ریلیا بیرن پیا کو لیے جائے رے - بھوجپوری دادرا

چلیں پھر اس طرح کہہ لیتے ہیں کہ اس ویڈیو کا ہیرو عاشر عظیم سے مشابہت رکھتا ہے اور عاشر عظیم آپ سے مشابہت رکھتا ہے :)
فہیم بھائی کی بات بھی رہ جائے اور میری بھی :)
ویسے چہرے مہرے کی مشابہت سے زیادہ قابل توجہ اس شخص کا انداز ہے۔ موصوف کو دیکھ کر ہمیں اپنے یہاں کے وہ نوجوان یاد آ گئے جو بچپن میں ہی اسکول چھوڑ کر ممبئی چلے جاتے تھے اور وہاں جوتوں کے کارخانوں یا ریستورانوں وغیرہ میں کام کرتے تھے یا پھر کباڑ خریدتے بیچتے تھے۔ کئی برسوں کے بعد والدین کی پر زور فرمائش پر کھیتی باڑی کے دنوں میں گاؤں آتے تھے تو ممبئی سے کوئی چمکتا دمکتا ساؤنڈ سسٹم ساتھ لاتے تھے جو کہ عموماً ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو وغیرہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ شام ڈھلے گھر کی چھت پر یا باہر چارپائی پر سارا ساز و سامان سجائے اونچی آواز میں قوالیاں، فلمی نغمے، مشاعرے، تقریریں، یا پھر نوٹنکی کی ریکارڈنگ محلے بھر کو سناتے تھے۔ گاؤں آتے ہی قریبی قصبے جا کر ایک عدد سائیکل خریدتے تھے اور اس کی سجاؤٹ میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے مثلاً فریم پر کور، دستوں سے لٹکتے چمکیلے جھالر، ٹائر سے متصل ڈائنامو اور ہیڈ لیمپ، دو عدد عقب نما آئینے (جو محض اپنا چہرہ دیکھنے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جیب سے کنگھی نکال کر بال سنوارنے کے کام آتے تھے) دونوں پہیوں کے مڈ گارڈ سے متصل ربر کے اضافی مڈ گارڈ، اور رم کو کیچڑ سے صاف رکھنے کے لیے برش وغیرہ سے مکمل طور پر لیس کرواتے تھے۔ جھومتے مٹکتے ہوئے بانکے چھبیلے بنے اپنے ہی خیالوں میں گاؤں کی لڑکیوں پر بجلیاں گراتے دن کے کسی بھی پہر کسی چائے پان کی دوکان پر بیٹھے مل سکتے تھے اور ہر آنے جانے والا جو ایک دفعہ یہ پوچھ لے کہ "اور سیٹھ کیسے ہیں؟" اسے بغیر چائے یا پان کے وہاں سے جانے نہ دیتے تھے۔ پھر ایک دن جب احساس ہوتا تھا کہ جیب خالی ہو چکی ہے تو چپکے سے وہ سائیکل اور ساؤنڈ سسٹم کسی کے ہاتھوں اونے پونے داموں بیچ کر یا ادھار وغیرہ لے کر چائے پان کی دوکان کا بقایا چکاتے تھے اور والدین کو بتائے بغیر چپکے سے ٹکٹ خرید کر واپس ممبئی بھاگ جاتے تھے۔ کوئی دو ہفتے بعد گھر خط آتا تھا کہ ہم خیریت سے ممبئی پہنچ گئے ہیں اور اگلے مہینے کھیت میں کھاد ڈالنے کے لیے پیسے بھیج دیں گے۔ :) :) :)
 

