ایمان تازہ ہوگیا

نیرنگ خیال

لائبریرین
جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتاہوں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اورمجھ پر ایمان لائیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہوگا۔‘‘ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اللہ رب العزت اپنے تمام بندوں کی، خواہ وہ نیک ہوں یا گناہگار،عالم ہوں یا جاہل سب کی دعائوں کو سنتا ہے اور انہیں قبول کرتا ہے۔ اپنے اللہ رب العزت سے براہ راست بغیر کسی واسطے سے مانگنے والوں کو وہ محروم نہیں کرتا۔
میری زندگی میں کئی بار ایسے مشاہدات اور تجربات ہوئے کہ میںنے نوٹ کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہماری دعائوں کو قبول کرنے کے حالات پیدا کردیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دعاقبول ہوجاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک دن صبح سویرے مجھے اپنے خاندان کی ایک بیوہ خاتون کے بارے میں خیال آنا شروع ہوا کہ نجانے ان کے کیا حالات ہوں گے وہ کیسی ہوں گی۔وہ میری دور کی رشتہ دار ہیں اور کافی مدت پہلے بیوہ ہوگئیں۔میں ان کے بارے میں سوچتا رہا اور اپنے آپ کو ملامت بھی کرتا رہا کہ میں نے ان کو کتنی مدت ہوئی فون نہیں کیا۔نہ ہی ان کے حالات دریافت کیے ہیں۔
ذہن میں آیا کہ اگر ان کی طرف سے فون آیا، کوئی فرمائش ہوئی یا انھیں میری کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو میں انشاء اللہ اسے ضرور پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔ عصر کے بعد ان کا فون آگیا کہ ’’میں کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ تمھیں فون کروں ۔دراصل مجھے کچھ مالی مدد درکار ہے۔‘‘ میں نے فورا پوچھا ’’ہاں ہاں بتائیے‘‘ اور پھر اسی وقت میں نے ان کی ضرورت پوری کرنے کی حامی بھرلی۔فون بند ہوا تومیں نے کہا ’’واہ میرے رب تو کتنا مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔ تو کیسے کیسے اسباب بناتا ہے۔آج صبح تونے پہلے میر ے دل میں یہ خیال ڈالا اور ذہنی طور پر مجھے اس کی مدد کے لیے تیار کیا اور پھر شام تک اس کا کام بھی کرادیا۔اس کے بقول وہ کئی روز سے سوچ رہی تھی اور دعا کر رہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس کے کام کا سبب بنا دے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایاہے:
[ARABIC]وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَکُمْ[/ARABIC] ’’تمہارے رب نے حکم دیا ہے: مجھے پکارو میں تمہاری دعائوں کو قبول کرنے والا ہوں‘‘۔
میں دعائوں کی قبولیت کے سنہرے واقعات نامی ایک کتاب مرتب کر رہا تھا، اس میں ایک خوبصورت واقعہ نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس واقعے نے ایمان تازہ کر دیا۔ اس کا نام ڈاکٹر احمد تھا اور وہ سعودی عرب کا معروف طبیب تھا۔ لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے کئی کئی دن تک انتظار کرتے۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔دارالحکومت میں ایک انٹر نیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ اس کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں نہ صرف کلیدی مقالہ پڑھے گا بلکہ اس موقع پر اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے۔ڈاکٹر احمداپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔
وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کی فنی خرابی کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد ائیر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا:خواتین وحضرات! انجینئر نے بتایا ہے کہ فنی خرابی کے درست ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا مسافروں کے لیے متبادل طیارہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ کب آئے گا ؟کسی کو علم نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیا اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آسکتا ہے۔ ہم اس زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ کو ہوٹل پہنچا دیا جائے گا۔
ڈاکٹر احمدکے لیے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والا تھا۔ آج رات تو اس کی زندگی کی نہایت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس رات کا منتظر تھا کہ جب اس کی تکریم ہونی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ائیر پورٹ کے اعلی افسر کے پاس جا پہنچا، اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں انٹر نیشنل لیول کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے ۔ مجھے آج رات دارالحکومت میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں یہ خبر سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ ۱۶ گھنٹے بعد آئے گا۔متعلقہ افسر نے اسے جواب دیا: محترم ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں ۔
ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نیا طیارہ فوری طور پر فراہم کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔البتہ وہ شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہے، یہاں سے بذریعہ کار سے صرف تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے تو ائیر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے متعلقہ شہر پہنچ جائیں۔ ‘‘
ڈاکٹر احمدلمبی ڈرائیونگ کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ مگر اب یہ مجبوری تھی اس کے پاس کوئی متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔اس نے متعلقہ آفیسرکے مشورے کوپسند کیا اور ایئر پورٹ سے کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیاتھا کہ اچانک موسم خراب ہو نا شروع ہو گیا۔آسمان پر گہرے بادل نمو دار ہوئے۔تیز آندھی اس پر مستزادتھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زور دار بارش شروع ہوگئی اور ہر طرف اندھیر ا چھا گیا۔ موسم کی خرابی کی و جہ سے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ مسلسل چلتا گیا،بالآخر اسے یقین ہو گیاکہ وہ راستے سے بھٹک چکا ہے۔


