اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم!

کاظمی بابا

محفلین
خواب ضرور دیکھیں۔
ایک بات پکی ہے کہ کوئی ایک بھی محکمہ سو فیصد اردو رائج نہیں کر سکتا۔
زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ۔ ۔ ۔ جیسے نادرا کا شناختی کارڈ ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
یہ بہت پرانا خیال ہے۔ جدید تحقیق اور تجربوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کا دماغ ایک ہی وقت کئی زبانیں سیکھنے کا اہل ہوتا ہےاور خصوصاً بچوں میں یہ صلاحیت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
کاظمی صاحب اس مراسلے میں "مضحکہ خیز" کیا تھا؟
 
آخری تدوین:

کاظمی بابا

محفلین
پر مزاح یہ ہے کو سب لوگ خوش فہمی میں آنکھیں موندے سہانے خواب دیکھ رہے ہیں۔
کسی کو اندازہ ہی نہیں کہ صوبائی اور علاقائی زبانوں کی تحاریک کس شد و مد سے چل رہی ہیں اور اس فیصلہ نے ایک طرح ڈال دی ہے ۔ ۔ ۔آگےآگے دیکھئے ہوتا ہے کیا !
عرض کیا ناں کہ صرف ایک سال دیکھ لیں ۔ ۔ ۔
 

کاظمی بابا

محفلین
انتقامی کاروائی نہیں جناب، جاگتے رہنا والی صدا ہے ۔ ۔ ۔
اللہ کرے آپکی ہماری محبوب اردو کو ترقی ملے مگر زمینی حقائق کچھ زیادہ سازگار ہیں نہیں۔
 

arifkarim

معطل
اللہ کرے آپکی ہماری محبوب اردو کو ترقی ملے مگر زمینی حقائق کچھ زیادہ سازگار ہیں نہیں۔
یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی یہاں قومی زبان جبراً نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک میں انتشار ہی پھیلا۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
 

کاظمی بابا

محفلین
یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جب بھی یہاں قومی زبان جبراً نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک میں انتشار ہی پھیلا۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

جی صاحب ۔ ۔ ۔ اسی درد سے تو ہم بلبلا رہے ہیں۔
آگہی بھی ایک عذاب ہوتا ہے ناں ؟
بڑے بڑے دفاتر میں، بڑے بڑے عہدہ داران کو دیکھا ہے ۔ ۔ ۔
ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی سے اردو میں بات کر رہے ہیں، اچانک اس کا "گرائیں" آن ٹپکتا ہے اور وہ آپ کو یکسر نظر انداز کر کے اس کے ساتھ نامانوس سی علاقائی زبان میں گفتگو میں مشغول ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہاں اردو محفل کے اراکین کو، بشمول اِس خاکسار کے، اردو زبان سے عشق ہے۔ ہم وہ نہیں ہیں کہ جو رومن اردو میں لکھ لکھ کر اس فیصلے کا جشن منا رہے ہیں بلکہ ہم اس "جوقِ قلندراں" میں سے ہیں کہ اُس وقت ویب پر یونی کوڈ اردو لکھنی شروع کی تھی جب ویب پر اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔

اِس بات کا مقصد لاف زنی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم سے زیادہ اس فیصلے کی خوشی کس کو ہوگی۔

لیکن، اور یہ ایک بہت بڑا لیکن ہے کہ، کیا اِس فیصلے پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ہوگا۔ کیا پاکستان کی نوکر شاہی اِس فیصلے کو جی جان سے قبول کر کے نیک نیتی سے اِس پر عمل کرے گی۔ کیا پاکستان میں قوانین نافذ کرنے والے ادارے پہلے سے صادر کیے گئے فیصلوں اور پہلے سے بنے ہوئے قوانین پر کچھ عمل درآمد کرتے رہے ہیں اور کیا اس فیصلے کو بھی نافذ کر پائیں گے۔ کیا پاکستان کے سیاست دانوں اور باری باری حکومت کرنے والے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو اِس فیصلے کو لے کر پاکستان کی اشرافیہ سے اِس فیصلے کو منوائے گا۔

مجھے تو نظر نہیں آتا شاید میری بصارت کی کمزوری ہے، جن کو ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے مجھے ان کی بصارت اور بصیرت پر رشک ہے :)
 

دوست

محفلین
بس اتنا نظر آ رہا ہے کہ ترجمہ کے شعبے قائم ہوں گے۔ کم از کم پنجاب حکومت قانون کے شعبے میں ایسا کرنے میں سنجیدہ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور پنجاب کے قوانین کے تراجم کے لیے ہمارا ادارہ ایک مجوزہ پراجیکٹ کے سلسلے میں پنجاب کے محکمہ قانون سے بات چیت کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے اگر فارم، دستاویزات، فیصلے، قوانین وغیرہ دو زبانوں میں ہی دستیاب ہو جائیں تو اگلے تین چار برس میں یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ مکمل نفاذ تو کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔ انگریزی ہمیشہ ہی ساتھ رہے گی۔ لیکن ترجمہ کی روایت کو فروغ ملے تو بہت سے مسائل حل ہوں گے۔ قوم کے بھی اور میرے جیسے مترجمین کے بھی (معاشی مسائل) :twisted:
 

