے ۔۔۔ چلیں کوئی بات نہیں

لیکن میں نے تو آپ سے بحث میں شریک ہونے کے لیے اصرار نہیں کیا
آپ تو خود ہی یہاں تشریف لائے ہیں



بے شک ہم ام المومنین رضی اللہ عنہا کے فرمان کے مطابق ایسی روایات کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ تکذیب کرتے ہیں اور ہم ان تمام ناقلین کی مذمت کرتے ہیں جن کے پیش نظر ام المومنین رضی اللہ عنہا کا واضح فرمان موجود ہے اور وہ پھر بھی ایسی روایات کو نقل کرتے جاتے ہیں
یقینا ایسی روایات بھی قابل گرفت ہیں اور ناقلین بھی قابل گرفت اور قابل تکذیب اور ناقابل تصدیق ہیں

اور یاد رہے کہ ایسی روایات اور ان کے ناقلین کی تکذیب کرنے کے لیے یا تصدیق نہ کرنے کے لیے کسی لمبے چوڑے علم کی ضرورت نہیں اس کے لیے ام الومنین رضی اللہ عنہا کا ایک حکم ہی کافی ہے اور اس حکم پر ہرشخص عمل کرسکتا ہے خواہ اس نے اردو محفل پر ایک پوسٹ بھی نہ کی ہو۔ بالکل اسی طرح میری کم علمی یا میری 721 پوسٹوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں


 
کارتوس صاحب، اس کی وضاحت یہ ہے۔۔

[ayah]4:43[/ayah] اے ایمان والو!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم۔
خان صاحب باذوق صاحب نے جو آیتوں کو ٹکڑوں میں پیش کیا اس کو جواب تو وہی بہتر انداز میں دے سکیں گے۔۔۔

لیکن جیسا کہ آپ نے بیان کیا کہ آیات کے ٹکڑے پیش کئے۔۔۔

اب یہاں پر سوال یہ ییدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن پورے کا پورا جس حالت میں اِس وقت موجود ہے نازل ہوا یا پھر مکمل سورتوں کی صورت میں نازل ہوا یا پھر آیت کی صورت میں نازل ہو؟؟؟۔۔۔

کیونکہ یہ تو ہر زی شعور مسلمان جانتا ہے کہ قرآن کا مجموعہ قرآنی سورتیں ہیں اور قرآنی سورتوں کا مجموعہ آیات۔۔۔ لیکن میرا سوال اپنی جگہ پر موجود ہے۔۔۔

اب جیسا کہ آپ نے سورۃ النساء کی آیت کا حوالہ دیا جس میں ایمان والو کو مخاطب کیا گیا تو خاں صاحب ایمان تو منافقین بھی لائے تھے۔۔۔ اور ایمان تو وہ بھی لائے تھے جنہوں نے مسجد ضرار بنائی تھی۔۔۔ اور ایمان تو وہ بھی لائے تھے جنہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تمہت لگائی تھی۔۔۔منافقوں کے ایمان لانے پر آیت ملاحظہ ہو۔۔۔

وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِي۔ْنِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں (سُورۃ الْبَقَرَۃ آیت نمبر۔١٤)۔۔۔۔

اب یہاں پر میں جانا چاہتا ہوں کہ اس مکمل آیت کو بنیاد بنا کر کیا آپ ان صورتوں میں جو نیچے بیان کی گئی ہیں نماز کے قریب جانا پسند کریں گے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ ایمان تو منافق بھی لا چکے ہیں۔۔۔

١۔ آپ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب جائیں گے؟
٢۔ قضائے حاجت کی حالت میں نماز کے قریب جائیں گے؟
٣۔ یا (اپنی) عورتوں سے مباشرت کرنے کے بعد والی حالت میں نماز کے قریب جائیں گے؟

