arifkarim
معطل
تلور کے شکار کی خفیہ پاکستانی انڈسٹری
تلور مرغی کی طرح نایاب نسل کا ایک ہوشیار پرندہ ہے جس کے شکار پر پاکستان میں سرکاری پابندی عائد ہے۔
لیکن جب عرب شاہی خاندان کے افراد تلور کے شکار کے لیے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔
عرب کے شہزادے اور ان کے امیر دوستوں کو کھیل کے طور پر تلور کا شکار کرنا پسند ہے کیونکہ اِس کے گوشت کو جنسی خواہش کو بڑھانے کی دوا سمجھا جاتا ہے۔
سرد موسم میں ہزاروں تلور وسطی امریکہ سے پاکستان کا سفر کرتے ہیں جس کے باعث پاکستانی اُمرا کو ’نرم سفارت کاری‘ کا موقع مل جاتا ہے۔
شکار پر پابندی کے باوجود حکومت امیر شیخوں کے لیے سالانہ 25 سے 35 تک کی تعداد میں شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کرتی ہے جس میں اُنھیں سردیوں میں شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اِن کا شکار خفیہ لیکن متنازع ہے۔
شکار کرنے والے افراد کو دس روز کے دوران 100 پرندے شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن وہ اکثر کوٹے سے تجاوز کر جاتے ہیں۔
سنہ 2014 میں ایک سرکاری رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس کے مطابق سعودی شہزادے نے اپنے 21 روزہ دورے کے دوران 2,000 سے زائد پرندوں کا شکار کیا تھا۔
اگست سنہ 2015 میں سپریم کورٹ کی جانب سے تلور کے شکار پر مکمل پابندی کے بعد حکام کی جانب سے عرب امیر زادوں کو ’تیتر‘ کے شکار کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انھوں نے تلور کا شکار کیا تھا۔
متعدد عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ پابندی کے بعد بھی ضلع بھکر کے دور دراز صحرائی علاقے نور پور تھل اور گاؤں ماہنی میں تلور کا شکار کیا گیا۔
نور پور تھل کے ایک نوجوان نے بتایا کہ پنجاب کے محکمۂ جنگلات اور جنگی حیات کے حکام نے دسمبر میں علاقے کا دورہ کیا تھا اور اِن لوگوں کو بتایا کہ وہ قطری شیخ کے دورے کی تیاری کریں۔
انھیں تین مہینے کام کے لیے 80,000 روپے ادا کیے گئے جس میں جن جگہوں پر تلور پائے جاتے ہیں وہاں کی نشاندہی اور حفاظت شامل تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ شکار کرنے والے افراد 21 دسمبر کو یہاں پہنچے اور ایک ہفتے کے قیام کے دوران انھوں نے آٹھ تلور شکار کیے۔
اِسی دوران زمیندار امجد عباس بدھوال نے بتایا کہ جب وہ دسمبر کے وسط میں اپنی چنے کی فصل پر کام کر رہے تھے تو اُنھوں نے ریت کے ٹیلے پر تلور کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ محکمۂ جنگلی حیات کے حکام اور مقامی پولیس ان کی زمین پر آئی، ’گاڑی سے اترتے کے ساتھ ہی انھوں نے جارحانہ انداز میں ہمیں علاقے سے باہر نکال دیا۔‘
بدھوانی کا کہنا ہے ’تقریباً 20 گاڑیوں پر ان کا پیچھا کیا گیا۔‘
’میں نے ایک عرب کو دیکھا جو اپنے روایتی سفید جبّے میں ملوس تھے اُنھوں نے گاڑی کی چھت سے گردن باہر نکالی ہوئی تھی اور ان کے بائیں ہاتھ پر عقاب بیٹھا ہوا تھا۔‘
’میں نے ایک مرغی کے برابر تلور کو دیکھا جو ہوا اڑ رہا تھا۔ عرب شکاری نے عقاب کی آنکھوں سے پٹی اتار دی اور تلور پر جھپٹنے کے لیے اس کو ہوا میں چھوڑ دیا۔ گاڑیاں تیزی سے ان کا پیچھا کر رہی تھیں جبکہ دونوں پرندے ان سے کچھ فاصلے پر تھے۔‘
قطری شکاریوں کے لیے کام کرنے والے ماہنی علاقے کے ایک رہائشی نے بتایا کہ جنوری کے اوائل کے دوران اس نے سات بار تلور کے شکار کا انتظام کیا تھا۔ ان کے مطابق شکار پر پابندی کی حکم عدولی کرتے ہوئے اِس علاقے میں تقریباً 70 تلور شکار کیے گئے۔
لیکن عمران قریشی جنھوں نے خود کو ماہنی میں قطر کے کیمپ کے لیے رابطۂ کار کے طور پر متعارف کرایا۔ انھوں نے پابندی کے دوران تلور کے شکار کی تردید کی ہے۔
انھوں نے مجھے فون پر بتایا: ’ہمارے پاس تیتر کے شکار کا اجازت نامہ ہے اور ہم نے تیتر ہی کا شکار کیا ہے۔‘
حکومت کی جانب سے تلور کے شکار کو مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ’بنیادی جُز‘ قرار دینے کے بعد سپریم کورٹ نے جنوری کے آخر میں تلور کے شکار سے پابندی ہٹا لی تھی۔