موجو

لائبریرین
سپریم کورٹ کے تمام فیصلے کچھ عرصے سے اردو میں آرہے ہیں ۔ جانے اور آنے والے چیف جسٹس نے اردو میں ہی اظہار خیال کیا ہے۔
عدلیہ نے اردو کو اپنا لیا تو کچھ اور ادارے بھی کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے
بھائیومایوسی ہمارا قومی رویہ نہیں ہے جسکی محبت میں ہم دبلے ہوئے جارہے ہیں حقائق کا ہمیں بھی پتہ ہے مگر امید کا دیا اس کی فطری زندگی تو ٹمٹمانے دیجیے۔
اس فیصلے میں علاقائی زبانوں کو ترقی دینے کی بھی بات کی گئی ہے ۔
مجھے اپنی مادری زبان سے کوئی نفرت نہیں ہے اوردنیا میں 10 کروڑ کے قریب لوگوں کی مادری زبان ہے
 

حسان خان

لائبریرین
نافذ اور مستعمل ہی اہم بات ہے اور عوام و خواص نے اپنے عمل سے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ ایسی خالص اردو اصطلاحات نہیں چاہتے۔

چونکہ موضوعِ گفتگو علمی اصطلاحات ہیں، اس لیے فی الحال عوام کی بجائے خواص کی بات کرتے ہیں۔ خواص کی ایک قسم تو وہ ہے جو کسی خاص علم میں متبحر ہونے کے ہمراہ زبانِ اردو اور اِس کے لسانی سرمائے سے بھی احسن واقفیت رکھتی ہے۔ اِن خواص کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے اردو کی اصطلاحات کو مسترد کر دیا ہے، بالکل درست نہیں ہے۔ ہرچند کہ اردو میں علمی کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے، کیونکہ کچھ دہائیوں سے یہ سنجیدہ علمی کاوش کا قابلِ قدر ذریعہ نہیں رہی ہے، لیکن جتنی بھی علمی کتابیں اس مدت میں تصنیف اور ترجمہ ہوئی ہیں، اُن میں مصنفوں اور مترجموں نے اردو اصطلاحات اور نفیس زبان کا استعمال کیا ہے۔ علمِ سیاسیات، ادبی تنقید، فلسفہ، تاریخ، معاشریات وغیرہ کے موضوعات پر جتنی بھی اصل یا ترجمہ شدہ کتابیں آپ کو نظر آئیں گی، اُن میں آپ کو خواص کی جانب سے اردو اصطلاحات کا استعمال نظر آئے گا۔
خواص کی دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو کسی علم پر تو عبور رکھتے ہیں، لیکن اُن کی اردو زبان سے واقفیت صرف گفتاری سطح کی ہے۔ وہ روزمرہ امور کی حد تک اردو بول اور لکھ سکتے ہیں، لیکن چونکہ اُنہوں نے اردو کی ادبی اور علمی زبان کا مطالعہ نہیں کیا ہے، لہٰذا وہ اردو میں کوئی سنجیدہ علمی مضمون نہیں لکھ سکتے اور اس کے لیے انگریزی کو ذریعہ بناتے ہیں۔ اگر ایسے خواص کی جانب سے اصطلاحوں کے مسترد کیے جانے کی بات کی جائے تو اگرچہ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے، تاہم اُن کے رد کا کوئی وزن نہیں۔ وہ اردو میں علمی مضامین اور کتابیں لکھ ہی نہیں سکتے تو اُن کا اردو اصطلاحوں پر اعتراض کا کیا مطلب ہے؟ میں ہندی کو اپنی تحریروں کا ذریعہ نہیں بناتا اور نہ میں علمی ہندی اور اِس کے لفظی و تمدنی سرمائے سے کماحقہ واقفیت رکھتا ہوں، اس لیے اگر میں کہوں کہ مجھے ہندی میں 'بھاشا وِگیان' اور 'ساہِتیِک سَمِیکشا' کی اصطلاحات پسند نہیں اور میں اِن کو رد کرتا ہوں، تو خواہ میں بحرالعلوم ہی کیوں نہ ہوں، میری رائے کوئی اہمیت نہیں رکھے گی، کیونکہ ہندی میں لکھنے والے اہلِ علم خواص اِن اصطلاحوں کا استعمال کرتے آ رہے ہیں۔
اب عوامِ شکستہ لگام کی بات کرتے ہیں۔ خواص، فقط خواص ہی کے لیے بھی کتابیں لکھتے ہیں، اور عوام کے لیے بھی۔ خواص کو پیشِ نظر رکھ کر لکھی جانے والی کتابوں میں جیسی بھی زبان کا استعمال کیا جائے، خاص قارئین کے لیے قابلِ فہم ہی رہے گی۔ لیکن عوام کے لیے لکھی جانے والی کتابوں میں بھی، جب تک عوام کسی موضوع کا خاطر خواہ علم نہ رکھتے ہوں، خواہ انگریزی اصطلاحات کا استعمال کیا جائے یا خواہ اردو اصطلاحات کا، دونوں بے معنی ہوتی ہیں۔ کسی بھی عام شخص کے لیے انگریزی کی یونانی الاصل اصطلاح 'ایٹِمولوجی' اور اردو کی عربی الاصل اصطلاح 'علم الاشتقاق/اشتقاقیات' دونوں ہی مہمل ہیں تا وقتیکہ وہ علمِ لسانیات کی مبادیات سے واقف نہ ہو۔ نیز، ایک علمِ عروض سے ناواقف عام شخص کے لیے اس علم کی علمی اصطلاح 'بحرِ رملِ مسدسِ محذوف' کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ اب اگر کوئی عام شخص عالم نہ ہو، اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ اردو کے علمی اسلوب کو بھی نہ جانتا ہو، تو اُس کی جانب سے اردو اصطلاحوں کے استعمال نہ ہونے کو دلیل بنا کر یہ کہنا کہ عوام نے اردو اصطلاحوں کو مسترد کر دیا ہے، درست نہیں ہے۔ انگریزی سمیت دنیا کی ہر توانا علمی زبان کی اصطلاحیں خواص کے حلقوں ہی میں وضع ہوتی رہی ہیں اور عوام تک بعد میں نظامِ تعلیم، مطبوعات، اخبارات یا حکومت کی قوتِ نافذہ کے ذریعے پہنچی ہیں۔ القصہ، اگر اردو نویس علمی خواص اردو اصطلاحات کو مسترد کریں تو اُن کی رائے اہمیت کی حامل ہو گی، لیکن عوام کا رد بے ارزش ہے۔ اور جیسا کہ اردو کی علمی تالیفات میں نظر آتا ہے، خواص اردو اصطلاحوں کا استعمال کر رہے ہیں۔

