پامسٹری سے علمِ نجوم تک ۔۔۔۔۔۔۔نور

نور وجدان

لائبریرین
ہم نے ُسنا تھا کہ شوق کا کوئی مول نہیں اور'' جستجو ''تو اللہ میاں نے ہمارے خمیر میں کوٹ کوٹ کر بھردی تھی ۔ اس کے لیے اقبال نے بجا طور پر فرمایا ہے

غلامی میں کام آتی ہیں نہ نصیحتیں نہ ترغیبیں
جو ہو کامل یقین تو مل جاتی ہیں ترکیبیں ۔۔!!

ہم شروع سے پڑھائی کے چور اور کھلنڈرے سے تھے یہ اور بات ہے حوادثِ زمانہ (سماج دشمن) نے ہم سے ہمارا کھلنڈرا پن چھین لیا ۔ مگر ہم بھی دھنی اور من کے موجی تھے ۔ جیسے ہی ہم نویں کلاس میں پہنچے ، یوں لگا کہ آفتوں نے ہمارے من میں چھپی نین رسیلی شرارتوں سے آنکھ مچولی کھیلنی شروع کردی ۔ہمارا باقاعدہ ٹائم ٹیبل بنایا گیا کہ فلاں کام کو اتنے وقت میں پورا کرنا ہے ۔ اور ہم پر ہماری بہن کو نگراں مقرر کر دیا گیا کہ اس کی پڑھائی کی خیر و خبر رکھنے کی ذمہ داری ''تم '' پر ہے ۔ ہمیں لگا کہ ''کالے پانی '' کی سزا مل گئی ہے ۔ روزانہ ہمارا آزمائشی امتحان لیا جاتا اور سائنس کے مضامین میں املاء کی مین میخیں نکال کر نمبر صفر سے ملا کر ہماری کارکردگی کو ہمارے ''بابا'' کے سامنے لایا جاتا اور ان کی ایک نظر ہی ہمیں ''پانی پانی '' کرنے کے لیے کافی ہوتی ۔ یونہی ایک بدبخت سی شام میں ہماری تحریری آزمائش تھی اور ہم نے سارا دن بھائی کے ساتھ کرکٹ کھیل کر گزار دیا اور جب شام ہوئی تو دل کی دھڑکنوں میں طوفان پیدا ہوا اور اس طوفانی ہیجان میں ہمیں کیمسڑی کی کتاب ( جس کو ہم پیار سے چاچا مستری کہتے تھے) کو پکڑ کر چومنا چاہا کہ اس کے چومنے سے سائنسی رموز کی شد بد ہو جائے ۔ اللہ کا کرنا ہوا کہ اک نظر سبق کی طرف چلی گئی اور ہم نے پہلی دفعہ غور سے پڑھ لیا ابھی ہم غریقِ مطالعہ ہی تھے کہ اچانک سے ''جن '' نے کتاب چھین لی اور ہمارے سامنے پیاری سی بہنا کھڑی غضبناک اکھیوں سے دیکھ رہی تھیں ۔ ہمیں ٹیسٹ دیا اور چلی گئیں ۔ ہم نے جیسے کے تیسے اس کومکمل کیا اور ایک گھنٹے بعد ہماری بابا کے کمرے میں عدالت لگی ہوئی تھی اور اب کہ جرم بدل دیا گیا : ہم نے نقل کرکے سب لکھا ہے اور قسمیں کھا کھا کر تھک گئے کہ ایک نظر کا کمال ہے مگر کوئی یقین کرنے کو تیار ہی نہ تھا۔

یوں ایک چکر ہماری امی حضور کا سکول لگ گیا اور ہماری پراگرس دریافت کی گئی ۔ہمارے اساتذہ کو اس بات پر فخر تھا کہ ہم ان کے طالبعلم سوائے اس بات کہ '' ہم مسکراتے بڑا ہیں ، چاہے بات رونے کی ہی ہو '' اور اس کی وجہ ہماری والدہ ماجدہ سے دریافت کی گئ ۔ یوں ہماری والدہ ماجدہ کی تسلی ہوئی کہ سکول میں بچی ٹھیک چل رہی اور تب ہم پر ہماری بہن کا یہ عذر لگا کہ ہم ''رٹے خور '' ہیں کہ ہم کانسیپٹ سے مطالعہ نہیں کرتے اب کہ ہمارا ٹیسٹ کانسچیوئل ہوتا تھا ہم اس کو لائنز سناتے تھے وہ مفاہیم مانگتی تھے ۔ اب کہ ہم نے سوچا کیوں نہ ہم گھر میں بیٹھ کر مطالعہ شروع کردیں کہ روز روز کی اس آفتِ ناگہانی سے کہیں اچھا کہ بکس لیے پھرتے دکھائی دو کہ گھر والے بھی جان جائیں کہ بچی پڑھاکو ہے ۔ اور ہم کو ''کالے پانی '' کی سزا بھی نہیں ملے گی ۔اس سب کا مشورہ ہماری جان سے پیاری دوست نے ہمیں دیا ۔