بڑے وفود
عالمی جنگلی حیات فنڈ کی پاکستان میں ڈائریکٹر ڈاکٹر عظمیٰ کا کہنا ہے کہ تلور کی نسل ’کم ہو رہی ہے لیکن حکومت قابل برداشت شکار کو یقینی بنانے کے لیے آبادی کا سروے نہیں کرا رہی۔‘
اور یہ صرف قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی ہی نہیں ہیں جو شکار سے ناخوش ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ شکار کے لیے آنے والے بڑے وفود کی آمد سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے اور فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
چنے کی وہ واحد فصل ہے جو تھل کے صحرا میں بارش والے مٹی کے ٹیلوں پر پروان چڑھتی ہے اور جب یہاں قحط کے حالات ہوں تو زندگی مشکل بن جاتی ہے۔
امجد بدھوال کا کہنا ہے ’آپ 25 ایکڑ کی زمین پر چنے کی پیدوار کے لیے تقریباً 400 امریکی ڈالر خرچ کرتے ہیں۔‘
’اِس میں سینکڑوں افراد کی محنت شامل ہوتی ہے، بیج لگانے سے لے کر کیڑوں سے بچاؤ کی ادویات تک اور عام دیکھ بھال میں سینکڑوں گھنٹے صرف ہوتے ہیں کیونکہ زمین کافی وسیع ہوتی ہے اور وہاں باڑ نہیں لگائی جاتی۔‘
مقامی کسان سلطان کارلو کا کہنا ہے ’اگر ’تلور‘ کا جوڑا آپ کی زمین پر اپنا گھونسلہ بنا رہا ہے تو پولیس اور رہنمائی کرنے والے آپ کو وہاں جانے سے روک دیں گے جب تک شہزادہ ان کا شکار نہ کر لے۔ اِس میں کئی دن لگے جاتے ہیں اور کبھی کبھار مہینے بھی۔‘
اِس کے علاوہ یہاں دوسری مصیبت شکاریوں کی جانب سے سڑک سے ہٹ کر گاڑیاں چلانا ہے کیونکہ وہ شکار کی تلاش میں اپنی درجنوں گاڑیوں پر باہر نکلتے ہیں اور کئی کلومیٹر تک اپنے شکار کا پیچھا کرتے ہیں جس سے اطراف میں کاشت سبزیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
مرکزی حیدرآباد تھل شہر کے تھانے میں مقامی کاشت کاروں کی جانب سے درجنوں شکایات درج کرائی گئی ہیں۔ وہاں کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا: ’غیر ملکی شکاریوں کے خلاف کارروائی کے احکامات نہیں دیے گئے ہیں کیونکہ انھوں نے متاثرہ کسانوں کو نقصان کا معاوضہ ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘
حکومت کا کہنا ہے کہ خلیجِ عرب سے آنے والے امیر شکاری، شکار کرنے والے علاقوں کے لیے بھاری سرمایہ کاری ساتھ لائیں گے۔
تاہم یہاں اِس بارے میں کافی شکایات ہیں کہ قطری شہزادوں نے اِس علاقے میں چار ہسپتال بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے لیے ابھی تک ایک اینٹ تک نہیں رکھی گئی اور اِس کے لیے مقامی زمیندار پہلے ہی زمین وقف کر چکے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے بدلہ
جب کسانوں میں اِس حوالے سے بے چینی تھی تو نور پور تھل کے ایک کسان کو شکاریوں سے رقم نکالنے کے ایک جدید منصوبہ دماغ میں آیا۔
27 دسمبر کو کسان قیوم حسین کو پتہ چلا کہ اس کی زمین پر شکار کیا جانا ہے تو اس نے شکار کی عکس بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے ایک جاننے والے سے ایچ ڈی کیمرہ ادھار لیا اور شکار کے آغاز کا انتظار کرنے لگا۔
جب وہ اس منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہا تھا تو شکاریوں نے اس کو دیکھ لیا اور باہر آنے کا کہا لیکن اس نے اپنی موٹر سائیکل پر چھلانگ لگائی اور گھر کی جانب فرار ہوگیا۔
حسین نے ٹی وی چینل پر نشر کرنے کے لیے مقامی صحافی اکرام اللہ کو فون کر کے فوٹیج کی پیشکش کی۔
مقامی گائیڈ اور اِس واقعے کے عینی شاہد نے مجھے بتایا کہ عرب شکاریوں اور مقامی پولیس اہلکاروں کا حسین کے گھر پر آمنا سامنا ہوا۔
گائیڈ کے مطابق: ’صورت حال خراب ہو گئی۔ دونوں جانب سے سخت جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔ جب پولیس نے اس کو جسمانی طور پر ہراساں کرنا شروع کیا تو لڑائی ہوگئی لیکن وہ ضد پر اڑا رہا۔‘
آخر کار ان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اور عرب شکاریوں نے اس کے کیمرے کے میمری کارڈ کے عوض 500 امریکی ڈالر ادا کرکے جان چھڑائی۔
لنک