اب اسے بھوک اور تھکاوٹ کااحساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا۔اس نے سوچا تھا : تین چار گھنٹے ہی کا سفر تو ہے ، ا س لیے اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ لی تھی۔اب اسے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے اسے کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا تھا۔ چاروں طرف رات کا اندھیرا بھی چھا چکا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے غیر شعوری طور پراپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روک دی۔
اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا جب اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آوازاس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہی تھی:جو بھی ہو اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ ڈاکٹراحمدگھر میں داخل ہو اتو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے خاتون سے کہا: اماں! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے، کیا میں اپنا موبائل چارج کر سکتا ہوں؟
بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: میرے بیٹے کون سے فون کی بات کررہے ہو؟ تمھیں معلوم نہیں اس وقت تم کہاں ہو؟ ہما رے ہاں نہ تو بجلی ہے نہ ٹیلی فون،یہ تو ایک چھوٹا سا گائوں ہے، جہاں شہری سہولتوں کاکوئی تصور نہیں ہے پھر اس نے مزید کہا! میرے بیٹے وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھاہے۔لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔راستہ بھٹک گئے ہو۔تم پہلے کھانا لو پھر بات کریںگے۔ لگتا ہے تم خاصا طویل فاصلہ طے کر کے آئے ہو۔ ڈاکٹر احمدنے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔سفر کی تھکاوٹ سے اسے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔اچانک خاتون کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔خا تون نے اس بچے کوتھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔
ڈاکٹراحمدنے کھانا کھایا اور بوڑھی اماں سے کہنے لگا: اماں جان! آپ نے اپنے اخلاق ‘کرم اور میز بانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔آ پ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں ۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ’’میرے بیٹے! وہ بوڑھی گویا ہوئی۔‘‘ میرے اللہ نے میری تمام دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ہا ں بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعفِ ایمان کی وجہ سے پور ی نہیں ہوئی ۔تم تو مسافرہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے۔
ڈاکٹر احمدکہنے لگا: اماں جان وہ کونسی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔آپ مجھے اپنا کام بتائیں میں آ پ کے بیٹے کی طرح ہوں ۔اللہ نے چاہا تو میں اسے ضرورکروں گا۔آپ کی جو مدد میرے بس میں ہو گی ضرور کروں گا۔ خاتون کہنے لگی: میرے عزیز بیٹے !وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیںبلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔اس کے ما ں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اسے ہڈیوں کی ایک بیما ری ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذو ر ہے۔میں نے قریبی حکیموں، مہمانوں سے اس کے بڑے علاج کرائے ہیں مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں ۔
لوگو ں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں ایک ہی ڈا کٹر ہے جو اس ہڈیوں کے علاج کا ما ہر ہے، اس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے۔ وہی اس کا علاج کر سکتاہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دو ر رہتا ہے پھر سنا ہے بہت مہنگا بھی ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ تم میری حالت تو دیکھ ہی رہے ہو،میں بوڑھی جان ہوں۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ اس بچے کا اس ڈاکٹر سے علاج ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ اس یتیم بچے کو شفاء اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں مل جائے۔
ڈاکٹر احمداپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا، راستے میں اُترنا پڑا کار کرائے پر لی، خوب طوفان آیا‘ آندھی او ر بارش آئی، راستہ بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے گھر زبر دستی بھجوا دیا۔اما ں آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ وہ ہڈیوں کا بڑا ڈاکٹر خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا علاج کروں گا۔‘‘
جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کی سنتا ہے تو پھر اس کوپورا کرنے کے لیے اسباب بھی خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔کائنات کی ساری مخلوق چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، اللہ کے حکم اور اس کی مشیّت کی پابند ہے۔ اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی مختلف قوتوں کو کام میں لا کر بوڑھی اماں کی دعا کو پورا
کرنے میں لگا دیا۔ارشاد باری تعالی ہے:
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْن
’’ بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتا ہے، اورتمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے۔ کیااللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو‘‘۔(النمل: ۶۲)

