سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

مہوش علی

لائبریرین

محترم فاروق صاحب! آپ بحث کو سمجھئے۔ یہ خدا کے وجود پر بحث نہیں ہو رہی ہے، اور نہ ہی جذبات پر۔

خواتین و حضرات!
سائنس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس شے یا لاشےکے متعلقات پر بحث کرے جس کا اسے کوئی ثبوت ہی فراہم نہیں؟
ایک بار پھر، یہ بحث "لا شے" پر نہیں ہے۔ بلکہ مذہب نے جو کائنات کے نظام کے متعلق دعوے کیے ہیں، اسکے متعلق بحث ہے کیونکہ سائنس ان مذہب کے بتلائے نظاموں کو ثبوت کے ساتھ چیلنج کرتے ہوئے جھٹلا رہی ہے۔

نہ خدا عقل کی آنکھوں سے دکھتا ہے نہ اعتقاد۔ مذہب کی بنیادیں اگر صریح عقلی ہوتیں تو سائنس بنی آدم کے ساتھ ہی وجود میں آ گئی ہوتی۔
مذہب عقل کا علاقہ نہیں، صاحبو۔

تیسری بار، ۔۔۔ یہ بحث خدا، یا لاشے یا پھر جذبات کی نہیں، بلکہ کائنات کے ان نظاموں کے متعلق ہے جن کے متعلق مذہب نے غلط دعوے کیے ہوئے ہیں۔

مثلاً اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ یہ زلزلے اسکی نشانی ہے اور اسکے ذریعے وہ گمراہ قوموں کو تباہ کرتا ہے۔
مگر جدید سائنس نے ثابت کیا کہ زلزلوں کے پیچھے کوئی خدا یا الہامی طاقت نہیں ہوتی بلکہ یہ ان علاقوں میں آتے ہیں جہاں زمین کی "سلیں" حرکت کرتی ہیں۔ اور سائنس ثابت کرتی ہے کہ یہ صرف گمراہ قوموں پر نہیں آتے ہیں، بلکہ یہ ہر اس قوم (گمراہ یا غیر گمراہ) پر آ سکتے ہیں جو کہ زمین کی ان "سلوں" والے علاقوں میں رہتے ہیں۔
پرانے زمانوں میں لوگوں کو زمین اندر موجود ان سلوں کا علم نہیں تھا، اس لیے انہیں خدا کے عذاب کے نام پر ڈرانا آسان کام تھا۔


جذبات بھی ایک نوع کا درک رکھتے ہیں۔ بڑا ارفع قسم کا۔ (اتنی گواہی تو سائنس اور فلسفہ بھی دے سکتے ہیں)۔ مذہب جذبات کا، یا اگر ہمارے سائنس دان بھڑک نہ جائیں تو میں کہوں کہ روح کا، معاملہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کو سمجھ میں کیوں نہیں آتا۔
ہر مذہب کے لوگ ہی ایسے جذبات، اور روحانیت کے دعوے کر رہے ہوتے ہیں۔ پہلے اہل مذہب آپس میں فیصلہ کریں کہ ان میں سے کس کے جذبات اور کس کی روحانیت درست ہے، پھراسکے بعد ہی کہیں جا کر آپ لوگ سائنس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا دعوی پیش کر سکتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دعویٰ: اگر عورت کا جنسی انزال پہلے ہو تو بچہ ماں کی شکل ہو گا، وگرنہ باپ کی

صحیح بخاری، کتاب الاحادیث الانبیاء، باب جنابِ آدم اور انکی ذریت کی خلقت، حدیث 4 (آنلائن لنک):

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو مروان فزاری نے خبر دی ۔ انہیں حمید نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا ۔ جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے ؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا ؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آ کر اس کی خبر دی ہے ۔ اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی تو یہودیوں کے دشمن ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی ، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا ، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے وہ ہو گا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ۔ اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ( یہ سن کر ) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ “ پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے ۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے ۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں ؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں ۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا ؟ انہوں نے کہا ، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے ۔ اتنے میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے ، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے ۔


صحیح بخاری، کتاب الاحادیث الانبیاء، باب جنابِ آدم اور انکی ذریت کی خلقت، حدیث 3 (آنلائن لنک):

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے باپ نے ، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے ، ان سے ( ام المؤمنین ) ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا ، تو کیا اگر عورت کو احتلام ہو تو اس پر بھی غسل ہو گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں بشرطیکہ وہ تری دیکھ لے ، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور فرمانے لگیں ، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ، ( اگر ایسا نہیں ہے ) تو پھر بچے میں ( ماں کی ) مشابہت کہاں سے آتی ہے ؟

پچھلے 1400 سالوں سے مذہب کے نام پر یہ "مذہبی سائنس" جاری ہے۔
اور جب سوال پوچھو تو ہزار بہانے ، یا پھر جہاں تک ممکن ہو سکے ایسے سوالات پر مکمل "پابندی"۔
 