تلور مرغی کی طرح نایاب نسل کا ایک ہوشیار پرندہ ہے جس کے شکار پر پاکستان میں سرکاری پابندی عائد ہے۔
لیکن جب عرب شاہی خاندان کے افراد تلور کے شکار کے لیے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو ان کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔
عرب کے شہزادے اور ان کے امیر دوستوں کو کھیل کے طور پر تلور کا شکار کرنا پسند ہے کیونکہ اِس کے گوشت کو جنسی خواہش کو بڑھانے کی دوا سمجھا جاتا ہے۔

سرد موسم میں ہزاروں تلور وسطی امریکہ سے پاکستان کا سفر کرتے ہیں جس کے باعث پاکستانی اُمرا کو ’نرم سفارت کاری‘ کا موقع مل جاتا ہے۔
شکار پر پابندی کے باوجود حکومت امیر شیخوں کے لیے سالانہ 25 سے 35 تک کی تعداد میں شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کرتی ہے جس میں اُنھیں سردیوں میں شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اِن کا شکار خفیہ لیکن متنازع ہے۔
شکار کرنے والے افراد کو دس روز کے دوران 100 پرندے شکار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن وہ اکثر کوٹے سے تجاوز کر جاتے ہیں۔
سنہ 2014 میں ایک سرکاری رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس کے مطابق سعودی شہزادے نے اپنے 21 روزہ دورے کے دوران 2,000 سے زائد پرندوں کا شکار کیا تھا۔

