’نائن زیرو‘: ایم کیو ایم کا سیاسی قبلہ اور طاقت کا مرکز
ریاض سہیلبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
کراچی کے علاقے عزیز آباد میں واقع ’نائن زیرو‘ ایم کیو ایم کا سیاسی قبلہ اور طاقت کا مرکز ہے جس سے تنظیم کے کارکنوں کی جذباتی وابستگی ہے۔
پاکستان میں صرف 120 گز رقبے والے کسی مکان میں شاید ہی کوئی اتنا طاقتور سیاسی مرکز قائم ہو۔
اس مکان کے رہائشی الطاف حسین نے 1978 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس نے 12 سال کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کی شکل اختیار کر لی اور 1997 میں یہ مہاجر سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔
مکہ چوک سے اندر داخل ہوں تو سامنے ہی سیمنٹ کے بیریئر موجود ہیں ساتھ میں لکڑی کی چوکی میں ٹیلیفون لائن دستیاب ہے، جیسے ہی کوئی پیدل شخص یا گاڑی اس بیریئر کے قریب پہنچتی ہے تو وہاں موجود نوجوان ’جی ساتھی، کہاں جانا ہے کس سے ملنا ہے؟‘ کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔
نائن زیرو کی اطراف کی کئی گلیوں میں ایم کیو ایم کے کارکن اپنی مدد آپ کے تحت سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ یہ کارکن مقامی سیکٹر سے نہیں بلکہ شہر کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی سے بھی رعایت نہیں کرتے۔
یہاں کے رہائشیوں اور مہمانوں کو تین ناکوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے اور گلیوں کی نگرانی کے لیے کلوز سرکٹ کیمرے بھی نصب ہیں۔
آپریشنز کا آغاز ’90‘ سے
ماضی میں بھی ایم کیو ایم کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا آغاز بھی نائن زیرو سے ہی کیا گیا۔ الطاف حسین کے گھر پر پہلی بار پولیس نے اگست 1987 میں چھاپہ مارا تھا لیکن وہ موجود نہیں تھے چند روز بعد انہوں نے خود گرفتاری پیش کر دی تھی۔ 1992 اور 1996 کے آپریشن کے دوران بھی ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پر پاکستانی فوج نے چھاپے مارے اور ایک ایسے ہی چھاپے کے دوران جناح پور کا نقشہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
لندن میں عرصہ دراز سے مقیم متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا یہ گھر سیاسی مرکز کے علاوہ شکایتی مرکز بھی ہے جو چوبیس گھنٹے آن کال رہتا ہے۔
ایم کیو ایم کے سیکریٹریٹ میں قائم اس عوامی شکایتی سینٹر میں ہر وقت کم سے کم ایک رکن اسمبلی موجود ہوتا ہے پھر چاہے وہ وفاقی یا صوبائی وزیر کیوں نہ ہوں۔
لوگ شکایات لے کر ان کے پاس آتے ہیں جن کی تفصیلات رجسٹرڈ کرنے کے بعد متعلقہ افراد کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔
نائن زیرو کے ایک کمرے میں الطاف حسین کے زیر استعمال صوفہ سیٹ، تختہ نما بیڈ اور دیگر اشیا بھی موجود ہیں۔ اسی کمرے میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی الطاف حسین سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
الطاف حسین کے لندن منتقل ہونے کے بعد بھی کئی سیاسی شخصیات یہاں مدعو کی جاتی رہی ہیں اور سابق صدر آصف علی زرداری نے 2008 میں یہاں کا دورہ کر کے ’معاف کرو اور بھول جاؤ‘ کی پالیسی کے تحت نئے تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔
نائن زیرو کی تیسری منزل پر میڈیا مانیٹرنگ سیل قائم ہے جہاں پاکستان کے 32 سے زائد چینلز کی مانیٹرنگ اور رکارڈنگ کی جاتی ہے۔
