لاریب مرزا

محفلین
اردو زبان کے اشعار کا مطالعہ ناصرف آپ کی روح کو سرشار کرتا ہے، بلکہ یہ آپ کے دماغ کے لیے بھی اکسیر ہے۔
ہم نے تو عربی زبان کے بارے میں ایسا سنا ہے۔:) ویسے کتنی ثقیل اردو بولنے پر مندرجہ بالا نتائج برامد ہوں گے؟؟ :D
 

یاز

محفلین
مضمون لکھنے والے کی اردو سے محبت مثالی ہے۔ ہونی بھی چاہئے کہ اپنی زبان اور اپنا شہر بنیادی ترین محبتوں میں سے ہوتے ہیں۔

تاہم میں اس حد تک اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا کہ اردو زبان کے دیگر فوائد یعنی روح کی سرشاری یا دماغی خلل کا علاج وغیرہ کسی بھی زبان (خصوصاََ ترقی یافتہ زبان) سے میسر آ سکتے ہیں۔ لسانیات یعنی لینگویسٹکس ایسی ہی مزیدار اور شاندار چیز ہے۔احباب میں سے جس کسی نے کوئی پرائی زبان ذرا تفصیل میں سیکھی ہے، وہ جان سکتا ہے کہ نئی زبان سیکھنا بلکہ جاننا کتنا ذہنی فرحت بخش عمل ہے۔
 

آصف اثر

معطل
دراصل ڈان والوں نے یہاں ترجمہ نگار پر تکیہ کیا ہے۔
اس تحقیق کے متعلق پہلی بار گلوبل سائنس شمارہ مارچ 2015میں مضمون شا ئع ہوا جس میں اردو کے مشہور رسم الخط ”نستعلیق “ کی بات کی گئی تھی۔میں کوشش کرتا ہوں کہ اصل رپورٹ کو الگ لڑی میں جاری کروں۔
ڈان کے ترجمہ نگار نے تلخیص کے چکر میں اہم نکتہ شامل ہی نہیں کیا۔
 
اس میں کوئی شک نہیں اردو دنیا کی تیزی۔سے ترقی کرتی ہوئی زبانوں۔میں سے ایک ہے مگر اس رپورٹ کے اکثر مندجات سے اتفاق نہیں اس معاملے۔میں میرا ووٹ فارسی۔کو جائے گا ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ۔کسی بھی زبان سے لطف اندوز ہونے کے لئے اس زبان پر دسترس بہت ضروری ہے اس کے بغیر یہ۔تمام باتیں بے معنی ہیں دوسرے ہم یہ۔بھی دیکھیں کہ اس زبان میں ادبی سرمایہ کیا ہے اور اس زبان میں بیان کی وسعت کیا ہے بلاشبہ اردو اس معاملے میں بہت آگے ہے
 
بس بھئی بس۔ ریسرچ کے مطابق اردو زبان کا مطالعہ دماغ کے لیے مفید ہے پنجابی کا نہیں :)
علاقائی زبان کوئی بھی ہو اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور پاکستان میں بولی۔جانے والی تمام۔زبانوں میں بیش بہا ادبی سرمایہ۔محفوظ ہے جس سے فائدہ۔اٹھانے کے لئے ان کا مطالعہ ناگزیر ہے
 