محترم فاروق صاحب! آپ بحث کو سمجھئے۔
آپی، میری زندگی کے بہت قیمتی سال فلسفہ اور نظریاتی سائنس کے مطالعے اور اس کے عمومی نتیجے میں پیدا ہونے والی دہریت میں گزرے ہیں۔ اگر آپ تعلی نہ سمجھیے تو میں عرض کروں کہ یورپی جامعات کے اہلِ علم بھی اس فقیر کو حوالہ خیال کرتے ہیں۔ میری بیگم کینیڈین شہری ہیں۔ میری نظر سے نہ آج کا فلسفہ اور سائنس اوجھل ہیں نہ تہذیب۔ آپ جو کچھ فرما رہی ہیں، میں نے جھیل کر دیکھا ہے۔ اپنے دل پر، ذہن پر اور تن بدن پر۔ آپ کو شاید ایسا حسین اتفاق نہ ہوا ہو مگر میں نے اہلحدیثوں کے اسلحہ خانوں میں بیٹھ کر بھی مذہب اور خدا کی بھد اڑائی ہے۔
یہ "بحث" عرصہ پہلے میری سمجھ میں آ یا کرتی تھی۔ اب واقعی نہیں آتی۔
آپ کے نکات کی طرف آتا ہوں۔
یہ بحث "لا شے" پر نہیں ہے۔
مگر میں کچھ اور عرض کر رہا تھا۔
سائنس کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اس شے یا لاشےکے متعلقات پر بحث کرے جس کا اسے کوئی ثبوت ہی فراہم نہیں؟
میرا مطلب یہ تھا کہ جن کے ہاں خدا کا ثبوت ہی فراہم نہیں، ان کے ہاں خدا کے فرامین پر گفتگو غیر منطقی ہے۔ سائنس اپنا وقت ان چیزوں پر ضائع نہیں کرتی۔ یہ بحثیں زیادہ تر ان لوگوں کا وظیفہ ہیں جو مذہب سے "کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی!" کا تعلقِ رکھتے ہیں۔
مذہب نے جو کائنات کے نظام کے متعلق دعوے کیے ہیں، اسکے متعلق بحث ہے کیونکہ سائنس ان مذہب کے بتلائے نظاموں کو ثبوت کے ساتھ چیلنج کرتے ہوئے جھٹلا رہی ہے۔
وغیرہ وغیرہ
سائنس خود کو بھی جھٹلا دیتی ہے۔ ثبوت کے ساتھ۔ ہر دفعہ۔ میڈیکل سائنس ہر دس سال بعد متروک (obsolete) ہو جاتی ہے۔ اور یہ کوئی قابلِ مذمت بات ہرگز نہیں۔ عقل اور اس کے ثمرات اسی روش سے نمو پاتے ہیں، اصلاح پکڑتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں۔ عقلی ادراک کا عین تقاضا ہے کہ چھان پھٹک جاری رہے۔
مگر میں نے عرض کیا تھا کہ
مذہب عقل کا علاقہ نہیں
اب لاکھ دعوے کرے مذہب۔ آپ کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
دیکھیے، ابلاغ کے لیے ایک چیز بڑی ضروری ہوتی ہے۔ وہ ہے قدرِ مشترک۔ میں اردو نہ جانوں تو آپ کے خیالات سے کیونکر مستفید ہو سکتا ہوں؟ زبان قدرِ مشترک ہے۔ آپ دل کے درد کی بابت کچھ استفسار فرمائیں اور مجھے نہ کبھی ہوا ہو نہ میں نے سنا ہو تو کیا کہوں گا میں؟ یہاں تجربہ قدرِ مشترک ہونا چاہیے۔ ایک شخص سونی کے DSD یعنی Direct Stream Digital کی مذمت کر رہا ہو تو ممکن ہے کہ میں DSD بمعنیٰ Directorate of Staff Development (جو حکومتِ پنجاب کے محکمہ تعلیم کا ایک شعبہ ہے) سمجھ لوں اگر اصطلاح یا اسم یا تصور (concept) بطور قدرِمشترک موجود نہ ہو۔
مذہب اور سائنس کے دمیان اقدارِ مشترک کا فقدان ہے۔ ان کی منطقیں جدا ہیں۔ ایک کے فیصلے کو دوسرے پر مسلط کرنے سے بڑی کوئی علمی زیادتی میں تصور نہیں کر سکتا۔
ہر مذہب کے لوگ ہی ایسے جذبات، اور روحانیت کے دعوے کر رہے ہوتے ہیں۔ پہلے اہل مذہب آپس میں فیصلہ کریں کہ ان میں سے کس کے جذبات اور کس کی روحانیت درست ہے، پھراسکے بعد ہی کہیں جا کر آپ لوگ سائنس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا دعوی پیش کر سکتے ہیں۔
آپ ذرا آئن سٹائن اور بوہر سے فیصلہ کروا دیجیے گا کہ خدا پانسے کھیلتا ہے یا نہیں۔ پھر اہلِ مذہب سے بھی فیصلہ کروا لیں گے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ اور ضروری ہے۔ جس طرح ہر ایف ایس سی کا طالب علم سائنس کا نمائندہ نہیں، اسی طرح ہر بسم اللہ پڑھنے والا مذہب کا نمائندہ نہیں۔ اپنی دہریت کے زمانے میں میں بھی سوادِ اعظم کے رویوں اور اعتقادات کو مذہب کے لوازمات اور دعاوی خیال کرتا تھا۔ حالانکہ سوادِ اعظم ہمیشہ احمق ہوتا ہے۔ ایک عام کمیونسٹ کو مارکس کا اتنا ہی پتا ہوتا ہے جتنا نصیبو لال کو داتا گنج بخش کا ہو گا۔ کسی بھی مکتبِ فکر کی بابت درست تر رائے معلوم کرنے کے لیے آپ کو اس کے اکابر سے رجوع کرنا چاہیے نہ کہ عوام سے۔ عوام کا مذہب اتنا ہی احمقانہ ہوتا ہے جتنی ان کی سائنس۔
میں جانتا ہوں کہ آپ کہیں گی کہ مذہب کے اکابر میں بھی اختلافِ رائے ہے۔ میں بھی یہی کہا کرتا تھا۔ پھر میں نے یہ دیکھا کہ یہ اختلافِ رائے فطری ہے۔ ہر کہیں ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے۔ اپنی مثالیت سے جان چھڑانی پڑتی ہے۔ حقیقت کی ٹھوس زمین میں قدم گاڑ کے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ ہر فریقین کے مابین اختلاف میں آپ کو ایک راہ ضرور نظر آتی ہے۔ کچھ ہوتا ہے جس کی جانب آپ کا دل ہر دو کے دلائل کے بعد مائل ہوتا ہے۔ کوئی فیصلہ تو آپ کرتے ہیں نا۔ وہی آپ کی راہ ہوتی ہے۔ اور پھر مذہب تو ہے ہی داخلی معاملہ!
اور جب سوال پوچھو تو ہزار بہانے ، یا پھر جہاں تک ممکن ہو سکے ایسے سوالات پر مکمل "پابندی"۔
یہ معاملہ مذہب کا نہیں محترمہ، سیاست کا ہے۔ طاقت بولتی ہے۔ چاہے وہ پاکستان کے اسلامیوں کے پاس ہو یا روس کے اشتراکیوں کے پاس۔ :)
آخری عرض یہ ہے کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس "بحث" میں کود پڑا تھا۔ اب تلافیءِ مافات کے طور پر اسے طول نہیں دوں گا۔ میں نے اپنی بات بساط بھر واضح کر دی ہے۔ آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو پھر وہی قدرِ مشترک والا معاملہ ہے۔ جس تن لگیاں اوہ تن جانے!
 