رینجرز نے چھاپے کے دوران ایم کیو ایم کے سیکریٹیریٹ کی مکمل تلاشی لی۔
ایم کیو ایم کے میڈیا کے ساتھ ہمیشہ تعلقات کھٹے میٹھے رہے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں روزنامہ جنگ اور ڈان کا بائیکاٹ کیا گیا جبکہ بعد میں چینلز کی آمد پر بعض اینکر پرسنز تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
الطاف حسین کے گھر کے سامنے ایک دوسری عمارت کو میڈیا سینٹر قرار دیا گیا ہے اور یہاں پریس کانفرنس کے لیے چھوٹے ہال اور ایم کیو ایم کے شعبۂ اطلاعات کے ذمہ داران کے دفاتر موجود ہیں۔
مرکزی سیکریٹریٹ میں خورشید میموریل ہال موجود ہے جو پریس کانفرنس کے علاوہ دیگر تقریبات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ساتھ میں رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے لیے ایک کمرہ مختص ہے جس میں ویڈیو کانفرنس کی سہولت بھی موجود ہے جہاں سے لندن رابطہ کمیٹی کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ رینجرز کے چھاپے میں یہ سیٹ اپ بھی متاثر ہوا ہے۔
1997 میں ایم کیو ایم کے مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بننے کے بعد تنظیم میں اردو بولنے والوں کے علاوہ دیگر قومیتوں کے لیے بھی دروازے کھولے دیئے گئے اور انہیں عام نشستوں کے علاوہ مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دیکر ایوانوں تک پہنچایا گیا۔
اسی لیے خورشید میموریل ہال کی پہلی منزل پر سندھ، بلوچستان، پنجاب اور گلگت بلتستان کمیٹیاں موجود ہیں جبکہ کراچی کے دیہی علاقوں کے لیے مضافاتی کمیٹی، پنجابی سرائیکی اور پختون آرگنائزنگ کمیٹی علیحدہ ہیں۔
نائن زیرو کی اطراف کی کئی گلیوں میں ایم کیو ایم کے کارکن اپنی مدد آپ کے تحت سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
اسی عمارت میں ایم کیو ایم کی لیبر ڈویژن، شعبہ خواتین، طبی کمیٹی ورکرز ویلفیئر کمیٹی اور لیگل ایڈ کمیٹی کے دفاتر موجود ہیں جبکہ نائن زیرو کے قریب واقع عمارت میں اراکین اسمبلی کی رہائش کا بھی انتظام ہے، اس طرح 120 گز کے مکان سے یہ تنظیم اب آس پاس کے کئی عمارتوں تک پھیل چکی ہے۔
نائن زیرو کے قریب جناح باغ اور لال قلعہ کے نام سے دو میدان بھی واقع ہیں۔ ان دونوں میدانوں میں ایم کیو ایم اپنے اکثر سیاسی جلسے منعقد کرتی رہی ہے جبکہ کچھ دور ہی تنظیم کا ’شہدا قبرستان‘ ہے جہاں غیر فطری اموات کا شکار ہونے والوں کی تدفین کی جاتی ہے۔
ماضی میں بھی ایم کیو ایم کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا آغاز بھی نائن زیرو سے ہی کیا گیا۔
الطاف حسین کے گھر پر پہلی بار پولیس نے اگست 1987 میں چھاپہ مارا تھا لیکن وہ موجود نہیں تھے چند روز بعد انہوں نے خود گرفتاری پیش کردی تھی۔
1992 اور 1996 کے آپریشن کے دوران بھی ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پر پاکستانی فوج نے چھاپے مارے اور ایک ایسے ہی چھاپے کے دوران جناح پور کا نقشہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
ماضی میں ایسے آپریشنز کے باوجود ایم کیو ایم نے خود کو قائم و مستحکم رکھا لیکن اب جب اس کی قیادت کو لندن میں مقدمات کا سامنا ہے جبکہ پاکستان میں پارٹی میں دھڑا بندی کا امکان ہے جس کی نشاندہی سابق رکن اسمبلی نبیل گبول کرچکے ہیں، اس اندرونی و بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا ایم کیو ایم کے لیے انتخابات سے بھی بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