اصطلاحوں کے معاشرے میں مستعمل ہونے کے لیے اخبارات اور عوام میں مقبول لوگوں کی شراکت و حمایت سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اگر عوام میں تداول اور گردش رکھنے والے اخبارات کسی اصطلاح کا استعمال شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اخبار خواں قاری اُس اصطلاح کو نہیں اپنائے گا۔ لیکن یہاں تو اخباروں کی زبان کی زبوں‌ حالی کا یہ حال ہے کہ اُن صحافیوں کی تعداد انگشت شمار ہے جو اردو کا، اردو کے صحافتی اسلوب کا اور اُس کی تاریخ کا باضابطہ علم رکھتے ہوں۔ اکثر صحافی اُرگریزی میں سوچتے اُور اُسی ملغوبے میں لکھتے ہیں اور اُسے ہی اردو کا نام دے کر زبانِ اردوئے معلّیٰ کے قالب کو جریحہ دار کرتے ہیں۔ مثلاَ اردو میں 'عدالتِ عظمیٰ' کی نفیس اصطلاح موجود ہے، لیکن بیشتر اخبارات 'سپریم کورٹ' ہی لکھتے ہیں۔ عوام کا سب سے زیادہ واسطہ اخبارات اور ذرائعِ ابلاغ سے پڑتا ہے، اُن میں وہ جیسی زبان دیکھیں گے، اُسے ہی اپنائیں گے۔ لیکن حال یہ ہے کہ اخبارات اور ذرائعِ ابلاغ کی زبان روز بروز معیوب ہوتی جا رہی ہے، لہٰذا بہت سی ایسی اصطلاحیں بھی جو چند دہائیوں قبل استعمال ہوا کرتی تھیں، اب معدوم ہو چلی ہیں۔
معاشرے میں اصطلاحوں کا نفاذ حکومت کی قوتِ نافذہ کے توسط سے ہوتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ماضیِ قریب کی ایک ایمان افروز اور روح پرور داستان سنیے: فرانس نے جب اپنے 'آزادی، برابری، برادری' کے پیغام کی ترویج اور ناہنجار مردُم کو 'متمدن' بنانے کے لیے الجزائر کو اپنی تصرّف کردہ نوآبادی اور اپنا لاینفک قطعۂ زمین بنایا ہوا تھا تو اُس نے مکاتب میں عربی کی تدریس اور عربی مطبوعات پر مکمل پابندی لگا کر عوامی زندگی سے فصیح عربی کو یک قلم خارج کر دیا تھا اور وہاں فصیح عربی دینی حلقوں تک محدود مردہ زبان بن کر رہ گئی تھی۔ جب الجزائر کو خوں ریز جنگ کے بعد ۱۹۶۲ء میں ۱۳۰ سالہ فرانسیسی حاکمیت سے آزادی ملی تو اُس وقت ملک کی ستر فیصد آبادی عربی خط ہی نہیں پڑھ سکتی تھی، خواندہ اشرافیہ کے افراد صرف فرانسیسی زبان جانتے تھے اور ناخواندہ اور کم خواندہ افراد صرف بے اہمیت الجزائری گفتاری عربی جانتے تھے جسے وہ باہمی روزمرہ امور کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ آزادی کے اس ابتدائی دور میں پارلیمانی نمائندے فرانسیسی میں بحث و گفتگو کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ اتنی عربی ہی نہیں جانتے تھے کہ عربی کو ذریعۂ اظہار بنا سکیں۔ لیکن الجزائر کے نیک اندیش رہنماؤں نے آزادی کے اولین روز ہی سے ملک کی از سرِ نو عرب سازی کو اپنا منشور بنایا ہوا تھا، اور اس کا آغاز انہوں نے مکاتب کی ابتدائی تعلیم سے کیا۔ چونکہ عربی کے مقامی اساتذہ موجود نہیں تھے، اس لیے بڑی تعداد میں شام اور مصر سے عربی کے اساتذہ بلوائے گئے جنہوں نے آ کر تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ دس سال ہی کے عرصے میں ابتدائی تعلیم پوری طرح اور ثانوی تعلیم بہت حد تک عربی زبان میں ہو گئی، اور حتیٰ جامعات میں بھی عربی کو ذریعۂ تعلیم بنانے پر زور دیا جانے لگا۔ سن ۱۹۷۶ء میں ملک میں جتنے بھی سڑکوں کے نام، کتبے، اور اشتہارات فرانسیسی زبان میں تھے، اُنہیں عربی زبان میں کر دیا گیا۔ بعد ازاں، ۱۹۸۰ء میں الجزائری حکومت نے یہ حکم نامہ صادر کیا تمام حکومتی عاملوں اور کارکنوں کو تین سال کے اندر اندر عربی میں تخصص کے امتحان سے کامیاب ہونا ہو گا، اور اس حکم نامے پر سختی سے عمل کرایا گیا۔ ذرائعِ ابلاغ کی عربی سازی کا کام بھی الجزائری حکومت کے زیرِ فرمان ہوا۔ ان تمام حکومتی تدابیر کا یہ نتیجہ نکلا کہ چند دہائیوں ہی میں الجزائر میں معیاری فصیح عربی کا بہ طورِ کامل احیا ہو چکا ہے، اور ایک پوری نسل ایسی وجود میں آ چکی ہے جو عربی میں سوچتی، لکھتی اور پڑھتی ہے۔ اب الجزائر میں معیاری فصیح عربی سے آگاہی کی سطح کسی بھی طرح فصیح عربی کے روایتی قلعوں شام اور مصر سے کم نہیں ہے، اور اب الجزائری معاشرے میں انفرادی زندگی سے لے کر حکومتی سطح تک فصیح عربی (فصحیٰ) مستقر ہو چکی ہے۔ اس سب گفتگو کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر الجزائر میں حکومتی کوششوں سے دو تین دہائیوں کے اندر فصیح عربی زندہ ہو سکتی ہے تو اگر پاکستانی حکومت اور ہمارے پیشوایانِ ملّت بھی چاہیں تو چند ہزار اصطلاحوں کا معاشرے میں نفاذ کوئی مشکل اور ناقابلِ عمل کام نہیں ہے۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جب الجزائری معاشرے میں فصیح عربی رائج نہیں تھی تو اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں تھا کہ عوام نے اس کو فعّالانہ رد کر دیا ہے، بلکہ اس کا مطلب بس یہ تھا کہ یہ زبان معاشرے میں مستعمل نہیں رہی ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