آصف

محفلین
گول کرہ نما چیز بچھائی نہیں جاتی۔ نہ ہی فرش گول کرہ نما ہوتا ہے

ویسے اگر آپ زمین پر چل پھر کر اسے گول ہیfeel کرتی ہیں تو پھر کسی اور گول چیز پر ذرا چل پھر کر دکھائیں۔

About 71% of the Earths surface is covered by water;29% of it is land
اس لئے بچھانے کو ایسے بھی تو محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے پانی پر خشکی بچھا دی گئی ہو تاکہ انسان اس خشکی پر چل پھر سکے ۔

مگر انصاف کے لئے واویلہ مچا نے کے ساتھ ساتھ اپنی انکھوں سے بھی تعصب کی پٹی ہٹائیں
اور ایک بار پھر غور کریں زمین کو بچھانے کا مطلب آپ پورے گلوب کو ہی کیوں لے رہیں
جب آپ کو واضح طور پر قرآن سے زمین کے چپٹے ہونے کے متعلق کچھ نہیں مل رہا تو اپنی کم فہمی کی بنا پر اسے زبردستی چپٹا بنانے کی کیوں کوشش کر رہی ہیں
اور دوسروں سے کیوں مطالبہ کئے جا رہی ہیں کہ وہ اسے قرآن سے گول کر کے دکھائیں۔

قرآن انسانوں کی اخلاقی و معاشرتی رہنمائی کی کتاب ہے نہ کہ کسی سائنسی تحقیق کی۔
قرآن میں ہر چیز کو واضح بیان کرنے کا مطلب ظاہر ہے انہیں باتوں کے متعلق ہے جو اخلاقی و معاشرتی طور پر انسانوں کیلئے ضروری سمجھتے ہوئے اس میں بیان کی گئی ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپی، میری زندگی کے بہت قیمتی سال فلسفہ اور نظریاتی سائنس کے مطالعے اور اس کے عمومی نتیجے میں پیدا ہونے والی دہریت میں گزرے ہیں۔ اگر آپ تعلی نہ سمجھیے تو میں عرض کروں کہ یورپی جامعات کے اہلِ علم بھی اس فقیر کو حوالہ خیال کرتے ہیں۔ میری بیگم کینیڈین شہری ہیں۔ میری نظر سے نہ آج کا فلسفہ اور سائنس اوجھل ہیں نہ تہذیب۔ آپ جو کچھ فرما رہی ہیں، میں نے جھیل کر دیکھا ہے۔ اپنے دل پر، ذہن پر اور تن بدن پر۔ آپ کو شاید ایسا حسین اتفاق نہ ہوا ہو مگر میں نے اہلحدیثوں کے اسلحہ خانوں میں بیٹھ کر بھی مذہب اور خدا کی بھد اڑائی ہے۔
یہ "بحث" عرصہ پہلے میری سمجھ میں آ یا کرتی تھی۔ اب واقعی نہیں آتی۔
آپ کے نکات کی طرف آتا ہوں۔
اور میں سال ہا سال تک (پوری زندگی) مذہب کو حقیقت سمجھ کر اس سے چمٹی رہی، حتیٰ کہ وہ وقت آیا جب علم اس مقام پر پہنچا جہاں مذہب کے تاریک گوشوں سے پردے ہٹنا شروع ہوئے۔
سوچ و فکر کے بعد صاف نتیجہ یہ ہے کہ:۔

مذہب کا ٹکراؤ (زبردست ٹکراؤ) انسانیت کے ساتھ ہے۔
مذہب کا ٹکراؤ سائنس کے ساتھ ہے۔ جبکہ مذہب اگر الہامی ہے، تو ہرگز یہ ٹکراؤ ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔

میرا مطلب یہ تھا کہ جن کے ہاں خدا کا ثبوت ہی فراہم نہیں، ان کے ہاں خدا کے فرامین پر گفتگو غیر منطقی ہے۔ سائنس اپنا وقت ان چیزوں پر ضائع نہیں کرتی۔ یہ بحثیں زیادہ تر ان لوگوں کا وظیفہ ہیں جو مذہب سے "کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی!" کا تعلقِ رکھتے ہیں۔
مجھے دوسروں کا علم نہیں اور نہ ہی دوسروں سے کوئی غرض ہے۔
مجھے اپنی تحقیق مقصود ہے کہ جس مذہب پر پوری زندگی میں چمٹی رہی، آیا وہ سچائی کا ٹیسٹ پاس بھی کر سکتا ہے کہ نہیں۔


سائنس خود کو بھی جھٹلا دیتی ہے۔ ثبوت کے ساتھ۔ ہر دفعہ۔ میڈیکل سائنس ہر دس سال بعد متروک (obsolete) ہو جاتی ہے۔ اور یہ کوئی قابلِ مذمت بات ہرگز نہیں۔ عقل اور اس کے ثمرات اسی روش سے نمو پاتے ہیں، اصلاح پکڑتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں۔ عقلی ادراک کا عین تقاضا ہے کہ چھان پھٹک جاری رہے۔
اہل مذہب کی طرف سے سائنس پر کیے جانے والے اس اعتراض پر اس تھریڈ میں کئی بار گفتگو ہو چکی ہے اور انکا تفصیلی جواب دیا جا چکا ہے۔
مختصراً سائنس میں کچھ چیزیں 'تھیوری" کی سٹیج پر ہوتی ہیں اور ان میں تحقیق کے بعد تغیر و تبدیلی عین ممکن ہے، جبکہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کہ تھیوری کی سٹیج سے نکل کر تجربات، مشاہدات اور ثبوتوں کی بنیاد پر "حق الیقین" کی سطح تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ سائنسی فیکٹ ہیں جو کہ تبدیل ہونے والے نہیں۔ جیسا کہ زمین گول ہے ۔۔۔ جیسا کہ 6 ہزار سال پہلے آدم پہلے شخص نہیں تھے بلکہ ان سے ہزاروں سال قبل کے انسانی ڈھانچے مل چکے ہیں، جیسا کہ انسانی جنوم کے ڈی این اے مین 1 تا 4 فیصد ڈی این اے نیندرتھال سے آیا ہے۔۔۔

مگر میں نے عرض کیا تھا کہ
اب لاکھ دعوے کرے مذہب۔ آپ کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
دیکھیے، ابلاغ کے لیے ایک چیز بڑی ضروری ہوتی ہے۔ وہ ہے قدرِ مشترک۔ میں اردو نہ جانوں تو آپ کے خیالات سے کیونکر مستفید ہو سکتا ہوں؟ زبان قدرِ مشترک ہے۔ آپ دل کے درد کی بابت کچھ استفسار فرمائیں اور مجھے نہ کبھی ہوا ہو نہ میں نے سنا ہو تو کیا کہوں گا میں؟ یہاں تجربہ قدرِ مشترک ہونا چاہیے۔ ایک شخص سونی کے DSD یعنی Direct Stream Digital کی مذمت کر رہا ہو تو ممکن ہے کہ میں DSD بمعنیٰ Directorate of Staff Development (جو حکومتِ پنجاب کے محکمہ تعلیم کا ایک شعبہ ہے) سمجھ لوں اگر اصطلاح یا اسم یا تصور (concept) بطور قدرِمشترک موجود نہ ہو۔
مذہب اور سائنس کے دمیان اقدارِ مشترک کا فقدان ہے۔ ان کی منطقیں جدا ہیں۔ ایک کے فیصلے کو دوسرے پر مسلط کرنے سے بڑی کوئی علمی زیادتی میں تصور نہیں کر سکتا۔