تحریر: عبد المالک مجاہد
حوالہ: اردو ڈائجسٹ شمارہ فروری 2013
 
واقعی نیرنگ خیال بھائی ایمان تازہ ہوگیا۔

ہم سب کی زندگیوں میں روزآنہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ ادھر صدقِ دل سے دعا کی اور ادھر مالک نے اسے شرفِ قبولیت بخش دیا، تو کیوں نہ اس کو ایک مستقل سلسلے کی شکل دے دی جائے۔ ہم سب اپنی زندگی سے ایسے چھوٹے بڑے واقعات شیئر کریں ۔ ہم اسی اثناء میں پچھلے تمام تبصروں کو اس دھاگے سے علیحدہ ایک تبصرے والے دھاگے میں منتقل کردیں گے۔ تو کیا خیال ہے؟َ؟؟؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واقعی نیرنگ خیال بھائی ایمان تازہ ہوگیا۔

ہم سب کی زندگیوں میں روزآنہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ ادھر صدقِ دل سے دعا کی اور ادھر مالک نے اسے شرفِ قبولیت بخش دیا، تو کیوں نہ اس کو ایک مستقل سلسلے کی شکل دے دی جائے۔ ہم سب اپنی زندگی سے ایسے چھوٹے بڑے واقعات شیئر کریں ۔ ہم اسی اثناء میں پچھلے تمام تبصروں کو اس دھاگے سے علیحدہ ایک تبصرے والے دھاگے میں منتقل کردیں گے۔ تو کیا خیال ہے؟َ؟؟؟
کیا خوبصورت خیال ہے سر۔۔۔ ضرور اسکو عملی جامہ پہنایا جائے :)
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ
اچھی خبر ہے پاکستان میں یہی خرابی ہے کہ عوام، اللہ کو چھوڑکرمانگتے ہیں ،، سوئے ہوئے بتوں سے، جاگے ہوئے بتوں سے، انبیاء سے ، اولیاء سے،
مجاوروں سے ، قبر میں مزاروں میں چرسی، موالیوں ملنگڑوں ، ملنگڑیوں سے،،، ایک در اللہ کا چھوڑ نے پر سارے اچھے برے مخلوقات کے دروں
کا سہارا لے کر بھی کچھ نہیں ملتا بس ملتا ہے تو یوم جزاء میں شرک کی سزا جو جہنم کے سوا کچھ نہیں۔
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ " انسان اگر ایک بات کو جان لے تو خالق کے قریب پہنچ جاتا ہے وہ یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے حکم کس کا ماننا ہے طریقہ کونسا ہونا چاہئے۔ جواب میں یہ ہے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ کی کرنی ہے اسے کو پکارنا ہے مخلوقات سے کو غیب میں حاضر ناظر سمجھ کر ، نعوذو باللہ پالنہار سمجھ کر نہیں پکارنا، حکم اللہ کا، اطاعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ، طریقہ بھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا۔
پاکستان میں مسلمان دین میں خوب محنت کرتے ہیں لیکن طریقہ صحابہ کرام کے طریق سے نہیں ملتا، البتہ تاریک دور مکہ کے طریق سے ملتا ہے
جیسے لات ، منات، عزہ بت جو دیگر بتوں کی طرح رکھے تھے یہ لوگ ان کے اول دور کے اچھے انسان تھے کوئی حاجیوں کو پانی پلانے والا کوئی
علاقے کے خدمت گار وغیرہ وغیرہ ، ان کے مرنے کے بعد مکہ والوں نے ان کے مجسمے خانہ کعبہ کے احاطے میں رکھ لیے اور دعاء کرتے رہتے تھے
کہ یہ فلاح تیرے محبوب بندے ہیں ان کے واسطے ہماری دعائیں قبول فرمایا،
آج نام کے مسلمانوں کا بھی یہی بلکہ اس سے بدتر حال ہے ، اگر یہ باتیں قابل قبول نہیں تو تجربے کے طورپر پاکستان میں گھوم پھیر کردیکھ لیں
مسجدوں میں لوگ زیادہ جمع ہوتے ہیں یا مزاروں میں یا پیروں ، چرسیوں ، فقیروں کے اڈوں میں۔