چونکہ موضوعِ گفتگو علمی اصطلاحات ہیں، اس لیے فی الحال عوام کی بجائے خواص کی بات کرتے ہیں۔ خواص کی ایک قسم تو وہ ہے جو کسی خاص علم میں متبحر ہونے کے ہمراہ زبانِ اردو اور اِس کے لسانی سرمائے سے بھی احسن واقفیت رکھتی ہے۔ اِن خواص کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے اردو کی اصطلاحات کو مسترد کر دیا ہے، بالکل درست نہیں ہے۔ ہرچند کہ اردو میں علمی کتابوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے، کیونکہ کچھ دہائیوں سے یہ سنجیدہ علمی کاوش کا قابلِ قدر ذریعہ نہیں رہی ہے، لیکن جتنی بھی علمی کتابیں اس مدت میں تصنیف اور ترجمہ ہوئی ہیں، اُن میں مصنفوں اور مترجموں نے اردو اصطلاحات اور نفیس زبان کا استعمال کیا ہے۔ علمِ سیاسیات، ادبی تنقید، فلسفہ، تاریخ، معاشریات وغیرہ کے موضوعات پر جتنی بھی اصل یا ترجمہ شدہ کتابیں آپ کو نظر آئیں گی، اُن میں آپ کو خواص کی جانب سے اردو اصطلاحات کا استعمال نظر آئے گا۔
خواص کی دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو کسی علم پر تو عبور رکھتے ہیں، لیکن اُن کی اردو زبان سے واقفیت صرف گفتاری سطح کی ہے۔ وہ روزمرہ امور کی حد تک اردو بول اور لکھ سکتے ہیں، لیکن چونکہ اُنہوں نے اردو کی ادبی اور علمی زبان کا مطالعہ نہیں کیا ہے، لہٰذا وہ اردو میں کوئی سنجیدہ علمی مضمون نہیں لکھ سکتے اور اس کے لیے انگریزی کو ذریعہ بناتے ہیں۔ اگر ایسے خواص کی جانب سے اصطلاحوں کے مسترد کیے جانے کی بات کی جائے تو اگرچہ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے، تاہم اُن کے رد کا کوئی وزن نہیں۔ وہ اردو میں علمی مضامین اور کتابیں لکھ ہی نہیں سکتے تو اُن کا اردو اصطلاحوں پر اعتراض کا کیا مطلب ہے؟ میں ہندی کو اپنی تحریروں کا ذریعہ نہیں بناتا اور نہ میں علمی ہندی اور اِس کے لفظی و تمدنی سرمائے سے کماحقہ واقفیت رکھتا ہوں، اس لیے اگر میں کہوں کہ مجھے ہندی میں 'بھاشا وِگیان' اور 'ساہِتیِک سَمِیکشا' کی اصطلاحات پسند نہیں اور میں اِن کو رد کرتا ہوں، تو خواہ میں بحرالعلوم ہی کیوں نہ ہوں، میری رائے کوئی اہمیت نہیں رکھے گی، کیونکہ ہندی میں لکھنے والے اہلِ علم خواص اِن اصطلاحوں کا استعمال کرتے آ رہے ہیں۔
اب عوامِ شکستہ لگام کی بات کرتے ہیں۔ خواص، فقط خواص ہی کے لیے بھی کتابیں لکھتے ہیں، اور عوام کے لیے بھی۔ خواص کو پیشِ نظر رکھ کر لکھی جانے والی کتابوں میں جیسی بھی زبان کا استعمال کیا جائے، خاص قارئین کے لیے قابلِ فہم ہی رہے گی۔ لیکن عوام کے لیے لکھی جانے والی کتابوں میں بھی، جب تک عوام کسی موضوع کا خاطر خواہ علم نہ رکھتے ہوں، خواہ انگریزی اصطلاحات کا استعمال کیا جائے یا خواہ اردو اصطلاحات کا، دونوں بے معنی ہوتی ہیں۔ کسی بھی عام شخص کے لیے انگریزی کی یونانی الاصل اصطلاح 'ایٹِمولوجی' اور اردو کی عربی الاصل اصطلاح 'علم الاشتقاق/اشتقاقیات' دونوں ہی مہمل ہیں تا وقتیکہ وہ علمِ لسانیات کی مبادیات سے واقف نہ ہو۔ نیز، ایک علمِ عروض سے ناواقف عام شخص کے لیے اس علم کی علمی اصطلاح 'بحرِ رملِ مسدسِ محذوف' کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ اب اگر کوئی عام شخص عالم نہ ہو، اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ اردو کے علمی اسلوب کو بھی نہ جانتا ہو، تو اُس کی جانب سے اردو اصطلاحوں کے استعمال نہ ہونے کو دلیل بنا کر یہ کہنا کہ عوام نے اردو اصطلاحوں کو مسترد کر دیا ہے، درست نہیں ہے۔ انگریزی سمیت دنیا کی ہر توانا علمی زبان کی اصطلاحیں خواص کے حلقوں ہی میں وضع ہوتی رہی ہیں اور عوام تک بعد میں نظامِ تعلیم، مطبوعات، اخبارات یا حکومت کی قوتِ نافذہ کے ذریعے پہنچی ہیں۔ القصہ، اگر اردو نویس علمی خواص اردو اصطلاحات کو مسترد کریں تو اُن کی رائے اہمیت کی حامل ہو گی، لیکن عوام کا رد بے ارزش ہے۔ اور جیسا کہ اردو کی علمی تالیفات میں نظر آتا ہے، خواص اردو اصطلاحوں کا استعمال کر رہے ہیں۔