معذرت، میرے نزدیک مذہب صرف "روحانیت" میں ہی نہیں، بلکہ ہر ہر دنیاوی فیلڈ میں بھی گھسا ہوا ہے۔ سائنس قدر مشترک ہے، اسی طرح انسانیت بھی قدر مشترک ہے۔
انسانیت کے حوال سے میں نے بیان کیا تھا کہ کیسے اسلام انسانیت سے ٹکرا رہا ہے جب اسلام کہتا ہے کہ کنیز باندی سے سیکس بالجبر حلال ہے، اور جب دل بھر جائے تو اسلام اجازت دیتا ہے کہ سیکس بالجبر کے لیے لونڈی کو مالک اپنے بھائی کے حوالے کر سکتا ہے یا پھر اگلے مالک کو سیکس بالجبر کے لیے بیچ سکتا ہے۔


آپ ذرا آئن سٹائن اور بوہر سے فیصلہ کروا دیجیے گا کہ خدا پانسے کھیلتا ہے یا نہیں۔ پھر اہلِ مذہب سے بھی فیصلہ کروا لیں گے۔
یہ چیز لگتا ہے کہ آپ نے غصے میں لکھ دی ہے کیونکہ اسکا کوئی سر اور پاؤں نہیں مل رہا۔
میرا سوال یہ تھا کہ پہلے اہل مذہب تو یہ فیصلہ کر لیں کہ اتنے سارے مذاہب میں کونسا مذہب سچا ہے۔ اسکے جواب میں آپ پتا نہیں کہاں سے آئن سٹائی اور بوہر کو کھینچ لائے۔
ہم لوگ آئن سٹائن یا پھر بوہر کی "ذاتی" تقلید نہیں کرتے، بلکہ صرف اور صرف "دلیل" کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے دلیل سے ایک چیز ثابت کی ہے، تو صرف اسی چیز کو مانا جائے گا۔

جبکہ مذہب کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ مذہب کہتا ہے یا تو پورے کے پورے میرے اندر آ جاؤ، یا پھر پورے کے پورے مجھ سے نکل جاؤ۔ چنا نچہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بندہ کہے کہ وہ آدھا مسلم ہے اور آدھا ہندو۔ لہذا اہل مذہب اس سوال کو کسی طور نہیں ٹال سکتے، بلکہ انہیں ہر حال میں پہلے بتانا ہو گاکہ کونسا روحانی مذہب سچا ہے۔ یاد رہے مذہب کی بنیاد دلیل پر نہیں ہے۔

یہ معاملہ مذہب کا نہیں محترمہ، سیاست کا ہے۔ طاقت بولتی ہے۔ چاہے وہ پاکستان کے اسلامیوں کے پاس ہو یا روس کے اشتراکیوں کے پاس۔
غلط کام چاہے مذہبی کریں یا پھر اشتراکی کیں، وہ غلط ہی رہے گا۔
آپ اشتراکیوں کے غلط کام کو پردہ بنا کر مذہب کے جرم کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بات بالکل صاف ہے کہ یا تو مذہب اندھی تقلید کا مطالبہ چھوڑے، یا پھر آپ تسلیم کریں کہ مذہب کا مطالبہ کہ اسے طاقت کے زور پر مسلط کیا جائے بالکل غلط مطالبہ ہے اور انسانتی سے ٹکراتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ویسے اگر آپ زمین پر چل پھر کر اسے گول ہیfeel کرتی ہیں تو پھر کسی اور گول چیز پر ذرا چل پھر کر دکھائیں۔

About 71% of the Earths surface is covered by water;29% of it is land
اس لئے بچھانے کو ایسے بھی تو محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے پانی پر خشکی بچھا دی گئی ہو تاکہ انسان اس خشکی پر چل پھر سکے ۔

مگر انصاف کے لئے واویلہ مچا نے کے ساتھ ساتھ اپنی انکھوں سے بھی تعصب کی پٹی ہٹائیں
اور ایک بار پھر غور کریں زمین کو بچھانے کا مطلب آپ پورے گلوب کو ہی کیوں لے رہیں
جب آپ کو واضح طور پر قرآن سے زمین کے چپٹے ہونے کے متعلق کچھ نہیں مل رہا تو اپنی کم فہمی کی بنا پر اسے زبردستی چپٹا بنانے کی کیوں کوشش کر رہی ہیں
اور دوسروں سے کیوں مطالبہ کئے جا رہی ہیں کہ وہ اسے قرآن سے گول کر کے دکھائیں۔

قرآن انسانوں کی اخلاقی و معاشرتی رہنمائی کی کتاب ہے نہ کہ کسی سائنسی تحقیق کی۔
قرآن میں ہر چیز کو واضح بیان کرنے کا مطلب ظاہر ہے انہیں باتوں کے متعلق ہے جو اخلاقی و معاشرتی طور پر انسانوں کیلئے ضروری سمجھتے ہوئے اس میں بیان کی گئی ہیں۔

آصف صاحب
مذہب کے دعوے 2 عدد ہیں۔

پہلا دعوی: ۔۔۔ اس کتاب (قرآن) میں ہر خشک و تر بیان کر دیا گیا ہے۔
وسرا دعوی: ۔۔۔ اس کتاب میں ہر چیز کو کھول کھول کر واضح بیان کر دیا گیا ہے۔

جبکہ حقیقی دنیا میں حالت یہ ہے کہ قرآن کی آیات اتنی کنفیوژن آمیز ہیں کہ آج اس بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی سعودی مفتی اعظم اور دیگر علماء ایسے ہیں جو کہ ان آیات کی وجہ سے زمین کو چپٹی کہہ کر سائنس کو جھٹلا رہے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
اگر سائنس کا سفر مکمل ہو چکا ہے تو پھر تو بات بنتی ہے اور اگر یہ ابھی ارتقاء پذیر ہےتوجان لیجئے ہم فیصلہ کُن بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ ابھی مادّے کے جھمیلوں سے ہی نہیں نکل سکی اکثر نئی تحقیق پُرانے قوانین پر خطِ تنسیخ پھیر دیتی ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ سائنس کے معاملات اتنے مستحکم نہیں ہیں کہ بندہ اِن کی پیروی میں اپنی ایمانیات کی بنیادیں کھود ڈالے۔ ہاں علمی سطح پر مذہبی جذباتیت کو ایک طرف رکھ کرسوال و جواب اور تعمیری مباحث میں کوئی ہرج بھی نہیں ہونا چاہیے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
آصف صاحب
مذہب کے دعوے 2 عدد ہیں۔

پہلا دعوی: ۔۔۔ اس کتاب (قرآن) میں ہر خشک و تر بیان کر دیا گیا ہے۔
وسرا دعوی: ۔۔۔ اس کتاب میں ہر چیز کو کھول کھول کر واضح بیان کر دیا گیا ہے۔