ذرا اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالیں۔۔۔

وسلام۔۔۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم۔۔۔
بزرگوارِ محترم قادری صاحب!۔ اگر ہم گرفت کرنے میں لگ جائیں تو جو موضوع ہے اُس سے ہٹ جائیں کے فلحال تشفئے دل کے لئے امام صاحب کی تحقیق دیکھتے ہیں۔۔۔۔
مسند ابی حنیفہ میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی روایت موجود ہے (دیکھئے، مسند امام اعظم صفحہ ٤٦ مترجم طبع حامد اینڈ کمپنی لاہور)۔۔۔
چلیں اب اپنے الفاظوں پر ثابت قدمی سے عمل کر کے دکھائیں۔۔۔

واہ ۔۔۔ کیا انداز گفتگو ہے
یقینا ایسی روایات بھی قابل گرفت ہیں اور ناقلین بھی قابل گرفت اور قابل تکذیب اور ناقابل تصدیق ہیں:eek::eek::eek::eek:

وسلام۔۔۔۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم۔
قابل احترام بزرگواِر جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں آتا نہیں بلکہ مجھے مجبور کیا جاتا ہے آنے کے لئے اور اس بار مجھے مجبور کیا آپ کی طرف سے دیئے گئے وہ لنکس جس پر کلک کریں تو میری ہی لگائی ہوئی پوسٹ نظر آئے گی میری رائے یہ ہے کوشش کریں کہ اس تھریڈ میں‌ جو موضوع چل رہا ہے اُس پر ہی بات ہو اور سوسو کیسے کرنا ہے اس کا الگ سے تھریڈ لگائیں‌۔۔۔

تعاون کا طالب۔۔۔ ۔
لیکن میں نے تو آپ سے بحث میں شریک ہونے کے لیے اصرار نہیں کیا
آپ تو خود ہی یہاں تشریف لائے ہیں
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم۔
خان صاحب باذوق صاحب نے جو آیتوں کو ٹکڑوں میں پیش کیا اس کو جواب تو وہی بہتر انداز میں دے سکیں گے۔۔۔

لیکن جیسا کہ آپ نے بیان کیا کہ آیات کے ٹکڑے پیش کئے۔۔۔

اب یہاں پر سوال یہ ییدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن پورے کا پورا جس حالت میں اِس وقت موجود ہے نازل ہوا یا پھر مکمل سورتوں کی صورت میں نازل ہوا یا پھر آیت کی صورت میں نازل ہو؟؟؟۔۔۔

کیونکہ یہ تو ہر زی شعور مسلمان جانتا ہے کہ قرآن کا مجموعہ قرآنی سورتیں ہیں اور قرآنی سورتوں کا مجموعہ آیات۔۔۔ لیکن میرا سوال اپنی جگہ پر موجود ہے۔۔۔

اب جیسا کہ آپ نے سورۃ النساء کی آیت کا حوالہ دیا جس میں ایمان والو کو مخاطب کیا گیا تو خاں صاحب ایمان تو منافقین بھی لائے تھے۔۔۔ اور ایمان تو وہ بھی لائے تھے جنہوں نے مسجد ضرار بنائی تھی۔۔۔ اور ایمان تو وہ بھی لائے تھے جنہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تمہت لگائی تھی۔۔۔منافقوں کے ایمان لانے پر آیت ملاحظہ ہو۔۔۔

وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِي۔ْنِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں، اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں (سُورۃ الْبَقَرَۃ آیت نمبر۔١٤)۔۔۔۔

اب یہاں پر میں جانا چاہتا ہوں کہ اس مکمل آیت کو بنیاد بنا کر کیا آپ ان صورتوں میں جو نیچے بیان کی گئی ہیں نماز کے قریب جانا پسند کریں گے؟؟؟۔۔۔ کیونکہ ایمان تو منافق بھی لا چکے ہیں۔۔۔

١۔ آپ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب جائیں گے؟
٢۔ قضائے حاجت کی حالت میں نماز کے قریب جائیں گے؟
٣۔ یا (اپنی) عورتوں سے مباشرت کرنے کے بعد والی حالت میں نماز کے قریب جائیں گے؟