افضل حسین

محفلین
ویسے چہرے مہرے کی مشابہت سے زیادہ قابل توجہ اس شخص کا انداز ہے۔ موصوف کو دیکھ کر ہمیں اپنے یہاں کے وہ نوجوان یاد آ گئے جو بچپن میں ہی اسکول چھوڑ کر ممبئی چلے جاتے تھے اور وہاں جوتوں کے کارخانوں یا ریستورانوں وغیرہ میں کام کرتے تھے یا پھر کباڑ خریدتے بیچتے تھے۔ کئی برسوں کے بعد والدین کی پر زور فرمائش پر کھیتی باڑی کے دنوں میں گاؤں آتے تھے تو ممبئی سے کوئی چمکتا دمکتا ساؤنڈ سسٹم ساتھ لاتے تھے جو کہ عموماً ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو وغیرہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ شام ڈھلے گھر کی چھت پر یا باہر چارپائی پر سارا ساز و سامان سجائے اونچی آواز میں قوالیاں، فلمی نغمے، مشاعرے، تقریریں، یا پھر نوٹنکی کی ریکارڈنگ محلے بھر کو سناتے تھے۔ گاؤں آتے ہی قریبی قصبے جا کر ایک عدد سائیکل خریدتے تھے اور اس کی سجاؤٹ میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے مثلاً فریم پر کور، دستوں سے لٹکتے چمکیلے جھالر، ٹائر سے متصل ڈائنامو اور ہیڈ لیمپ، دو عدد عقب نما آئینے (جو محض اپنا چہرہ دیکھنے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جیب سے کنگھی نکال کر بال سنوارنے کے کام آتے تھے) دونوں پہیوں کے مڈ گارڈ سے متصل ربر کے اضافی مڈ گارڈ، اور رم کو کیچڑ سے صاف رکھنے کے لیے برش وغیرہ سے مکمل طور پر لیس کرواتے تھے۔ جھومتے مٹکتے ہوئے بانکے چھبیلے بنے اپنے ہی خیالوں میں گاؤں کی لڑکیوں پر بجلیاں گراتے دن کے کسی بھی پہر کسی چائے پان کی دوکان پر بیٹھے مل سکتے تھے اور ہر آنے جانے والا جو ایک دفعہ یہ پوچھ لے کہ "اور سیٹھ کیسے ہیں؟" اسے بغیر چائے یا پان کے وہاں سے جانے نہ دیتے تھے۔ پھر ایک دن جب احساس ہوتا تھا کہ جیب خالی ہو چکی ہے تو چپکے سے وہ سائیکل اور ساؤنڈ سسٹم کسی کے ہاتھوں اونے پونے داموں بیچ کر یا ادھار وغیرہ لے کر چائے پان کی دوکان کا بقایا چکاتے تھے اور والدین کو بتائے بغیر چپکے سے ٹکٹ خرید کر واپس ممبئی بھاگ جاتے تھے۔ کوئی دو ہفتے بعد گھر خط آتا تھا کہ ہم خیریت سے ممبئی پہنچ گئے ہیں اور اگلے مہینے کھیت میں کھاد ڈالنے کے لیے پیسے بھیج دیں گے۔ :) :) :)
بہت قریب سے مشاہدہ کیاہے آپ نے ۔ ویسے آجکل سائکل کی جگہ بائک نے لے لیاہے۔
 
بہت قریب سے مشاہدہ کیاہے آپ نے ۔ ویسے آجکل سائکل کی جگہ بائک نے لے لیاہے۔
بھئی ماضی کا صیغہ بلا سبب تو استعمال نہیں کیا تھا۔ وقت کے ساتھ بہت ساری چیزیں بدلتی ہیں۔ اب سائیکل کی جگہ موٹر بائک، میوزک سسٹم کی جگہ موبائل فون، اور خط کی جگہ فون کال نے لے لی ہے۔ البتہ حاصل قصہ اب بھی کم و بیش وہی ہے۔ :) :) :)
 