ریاض سہیلبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
- 12 مار چ 2015

کراچی کے علاقے عزیز آباد میں واقع ’نائن زیرو‘ ایم کیو ایم کا سیاسی قبلہ اور طاقت کا مرکز ہے جس سے تنظیم کے کارکنوں کی جذباتی وابستگی ہے۔
پاکستان میں صرف 120 گز رقبے والے کسی مکان میں شاید ہی کوئی اتنا طاقتور سیاسی مرکز قائم ہو۔
اس مکان کے رہائشی الطاف حسین نے 1978 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس نے 12 سال کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کی شکل اختیار کر لی اور 1997 میں یہ مہاجر سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔
مکہ چوک سے اندر داخل ہوں تو سامنے ہی سیمنٹ کے بیریئر موجود ہیں ساتھ میں لکڑی کی چوکی میں ٹیلیفون لائن دستیاب ہے، جیسے ہی کوئی پیدل شخص یا گاڑی اس بیریئر کے قریب پہنچتی ہے تو وہاں موجود نوجوان ’جی ساتھی، کہاں جانا ہے کس سے ملنا ہے؟‘ کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔
نائن زیرو کی اطراف کی کئی گلیوں میں ایم کیو ایم کے کارکن اپنی مدد آپ کے تحت سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ یہ کارکن مقامی سیکٹر سے نہیں بلکہ شہر کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کسی سے بھی رعایت نہیں کرتے۔
یہاں کے رہائشیوں اور مہمانوں کو تین ناکوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے اور گلیوں کی نگرانی کے لیے کلوز سرکٹ کیمرے بھی نصب ہیں۔
آپریشنز کا آغاز ’90‘ سے
ماضی میں بھی ایم کیو ایم کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا آغاز بھی نائن زیرو سے ہی کیا گیا۔ الطاف حسین کے گھر پر پہلی بار پولیس نے اگست 1987 میں چھاپہ مارا تھا لیکن وہ موجود نہیں تھے چند روز بعد انہوں نے خود گرفتاری پیش کر دی تھی۔ 1992 اور 1996 کے آپریشن کے دوران بھی ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پر پاکستانی فوج نے چھاپے مارے اور ایک ایسے ہی چھاپے کے دوران جناح پور کا نقشہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
لندن میں عرصہ دراز سے مقیم متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا یہ گھر سیاسی مرکز کے علاوہ شکایتی مرکز بھی ہے جو چوبیس گھنٹے آن کال رہتا ہے۔
ایم کیو ایم کے سیکریٹریٹ میں قائم اس عوامی شکایتی سینٹر میں ہر وقت کم سے کم ایک رکن اسمبلی موجود ہوتا ہے پھر چاہے وہ وفاقی یا صوبائی وزیر کیوں نہ ہوں۔
لوگ شکایات لے کر ان کے پاس آتے ہیں جن کی تفصیلات رجسٹرڈ کرنے کے بعد متعلقہ افراد کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔
نائن زیرو کے ایک کمرے میں الطاف حسین کے زیر استعمال صوفہ سیٹ، تختہ نما بیڈ اور دیگر اشیا بھی موجود ہیں۔ اسی کمرے میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی الطاف حسین سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
الطاف حسین کے لندن منتقل ہونے کے بعد بھی کئی سیاسی شخصیات یہاں مدعو کی جاتی رہی ہیں اور سابق صدر آصف علی زرداری نے 2008 میں یہاں کا دورہ کر کے ’معاف کرو اور بھول جاؤ‘ کی پالیسی کے تحت نئے تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔
نائن زیرو کی تیسری منزل پر میڈیا مانیٹرنگ سیل قائم ہے جہاں پاکستان کے 32 سے زائد چینلز کی مانیٹرنگ اور رکارڈنگ کی جاتی ہے۔