ذرا اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالیں۔۔۔

وسلام۔۔۔

مجھے علم نہیں کے آپ اس آیت کے درج کرنے کے بعدکیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے مکمل آیت اس کا جواب دے چکی ہے۔ اور اس آیت کو یہان‌دیا جاچکا ہے۔ اگر آپ ابھی تک ان ذاتی فرائض‌سے نابلد ہیں تو مطالعہ قرآن حکیم بہت شفاء عطا فرمائے گا۔
والسلام۔
 
مولویت کیا ہے؟

یہ جاننا ضروری ہے کہ مولوی ہے کون اور مولویت کیا ہے اور کب سے قایم ہے؟

مولویت کب سے قائم ہے؟
تقریا" 2500 سال سے۔

مولویت کی پہچان۔
قرآن کے خلاف سخت حجت بازی۔ قرآن کے علاوہ کتب روایات پر ایمان۔ قرآن پر سامنے ایمان، پیچھے دوسری کتب پر بھی ایمان، یعنی منافقت۔ اور اس سلسلے میں تاویلات۔ یہ نشانیاں 1400 برس سے قرآن سے ثابت ہیں۔

مولویت کیا ہے؟
مولویت ایک مذموم سیاسی نظام ہے، جو کہ مذہبی قدروں سے فائدہ اٹھا کر معصوم ذہنوں کو اپنے حق میں ہموار کرتا ہے۔ اس مقاصد کے لئے مولویوں نے اپنی تصانیف کا سلسلہ جاری رکھا ہے جو کہ حد درجہ مذہبی کتب سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ ان مولویوں کا طریقہ واردات 2500 سال سے ایک ہی ہے۔ کہ ایک یا زیادہ انسٹی ٹیوشن قائم ہو (دارلعلوم، ویٹیکن یا یہودی گرجا جیسے) اور اس میں صرف بہت ہی سلیکٹڈ لوگوں کو داخلہ دیا جائے تاکہ تعلیم محدود رہے ایک مکتبہ فکر کے پاس۔ پھر ایک بادشاہ کو سپورٹ کیا جائے جو ان مولویوں کو واپس سپورٹ فراہم کرے اور مولوی اکیلا قانون سازی کرتا رہے، مذہب کی آڑ میں۔

کیا مولویت صرف اسلام تک محدود ہے؟
جی نہیں، مولوی 2500 سال پرانی ایک تحریک ہے۔ اس کی اپنی کتب ہیں اور مزید بہت سی شاخیں ہیں۔ 2500 سال پہلے ایران، عراق اور لبنان اور اسرائیل تک انکے سراغ ملتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ تمام پیغمبروں کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور ان کی کتب میں‌ملاوٹ۔ آتشکدہ ایران، ویٹیکن، عیسی علیہ سلام کے مخالف ربائی۔ان مولویوں کی اعلی مثالیں ہیں۔ ان کو قرآن کافر نہیں بلکہ منافق کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ اس لئے کہ یہ لوگ بظاہر قرآن کوسب کے سامنے تسلیم کرتے ہیں اور بعد میں اس میں مسلسل اضافہ کے خواہاں رہتے ہیں۔ ان کو اولیں ربائیوں نے توراۃ اور انجیل کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا۔ آج تورات صرف حدیث موسوی، حدیث داؤدی ، حدیث سلیمانی اور حدیث عیسوی کی شکل میں ہی ملتی ہے۔ ان ہی روایات کو ربائیوں اور مولویوں نے کتب روایات میں حدیث نبوی کے نام سے سمونے کی کوشش کی۔ ان کی ایک بڑی مثال حجت بازی کی سورۃ البقرہ میں ملتی ہے۔ جہاں‌گائے کاٹنے کے حکم الہی کو ان مولویں نے مسلسل سوال کرکے خود اپنے لئے ایک مشکل بنا لیا۔ اسی طرح یہ آج بھی نماز و تسبیح کے حکم الہی کے بارے میں اپنی حجت سے باز نہیں آتے کہ ھاتھ کہاں‌باندھیں اور کتنے اوپر یا نیچے کریں۔ جو کہ نبی اکرم کی سنت جاریہ کی موجودگی میں بے معنی سوالات ہیں۔