جبکہ حقیقی دنیا میں حالت یہ ہے کہ قرآن کی آیات اتنی کنفیوژن آمیز ہیں کہ آج اس بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی سعودی مفتی اعظم اور دیگر علماء ایسے ہیں جو کہ ان آیات کی وجہ سے زمین کو چپٹی کہہ کر سائنس کو جھٹلا رہے ہیں۔
قرآنی آیات کے مفاہیم اُن کی شانِ نزول یعنی کونٹیکسٹ سمجھے بغیر محض لفظی ترجمہ سے صحیح سمجھ نہ آئیں تو ظاہر ہے یہ طریقہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ قرآنی احکامات سے قدیم دور کے مسائل کو حل کرنے کے لیے رہنما خطوط لے کر اجتہاد کے ذریعے آپ عہدِ حاضر کے مسائل کا حل اخذ کر سکتے ہیں۔ کیا یونیورسٹیز اپنے طلباء کو نئی ایجادات کے لیے کوئی الگ سے تربیت دیتی ہے؟ اُنہیں اُس وقت کے سٹیٹ آف دی آرٹ سے متعارف کروا دیا جاتا ہے اب آگےاُن کا کام ہوتا ہےکہ وہ اپنا ذہن استعمال کریں اور نئے مسائل کے لیےنئے حل تلاش کریں۔آپ مذہب کی تصدیق سائنس سے نہیں کر سکتے کیونکہ مذہب تقاضا کرتا ہے کہ آپ اَن دیکھے خُدا پر ایمان لائیں۔ آپ ایک ہی ہستی کو خُدا تسلیم کریں۔ آپ قیامت کے دِن اور آخرت کی زندگی کو تسلیم کریں۔ سائنس کی نظر میں انسان کی روحانی زندگی کے ادراک کی کوئی بصیرت موجود نہیں۔ سائنس علم کے بہت محدود حصےّ پر قانع ہے۔ میں نے خُدا کے "ہونے" پر ابتدائی شعور میں سوال اُٹھایا مجھے عمر کے اُسی حصے میں عملی حوالوں سے جواب مِل گیا۔ آپ کی کوششیں خام ہیں جب تک اپنی مُراد نہ پا لیں اور انسان صرف کوشش ہی کر سکتا ہے ۔جو کوشش کیے بغیر منزل تک پُہنچنا چاہے اُس کے پاس بالآخر منزل کے انکار کی آپشن ہی بچتی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اگر طوفان نوح اتنا ہی بڑا تھا جتنا بائبل اور قرآن میں بتایا جاتا ہے تو اس کے آثار مٹی اور پتھر کی تہوں میں نظر آنے چاہیئیں مگر ایسا نہیں ہے۔

اگر نوح کی کشتی میں صرف جانوروں اور انسانوں کے صرف چند جوڑے ہی بچائے گئے تو آج کے انسان اور جانور سب ان کی اولاد ہیں۔ یہ باٹل نک ہمیں ان سب کے ڈی این اے میں واضح ہونا چاہیئے مگر ندارد

اور بھی بہت نکات ہیں مگر محفل پر آجکل کچھ لکھنا محال ہے اس کی سست رفتاری کی وجہ سے

سائنس طوفان نوح کو نہیں مانتی

طوفان صرف تودوں کے پگھلنے سے نہیں آتے ۔ زمین کی ٹیکٹانک پلیٹس کی حرکت زلزے کے ساتھ طوفان ہوا یا پانی کا لاسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آتش فشاں بھی انہی ٹیکٹانکس پلیٹس کی وجہ سے آتے ہیں ۔۔۔

افریقہ میں دنیا کے فوسلز سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ہیرے انہی فوسلز کی نامیاتی تبدیلی سے بنتے ہیں ۔۔۔۔ تیل ، گیس اور ہیرے افریقہ سے ہی ملتے ہیں زیادہ ہمیں ۔۔۔۔۔آثار ایک تو فوسلز کی صورت میں ہمیں ملتے ہیں ۔اس کے ساتھ اگر ہم چٹانوں کی ساختیات کا مطالعہ کریں تو سیدیمنٹری چٹانیں بہت کچھ بہا لے جا کر سمندر میں چٹانیں بنانے کا باعث بنی ہے ۔ان سے گیس اور تیل ہمیں سمندروں میں وافر ملتا دکھائی دیتا ہے یہ سب کچھ نائجیریا سے ہوتا ہوا ایران تک کے سمندر میں ملتا ہے ۔۔۔۔۔ !

حضرت نوح کے روایت کے مطابق تین بیٹے تھے : سام ، اور حام ۔۔ یافث
۔۔ ایک سے ایشائی نسل چلی ہے ۔۔ایک سے حبشی یعنی افریقی اور ایک سی یورپی
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
آصف صاحب
مذہب کے دعوے 2 عدد ہیں۔

پہلا دعوی: ۔۔۔ اس کتاب (قرآن) میں ہر خشک و تر بیان کر دیا گیا ہے۔
وسرا دعوی: ۔۔۔ اس کتاب میں ہر چیز کو کھول کھول کر واضح بیان کر دیا گیا ہے۔

جبکہ حقیقی دنیا میں حالت یہ ہے کہ قرآن کی آیات اتنی کنفیوژن آمیز ہیں کہ آج اس بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی سعودی مفتی اعظم اور دیگر علماء ایسے ہیں جو کہ ان آیات کی وجہ سے زمین کو چپٹی کہہ کر سائنس کو جھٹلا رہے ہیں۔
https://books.google.com.pk/books?id=uGassqzOsDgC&pg=PR18&lpg=PR18&dq=DOCTOR Keith moore scientific views about science&source=bl&ots=ZGWY5BJcn-&sig=QBXWiUePA67rWJrk-NLGZRf-R2s&hl=en&sa=X&redir_esc=y#v=onepage&q=DOCTOR Keith moore scientific views about science&f=false

ایک یہ کتاب کا لنک دے رہی ہوں شاید آپ کی کنفیوژن دور ہوجائے ۔ اس میں قران پاک سے مطابقت رکھتے ہوئے بہت کچھ سائنسی لحاظ سے بتایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور تھیوری آف ایولوشن کے حقائق غلط ثابت ہوئے ہیں ۔۔۔ تعجب کی بات ہے ڈارون کا نظریہ ارتقاء ابھی تک کورس بکس میں ہیں

http://humansarefree.com/2013/12/9-scienctific-facts-prove-theory-of.html


اور کچھ قران ِ پاک کے بارے میں مغربی سائنس دان کیا کہتے ہیں آپ اس لنک سے ملاحظہ فرمالیں


http://www.islamic-awareness.org/Quran/Science/scientists.html

اتنے زیادہ سائنس دان قرانِ پاک کو ویرفائی کر رہے ہیں جبکہ ڈاکٹر کیتھے مور یہ بھی کہتے ان کی ساری جینیاتی علوم کی تحقیقی جو 1980 مین حیاتیات میں وجود میں آئی سے جو ثابت ہوا ہے وہ اس کتاب میں پہلے سے موجود تھا ۔۔۔۔ اس سے ان کا قران ِ پاک پر عقیدہ اور بڑھ گیا ہے ۔۔

