محمد یعقوب آسی ، محفل کا ایک معتبر شاعر

ایک بہت پرانا گیت یاد آ گیا ۔۔

اوئے چپ کر دَڑ وَٹ جا
نہ عشق دا کھول خلاصہ
چمڑی لتھ جاؤ گی
ایویں بن جائیں گا جگ دا ہاسا
چمڑی لتھ جاؤ گی

آسان اردو ترجمہ:
اے شخص! چپ ہو جا، بولنا نہیں، عشق کی روداد بتانے کی نہیں ہے، بتائے گا تو کھال ادھیڑ دی جائے گی، سارا زمانہ تجھ پر ہنسے گا۔ تیری کھال اتر جائے گی۔
 
1558479_614837131993082_6287624138259412107_n.jpg
 
رانا سعید دوشیؔ : نہ دوشی نہ نردوش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

مجھے اس بات کا پورا احساس ہے کہ رانا سعید دوشیؔ کو میری طرف سے ’’دوشی نہ ہونے کی سند‘‘ ملے یا نہ ملے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہاں مجھے فرق پڑتا ہے۔ ایک شخص شغلِ شعر گوئی میں ایک عرصے سے میرے ساتھ چل رہا ہے یا میں اس کے ساتھ چل رہا ہوں تو ظاہر ہے میرا اس کے بارے میں اور اس کا میرے بارے میں کوئی تو خیال، تصور، تاثر، نظریہ بنے گا ہی۔ چند پیراگراف پر مشتمل یہ تحریر اسی تاثر اور خیال کے اظہار کی ایک کوشش ہے۔

انسان اس کائنات کی پیچیدہ ترین مخلوق ہے، اور اس کی پیچیدگیوں میں اس وقت کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جب ایک انسان ایک تخلیق کار بھی ہو۔ تخلیق ایک خدائی کام ہے اور یہ اس کی خاص رحمت ہے کہ اس نے اپنے نائب کی فطرت میں کچھ ایسے خواص رکھ دئے ہیں۔ انسان حرفِ کُن پر قادر نہیں تو نہ سہی اس کُن کا شاہد و مشہود تو ہے ہی۔ رانا سعید دوشی کے شعری مجموعے ’’زمیں تخلیق کرنی ہے‘‘ کو دو تین بار پڑھا تو حرفِ کُن سے متعلق یہ نکتہ گویا نقطہ بن کر فکر و خیال کے آسمان پر جگمگانے لگا۔ رانا ایک سیماب صفت شخص ہے اور اس کی یہ سیمابی افتادِ طبع اس کے شعروں میں بھی اور اس کے معمولات میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ جس زمین کو تخلیق کرنے کی بات کر رہا ہے، اس کے خد و خال اس کے قاری کو بھی دکھائی دے جاتے ہیں؛ کہیں دھیمے اور کہیں تیکھے، کہیں کامل اور کہیں زیرِ تکمیل۔ کہ انسان کی تخلیقی صلاحیت بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے؛ کہیں جولانی میں اور کہیں پژمردہ۔

رانا سعید دوشیؔ اپنے تخلیقی وفور کی رَو میں، اپنی ساری بے چینیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اس کی یہ روانی صرف ذہنی اور فکری نہیں، بدنی بھی ہے۔ اس کی شناخت اور شہرت میں ان بے تاب مسافتوں کا عمل دخل بھی ہے۔ میرے جیسا روایت سے بندھا ہوا ایک گوشہ نشین قاری اُس کی اِس تیزگامی کا ساتھ نہیں دے سکتا تو اس میں دوشیؔ کا کیا دوش! تخلیق کے عمل میں تخریب بھی تو ہوا کرتی ہے۔ میرے جیسا قاری اس پر چین بہ جبین ہوتا ہے تو بھی کیا ہے اور نہیں ہوتا تو بھی کیا ہے، کہ دوشیؔ کو ابھی بہت آگے جانا ہے۔