مولویت کے اغراض‌و مقاصد۔
مولویوں، ربائیوں، آیت الوؤں یا فاتھرز اور پریسٹس وغیرہ کا مقصد ہمیشہ بادشاہ گر بن کر اپنے آپ کو ریوارڈ کرنا یعنی انعام دینا رہا ہے۔ یہ انعامات مالی، نسوانی اور معاشرہ میں سٹیٹس کی صورت ملتے رہے ہیں۔ اس طرح یہ فرد واحد کی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں اور فرد واحد کی قانون سازی کو پروموٹ‌کرتے ہیں۔ فرد واحد کی حکومت اور فرد واحد کی قانون سازی قرآن کے احکامات کے خلاف ہے۔ لہذا مولوی قرآن کو سم قاتل سمجھتے ہیں اور حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کے اس کے احکامات سامنے نہ آئیں۔ قرآن حکیم ایک شورائی نظام حکومت، شورائی مقننہ اور اس طرح وجود میں آنے والی حکومت کا حامی ہے۔ جو کہ فرد واحد کی حکومت اور فرد واحد کی قانون سازی کے خلاف ہے۔ لہذا مولویت کا قرآن سے بے زاری کا اظہار بہت پرانا ہے۔ اس مقصد کے لئے ان لوگوں نے منافقت کے اصولوں پر "شریعت " کا طریقہ نکالا ہے۔ جو کہ ان کے اپنے قوانین، جن کو یہ "فتاوی" کا نام دیتے ہیں پر مبنی ہے۔ اس طرح یہ حکومت پر اپنا کنٹرول قائم کرتے ہیں۔

ان کی بنیادی مقاصد ہیں:
1۔ سخت غیر قرانی سزاؤں کی مدد سے عوام پر کنٹرول۔
2۔ عورتوں‌کو قرآن کےاحکام خلاف بند کرکے،عورتوں کی بلیک مارکیٹنگ اور عورتوں کی تجارت۔ اس سلسلے میں مردوں اور عورتوں کی برین واشنگ۔
3۔ خود مولویت کو مذہب کی آڑ میں‌چھپا کر اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل۔اور اپنے آپ کو نوازنا، جبکہ عوام الناس کو فقر کی تعلیم
4۔ مدرسوں کو اپنے متبہ فکر تک محدود رکھنا تاکہ عوام علم میں اضافہ کے باعث کوئی سوال نہ کرسکیں۔

مولویت کا طریقہ کار
ان کا طریقہ کار مذہب کی آڑ میں شکار کھیلنا ہے۔
1۔ یہ آپ سے کبھی اجتماعی فرایض‌کے بارے میں‌ بحث نہیں کریں گے، لیکن مولوی حضرات اجتماعی قوانین خود بنائیں گے۔
2۔ یہ آپ کی توجہ ہمیشہ آپ کے انفرادی معاملات، جیسے عبادات اور روز مرہ کے فرایض‌تک محدود رکھیں گے۔
3۔ جب بھی آپ ان سے اجتماعی معاملات پر بحث کریں اور عوام الناس کی ریاست میں شرکت کی بات کریں یہ بحث کا رخ‌ ہمیشہ شخصی معاملات کی طرف موڑ‌دیں‌گے۔
4۔ معاشرہ میں فساد، جیسے جہاد کے نام پر۔
5۔ معاشرہ میں‌اپنے نظام کا نفاذ، موجودہ مذہبی نظام کی آڑ میں
6۔ جب آپ ان کو پکڑ ہی لیں تو یا یہ پھنس جائیں تو پھر یہ قرآن، (اس سے پہلے انجیل، اس سے پہلے زبور، اس سے پہلے تورات) کی آیات کو اس طرح بیان کریں گے کہ آپ ان کی تصحیح میں ہی پھنس جائیں گے۔
7۔ عوام کو یہ یقین دلانا کہ پبلک ویلتھ یعنی عوام کے دولت کے حقدار عوام نہیں بلکہ بادشاہ کا بیٹا ہے اور عوام کی دولت لٹانے کا حق پیدائشی ملتا ہے۔
8۔ بادشاہ کو یقین دلانا کہ وہی مذہب کی رو سے ساری عوام کی دولت کا مالک ہے اور عوام کو تو بس بادشاہ کی خدمت کرنا چاہئیے۔
9۔ بادشاہ کو عورتوں کی فراہمی۔ حرم کی تشکیل تاکہ اس طرح کی رشوت سے اپنے حرم کی تشکیل جاری رہے۔ اور ان باتوں کا مذہبی جواز - جیسے لونڈی جائز ہے۔ عوام کی دولت بادشاہ پر حلال ہے، بنا کسی روک ٹوک۔ اور اپنے لئے وظیفوں کا اجراء