اس کے علاوہ کچھ اور لنکس دے رہی ہوں اگر آپ پراپر تحقیق کر لیں تو آپ کی کنفیوژن دور ہوسکتی ہے،

http://www.quranandscience.com/human/135-dr-keith-moore-confirms-embryology-in-quran.html

http://www.islam-guide.com/ch1-1-a.htm

یہ لنکس نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کر رہے ہیں ۔۔۔ بہت سی باتیں سائینس میں پروو نہیں ہوتی وہ تھیوری رہتی ہیں اور بہت سی باتیں جب ویرفائی ہوجاتی ہیں تو ان کو قوانین میں ڈھالا جاتا ہے ۔۔ سائینس تو مسلسل تحقیق میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.biblelife.org/evolution.htm
http://www.darwinconspiracy.com
 

آصف

محفلین
مذہب کا مطالبہ کہ اسے طاقت کے زور پر مسلط کیا جائے بالکل غلط مطالبہ ہے
مذہب کا یہ مطالبہ شاید آپ کو قرآن کی اس آیت سے سمجھ آیا ہے؟
لکم دینکم ولی دین
''میرے لیے میرا دین اور تمہارے لیے تمہارا دین۔

آپ مذہب پر صرف اپنا غصہ نکال رہی ہیں کوئی دلیل نہیں ہے آپ کے پاس
اتنا عرصہ مذہب سے چمٹے رہنے کے دوران مذہب کے اصل مطالبہ کو سمجھنے کی بجائے آپ اس کے وجود سے ہی بیزار ہو گئیں۔
جیسے ایک بچہ کسی پزل کو بناتے بناتے تنگ آ کر اسے اتھل پتھل کر دیتا ہتے۔
کاش آپ کو مذہب اسلام کے انسان کے اصل مطالبہ کی سمجھ آ جاتی۔
آپ ہر بات کو گھما پھرا کر سعودی مفتیان کے پاس ہی لے جاتی ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا مسئلہ مذہب سے نہیں بلکہ مفتیوں سے ہے۔
آپ کو پتہ نہیں کیوں قرآن ایک سائنسی کتاب نظر آتی ہے۔ حالنکہ قرآن ہی نہیں دنیا کا کوئی مذہب بھی سائنسی علوم کو موضوع بحث نہیں بناتا ہاں ان کے پیروکار دعوے کرتے ہوں تو الگ بات ہے جیسے آپ کی سوچ آپ کو مجبور کئے بیٹھی ہے کہ قرآن سے سائنس نکالنہ ہے ایسے ہی ان کی سوچ بھی کرتی ہو گی۔
مذہب کے یہ مطالبات آپ پتہ نہیں کہاں سے نکال رہی ہیں کہ
عورتوں کو زبردستی باندیاں بنا کر جبراً جنسی تعلق قائم کیا جائے
لوگوں کو زبردستی مذہب کا پیروکار بنایا جائے
یا زمین کو گول کی بجائے چپٹا کہا جائے
یا آدم کی زمین پر آمد چھ ہزار برس قبل پر سب کو آمادہ کیا جائے
جس طرح بائیولوجی کا میتھ سے ٹکراؤ نہیں ہو سکتا اسی طرح اسلام کا کسی طرح بھی سائنس سے ٹکراؤ ممکن ہی نہیں۔
کوئی آپ کی طرح زبردستی کرنے پر تلا ہو تو الگ بات ہے۔
جن سائنسی موضوعات پر آپ پھنسی ہوئی ہیں وہ قرآن کا موضوع ہی نہیں ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مذہب کا یہ مطالبہ شاید آپ کو قرآن کی اس آیت سے سمجھ آیا ہے؟
لکم دینکم ولی دین
''میرے لیے میرا دین اور تمہارے لیے تمہارا دین۔

یہی تو مذہب کے منافقانہ رویے ہیں۔ ایک طرف "لکم دینکم ولی دین" کے دعوے، اور دوسری طرف ارتداد کے نام پر لوگوں کا قتل، مذہب پر تنقید کے جرم میں سزائیں، مذہب پر تنقید پر پابندیاں۔

آپ مذہب پر صرف اپنا غصہ نکال رہی ہیں کوئی دلیل نہیں ہے آپ کے پاس۔ اتنا عرصہ مذہب سے چمٹے رہنے کے دوران مذہب کے اصل مطالبہ کو سمجھنے کی بجائے آپ اس کے وجود سے ہی بیزار ہو گئیں۔جیسے ایک بچہ کسی پزل کو بناتے بناتے تنگ آ کر اسے اتھل پتھل کر دیتا ہتے۔
میں تو شروع سے "دلیل" کے نام پر مذہب سے ریفرنسز نکال کر دکھا رہی ہوں۔
مگر آپ لوگ شروع سے جواب میں دلیل پیش کرنے کی بجائے "الزامات" پیش کر رہے ہیں۔
مثلاً دلیل پر بات کرنے کی بجائے آپکا ذات پر الزام آ گیا کہ "میں فقط غصہ نکال رہی ہوں ۔۔۔۔ " وغیرہ وغیرہ۔

آپ ہر بات کو گھما پھرا کر سعودی مفتیان کے پاس ہی لے جاتی ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا مسئلہ مذہب سے نہیں بلکہ مفتیوں سے ہے۔
یہ میری خطا نہیں جو آپ میری باتوں کو گھما پھرا جاتے ہیں۔
میں سعودی مفتیان ہی نہیں، بلکہ 1400 سالوں سے اس مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کی مثال دے رہی ہوں کہ جنہوں نے پوری زندگیاں قرآن کی تفسیر میں خرچ کر دی اور قرآن کی "واضح اور روشن" آیات کے دعوے کو لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین چپٹی ہے۔