رانا سعید دوشیؔ کی نظمیں پڑھتے ہوئے مجھے بار بار ایسا محسوس ہوا کہ میں گڑھی حیات کی ٹیڑھی میڑھی اونچی نیچی گلیوں میں خود کو کھینچ کھانچ کر اُس کے گھر کی چڑھائی چڑھ رہا ہوں اور کبھی سڑک تک کی اترائی میں لڑھک جانے سے بچ رہا ہوں۔ یہ مزاج اس کی دھرتی کا مزاج ہے، جو اُس کی نظموں میں چاشنی بھر دیتا ہے۔ وہ خود بتائے یا نہ بتائے، یہ نظمیں بتا دیتی ہیں کہ ان کا خالق اپنے پرکھوں کی روایات کا شیدائی بھی ہے اور عصر حاضر سے بھی جڑا ہوا ہے۔ موضوع اور ترسیلِ احساس کے مختلف مراحل میں اس کا لہجہ بھی رنگ بدلتا ہے، اور نظموں کا تانا بانا بھی۔ اس کا قاری لُنڈی کے کنارے اگے جنگلی انجیر کے پودوں سے نکلتا ہے تو خود کو اسلام آباد کے بیچوں بیچ گزرتے پیچواں نالے کے پل کے اوپر پاتا ہے جہاں کارواں در کارواں لوگ سرخ بتی کے سبز ہونے کے منتظر ہوتے ہیں۔

پنچ کٹھے سے دامنِ کوہ تک ماضی اور حال کی دوڑ میں اس کی سانس بھی اس کی شاعرانہ حسیت کی طرح اتھل پتھل ہونے لگتی ہے۔ دوش اس کا یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ قاری کو بھی دوڑاتا ہے۔ یوں وہ دوشیؔ کہلاتے ہوئے بھی اگر دوشی نہیں ہے تو نردوش بھی نہیں ہے۔


محمد یعقوب آسیؔ ... ۲۱؍ فروری ۲۰۱۵ء​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا خوب لکھا ہے سر۔۔۔۔ کہ غزل خود بولتی ہے خالق پرکھوں کی روایات کا شیدائی ہے۔۔۔ واہ سبحان اللہ۔ یہ تو بہت بڑی خوبی ہے اور دور جدید میں گوہر نایاب بھی۔
 

شیزان

لائبریرین
مجھے کوئی اس مخمصے سے نکالو
مجھے چاہیے کیا! میں کیا چاہتا ہوں

واہ واہ۔ بہت خوب آسی صاحب۔
سدا خوش رہیئے
 
ضمیمہ : کچھ فارسی کے مصادر کے بارے میں
ہم دیکھتے ہیں کہ فارسی کے مصادر کے آخری دو حرف ’’تَن‘‘ ہوتے ہیں یا ’’دَن‘‘۔ اس پر بحث نہیں کہ ان کے علاوہ کوئی اور کیوں نہیں۔ دیکھنا یہ مقصود ہے کہ ’’تن‘‘ آخر سے پہلے حروف میں اور ’’دن‘‘ آخر سے پہلے حروف میں کوئی امتیاز کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ چلئے ہم یہاں اپنی سہولت کے لئے ’’تن‘‘ یا ’’دن‘‘ سے فوراً پہلے واقع ہونے والے حرف کو ’’تیسرا حرف‘‘ (یعنی اختتام کی طرف سے تیسرا) یا ’’ثالث‘‘ کہے لیتے ہیں۔ مثلاً: فروختن (خ)، شگفتن (ف)، خریدن (ی)، نمودن (و)، آوردن (ر)، شکستن (س)، آفریدن (ی)، آزمودن (و)، نشستن (س)؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ میں نے کچھ باتیں نوٹ کیں، ان میں آپ کو شریک کر رہا ہوں۔

۔۱۔ ثالث اگر حرف علت ہو تو علامتِ مصدر ’’دَن‘‘ ہوتی ہے: نمودن، آزمودن، کشیدن، دریدن، بریدن، خوابیدن، نہادن، افتادن، فرستادن، دادن، آسودن

۔۲۔ اگر ثالث مجزوم ہو تو مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے ایک واقع ہوتی ہے۔
(الف)۔ ثالث (س، ف، ش) کے ساتھ علامت مصدر ’’تن‘‘ ہوتی ہے، ماسوائے صورت ۳ کے جو آگے آتی ہے: شکستن، شگفتن، نوشتن، گرفتن
(ب)۔ ثالث ماسوائے مذکور کے ساتھ علامت مصدر ’’دَن‘‘: بُردن، آوردن، گزاردن