ایک دن ہم اسکول میں پریشان تھے کہ اس نے کہا ''یار'' تمھیں کبھی اس طرح غمگیں نہیں دیکھا ،ساری رونق تمھاری وجہ سے کلاس میں ہوتی اور آج تمھیں کیا ہوگیا ہے ۔ ہم نے سارا ماجرہ ''جوں کا توں '' اپنی دوست اسماء کو بتایا ۔ بس اس نے ہمیں کچھ پامسٹری کی کتب دیں ۔ واقعی ! اس وقت لگا کہ اسماء نے ہمارے زخموں پر پھائے رکھ دئے ۔ ہم اب اسکول سے سیدھا آکر ''روم '' میں گھس جاتے اور اعلانیہ سنجیدگی سے پڑھائی کا اعلان کر دیا ۔ یوں ہمیں بھی اطمینان ہوا کہ ہمارے سامنے بہن کی تمثیلی تعلیمی کارکردگی کی باتیں سُنا ُسنا کرکے ہمارے کان اب نہیں پکا کریں گے اور ہم نے دوست کی دی ہوئی ''پامسٹری '' کی کتب کو اپنی درسی کتب میں چھپا کر پڑھنا شروع کردیا ۔ ہمارے گھر والے ہم سے بڑے مطمئن تھے کہ صبح و شام بچی پڑھائی میں مصروف ہے اور کبھی کبھی تو یہ بھی کہنے لگ گئے کہ بیٹا کچھ اپنا بھی خیال کیا کرو ، گپ شپ لگاؤ اور ٹی وی دیکھ لو! مگر ہماری مشکل سے جان چھوٹی ! ہم کیا دوبارہ پاؤں پر کلہاڑی مارتے کیا! اب کہ ہماری خدمت میں انواع و اقسام کی نعمتیں پیش کی جارہی تھیں کہ ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ راہ ِ عقل کا یہ طریق ہم کو پہلے کیوں نہ سوجا۔

اب ان کتب کو پڑھنے کے بعد ہم خود کو ماہر علم فنون ''ہتھیلی '' سمجھنے لگے ۔ایک دن اس کو اپنی سہیلی پر آزما ڈالا ۔۔۔ اس نے ہمارے چہرے کو حیرانی سے دیکھا کہ جیسے ہمارے لبوں سے نکلنے والے نغمے جاوادانی ہیں اور ان کی شیرینی میں وہ سحر زدہ ۔۔۔۔۔ اسی اثناء میں خبر ''ہوائی '' ہوگئ اور پوری کلاس میں ہماری دھوم مچ گئی ۔ خبر کیا تھی کہ اشتہار ۔۔۔۔ ہماری شنوائی سٹاف روم میں ہوگئی ۔ ہماری کریم النفس استانی نے شفیق نظروں سے ہمارا ناقدانہ جائزہ لیا اور ہمارا سرمایہ حیات (پامسٹری کی کتاب) ضبط کرلیا ۔ ہم ویران آنکھوں اور غمگین دل لیے سٹاف روم سے ملحقہ باغ میں کھڑے آنسو بہانے لگے کہ ہم پر ایک شعر کشف ہوگیا :

غماز بن گئے آنسو غمَ نہاں کے
آنکھوں سے گر رہے ہیں ٹکڑے مری فغاں کے

گرتے فغانی ٹکروں اور رحمانی بارش کی بوندوں نے استانی کے دل میں رحم ڈال دیا ۔ ہمارے پاس آکر ہمارے آگے اپنی ہتھیلی کردی ۔ ہم حیران و پریشان کہ ہمارے سامنے ایک ٹیچر ہاتھ پھیلائے گی۔۔۔استغفر اللہ ! ہم نے فورا دل میں آئے گمان کو رفو کیا اور اپنی نورانی و رحمانی ٹیچر کا مدعا جانتے ہوئے اپنا نسخہ ہائے وفا لینے کی خاطر جو '' جھوٹ '' بول سکتے تھے ان کی ہتھیلی دیکھ کر بولتے گئے ۔ اللہ کا کرم ایسا ہوا کہ سارے جھوٹ سچ ثابت ہوئے اور ہم نے اپنا کیمیائی مجرب نسخہ واپس لینے کی التجا کی ۔ اس پر رحمانی و نورانی تاثرات کو جلالی ہونے میں پل بھر کا وقت لگا ۔۔۔ اور ہم نے جانے میں عافیت سمجھی ۔۔۔۔