10۔ اس طرح جانوروں‌کی خصلیتوں کی ترویج۔ جب کہ قرآن کی تعلیم انسانیت پر مشتمل ہے۔

ان کے یہ طریقہء‌کار قرآن حکیم تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ اور ان سب قسم کے پھندوں کو ہم پر واضح کرتا ہے تاکہ ہم ان سے بچ سکیں۔ ان لوگوں کو قرآن مشرکین اور منافقین کے نام سے پہچانتا ہے۔ مشرک اس لئے کے یہ قران کے احکامات کے ساتھ اپنی کتابوں‌پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور اس کے لئے نت نئی تاویلات گھڑتے ہیں۔

یہ کبھی صاف طور پر نہیں مانتے کہ یہ قرآن کے علاوہ کسی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ بات خود قرآن سے عیاں‌ہے۔ لیکن جب بھی بات آگے بڑھائیں گے اپنی کتب روایات کو جو ہر دور میں شکلیں بدلتی رہی ہیں شامل کرلیں گے۔ اور اس پر مکمل ایمان کا اظہار کریں گے، کہ یہ کتب بھی قرآن کے مساوی ہیں اور کبھی تبدیل نہیں ہوتی ہیں۔

ان کا اپنا ایک ذات پات کا نظام ہے، جس میں چھوٹا مولوی بڑا مولوی اور پھر مفتی اور اس کے بعد مفتی اعظم بننے کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ 2500 سال سے یہ گروپ مختلف مذاہب کا جامہ پہن کر عوام الناس کو دھوکہ دیتا رہا ہے۔ کبھی یہ گروپ یہودی بنا تو کبھی عیسائی اور کبھی نصرانی تو کبھی کاردانی۔ کبھی زرتشتت بنا اور جب اسلام نے زرتشتیوں کو شکست دی تو یہ فرقہ فوراَ‌ مسلمان ہوگیا۔ بغل میں‌چھری اور منہ میں رام رام

حدیث رسول پاک انتہائی خوبصورت اور پاک کلام پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن ان مولویوں نے ان خوبصورت احادیث کو اپنی کتب روایت میں شامل کرکے، اس میں اپنے خداؤں اور شیطانوں‌کی باتیں‌بھی شامل کرلی ہیں۔ اس سے ہی بچانے کے لئے ہی اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔

جس قدر ہو سکے مولویت کے مذموم سیاسی عزائم سے بچیں اور اس مولوی نیٹ ورک کی شناخت کرنا سیکھیں۔ بہت سے عام معصوم لوگ ان کی مذہب سے قریب باتیں سن کر ان کے قریب آجاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمنوا بن جاتے ہیں۔ ذہن میں‌رکھئے کہ ہمارا کتب میں ہمارے ایمان کا حصہ سرف وہی اصل کتب ہیں جن کو قرآن واضح‌کرتا ہے۔

جن لوگون نے نا دانستہ ان کا ساتھ دیا اور پھر جاننے کے بعد مولویت سے الگ ہوگئے۔ وہ ان میں‌شامل نہیں ہیں۔ ہمارے رسول اللہ کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچانے والے منافقین ہی رہے۔

انشاء اللہ ان مولویوں کی قرآن کی تکفیر کا مفصل جواب قرآن حکیم و سنت و حدیث کی روشنی میں‌ان کو ملے گا۔ کہ تاریخ‌گواہ ہے کہ رات جب بھی ایک سورج بجھاتی ہے، صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے۔