۔۳۔ اگر ثالث ساکن غیر مجزوم (خ، ف، س، ش) میں سے کوئی ہواور اس سے پہلے حرف علت واقع ہو تو علامت ’’تن‘‘ ہوتی ہے: ریختن، خواستن، برداشتن، پرداختن، تافتن، کوفتن، فریفتن، انگیختن، برخاستن، آموختن، ساختن، یافتن، بافتن، فروختن، انداختن، اندوختن، وغیرہ

۔۴۔ ثالث کی جگہ ’’الف، نون غنہ‘‘ آئیں تو علامت مصدر ’’دن‘‘ ہوتی ہے: خواندن، ماندن

۔۵۔ شُدَن اپنی نوعیت کا واحد مصدر ہے (غالباً) کہ اس میں علامت مصدر ’’دن‘‘ سے پہلے صرف ایک حرف ہے، جو ظاہر ہے متحرک ہو گا۔

حاصلات:

اول: صورت ۔۳ کے تحت آنے والے مصادر سے فعل ماضی پہلا صیغہ (جو اِسم حاصل مصدر بھی ہے): خواست، برداشت، پرداخت، تافت، کوفت، فریفت، ساخت، آموخت، ساخت، یافت؛ وغیرہ .... اِن کا آخری ت وہی ہے جسے ’’فاعلات‘‘ میں تائے فارسی کا نام دیا گیا ہے۔ عروضی وزن میں یہ تائے فارسی ساکن ہو تو کالعدم ہوتا ہے، متحرک ہو تو معمول کے مطابق گنتی میں آتا ہے۔

دوم: واوِ معدولہ کا رویہ مصادر کی ساخت میں: اگر اس کے بعد کوئی حرفِ علت واقع ہو تو یہ کوئی آواز نہیں رکھتا۔ اگر کوئی دوسرا حرف ہو تو یہ پیش کے برابر حرکت پیدا کرتا ہے، نہ کہ واوِ علت کی طرح۔ واوِ معدولہ کی معنویت بہر حال مسلم ہے؛ ’’خار‘‘، ’’خوار‘‘ برابر نہیں ہو سکتے۔

سوم: حرفِ ثالث عام طور پر ان میں سے کوئی ہوتا ہے: خ، ر، س، ش، ف، ن، نون غنہ، حروفِ علت (ا،و، ی)؛ ص (شاذ ہے)۔

التماس: اس ضمیمہ کے مندرجات میرے مشاہدات کا حاصل ہیں، جو ضروری نہیں کہ بہر صورت درست ثابت ہوں۔


محمد یعقوب آسی ۔ 16 مارچ 2015
زیرِ ترتیب رسالہ "آسان علمِ قافیہ" سے ماخوذ۔
 
استادِ محترم کی ایک غزل میری طرف سے بھی قارئین کی نذر
اس کی صورت تو لگتی ہے کچھ جانی پہچانی سی
لیکن اس کو کیا کہئے، وہ آنکھیں ہیں بیگانی سی
دنیا کے ہنگاموں میں جب یاد کسی کی آتی ہے
جانے کیوں جاں پر چھا جاتی ہے قدرے ویرانی سی
لوگ مشینی دنیا کے، انسان نہیں کل پرزے ہیں
تھل کی ریت، چناب کی موجیں رہ گئی ایک کہانی سی
آج کے دور کی بات کرو، یہ دور بڑا دکھیارا ہے
عارض و لب، گیسو کے سائے، باتیں ہوئیں پرانی سی
آدمیوں کے جنگل میں انسان کوئی مل جائے تو
اس سے مل کر، باتیں کر کے ہوتی ہے حیرانی سی
آسی جانے انجانے میں کیا غلطی کر بیٹھا ہے
اس کے لہجے سے ٹپکے ہے ایک خلش انجانی سی

***
 
آخری تدوین:
۔۱۰۔ سب سے اہم اور سب سے قیمتی چیز جو آپ پیش کر سکتے ہیں وہ آپ کے بے قابو اشک، بے ترتیب دھڑکنیں اور بے تحاشا سنسناتی ہوئی سانسیں ہیں۔ پھر بھی دیوانگی کی اجازت نہیں ہے۔ مارے جاؤ گے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔
اور
میرے حرف سارے
اس حبیبِ کبریا ﷺ کے بابِ عزت پر
کھڑے ہیں
دست بستہ
بے زباں
بے جراتِ اظہار
حاشا!
کوئی گستاخی نہ ہو جائے
۔۔ ۔۔ ۔۔
 
Top