مذہب کے یہ مطالبات آپ پتہ نہیں کہاں سے نکال رہی ہیں کہ
عورتوں کو زبردستی باندیاں بنا کر جبراً جنسی تعلق قائم کیا جائے
آپکو پھر اپنے مذہب اور اسکی 1400 سالہ تاریخ کا علم نہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
قُرآن کا موضوع انسان ہے۔ قُرآن سے وابستگی اگر انسان کے اخلاق و کردار بہتر بنانے کا باعث ہےتو فائدہ اُٹھائیں۔ اقبال اور قرآن کا مطالعہ کافی فائدہ مند ہو سکتا ہے اور ایک کتاب " مسلہ جبر وقدر" آپ کو کُچھ پیچیدہ معاملات کے بارے میں زیادہ بالغ نظر بنا سکتی ہے۔ ماضی میں غلامی اور جنگی قیدیوں پر اسلام نے اُس وقت کے تناظر میں زیادہ انسان دوست اصول متعارف کروائے۔ قیدیوں کو فدیہ نہ دے سکنے پر مسلمانوں کو پڑھانے پر بھی آزاد کر دیا گیا۔باقی قیدی خواتین کے حوالے سےمیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دورِ اسلام کی لونڈیاں آج کی عافیہ صدیقی سے بہت بہتر حالات میں تھیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
https://books.google.com.pk/books?id=uGassqzOsDgC&pg=PR18&lpg=PR18&dq=DOCTOR Keith moore scientific views about science&source=bl&ots=ZGWY5BJcn-&sig=QBXWiUePA67rWJrk-NLGZRf-R2s&hl=en&sa=X&redir_esc=y#v=onepage&q=DOCTOR Keith moore scientific views about science&f=false

ایک یہ کتاب کا لنک دے رہی ہوں شاید آپ کی کنفیوژن دور ہوجائے ۔ اس میں قران پاک سے مطابقت رکھتے ہوئے بہت کچھ سائنسی لحاظ سے بتایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی میں نہ صرف ان چیزوں کا مطالعہ کر چکی ہوں، بلکہ میرا مطالعہ "تقابلی" ہے۔ یعنی میں نے وہ چیزیں بھی پڑھی ہیں جو اسکے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ اکثر لوگ "یکطرفہ" مطالعہ کے بعد آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور دوسری طرف کے دلائل سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے جو کہ سب سے بڑی بنیادی غلطی ہوتی ہے۔

مسلمانوں کا ایک اور تضاد
ایک طرف یہ مسلسل دعویٰ کرتے پائے جائیں گے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔
مگر دوسری طرف یہ مسلسل قرآن سے سائنس کو ثابت کرتے پائے جائیں گے۔

مسلمانوں کے یہ دونوں طبقات آپ کو اسی تھریڈ میں بھی مل جائیں گے۔

سوال: مذہب کا موضوع کیا ہے؟

سائنس جب مذہب پر سوال اٹھاتی ہے تو راہ فرار یہ ہے کہ قرآن کا موضوع سائنس نہیں ہے۔
رہ گئی حدیث، تو جب حدیث انکی مرضی اور منشاء کے مطابق ہوتی ہے تو مذہب کا حصہ ہو جاتی ہے، اور جب مرضی اور منشاء کے خلاف ہوتی ہے تو مذہب سے غائب ہو جاتی ہے۔ یہ ٹرینڈ اسی صدی میں پیدا ہوا ہے، وگرنہ پچھلے 1400 سال سے حدیث مذہب کا حصہ مانی جاتی تھی۔

سوال جو باقی رہ گیا وہ یہ ہے کہ مذہب کا پھر موضوع کیا ہے؟
جتنے منہ اتنی باتیں۔ ۔۔۔ اتنے ہی بہانے۔

قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ ہر خشک و تر کا بیان اس میں موجود ہے۔
مگر پھر بہانہ کہ سیاق و سباق صحیح نہیں ہے لہذا "ہر خشک و تر" میں سے سائنس کو نکال دیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان قرآن کا موضوع کیا بیان کریں گے کہ جبکہ یہ آج تک یہ ہی بیان نہ کر پائے کہ آیا انکی حدیث مذہب کا حصہ ہیں یا نہیں ہیں۔

ایک صرف اسلام ہی نہیں، بلکہ ہر ہر مذہب اور اسکے پیروکار ایسے ہی بہانے بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر سائنس کو ہم مذہب کی حقانیت جانچنے کا پیمانہ نہیں بنا سکتے تو قصے کہانیاں تو ہر ہر مذہب سنا رہا ہے۔ تو پھر تو پہلے اہل مذہب فیصلہ کریں کہ ان میں سے کونسے مذہب کے قصے کہانیاں درست ہیں۔

اور تھیوری آف ایولوشن کے حقائق غلط ثابت ہوئے ہیں ۔۔۔ تعجب کی بات ہے ڈارون کا نظریہ ارتقاء ابھی تک کورس بکس میں ہیں

http://humansarefree.com/2013/12/9-scienctific-facts-prove-theory-of.html

آپ ابتک کی میری گفتگو دیکھ سکتی ہیں۔ میں نے کہاں سائنسی "تھیوریز" پر بات کی ہے؟
رونا تو اسی بات کا ہے کہ میں تو مستقل طور پر سائنس کے ان حقائق کے متعلق بات کر رہی ہوں جو کہ "تھیوریز" سے نکل کر سائنسی فیکٹ بن چکے ہیں، مگر جواب میں مسلسل مجھ پر اور سائنس پر "تھیوریز" کے حوالے سے نہ رکنے والے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔

یہ لنکس نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کر رہے ہیں ۔۔۔ بہت سی باتیں سائینس میں پروو نہیں ہوتی وہ تھیوری رہتی ہیں اور بہت سی باتیں جب ویرفائی ہوجاتی ہیں تو ان کو قوانین میں ڈھالا جاتا ہے ۔۔ سائینس تو مسلسل تحقیق میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.biblelife.org/evolution.htm
http://www.darwinconspiracy.com

ایک بار پھر، میں نے ارتقاء کی "تھیوری" پر بات ہی نہیں کی ہے۔
بلکہ میرا سوال تو سائنٹیفک فیکٹ کے حوالے سے ہے جب سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ یوریشیا کے انسانوں کے جینوم کا ڈی این اے 1 تا 4 فیصد نیندرتھال سے مشابہہ ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ان میں انٹربریڈنگ ہوئی ہو اور افریقہ کے انسانوں میں یہ انٹربریڈنگ نہ ہوئی ہو۔

یہ ہمیشہ کا مسئلہ ہے کہ جب بھی نیندرتھال کے حوالے سے سوال اٹھایا جاتا ہے، تو اس پر جواب دینے کی بجائے اہل مذہب پوری ارتقاء کی تھیوری کو بیچ میں لا کر بحث کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

طوفان صرف تودوں کے پگھلنے سے نہیں آتے ۔ زمین کی ٹیکٹانک پلیٹس کی حرکت زلزے کے ساتھ طوفان ہوا یا پانی کا لاسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آتش فشاں بھی انہی ٹیکٹانکس پلیٹس کی وجہ سے آتے ہیں ۔۔۔