آصف اثر

معطل
یہ رپورٹ لکھنؤ، ہندوستان کے ” سینٹر فار بایومیڈیکل ریسرچز“ (CBMR) میں کی گئی ایک تحقیق کا خلاصہ ہے۔ حیرت ہے کہ اگرچہ اس تحقیق کے نتائج گزشتہ سال( 7اگست 2015ء کے روز) تحقیقی مجلّے”نیوروسائنس لیٹرز“ میں آن لائن شائع ہوئے؛ لیکن چند دن پہلے ہی اسے ”ٹائمز آف انڈیا“ کے طفیل شہرت حاصل ہوئی۔ ہر چند کہ یہ اعصابیات (Neurology) اور نفسیات کے میدان میں کی گئی ایک سنجیدہ تحقیق تھی لیکن اللہ بھلا کرے ہمارے صحافیوں اور ادیبوں کا، کہ وہ اب تک صرف اسی بات پر بغلیں بجانے میں مصروف ہیں کہ دیکھو! اب تو اردو زبان کی اہمیت، جدید سائنسی تحقیق سے بھی ثابت ہوگئی ہے۔
مذکورہ تحقیق کو سادہ اور عام فہم الفاظ میں بیان کیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو زبان وادب کا مطالعہ - اس کے اصلی یعنی ”نستعلیق“ رسم الخط میں - ہماری دماغی صحت کو بہتر بناتاہے۔ یہ نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ آج کل ” رومنائزڈ اردو“ یعنی انگریزی حروفِ تہجی میں اردو لکھنے کارواج نہ صرف یہ کہ ایک بار پھر سے زور پکڑ رہاہے( کمپیوٹر پر تمام سہولیات دستیاب ہونے کے باوجود)بلکہ جدید ” بین الاقوامیت“ (گلوبلائزیشن) کے نام پر اس رجحان کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے۔
یہ بھی محض اتفا ق ہے کہ ہم نے حال ہی میں ” اِک نسخۂ کیمیا “ کے تحت قلم سے اردو لکھنے کے عمل، اور اس عمل میں ممکنہ دماغی سرگرمیوں پر بھی بطورِ مثال بات کی تھی۔ اردو کے حق میں پیش کی جانے والی مذکورہ تحقیق، ہمارے اس نکتے کی تائید کرتے ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ خیر، یہ تحقیق اُتم کمار صاحب اور ان کے رُفقائے کار کی ہے۔ وہ دراصل یہ جاننا چاہتے تھے کہ کسی خاص رسم الخط (اسکرپٹ) کو پڑھتے دوران، انسانی دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نےا یسے افراد منتخب کیے جو بیک وقت اردو اور ہندی رسم الخط سے واقف تھے۔ (یاددلاتے چلیں کہ ہندوستان کی تین قومی سرکاری زبانوں میں انگریزی، ہندی اور اُردو شامل ہیں۔)
ایسے افراد منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ بولنے کی حد تک اردو اور ہندی ایک دوسرے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہیں، لیکن لکھنے میں ان دونوں کارسم الخط ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ ہندی رسم الخط( جسے گورمکھی یا دیوناگری بھی کہا جاتاہے) بائیں سے دائیں (Left to Right) چلتا ہے؛ جبکہ اردو تحریر، دائیں سے بائیں (Right to Left) لکھی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں، ہندی تحریر میں ہر حرف کی صرف ایک ساخت اور ایک ہی آواز ہوتی ہے۔ اگر ہندی میں کوئی لفظ لکھنا ہو تو یہ حروف اسی ترتیب سے ایک ساتھ (درمیان میںوقفہ دئیے بغیر) لکھ دئیے جاتے ہیں۔ لیکن اُردو کا معاملہ اس کے مقابلے میں بہت پیچیدہ ہے۔ صرف چند حروف کو چھوڑ کر، اُردو رسم الخط میں ہر حرف کی چار مختلف شکلیں ہوتی ہیں؛ جبکہ بعض مواقع پر لکھا گیا حرف، اپنی ظاہری صورت کے مقابلے میں قدرے مختلف آواز بھی دیتاہے۔۔۔ یعنی اردو رسم الخط، ہندی کے مقابلے میں بہت پیچیدہ ہے۔
لیکن یہ بات بھی پوری نہیں۔ اردو کا ”اصلی“ اندازِ تحریر، یعنی نستعلیق، اپنے اندر بیک وقت دو طرح کی حرکت سموئے ہوئے ہے: دائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے ۔ مطلب یہ کہ جب اردو میں مختلف حروف تہجی کو باہم ملا کر کوئی لفظ لکھا جاتاہے، تو اس میں حروف کی ترتیب دائیں سے بائیں چلنے کے ساتھ ساتھ ہر اگلے حرف کا شوشہ، پچھلے حرف کے مقابلے میں قدرے نیچے کی جانب کھسکا کر ملایا جاتا ہے۔یہ خاصیت اردو رسم الخط کو نہ صرف عربی اور فارسی سے ممتاز کرتی ہے ، بلکہ ایک عرصے تک صحیح معنوں میں ” اردو کمپیوٹرائزیشن“ کے ضمن میں ایک بڑی تکنیکی رکاوٹ بھی قرار دی جاتی رہی ہے۔ (خداکا شکر ہے کہ ہمیں احمدمرزا جمیل مرحوم جیسے بلند حوصلہ افراد میسر آگئے، جن کے طفیل آج ہم کمپیوٹر پر بڑی سہولت سے نستعلیق اردو لکھنےا ور پڑھنے کے قابل ہوچکے ہیں۔)
اُتم کمار اور ان کے رُفقائے تحقیق یہ جاننا چاہتے تھے، کہ کسی زبان کی ظاہری ساخت(سادگی یا پیچیدگی) اور حروف سے وابستہ آوازوں کا دماغی سرگرمی سے کیا تعلق ہے؟ اور یہ تعلق، دماغ کے لیے مفید بھی ہے یا نہیں؟ تحقیق کی غرض سے انہون نے لکھنؤ ہی سے کچھ رضا کار منتخب کیے جو اردو اور ہندی ، دونوں زبانیں پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے۔ ان افراد سے ایک مخصوص وقت تک اردو نظمیں اور ہندی کویتائیں پڑھنے کے لیے کہا گیا۔ مطالعے کے دوران ”فنکشنل میگنیٹک ریزونینس امیجنگ“ (fMRI) مشین کے ذریعے ان کے دماغوں میں پیدا ہونے والی سرگرمی کا مفصلا ور باریک بینی سے جائزہ لیا جاتارہا۔ موازنہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ اردو اشعار پڑھنے ( اور ان سے ممکنہ طور پر لُطف اندوز ہونے) والوں کے دماغوں میں اعصابی سرگرمی، ہندی کویتائیں پڑھنے والوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ یہی نہیں بلکہ اردو اشعار پڑھتے دوران، رضاکاروں کے دماغوں میں کچھ ایسے اضافی حصے بھی سرگرم دیکھے گئے جو ہندی کویتائیں پڑھتے وقت بالکل تاریک پڑے تھے۔
مطلب صاف تھا؛ اردو اشعار کا مطالعہ( جو نستعلیق رسم الخط میں لکھے گئے تھے) رضاکاروں کے دماغوں سے زیادہ متنوع فیہ سرگرمیوں کا تقاضا کررہا تھا۔۔۔ اور یہ تقاضا پورا کرتے ہوئے ، ان رضاکاروں کے دماغی خلیات آپس میں زیادہ بہتر طور پر (اور زیادہ مضبونی سے) مربوط ہورہے تھے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بناء پر اردو کو دماغی صحت کے لیے مفید قرار دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہامرے تعلیمی پالیسی ساز، اردو کی اعصابی اہمیت سے کب روشناس ہوپاتے ہیں۔
رپورٹ : علیم احمد۔
ماہنامہ گلوبل سائنس، شمارہ مارچ ، 2015۔
ماخذ: doi: 10.1016/j.neulet.2014.07.053
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
ڈان والے پرانی خبر کا ترجمہ کرتے یہ بھی نہیں بتاتے کہ خبر پرانی ہے۔