کہتے ہیں مشک کی خوشبو جہاں بھر میں پھیل جاتی ہے اور گلاب کی پھول سے ہوش و خرد والے بھی حواس کھو بیٹھتے ہیں ۔ کچھ اس طرح ہوا کہ ہمارے اوصاف ِ جمیل و منجملہ کی خبر اشتہار طرح کی قریہ قریہ اور نگر نگر پھیل گئی ۔۔ ہم سب کے اور بھی دلپسند ہوگئے کہ پورے سکول میں ایک ہی نعرہ تھا ۔۔۔
EAST OR WEST
NOOR IS BEST

یہ نعرہ ہمیں Head Girl بنانے کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرنے میں معاون ہوا اور ہم نے سیاسی ہلڑ بازی سے کام بالکل نہ لیا اور نہ ہی عمران خان کی طرح دعوے کیے ، نہ ہی ''پیپلز پارٹی '' کی طرح ''روٹی کپڑا مکان '' کا نعرہ لگایا ۔۔۔ ہم نے اپنی پوری کلاس سے لے کر پورے اسکول کا ہاتھ دیکھنا شروع کردیا اور ساتھ میں پیشن گوئیاں شروع کردیں کہ ایسا ایسا ہوسکتا ہے اور ماضی میں یہ کام تم نے کیا ( یہ اور بات ہے'' دو باتیں'' کرنے سے کسی کا احوال پتا چل جاتا ) اب کہ ہم پامسٹ کے ساتھ ساتھ ''نجومی '' بھی مشہور ہوگئے ۔۔ وہ کہتے ہیں نا !

جہاں چاہ ! واہ راہ! ۔۔۔ اسی کے مصداق 'آنکھوں '' کو دیکھ کر ہم اپنی سہیلیوں کے برج بتا کر ، بروج کے خواص کا گھٹولا بنا کر ان کے سامنے داستان عجم سنا دیا کرتے اور ہمارے لفظوں کی تاثیر نےسب کو اتنا مسحور کردیا کہ ہم '' نجومی بابا'' پوری کلاس میں مشہور ہوگئے ۔ بس ایک دن ہمارے ناکردہ گناہوں کی سزا کا لکھا ہوا تھا اور قضا کو کون ٹال سکتا تھا ۔ ایک ایسے ہی دن ہماری شوخیوں کو نظر بد لگی کہ اس دن پورا سکول ہمارے ارد گرد جھمگھٹا بنا کر کھڑا ہوا تھا ۔پہلا دائرہ ''معزیزین'' کا تھا اور اس دائرے میں اساتذہ ِ گرامی تھے اور باقی دائروں میں اسکول کی لڑکیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر کسی کے منہ پر ایک ہی نعرہ تھا : نور میرا ۔۔ نور میرا ۔۔۔ نور میرا ہاتھ۔۔۔ اس دن ہمارے پاس ہاتھوں کی بارش ہوگئی اور اس بارش میں دور سے ''ظالم سماج'' کھڑی بغور دیکھ رہا تھا ۔ بس ہمیں مطلع کیا گیا کہ لینے آئے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

جب ہم گھر پہنچے تو ہمارے زبان پر ایک ہی ورد کی تکرار تھی

آلتو جلالتو ! آئی بلا کو ٹالتو!

مگر جب نشیمن بجلیوں کی زد میں آجائے تو کچھ بچ نہیں سکتا ۔ہم نے تو جاکر سیدھا کمرہ لاکڈ کیا اور پڑھائی شروع کردی ۔ ہم تو پڑھتے پڑھتے سو گئے کہ اکثر نیند پیار سے بلا کر آنکھوں کو بند کروا دیا کرتی تھی ۔۔ لاکڈ دروازہ نہ جانے کیسے کھلا مگر ہمیں کسی نے جھنجھوڑ کر اٹھایا اور ہماری '' دوہری کتب'' منہ پر دے ماری ! اس سے بڑا طمانچہ ہم نے زندگی میں نہیں کھایا تھا مگر وہ کہتے ہیں نا کہ

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا نسخہ ہائے وفا اور کیمیا گری کی کتب کو ہمارے سامنے جلایا جارہا تھا ۔ ہمیں اس موقع پر ایک اور شعر کشف ہوگیا ٖاور ہمارا دیوان رنگا رنگ ہوتا گیا ۔