اوشو

لائبریرین
ویسے چہرے مہرے کی مشابہت سے زیادہ قابل توجہ اس شخص کا انداز ہے۔ موصوف کو دیکھ کر ہمیں اپنے یہاں کے وہ نوجوان یاد آ گئے جو بچپن میں ہی اسکول چھوڑ کر ممبئی چلے جاتے تھے اور وہاں جوتوں کے کارخانوں یا ریستورانوں وغیرہ میں کام کرتے تھے یا پھر کباڑ خریدتے بیچتے تھے۔ کئی برسوں کے بعد والدین کی پر زور فرمائش پر کھیتی باڑی کے دنوں میں گاؤں آتے تھے تو ممبئی سے کوئی چمکتا دمکتا ساؤنڈ سسٹم ساتھ لاتے تھے جو کہ عموماً ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو وغیرہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ شام ڈھلے گھر کی چھت پر یا باہر چارپائی پر سارا ساز و سامان سجائے اونچی آواز میں قوالیاں، فلمی نغمے، مشاعرے، تقریریں، یا پھر نوٹنکی کی ریکارڈنگ محلے بھر کو سناتے تھے۔ گاؤں آتے ہی قریبی قصبے جا کر ایک عدد سائیکل خریدتے تھے اور اس کی سجاؤٹ میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے مثلاً فریم پر کور، دستوں سے لٹکتے چمکیلے جھالر، ٹائر سے متصل ڈائنامو اور ہیڈ لیمپ، دو عدد عقب نما آئینے (جو محض اپنا چہرہ دیکھنے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جیب سے کنگھی نکال کر بال سنوارنے کے کام آتے تھے) دونوں پہیوں کے مڈ گارڈ سے متصل ربر کے اضافی مڈ گارڈ، اور رم کو کیچڑ سے صاف رکھنے کے لیے برش وغیرہ سے مکمل طور پر لیس کرواتے تھے۔ جھومتے مٹکتے ہوئے بانکے چھبیلے بنے اپنے ہی خیالوں میں گاؤں کی لڑکیوں پر بجلیاں گراتے دن کے کسی بھی پہر کسی چائے پان کی دوکان پر بیٹھے مل سکتے تھے اور ہر آنے جانے والا جو ایک دفعہ یہ پوچھ لے کہ "اور سیٹھ کیسے ہیں؟" اسے بغیر چائے یا پان کے وہاں سے جانے نہ دیتے تھے۔ پھر ایک دن جب احساس ہوتا تھا کہ جیب خالی ہو چکی ہے تو چپکے سے وہ سائیکل اور ساؤنڈ سسٹم کسی کے ہاتھوں اونے پونے داموں بیچ کر یا ادھار وغیرہ لے کر چائے پان کی دوکان کا بقایا چکاتے تھے اور والدین کو بتائے بغیر چپکے سے ٹکٹ خرید کر واپس ممبئی بھاگ جاتے تھے۔ کوئی دو ہفتے بعد گھر خط آتا تھا کہ ہم خیریت سے ممبئی پہنچ گئے ہیں اور اگلے مہینے کھیت میں کھاد ڈالنے کے لیے پیسے بھیج دیں گے۔ :) :) :)

سب باتیں ایک طرف سماں خوب باندھا ہے آپ نے :)
ویسے یہ جگ بیتی ہے کہ آپ بیتی :)
خوب منظر نگاری کی ہے۔
خوش رہیں
بہت جئیں :)
 

اوشو

لائبریرین
مشاہدہ ہے، تجربہ نہیں۔ اگر یہ آپ بیتی ہوتی تو ہم شاید یہاں نہیں پائے جاتے۔ :) :) :)
یہاں نہیں پائے جاتے تو کہاں پائے جاتے یہ سوچ کر ہی آپ کا بیان کردہ منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور چشمِ تصور میں جب آپ کو مندرجہ بالا احوال میں دیکھ کر مسکرائے بنا گزارہ نہیں :)
 
یہاں نہیں پائے جاتے تو کہاں پائے جاتے یہ سوچ کر ہی آپ کا بیان کردہ منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور چشمِ تصور میں جب آپ کو مندرجہ بالا احوال میں دیکھ کر مسکرائے بنا گزارہ نہیں :)
مزے کی بات یہ ہے کہ ہم نے آج تک ممبئی کا دورہ نہیں کیا، حالانکہ وہاں جاننے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اور ہاں جب خطوط کا دور تھا تب ہم نے کئی ایسے پردیسیوں کے والدین کی طرف سے انھیں خطوط ضرور لکھے ہیں۔ :) :) :)
 

اوشو

لائبریرین
مزے کی بات یہ ہے کہ ہم نے آج تک ممبئی کا دورہ نہیں کیا، حالانکہ وہاں جاننے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اور ہاں جب خطوط کا دور تھا تب ہم نے کئی ایسے پردیسیوں کے والدین کی طرف سے انھیں خطوط ضرور لکھے ہیں۔ :) :) :)
پھر تو آپ خط لکھ لکھ کر وہ حال ہو چکا ہو گا بقول چچا غالب
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں :)
 