اگست سنہ 2015 میں سپریم کورٹ کی جانب سے تلور کے شکار پر مکمل پابندی کے بعد حکام کی جانب سے عرب امیر زادوں کو ’تیتر‘ کے شکار کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انھوں نے تلور کا شکار کیا تھا۔
متعدد عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ پابندی کے بعد بھی ضلع بھکر کے دور دراز صحرائی علاقے نور پور تھل اور گاؤں ماہنی میں تلور کا شکار کیا گیا۔
نور پور تھل کے ایک نوجوان نے بتایا کہ پنجاب کے محکمۂ جنگلات اور جنگی حیات کے حکام نے دسمبر میں علاقے کا دورہ کیا تھا اور اِن لوگوں کو بتایا کہ وہ قطری شیخ کے دورے کی تیاری کریں۔
انھیں تین مہینے کام کے لیے 80,000 روپے ادا کیے گئے جس میں جن جگہوں پر تلور پائے جاتے ہیں وہاں کی نشاندہی اور حفاظت شامل تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ شکار کرنے والے افراد 21 دسمبر کو یہاں پہنچے اور ایک ہفتے کے قیام کے دوران انھوں نے آٹھ تلور شکار کیے۔
اِسی دوران زمیندار امجد عباس بدھوال نے بتایا کہ جب وہ دسمبر کے وسط میں اپنی چنے کی فصل پر کام کر رہے تھے تو اُنھوں نے ریت کے ٹیلے پر تلور کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ محکمۂ جنگلی حیات کے حکام اور مقامی پولیس ان کی زمین پر آئی، ’گاڑی سے اترتے کے ساتھ ہی انھوں نے جارحانہ انداز میں ہمیں علاقے سے باہر نکال دیا۔‘

بدھوانی کا کہنا ہے ’تقریباً 20 گاڑیوں پر ان کا پیچھا کیا گیا۔‘
’میں نے ایک عرب کو دیکھا جو اپنے روایتی سفید جبّے میں ملوس تھے اُنھوں نے گاڑی کی چھت سے گردن باہر نکالی ہوئی تھی اور ان کے بائیں ہاتھ پر عقاب بیٹھا ہوا تھا۔‘
’میں نے ایک مرغی کے برابر تلور کو دیکھا جو ہوا اڑ رہا تھا۔ عرب شکاری نے عقاب کی آنکھوں سے پٹی اتار دی اور تلور پر جھپٹنے کے لیے اس کو ہوا میں چھوڑ دیا۔ گاڑیاں تیزی سے ان کا پیچھا کر رہی تھیں جبکہ دونوں پرندے ان سے کچھ فاصلے پر تھے۔‘

قطری شکاریوں کے لیے کام کرنے والے ماہنی علاقے کے ایک رہائشی نے بتایا کہ جنوری کے اوائل کے دوران اس نے سات بار تلور کے شکار کا انتظام کیا تھا۔ ان کے مطابق شکار پر پابندی کی حکم عدولی کرتے ہوئے اِس علاقے میں تقریباً 70 تلور شکار کیے گئے۔
لیکن عمران قریشی جنھوں نے خود کو ماہنی میں قطر کے کیمپ کے لیے رابطۂ کار کے طور پر متعارف کرایا۔ انھوں نے پابندی کے دوران تلور کے شکار کی تردید کی ہے۔
انھوں نے مجھے فون پر بتایا: ’ہمارے پاس تیتر کے شکار کا اجازت نامہ ہے اور ہم نے تیتر ہی کا شکار کیا ہے۔‘

حکومت کی جانب سے تلور کے شکار کو مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ’بنیادی جُز‘ قرار دینے کے بعد سپریم کورٹ نے جنوری کے آخر میں تلور کے شکار سے پابندی ہٹا لی تھی۔
بڑے وفود
عالمی جنگلی حیات فنڈ کی پاکستان میں ڈائریکٹر ڈاکٹر عظمیٰ کا کہنا ہے کہ تلور کی نسل ’کم ہو رہی ہے لیکن حکومت قابل برداشت شکار کو یقینی بنانے کے لیے آبادی کا سروے نہیں کرا رہی۔‘
اور یہ صرف قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی ہی نہیں ہیں جو شکار سے ناخوش ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ شکار کے لیے آنے والے بڑے وفود کی آمد سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے اور فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
چنے کی وہ واحد فصل ہے جو تھل کے صحرا میں بارش والے مٹی کے ٹیلوں پر پروان چڑھتی ہے اور جب یہاں قحط کے حالات ہوں تو زندگی مشکل بن جاتی ہے۔