خنجر کتب پر چلے اور تڑپتے ہم ہیں نور کہ
سارے جہاں کا علم ہمارے سینے میں ہے

ہماری کتابیں جل رہی تھیں اور ان سے اٹھنا والا دھواں ہمارے دکھ کی تصویر بنا ، ہمارے مچلتے خوابوں کو جلا کر راکھ کرگیا ۔ یہ والدین نہ جانے کیوں کبھی کبھی ظالم سماج بن جاتے ہیں ۔ مگر غرورِ شوق کا بانکپن ہم سے تو نہ گیا ۔۔۔ہم ٹھہرے جو کھلنڈرے ۔ ہماری اماں اور بابا نے جبرو حد کے تمام قوائد کا نفاذِ شریعت ہم پر کردیا پر ایک اور مصرعہ ہم پر آنوارد ہوا ۔۔

ظلمت کو ضیاء اور بندے کو خدا کیا کہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

اور پھر ایک اور شعر کا کشف ہوا

ہم نے سوچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں اندازہ ہوا کہ شاعر کتنا بدبخت دکھی ہوتا ہے اور اس کی بد بختی اس کے دیوان بنانے میں کارگر ہوتی ہے .... اس بات کا اندازہ ہوا مگر ایک تجربہ ہو جانے کے بعد ،،۔۔! اور ہم لکیر پیٹتے رہ گئے بدبخت دکھی شاعروں کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

آہ! کو چاہئے ایک عمر سر ہونے تک
کون جیتا ہے پابندیوں کو جبر ہونے تک

اور یوں سوچ کے در وا ہوتے گئے .. ہم نے اور چور راستے ڈھونڈ لیے کہ کشف و الہام کا سلسلہ ہماری سمت کو متعین کر رہا تھا . اور ہم نے اس شعر کے کلیے پر زندگی گزارنا شروع کردی

عمر دراز مانگ لائے تھے چار دن
دو کھیل میں کٹ گئے اور دو پیار میں
 
آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
بہت خوب اچھی تحریر ہے۔۔۔ املا کی کافی غلطیاں موجود ہیں اور کچھ زبان و بیان میں بھی سقم ہے بہر حال میں تو ٹھہرا مبتدی اساتذہ ہی اصلاح کریں گے ۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بائی دا وے آج کل کونسی عمرگذار رہی ہیں ؟ کیوں کہ چار دن تو گذر گئے :)

عمر کے اس حصے میں ہوں جہان خواہشات کا گلا گھونٹ کر قبر میں پاؤں لٹکانے پڑتے ہیں ... ہماری تصویر ملاحظہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اس عمر میں بھی خوبصورت ہیں ..



10968477_10206214988523875_8559724514148902400_n.jpg
 
عمر کے اس حصے میں ہوں جہان خواہشات کا گلا گھونٹ کر قبر میں پاؤں لٹکانے پڑتے ہیں ... ہماری تصویر ملاحظہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اس عمر میں بھی خوبصورت ہیں
ایک زمانہ تھا جب لڑکیاں جان چھڑانے کے لئے کہا کرتی تھیں میری منگنی ہوچکی ہے۔ آپ نے اس فن میں اچھی جدت پیدا کی ہے۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک زمانہ تھا جب لڑکیاں جان چھڑانے کے لئے کہا کرتی تھیں میری منگنی ہوچکی ہے۔ آپ نے اس فن میں اچھی جدت پیدا کی ہے۔ :)
اتنے زور سے ہم تو کبھی نہیں مسکرائے کہ بام و در بھی گونج اٹھے ..آپ کے مزاح نے ہمیں گرویدہ کردیا..................... اب آپ کو منگنی کے تجربات کا کہاں سے پتا چلا ...........؟
 
اتنے زور سے ہم تو کبھی نہیں مسکرائے کہ بام و در بھی گونج اٹھے ..آپ کے مزاح نے ہمیں گرویدہ کردیا..................... اب آپ کو منگنی کے تجربات کا کہاں سے پتا چلا ...........؟
ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ پچھلے ہفتے مریخ سے تو نہیں آئے
 

متلاشی

محفلین
عمر کے اس حصے میں ہوں جہان خواہشات کا گلا گھونٹ کر قبر میں پاؤں لٹکانے پڑتے ہیں ... ہماری تصویر ملاحظہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اس عمر میں بھی خوبصورت ہیں ..



10968477_10206214988523875_8559724514148902400_n.jpg
ماشاء اللہ ۔۔۔ اللہ نظرِ بد سے محفوظ فرمائے :)
 
Top