سفر تو یہی کوئی 300 کلومیٹر بنا ہوگا لیکن گاڑی میں نے کوئی تیرہ چودہ گھنٹے مسلسل چلائی۔
بیوی کی پرانی خواہش تھی کہ اُس کو لاہور اُس کی والدہ کی قبر پر لے کر جاؤں، صبح آٹھ بجے کے قریب سیالکوٹ سے نکلا، بیوی کو قبرستان لے گیا (سالے کے گھر، جو پاس ہی تھا نہیں گیا کہ یہ فرمائش کا حصہ نہیں تھا، اِس بات کا وہ آج تک شکوہ کرتا ہے، میری بلا سے

)۔ اُس کے بعد بچے لاہور میں مجھے گھماتے رہے، کھانے کا وقفہ کیا۔ اور شام کے قریب واپسی، میرا ارادہ تھا کہ شام سات بجے تک سیالکوٹ پہنچ جاؤنگا، لیکن گوجرانوالہ میں رستہ بھول گیا، وہاں سڑکیں ادھڑی پڑیں تھیں اور ٹریفک کی لمبی قطاریں، دو تین گھنٹے وہیں گھومتا رہا، برا حال ہو گیا۔ دس بجے سیالکوٹ پہنچا۔
قدرت کے ہر کام میں کوئی بہتری ہوتی ہے، اب بیوی بچے جب بھی لاہور کا کہتے ہیں تو میرا بہانہ کہ میں تو رستہ بھول جاتا ہوں، میرا خوب ساتھ نبھاتا ہے