امجد بدھوال کا کہنا ہے ’آپ 25 ایکڑ کی زمین پر چنے کی پیدوار کے لیے تقریباً 400 امریکی ڈالر خرچ کرتے ہیں۔‘
’اِس میں سینکڑوں افراد کی محنت شامل ہوتی ہے، بیج لگانے سے لے کر کیڑوں سے بچاؤ کی ادویات تک اور عام دیکھ بھال میں سینکڑوں گھنٹے صرف ہوتے ہیں کیونکہ زمین کافی وسیع ہوتی ہے اور وہاں باڑ نہیں لگائی جاتی۔‘
مقامی کسان سلطان کارلو کا کہنا ہے ’اگر ’تلور‘ کا جوڑا آپ کی زمین پر اپنا گھونسلہ بنا رہا ہے تو پولیس اور رہنمائی کرنے والے آپ کو وہاں جانے سے روک دیں گے جب تک شہزادہ ان کا شکار نہ کر لے۔ اِس میں کئی دن لگے جاتے ہیں اور کبھی کبھار مہینے بھی۔‘

اِس کے علاوہ یہاں دوسری مصیبت شکاریوں کی جانب سے سڑک سے ہٹ کر گاڑیاں چلانا ہے کیونکہ وہ شکار کی تلاش میں اپنی درجنوں گاڑیوں پر باہر نکلتے ہیں اور کئی کلومیٹر تک اپنے شکار کا پیچھا کرتے ہیں جس سے اطراف میں کاشت سبزیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
مرکزی حیدرآباد تھل شہر کے تھانے میں مقامی کاشت کاروں کی جانب سے درجنوں شکایات درج کرائی گئی ہیں۔ وہاں کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا: ’غیر ملکی شکاریوں کے خلاف کارروائی کے احکامات نہیں دیے گئے ہیں کیونکہ انھوں نے متاثرہ کسانوں کو نقصان کا معاوضہ ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘
حکومت کا کہنا ہے کہ خلیجِ عرب سے آنے والے امیر شکاری، شکار کرنے والے علاقوں کے لیے بھاری سرمایہ کاری ساتھ لائیں گے۔
تاہم یہاں اِس بارے میں کافی شکایات ہیں کہ قطری شہزادوں نے اِس علاقے میں چار ہسپتال بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے لیے ابھی تک ایک اینٹ تک نہیں رکھی گئی اور اِس کے لیے مقامی زمیندار پہلے ہی زمین وقف کر چکے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے بدلہ

جب کسانوں میں اِس حوالے سے بے چینی تھی تو نور پور تھل کے ایک کسان کو شکاریوں سے رقم نکالنے کے ایک جدید منصوبہ دماغ میں آیا۔
27 دسمبر کو کسان قیوم حسین کو پتہ چلا کہ اس کی زمین پر شکار کیا جانا ہے تو اس نے شکار کی عکس بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے ایک جاننے والے سے ایچ ڈی کیمرہ ادھار لیا اور شکار کے آغاز کا انتظار کرنے لگا۔
جب وہ اس منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہا تھا تو شکاریوں نے اس کو دیکھ لیا اور باہر آنے کا کہا لیکن اس نے اپنی موٹر سائیکل پر چھلانگ لگائی اور گھر کی جانب فرار ہوگیا۔

حسین نے ٹی وی چینل پر نشر کرنے کے لیے مقامی صحافی اکرام اللہ کو فون کر کے فوٹیج کی پیشکش کی۔
مقامی گائیڈ اور اِس واقعے کے عینی شاہد نے مجھے بتایا کہ عرب شکاریوں اور مقامی پولیس اہلکاروں کا حسین کے گھر پر آمنا سامنا ہوا۔
گائیڈ کے مطابق: ’صورت حال خراب ہو گئی۔ دونوں جانب سے سخت جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔ جب پولیس نے اس کو جسمانی طور پر ہراساں کرنا شروع کیا تو لڑائی ہوگئی لیکن وہ ضد پر اڑا رہا۔‘
آخر کار ان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اور عرب شکاریوں نے اس کے کیمرے کے میمری کارڈ کے عوض 500 امریکی ڈالر ادا کرکے جان چھڑائی۔
لنک