یہی تو مسئلہ ہے۔ مذہب آج تک لوگوں کو ڈراتا رہا کہ زلزلے اور طوفان اور سیلاب وغیرہ اللہ کی نشانیاں ہیں اور اللہ کا عذاب ہے ان لوگوں پر جو کہ اسکے نافرمان تھے۔
مگر سائنس نے آ کر اس کا پول کھولا ہے کہ یہ زلزلے ان زمینی ٹیکٹانک سلوں کی حرکت کی وجہ سے آتے ہیں اور ہرگز کوئی تفریق نہیں کہ وہاں کے رہنے والے اللہ کے فرمانبردار ہیں کہ نہیں، بلکہ جو بھی ان سلوں کے قریب آباد ہے، وہ ان زلزلوں کی وجہ سے برباد ہو جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
جی میں نہ صرف ان چیزوں کا مطالعہ کر چکی ہوں، بلکہ میرا مطالعہ "تقابلی" ہے۔ یعنی میں نے وہ چیزیں بھی پڑھی ہیں جو اسکے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ اکثر لوگ "یکطرفہ" مطالعہ کے بعد آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور دوسری طرف کے دلائل سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے جو کہ سب سے بڑی بنیادی غلطی ہوتی ہے۔

مسلمانوں کا ایک اور تضاد
ایک طرف یہ مسلسل دعویٰ کرتے پائے جائیں گے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔
مگر دوسری طرف یہ مسلسل قرآن سے سائنس کو ثابت کرتے پائے جائیں گے۔

مسلمانوں کے یہ دونوں طبقات آپ کو اسی تھریڈ میں بھی مل جائیں گے۔

سوال: مذہب کا موضوع کیا ہے؟

سائنس جب مذہب پر سوال اٹھاتی ہے تو راہ فرار یہ ہے کہ قرآن کا موضوع سائنس نہیں ہے۔
رہ گئی حدیث، تو جب حدیث انکی مرضی اور منشاء کے مطابق ہوتی ہے تو مذہب کا حصہ ہو جاتی ہے، اور جب مرضی اور منشاء کے خلاف ہوتی ہے تو مذہب سے غائب ہو جاتی ہے۔ یہ ٹرینڈ اسی صدی میں پیدا ہوا ہے، وگرنہ پچھلے 1400 سال سے حدیث مذہب کا حصہ مانی جاتی تھی۔

سوال جو باقی رہ گیا وہ یہ ہے کہ مذہب کا پھر موضوع کیا ہے؟
جتنے منہ اتنی باتیں۔ ۔۔۔ اتنے ہی بہانے۔

قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ ہر خشک و تر کا بیان اس میں موجود ہے۔
مگر پھر بہانہ کہ سیاق و سباق صحیح نہیں ہے لہذا "ہر خشک و تر" میں سے سائنس کو نکال دیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان قرآن کا موضوع کیا بیان کریں گے کہ جبکہ یہ آج تک یہ ہی بیان نہ کر پائے کہ آیا انکی حدیث مذہب کا حصہ ہیں یا نہیں ہیں۔

ایک صرف اسلام ہی نہیں، بلکہ ہر ہر مذہب اور اسکے پیروکار ایسے ہی بہانے بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر سائنس کو ہم مذہب کی حقانیت جانچنے کا پیمانہ نہیں بنا سکتے تو قصے کہانیاں تو ہر ہر مذہب سنا رہا ہے۔ تو پھر تو پہلے اہل مذہب فیصلہ کریں کہ ان میں سے کونسے مذہب کے قصے کہانیاں درست ہیں۔



آپ ابتک کی میری گفتگو دیکھ سکتی ہیں۔ میں نے کہاں سائنسی "تھیوریز" پر بات کی ہے؟
رونا تو اسی بات کا ہے کہ میں تو مستقل طور پر سائنس کے ان حقائق کے متعلق بات کر رہی ہوں جو کہ "تھیوریز" سے نکل کر سائنسی فیکٹ بن چکے ہیں، مگر جواب میں مسلسل مجھ پر اور سائنس پر "تھیوریز" کے حوالے سے نہ رکنے والے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔



ایک بار پھر، میں نے ارتقاء کی "تھیوری" پر بات ہی نہیں کی ہے۔
بلکہ میرا سوال تو سائنٹیفک فیکٹ کے حوالے سے ہے جب سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ یوریشیا کے انسانوں کے جینوم کا ڈی این اے 1 تا 4 فیصد نیندرتھال سے مشابہہ ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ان میں انٹربریڈنگ ہوئی ہو اور افریقہ کے انسانوں میں یہ انٹربریڈنگ نہ ہوئی ہو۔

یہ ہمیشہ کا مسئلہ ہے کہ جب بھی نیندرتھال کے حوالے سے سوال اٹھایا جاتا ہے، تو اس پر جواب دینے کی بجائے اہل مذہب پوری ارتقاء کی تھیوری کو بیچ میں لا کر بحث کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔



یہی تو مسئلہ ہے۔ مذہب آج تک لوگوں کو ڈراتا رہا کہ زلزلے اور طوفان اور سیلاب وغیرہ اللہ کی نشانیاں ہیں اور اللہ کا عذاب ہے ان لوگوں پر جو کہ اسکے نافرمان تھے۔
مگر سائنس نے آ کر اس کا پول کھولا ہے کہ یہ زلزلے ان زمینی ٹیکٹانک سلوں کی حرکت کی وجہ سے آتے ہیں اور ہرگز کوئی تفریق نہیں کہ وہاں کے رہنے والے اللہ کے فرمانبردار ہیں کہ نہیں، بلکہ جو بھی ان سلوں کے قریب آباد ہے، وہ ان زلزلوں کی وجہ سے برباد ہو جاتا ہے۔
جب آپ کے پاس اتنا علم ہے اور یہاں سارے آپ کے علم سے فیض یاب ہونا چاہیں گے ۔۔آپ ہمیں تقابلی جائزے پر سبق دیں تاکہ ہماری راہیں کھلیں ۔۔


میں نے سائنس کی دلیل دی مگر اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار نہیں کیا اور نہ ہی ارادہ ہے مگر سائنس نے میرا یقین کو مضبوط ترین بنادیا جو بات چودہ سو سال پہلے موجود تھی وہ اب آکر پتا چلی ہے ۔۔ واسلام 1
 

زیک

مسافر
اور تھیوری آف ایولوشن کے حقائق غلط ثابت ہوئے ہیں ۔۔۔ تعجب کی بات ہے ڈارون کا نظریہ ارتقاء ابھی تک کورس بکس میں ہیں
ارتقاء کی تھیوری غلط ثابت نہیں ہوئی بلکہ آج بیالوجی کی بنیاد اسی پر ہے۔ اگر مذہبیوں سے غلط سائنس پڑھیں گے تو اسی طرح کی غیرسائنسی باتیں کریں گے۔
 
Top