رینجرز نے چھاپے کے دوران ایم کیو ایم کے سیکریٹیریٹ کی مکمل تلاشی لی۔
ایم کیو ایم کے میڈیا کے ساتھ ہمیشہ تعلقات کھٹے میٹھے رہے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں روزنامہ جنگ اور ڈان کا بائیکاٹ کیا گیا جبکہ بعد میں چینلز کی آمد پر بعض اینکر پرسنز تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
الطاف حسین کے گھر کے سامنے ایک دوسری عمارت کو میڈیا سینٹر قرار دیا گیا ہے اور یہاں پریس کانفرنس کے لیے چھوٹے ہال اور ایم کیو ایم کے شعبۂ اطلاعات کے ذمہ داران کے دفاتر موجود ہیں۔
مرکزی سیکریٹریٹ میں خورشید میموریل ہال موجود ہے جو پریس کانفرنس کے علاوہ دیگر تقریبات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ساتھ میں رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے لیے ایک کمرہ مختص ہے جس میں ویڈیو کانفرنس کی سہولت بھی موجود ہے جہاں سے لندن رابطہ کمیٹی کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ رینجرز کے چھاپے میں یہ سیٹ اپ بھی متاثر ہوا ہے۔
1997 میں ایم کیو ایم کے مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بننے کے بعد تنظیم میں اردو بولنے والوں کے علاوہ دیگر قومیتوں کے لیے بھی دروازے کھولے دیئے گئے اور انہیں عام نشستوں کے علاوہ مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دیکر ایوانوں تک پہنچایا گیا۔
اسی لیے خورشید میموریل ہال کی پہلی منزل پر سندھ، بلوچستان، پنجاب اور گلگت بلتستان کمیٹیاں موجود ہیں جبکہ کراچی کے دیہی علاقوں کے لیے مضافاتی کمیٹی، پنجابی سرائیکی اور پختون آرگنائزنگ کمیٹی علیحدہ ہیں۔

نائن زیرو کی اطراف کی کئی گلیوں میں ایم کیو ایم کے کارکن اپنی مدد آپ کے تحت سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
اسی عمارت میں ایم کیو ایم کی لیبر ڈویژن، شعبہ خواتین، طبی کمیٹی ورکرز ویلفیئر کمیٹی اور لیگل ایڈ کمیٹی کے دفاتر موجود ہیں جبکہ نائن زیرو کے قریب واقع عمارت میں اراکین اسمبلی کی رہائش کا بھی انتظام ہے، اس طرح 120 گز کے مکان سے یہ تنظیم اب آس پاس کے کئی عمارتوں تک پھیل چکی ہے۔
نائن زیرو کے قریب جناح باغ اور لال قلعہ کے نام سے دو میدان بھی واقع ہیں۔ ان دونوں میدانوں میں ایم کیو ایم اپنے اکثر سیاسی جلسے منعقد کرتی رہی ہے جبکہ کچھ دور ہی تنظیم کا ’شہدا قبرستان‘ ہے جہاں غیر فطری اموات کا شکار ہونے والوں کی تدفین کی جاتی ہے۔
ماضی میں بھی ایم کیو ایم کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا آغاز بھی نائن زیرو سے ہی کیا گیا۔
الطاف حسین کے گھر پر پہلی بار پولیس نے اگست 1987 میں چھاپہ مارا تھا لیکن وہ موجود نہیں تھے چند روز بعد انہوں نے خود گرفتاری پیش کردی تھی۔
1992 اور 1996 کے آپریشن کے دوران بھی ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پر پاکستانی فوج نے چھاپے مارے اور ایک ایسے ہی چھاپے کے دوران جناح پور کا نقشہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
ماضی میں ایسے آپریشنز کے باوجود ایم کیو ایم نے خود کو قائم و مستحکم رکھا لیکن اب جب اس کی قیادت کو لندن میں مقدمات کا سامنا ہے جبکہ پاکستان میں پارٹی میں دھڑا بندی کا امکان ہے جس کی نشاندہی سابق رکن اسمبلی نبیل گبول کرچکے ہیں، اس اندرونی و بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا ایم کیو ایم کے لیے انتخابات سے بھی بڑا چیلنج بن گیا ہے۔