پھر تو آپ خط لکھ لکھ کر وہ حال ہو چکا ہو گا بقول چچا غالب
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں :)
جواب تو خیر جو بھی آئے، اسے پڑھ کر جو جواب الجواب دینا ہوتا تھا اس کا علم ضرور ہوتا تھا۔ خواہ خط ایک پوسٹ کارڈ پر لکھا جائے ان لینڈ لیٹر پر یا پھر کئی صفحات لکھ کر لفافے میں ڈالا گیا ہو، ہر صورت میں نفس مضمون یہی ہوتا تھا کہ جلدی سے پیسہ بھیجیے۔ :) :) :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
دونوں میں اتنی مماثلت ہے کہ دونون زبانون کے بولنے والے (اور والیاں) ایک دوسرے کو آسانی سے سمجھ سکتے (اور سکتی) ہیں۔ :) :) :)
ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں یا ایک دوسرے کی زبان سمجھ سکتے ہیں :)

یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

:)
 
ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں یا ایک دوسرے کی زبان سمجھ سکتے ہیں :)

یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

:)
اب بھلا اتنی دقیق باتوں کو سمجھنے کے لیے عقل شریف کہاں سے لائیں؟ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے چہرے مہرے کی مشابہت سے زیادہ قابل توجہ اس شخص کا انداز ہے۔ موصوف کو دیکھ کر ہمیں اپنے یہاں کے وہ نوجوان یاد آ گئے جو بچپن میں ہی اسکول چھوڑ کر ممبئی چلے جاتے تھے اور وہاں جوتوں کے کارخانوں یا ریستورانوں وغیرہ میں کام کرتے تھے یا پھر کباڑ خریدتے بیچتے تھے۔ کئی برسوں کے بعد والدین کی پر زور فرمائش پر کھیتی باڑی کے دنوں میں گاؤں آتے تھے تو ممبئی سے کوئی چمکتا دمکتا ساؤنڈ سسٹم ساتھ لاتے تھے جو کہ عموماً ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو وغیرہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ شام ڈھلے گھر کی چھت پر یا باہر چارپائی پر سارا ساز و سامان سجائے اونچی آواز میں قوالیاں، فلمی نغمے، مشاعرے، تقریریں، یا پھر نوٹنکی کی ریکارڈنگ محلے بھر کو سناتے تھے۔ گاؤں آتے ہی قریبی قصبے جا کر ایک عدد سائیکل خریدتے تھے اور اس کی سجاؤٹ میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے مثلاً فریم پر کور، دستوں سے لٹکتے چمکیلے جھالر، ٹائر سے متصل ڈائنامو اور ہیڈ لیمپ، دو عدد عقب نما آئینے (جو محض اپنا چہرہ دیکھنے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد جیب سے کنگھی نکال کر بال سنوارنے کے کام آتے تھے) دونوں پہیوں کے مڈ گارڈ سے متصل ربر کے اضافی مڈ گارڈ، اور رم کو کیچڑ سے صاف رکھنے کے لیے برش وغیرہ سے مکمل طور پر لیس کرواتے تھے۔ جھومتے مٹکتے ہوئے بانکے چھبیلے بنے اپنے ہی خیالوں میں گاؤں کی لڑکیوں پر بجلیاں گراتے دن کے کسی بھی پہر کسی چائے پان کی دوکان پر بیٹھے مل سکتے تھے اور ہر آنے جانے والا جو ایک دفعہ یہ پوچھ لے کہ "اور سیٹھ کیسے ہیں؟" اسے بغیر چائے یا پان کے وہاں سے جانے نہ دیتے تھے۔ پھر ایک دن جب احساس ہوتا تھا کہ جیب خالی ہو چکی ہے تو چپکے سے وہ سائیکل اور ساؤنڈ سسٹم کسی کے ہاتھوں اونے پونے داموں بیچ کر یا ادھار وغیرہ لے کر چائے پان کی دوکان کا بقایا چکاتے تھے اور والدین کو بتائے بغیر چپکے سے ٹکٹ خرید کر واپس ممبئی بھاگ جاتے تھے۔ کوئی دو ہفتے بعد گھر خط آتا تھا کہ ہم خیریت سے ممبئی پہنچ گئے ہیں اور اگلے مہینے کھیت میں کھاد ڈالنے کے لیے پیسے بھیج دیں گے۔ :) :) :)

ویسے آپ جب اپنے انداز میں کسی منظرنامے کی نقشہ کشی کرتے ہیں تو یقین جانیے لطف ہی آ جاتا ہے۔ :)
 
Top