اصطلاحوں کے معاشرے میں مستعمل ہونے کے لیے اخبارات اور عوام میں مقبول لوگوں کی شراکت و حمایت سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اگر عوام میں تداول اور گردش رکھنے والے اخبارات کسی اصطلاح کا استعمال شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اخبار خواں قاری اُس اصطلاح کو نہیں اپنائے گا۔ لیکن یہاں تو اخباروں کی زبان کی زبوں‌ حالی کا یہ حال ہے کہ اُن صحافیوں کی تعداد انگشت شمار ہے جو اردو کا، اردو کے صحافتی اسلوب کا اور اُس کی تاریخ کا باضابطہ علم رکھتے ہوں۔ اکثر صحافی اُرگریزی میں سوچتے اُور اُسی ملغوبے میں لکھتے ہیں اور اُسے ہی اردو کا نام دے کر زبانِ اردوئے معلّیٰ کے قالب کو جریحہ دار کرتے ہیں۔ مثلاَ اردو میں 'عدالتِ عظمیٰ' کی نفیس اصطلاح موجود ہے، لیکن بیشتر اخبارات 'سپریم کورٹ' ہی لکھتے ہیں۔ عوام کا سب سے زیادہ واسطہ اخبارات اور ذرائعِ ابلاغ سے پڑتا ہے، اُن میں وہ جیسی زبان دیکھیں گے، اُسے ہی اپنائیں گے۔ لیکن حال یہ ہے کہ اخبارات اور ذرائعِ ابلاغ کی زبان روز بروز معیوب ہوتی جا رہی ہے، لہٰذا بہت سی ایسی اصطلاحیں بھی جو چند دہائیوں قبل استعمال ہوا کرتی تھیں، اب معدوم ہو چلی ہیں۔
معاشرے میں اصطلاحوں کا نفاذ حکومت کی قوتِ نافذہ کے توسط سے ہوتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ماضیِ قریب کی ایک ایمان افروز اور روح پرور داستان سنیے: فرانس نے جب اپنے 'آزادی، برابری، برادری' کے پیغام کی ترویج اور ناہنجار مردُم کو 'متمدن' بنانے کے لیے الجزائر کو اپنی تصرّف کردہ نوآبادی اور اپنا لاینفک قطعۂ زمین بنایا ہوا تھا تو اُس نے مکاتب میں عربی کی تدریس اور عربی مطبوعات پر مکمل پابندی لگا کر عوامی زندگی سے فصیح عربی کو یک قلم خارج کر دیا تھا اور وہاں فصیح عربی دینی حلقوں تک محدود مردہ زبان بن کر رہ گئی تھی۔ جب الجزائر کو خوں ریز جنگ کے بعد ۱۹۶۲ء میں ۱۳۰ سالہ فرانسیسی حاکمیت سے آزادی ملی تو اُس وقت ملک کی ستر فیصد آبادی عربی خط ہی نہیں پڑھ سکتی تھی، خواندہ اشرافیہ کے افراد صرف فرانسیسی زبان جانتے تھے اور ناخواندہ اور کم خواندہ افراد صرف بے اہمیت الجزائری گفتاری عربی جانتے تھے جسے وہ باہمی روزمرہ امور کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ آزادی کے اس ابتدائی دور میں پارلیمانی نمائندے فرانسیسی میں بحث و گفتگو کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ اتنی عربی ہی نہیں جانتے تھے کہ عربی کو ذریعۂ اظہار بنا سکیں۔ لیکن الجزائر کے نیک اندیش رہنماؤں نے آزادی کے اولین روز ہی سے ملک کی از سرِ نو عرب سازی کو اپنا منشور بنایا ہوا تھا، اور اس کا آغاز انہوں نے مکاتب کی ابتدائی تعلیم سے کیا۔ چونکہ عربی کے مقامی اساتذہ موجود نہیں تھے، اس لیے بڑی تعداد میں شام اور مصر سے عربی کے اساتذہ بلوائے گئے تھے جنہوں نے تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ دس سال ہی کے عرصے میں ابتدائی تعلیم پوری طرح اور ثانوی تعلیم بہت حد تک عربی زبان میں ہو گئی، اور حتیٰ جامعات میں بھی عربی کو ذریعۂ تعلیم بنانے پر زور دیا جانے لگا۔ سن ۱۹۷۶ء میں ملک میں جتنے بھی سڑکوں کے نام، کتبے، اور اشتہارات فرانسیسی زبان میں تھے، اُنہیں عربی زبان میں کر دیا گیا۔ بعد ازاں، ۱۹۸۰ء میں الجزائری حکومت نے یہ حکم نامہ صادر کیا تمام حکومتی عاملوں اور کارکنوں کو تین سال کے اندر اندر عربی میں تخصص کے امتحان سے کامیاب ہونا ہو گا، اور اس حکم نامے پر سختی سے عمل کرایا گیا۔ ذرائعِ ابلاغ کی عربی سازی کا کام بھی الجزائری حکومت کے زیرِ فرمان ہوا۔ ان تمام حکومتی تدابیر کا یہ نتیجہ نکلا کہ چند دہائیوں ہی میں الجزائر میں معیاری فصیح عربی کا بہ طورِ کامل احیا ہو چکا ہے، اور ایک پوری نسل ایسی وجود میں آ چکی ہے جو عربی میں سوچتی، لکھتی اور پڑھتی ہے۔ اب الجزائر میں معیاری فصیح عربی سے آگاہی کی سطح کسی بھی طرح فصیح عربی کے روایتی قلعوں شام اور مصر سے کم نہیں ہے، اور اب الجزائری معاشرے میں انفرادی زندگی سے لے کر حکومتی سطح تک فصیح عربی (فصحیٰ) مستقر ہو چکی ہے۔ اس سب گفتگو کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر الجزائر میں حکومتی کوششوں سے دو تین دہائیوں کے اندر فصیح عربی زندہ ہو سکتی ہے تو اگر پاکستانی حکومت اور ہمارے پیشوایانِ ملّت بھی چاہیں تو چند ہزار اصطلاحوں کا معاشرے میں نفاذ کوئی مشکل اور ناقابلِ عمل کام نہیں ہے۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جب الجزائری معاشرے میں فصیح عربی رائج نہیں تھی تو اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں تھا کہ عوام نے اس کو فعّالانہ رد کر دیا ہے، بلکہ اس کا مطلب بس یہ تھا کہ یہ زبان معاشرے میں مستعمل نہیں رہی ہے۔
ممکن بہت کچھ ہے۔ فی الحآل الجزائر میں فرانسیسی کا رول اور الجزائری عربی میں بربر اور فرانسسی کے الفاظ پر بات نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں جو لوگ علمی سطح پر لکھتے ہیں (ادب اور اسلام کے علاوہ) ان میں کتنے فیصد اردو اصطلاحات استعمال کرتے ہیں اور ان اردو اصطلاحات میں کتنا اتفاق ہے
 