مجھے اس ریسرچ پر شک ہے کہ ایف ایم آر آئی سے لوگوں نے عجیب و غریب چیزیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

زبان کا سیکھنا اور استعمال انسانی دماغ کا ایک اہم حصہ ہے۔ ایک سے زیادہ زبانوں کے ذہن پر کیا فوائد ہیں اس پر کافی بحث جاری ہے۔ کیا ایک زبان کا دماغ کے لئے دوسری زبان سے بہتر ہونا ثابت ہے؟ نہیں۔
 
سر، گندی گندی اور موٹی موٹی گالیاں مجھے چار پانچ زبانوں میں دینی آتی ہیں۔ اور یقین کیجیے کہ اس وقت میرے قلب سے حلق تک ایک طوفان ہے دشنام کا جو ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ لیکن ادب کی بات ہو رہی ہے سو پاس رکھنا پڑتا ہے۔ ورنہ پاکستانی اربابِ اختیار کی تو ماں کی۔۔۔
 

آصف اثر

معطل
میں نے اس تحقیق کو مفصل طور پر الگ لڑی کی صورت میں دیا ہے۔ دراصل ڈان نے اردو سے محبت کے نام پر صحافت کےاصول کی پاسداری نہیں برتی۔ ورنہ اتنا الجھاؤ پیدا نہ ہوتا۔
رپورٹ میں اصل زور نستعلیقی رسم الخط پر دیا گیا ہے۔
 

arifkarim

معطل
مضمون لکھنے والے کی اردو سے محبت مثالی ہے۔ ہونی بھی چاہئے کہ اپنی زبان اور اپنا شہر بنیادی ترین محبتوں میں سے ہوتے ہیں۔

تاہم میں اس حد تک اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا کہ اردو زبان کے دیگر فوائد یعنی روح کی سرشاری یا دماغی خلل کا علاج وغیرہ کسی بھی زبان (خصوصاََ ترقی یافتہ زبان) سے میسر آ سکتے ہیں۔ لسانیات یعنی لینگویسٹکس ایسی ہی مزیدار اور شاندار چیز ہے۔احباب میں سے جس کسی نے کوئی پرائی زبان ذرا تفصیل میں سیکھی ہے، وہ جان سکتا ہے کہ نئی زبان سیکھنا بلکہ جاننا کتنا ذہنی فرحت بخش عمل ہے۔
آپ اپنا نام تبدیل کر لیں۔ جب بھی پڑھتا ہوں لگتا ہے پیاذ لکھا ہوا ہے :)
 
Top