خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی ۔ سراج اورنگ آبادی ۔ آوازیں: سنجیو اور کرونا

فاتح

لائبریرین
اس سے قبل سراج اورنگ آبادی کی یہ خوبصورت غزل عابدہ پروین کی آواز میں ہی سنتے آئے تھے لیکن سنجیو اور کرونا نے جیسے حق ادا کیا ہے اس غزل کا، عابدہ بے چاری اس کا عشر عشیر بھی نہ کر پائی۔
سنجیو اور کرونا کی آوازوں میں یہ غزل سنیے:
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی
سراجؔ اورنگ آبادی​
 

فلک شیر

محفلین
اس غزل کو منشی رضی الدین اور ان کے صاحبزادوں فرید ایاز و ابو محمد کی آواز میں سنیں......قوال بچوں سے سنیں ....امید ہے،حظ اٹھائیں گے۔
 
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

کیا پہلے مصرعے میں چمن ”ظہور“ کا جل گیا کی بجائے ،چمن ”سرور“ کا جل گیا نہیں ہے؟
 

فلک شیر

محفلین
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

کیا پہلے مصرعے میں چمن ”ظہور“ کا جل گیا کی بجائے ،چمن ”سرور“ کا جل گیا نہیں ہے؟
درست فرمایا آپ نے......"سرور"ہی ہے۔دوسرا "سے" کی بجائے ،اصل غزل میں "سیں"استعمال ہوا ہے۔
چلی سمتِ غیب سیں اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
 
اس سے قبل سراج اورنگ آبادی کی یہ خوبصورت غزل عابدہ پروین کی آواز میں ہی سنتے آئے تھے لیکن سنجیو اور کرونا نے جیسے حق ادا کیا ہے اس غزل کا، عابدہ بے چاری اس کا عشر عشیر بھی نہ کر پائی۔
سنجیو اور کرونا کی آوازوں میں یہ غزل سنیے:
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی​
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی​
شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی​
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی​
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا​
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی​
نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں​
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی​
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا​
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی​
ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا​
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی​
کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو​
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی​
سراجؔ اورنگ آبادی​
سدا بہار کلام :)
میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

ماہی احمد

لائبریرین
اس سے قبل سراج اورنگ آبادی کی یہ خوبصورت غزل عابدہ پروین کی آواز میں ہی سنتے آئے تھے لیکن سنجیو اور کرونا نے جیسے حق ادا کیا ہے اس غزل کا، عابدہ بے چاری اس کا عشر عشیر بھی نہ کر پائی۔
سنجیو اور کرونا کی آوازوں میں یہ غزل سنیے:
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی
سراجؔ اورنگ آبادی​
لاجواب کلام! :)
میرا پسندیدہ
 

فاتح

لائبریرین
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

کیا پہلے مصرعے میں چمن ”ظہور“ کا جل گیا کی بجائے ،چمن ”سرور“ کا جل گیا نہیں ہے؟
درست فرمایا آپ نے......"سرور"ہی ہے۔دوسرا "سے" کی بجائے ،اصل غزل میں "سیں"استعمال ہوا ہے۔
چلی سمتِ غیب سیں اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
شاید سرور ہی ہو لیکن ہم نے محمد وارث صاحب کی ارسال کردہ غزل کو معیار جانتے ہوئے وہیں سے کاپی کی ہے اور وہاں ظہور لکھا ہے
 

فاتح

لائبریرین
یہ غزل ہماری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ایک ہے اور دیکھیے کیا خوب مرصع اردو ہے۔
بقول محمد حفیظ الرحمٰن، یہ اس دور کی خوبصورت اردو ہے جب دوسری طرف
ہمناں تمن کوں دِل دیا،
قسم کی اردو لکھی جارہی تھی۔
تب تو اسے ٹرینڈ سیٹر ہی کہا جائے گا جس کی اردو بھی بنائی جا سکتی ہے مگر سہل پسندی کے باعث trend setter ہی لکھ دیا۔
 
Top