عثمان

محفلین
اگر پاکستانی حکومت اور ہمارے پیشوایانِ ملّت بھی چاہیں تو چند ہزار اصطلاحوں کا معاشرے میں نفاذ کوئی مشکل اور ناقابلِ عمل کام نہیں ہے۔
اگر تو اردو کے احیا کی جدوجہد یہاں تک محدود ہے کہ آپ سرکاری معاملات میں اردو کو انگریزی کے برابر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یا عوام میں اردو کے استعمال کو مزید معیاری حالت میں دیکھنے کے خواہاں ہیں تو اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نفاذ اردو کے حامی پاکستان میں اردو کے احیا کو انگریزی کے استعمال کی حد سے مشروط کرتے ہیں۔ انگریزی جو کہ ایک عالمی Lingua Franca ہے اس کی پیش رفت روکنا ممکن نہیں۔
برصغیر میں انگریزی کے نفاذ کی تاریخ بھلے خواص کے انگریزی اپنانے سے شروع ہوئی ہو۔ لیکن عصر حاضر میں عوام میں اس کی مقبولیت محض خواص کی ترجیح پر منحصر نہیں۔ یہ اس زبان کی عالمگیریت ہے جو آپ کے معاشرے میں جگہ بناتی ہے۔ مقامی زبانوں کو دھکیلتی ہے۔ ان میں وہ تبدیلی لاتی ہے جسے آپ عیب سمجھتے ہیں۔
اب آپ کے آگے ایک المیہ ہے۔۔۔
اگر آپ اپنے ہاں مقامی اور سرکاری زبانوں کو ایک ایسی طاقتور Lingua Franca کے ساتھ ساتھ چلانا چاہتے ہیں تو آپ اپنی ہی زبانوں کی حیثیت کو داؤ پر لگاتے ہیں۔
دوسری طرف مصنوعی طریقوں سے آپ ایک عالمی Lingua Franca کو محدود یا ترک کرنے سے رہے۔
اردو جو برصغیر میں ایک Lingua Franca کی حیثیت سے اُبھری۔۔۔ اسے عہد جدید میں اب خود ایک Lingua Franca سے مقابلہ ہے۔ اگرچہ حالات اور عوامل بہت مختلف ہیں۔
گڈلک! :)
 