والسلام
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


السلام علیکم۔۔۔
بزرگوارِ محترم قادری صاحب!۔ اگر ہم گرفت کرنے میں لگ جائیں تو جو موضوع ہے اُس سے ہٹ جائیں کے فلحال تشفئے دل کے لئے امام صاحب کی تحقیق دیکھتے ہیں۔۔۔۔
مسند ابی حنیفہ میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی روایت موجود ہے (دیکھئے، مسند امام اعظم صفحہ ٤٦ مترجم طبع حامد اینڈ کمپنی لاہور)۔۔۔
چلیں اب اپنے الفاظوں پر ثابت قدمی سے عمل کر کے دکھائیں۔۔۔



وسلام۔۔۔۔

الحمد للہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں
امام اعظم ہی کا قول ہے کہ :
اگر میرا کوئی قول، قول رسول کے خلاف ہو تو اسے دیوار پر دے ماریے

اور پھر ام المومنین رضی اللہ عنہ کے قول کے مقابلہ میں امام اعظم کے قول کی کیا حیثیت ہے

میرا ایمان رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہے
اور ان کے بتانے سے خدا اور خدا کی کتاب پر ہے

شریعت صرف قرآن اور سنت کا نام ہے

شریعت نہ تو اقوال امام اعظم کا نام ہے اور نہ ہہی شریعت شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے اقوال پر مبنی ہے
ان بزرگوں نے تو شریعت کی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق تشریح کی ہے جو درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی

اب آیئے

اور مجھے بتایئے کہ وہ کون سی حدیث ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علییہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اجازت دی ہو

حذیفہ رضی اللہ کے قول کی ام المومنین رضی اللہ عنہا کے قول کے سامنے کیا حیثیت ہو سکتی ہے:rolleyes:
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم۔
قابل احترام بزرگواِر جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں آتا نہیں بلکہ مجھے مجبور کیا جاتا ہے آنے کے لئے اور اس بار مجھے مجبور کیا آپ کی طرف سے دیئے گئے وہ لنکس جس پر کلک کریں تو میری ہی لگائی ہوئی پوسٹ نظر آئے گی میری رائے یہ ہے کوشش کریں کہ اس تھریڈ میں‌ جو موضوع چل رہا ہے اُس پر ہی بات ہو اور سوسو کیسے کرنا ہے اس کا الگ سے تھریڈ لگائیں‌۔۔۔

تعاون کا طالب۔۔۔ ۔

موضوع یہی ہے کہ کتب احادث میں قابل گرفت مواد ہے یا نہیں
اسی ذیل میں یہ لنک مہیا کیے گئے تھے
کیا بخاری اور مسلم آپ کی تصانیف ہیں کہ آپ کو اعتراض ہوا اور مجبور ہو کر دوڑے آئے


محترم آپ نے تو آنا ہی تھا
لیکن اس لیے نہیں کہ میں نے لنک فراہم کیے

بلکہ آپ تو کسی کی ہم نوائی کے لیے آئے ہیں اور ہمیشہ سے آپ کا طریقہ کار یہی ہے آپ جس کی ہم نوائی کے لیے یہاں موجود ہیں وہ اگر یہاں سے غائب ہوئے تو آپ نظر بھی نہیں آئیں گے
 
الحمد للہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں
امام اعظم ہی کا قول ہے کہ :
اگر میرا کوئی قول، قول رسول کے خلاف ہو تو اسے دیوار پر دے ماریے
:rolleyes:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم۔۔۔
محترم مکرمی تو پھر وہ قول ابھی تک کتابوں کی زینت کیوں‌ بنا ہوا ہے؟؟؟۔۔۔
خیر چھوڑیں۔۔۔
مجھے اسی فورم پر آپ کا انتظار رہے گا جہاں سے آپ نے یہ مواد یہاں منتقل کیا ہے۔۔۔
وسلام۔۔۔
 
Top