موجو

لائبریرین
مشکل اور ادق اردو اصطلاحات کا استعمال اس فیصلے کی اصل روح کے خلاف ہے ۔
اس فیصلے کاواضح مقصد ایسی زبان کا استعمال ہے جسے عام شہری سمجھتے ہوں نہ کہ اردو کے ادباء و شعراء۔
 

جنید اختر

محفلین
بلوچی مصنف منیر احمد بادینی کے انٹرویو سے کچھ اقتباسات :)

"س:آپ کے خیال میں مادری زبانوں کے سلسلے میں کیا پالیسی ہونی چاہیے۔
ج:آپ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی دیں تو وہ یہ سمجھ پائیں گے کہ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ ان کے نظریات واضح ہوں گے۔ وہ زیادہ بہتر طریقے سے اردو اور انگریزی سیکھ سکیں گے۔"

"میں زبان کے حوالے سے آخر میں پھریہی کہوں گا کہ زبان پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ میرے خیال میں سب کو اپنی مادری زبان پہلے پڑھنی چاہیے کیونکہ اگر آپ اپنی مادری زبان پر نہیں توجہ دیں گے تو آپ کو دوسری زبانوں کو سیکھنے میں بھی مشکل ہو گی۔ کیا یہ غیر فطری فعل نہیں کہ جو زبان آپ کی ماں آپ کو سکھائے ایک بچہ وہ زبان چھوڑ کر علم حاصل کرنے کے لیے کسی دوسری زبان کا سہارا لے۔"

حوالہ:
http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/apirl2012/april_4.html
 

arifkarim

معطل
بلوچی مصنف منیر احمد بادینی کے انٹرویو سے کچھ اقتباسات

"س:آپ کے خیال میں مادری زبانوں کے سلسلے میں کیا پالیسی ہونی چاہیے۔
ج:آپ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی دیں تو وہ یہ سمجھ پائیں گے کہ کیا پڑھ رہے ہیں ۔ ان کے نظریات واضح ہوں گے۔ وہ زیادہ بہتر طریقے سے اردو اور انگریزی سیکھ سکیں گے۔"

"میں زبان کے حوالے سے آخر میں پھریہی کہوں گا کہ زبان پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ میرے خیال میں سب کو اپنی مادری زبان پہلے پڑھنی چاہیے کیونکہ اگر آپ اپنی مادری زبان پر نہیں توجہ دیں گے تو آپ کو دوسری زبانوں کو سیکھنے میں بھی مشکل ہو گی۔ کیا یہ غیر فطری فعل نہیں کہ جو زبان آپ کی ماں آپ کو سکھائے ایک بچہ وہ زبان چھوڑ کر علم حاصل کرنے کے لیے کسی دوسری زبان کا سہارا لے۔"

حوالہ:
http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/apirl2012/april_4.html

جب ہم بات ابتدائی تعلیم کی کرتے ہیں تو یہ مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں دینا خود بچوں کیساتھ حد درجہ کا ظلم ہے۔ اسکی مثال میں نے اوپر دی ہے کہ پہلی جماعت کا بچہ جب انگریزی میڈیم اسکول میں Apple اور Orange پڑھے گا تو اسکول گیٹ سے باہر اسے سیب اور مالٹے کیسے نظر آئیں گے؟ :)
 
میری رائے میں الفاظ کا مشکل ہونا ان کے استعمال سے مشروط ہے۔ جو اصطلاح عمومی استعمال میں ہو گی، وہ خواہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو، آسان لگے گی۔
انگریزی کی بہت سی مشکل اصطلاحات ہم بڑی فراوانی سے بول لیتے ہیں۔
لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر سب سے مشکل الفاظ نکال کر لاتے ہیں، حالانکہ وہیں ایسی مثالیں بھی ہیں، جہاں اردو الفاظ، انگریزی الفاظ کی نسبت کافی آسان ہیں۔
مثلاً Constitution --- دستور
 

جنید اختر

محفلین
تھینکس نہیں شکریہ
اعظم طارق کوہستانی

جامعہ کراچی میں شعبہ اُردو کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ہم ٹھٹھک کر رُک گئے۔ شعبہ کی طرف آتے ہوئے ایک طالب علم نے دو لڑکیوں سے پوچھا، اُردو ڈیپارٹمنٹ یہی ہے؟ سیڑھیاں گھیر کر بیٹھنے والی دونوں لڑکیوں نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا، نہیں جناب! یہ اُردو ڈیپارٹ ہرگز نہیں ہے، یہ شعبۂ اُردو ہے۔ لڑکا کھسیانا سا ہوا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، گردن جھکا کر بڑی مشکل سے کہا، ’’تھینکس‘‘ دونوں لڑکیوں نے ہم آواز ہو کر کہا ’’ تھینکس نہیں شکریہ‘‘ میں اُس وقت اس لڑکے کی دلی کیفیت کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بے چارا سر جھکا کر آگے بڑھ گیا۔

میڈیا میں گزشتہ چند دنوں سے اُردو کے حوالے سے کافی غُلغلہ سنائی دے رہا ہے۔ اُردو کے ساتھ ہم نے جو ظلم روا رکھا اس سے سبھی واقف ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اب اُردو اور انگریزی سے مُرصع لوگوں کا ایک ملغوبہ تیار ہوچکا ہے۔ لوگ نہ اُردو اچھی بول سکتے ہیں نا انگریزی، خود ہم جب گفتگو کرتے ہیں تو بے دھیانی میں بے شمار انگریزی کے الفاظ استعمال کرجاتے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ ہمارے پاس اس کا اُردو کا متبادل لفظ موجود ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہماری گفتگو میں جب تک انگریزی کے الفاظ شامل نہ ہوں کوئی ہمیں پڑھا لکھا سمجھتا بھی نہیں ہے۔ اس لیے مجبوری ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ معاملہ یوں ہی رہے گا یا یوں ہی رہنا چاہیے۔ آپ ذرا اپنی زبان پر فخر کریں آپ کی زبان سے خود بخود انگریزی الفاظ ختم ہوجائیں گے۔ بہت پہلے ایک فرضی قصہ پڑھا تھا۔ ذرا آپ بھی پڑھیے اور سر دھنیے۔

مسٹر ٹام ایک امریکی باشندے تھے لیکن امریکی ہونے کے باوجود اردو سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ خدا کی دین کہ بہت ذہین بھی تھے، اس لیے انہوں نے شعبۂ اردو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو میں پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھانی لیکن حالات کچھ ایسے ہوئے کہ انہیں مزید ریسرچ کے لیے پاکستان آنا پڑا۔ ایک دن وہ پاکستان کے ایک ہوٹل میں کھانا کھارہے تھے، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ ایک میز بھی خالی نہ تھی۔ ٹام نے ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ایک آدمی تھری پیس سوٹ میں ملبوس نہایت فخر سے چلتا ہوا ان کے پاس آیا۔ Excuse me can i sit here شکل سے مقامی لگتا تھا لیکن ٹام نے یہ سوچ کر کہ مجھے غیر ملکی دیکھ کر یہ سمجھا ہوگا کہ اردو نہیں آتی۔ جواب دیا، جی ہاں! شوق سے تشریف رکھیے۔ وہ ہلکی سی حیرانی کے بعد بولا، Actually میں یہاں اکثر آتا ہوں مگر آج کوئی ٹیبل خالی نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں جناب، ٹام نے جواب دیا۔

پھر ٹام گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے گویا ہوا، آپ کا اسمِ گرامی جان سکتا ہوں؟
”Oh yes why not my name is Qudwai”
ٹام نے جواب سن کر کہا، مجھے ڈیوڈ ٹام کہتے ہیں اور میں آج کل ایک کام کے سلسلے میں یہاں آیا ہوں۔
?I Can help you please مسٹرقدوائی نے کہا۔

جی ہاں اگر آپ چاہیں تو مجھے اردو ادب کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔
”Oh its so easy” آپ جب چاہیں میں آپ کی Help کے لیے تیار ہوں مگر Only in 10 days دراصل میں Summer Vacations کے لیے States جارہا ہوں۔ اس لیے وقت کم ہے۔

ٹام: مجھے غالب اور درد کے بارے میں کچھ مواد چاہیے اور کچھ اردو ادب کے ابتدائی دور کے بارے میں جاننا ہے۔

قدوائی: No problem یہ کام توچٹکی میں ہوجائے گا۔

ٹام :میں غالب سے بہت متاثر ہوں، آپ کا کیا خیال ہے؟

قدوائی: جی ہاں He is a great poet …کہتا ہے۔

دل ہی تو ہے سنگ وحشت
درد سے بھر نہ آئے کیوں

ٹا م:جی مگر یہ دونوں الگ مصرعے ہیں۔

قدوائی: ’’Woods warth‘‘ کے آگے غالب میں کیا مزہ آئے گا ان کی تو بات ہی اور ہے۔‘‘

ٹام: ’’نہیں صاحب دیکھنا ہے تو اقبال اور اکبر ہی کو دیکھیں، کیا حقیقت پسندی اور کیا الفاظ کا انتخاب ہے۔ واہ انسان کی دل کوچھوجاتے ہیں یہ اشعار

قدوائی: حیرت سے، چھوڑیں جی اور یہ آپ کیا فضول قیمہ دال کھارہے ہیں بھئی Fried Egg اور Corn soup اور Chicken jalfrizee منگوائیں ہم تو وہی کھانے آتے ہیں۔ واہ کیا شاندار اور لذیذ ہوتا ہے۔

ٹام: قدوائی صاحب! دراصل میں یہاں اردو پر تحقیق کرنے آیا ہوں اور ایسا کرنے کے لیے میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ میں یہاں کی ثقافت میں گُھل مل جاؤں۔ اسی طرح میں یہاں کے ادب کے جوڑوں تک پہنچ سکتا ہوں اور یقین جانیے مجھے کچھ دنوں میں یہاں کے لوگوں سے، یہاں کی چیزوں سے اتنی اُنسیت ہوگئی ہے کہ اب جانے کو جی نہیں چاہتا مگر کیا کروں۔ چھٹی لے کر آیا ہوں، جانا تو پڑے گا ہی مگر میں اپنا یہ سفر کبھی بھلا نہیں سکتا خیر آپ یہ سب چھوڑیں آپ یہ بتائیں کہ میں کتابیں لینے آپ سے کہاں ملوں؟

قدوائی: ’’آپ جامعہ آکر Professor Qudwai پوچھ لیجیے گا آپ مجھ تک پہنچ جائیں گے اور وہیں Libarary میں کتابیں دیکھ لیجیے گا جو Requirement ہو لے لیجیے گا۔ ”You are most Welcome”

ٹام: یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کا تعلق تدریس سے ہے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کا تعلق کس شعبے سے ہے۔

قدوائی: ’’Oh sorry یہ تو میں بتانا ہی بھول گیا۔

I am the head of the Urdu Department Actually

حوالہ
http://www.express.pk/story/392092/
 
Top