اللہ ہم سب مسلمانوں کو ھدایت دے اور اس کالی اور اندھیر پیری فقیری،مولوی ملاوی،مجاور گدہ نشینوں اور دیگر اسطرح کے جالوں سے آزادی عطا کر اور خالص طریقے کو کرنے کی توفیق دے جو ہم ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ میں پڑھتے ہیں۔
آمین
 

آوازِ دوست

محفلین
جزاک اللہ
اچھی خبر ہے پاکستان میں یہی خرابی ہے کہ عوام، اللہ کو چھوڑکرمانگتے ہیں ،، سوئے ہوئے بتوں سے، جاگے ہوئے بتوں سے، انبیاء سے ، اولیاء سے،
مجاوروں سے ، قبر میں مزاروں میں چرسی، موالیوں ملنگڑوں ، ملنگڑیوں سے،،، ایک در اللہ کا چھوڑ نے پر سارے اچھے برے مخلوقات کے دروں
کا سہارا لے کر بھی کچھ نہیں ملتا بس ملتا ہے تو یوم جزاء میں شرک کی سزا جو جہنم کے سوا کچھ نہیں۔
ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ " انسان اگر ایک بات کو جان لے تو خالق کے قریب پہنچ جاتا ہے وہ یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے حکم کس کا ماننا ہے طریقہ کونسا ہونا چاہئے۔ جواب میں یہ ہے کہ عبادت صرف اور صرف اللہ کی کرنی ہے اسے کو پکارنا ہے مخلوقات سے کو غیب میں حاضر ناظر سمجھ کر ، نعوذو باللہ پالنہار سمجھ کر نہیں پکارنا، حکم اللہ کا، اطاعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ، طریقہ بھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا۔
پاکستان میں مسلمان دین میں خوب محنت کرتے ہیں لیکن طریقہ صحابہ کرام کے طریق سے نہیں ملتا، البتہ تاریک دور مکہ کے طریق سے ملتا ہے
جیسے لات ، منات، عزہ بت جو دیگر بتوں کی طرح رکھے تھے یہ لوگ ان کے اول دور کے اچھے انسان تھے کوئی حاجیوں کو پانی پلانے والا کوئی
علاقے کے خدمت گار وغیرہ وغیرہ ، ان کے مرنے کے بعد مکہ والوں نے ان کے مجسمے خانہ کعبہ کے احاطے میں رکھ لیے اور دعاء کرتے رہتے تھے
کہ یہ فلاح تیرے محبوب بندے ہیں ان کے واسطے ہماری دعائیں قبول فرمایا،
آج نام کے مسلمانوں کا بھی یہی بلکہ اس سے بدتر حال ہے ، اگر یہ باتیں قابل قبول نہیں تو تجربے کے طورپر پاکستان میں گھوم پھیر کردیکھ لیں
مسجدوں میں لوگ زیادہ جمع ہوتے ہیں یا مزاروں میں یا پیروں ، چرسیوں ، فقیروں کے اڈوں میں۔

اللہ ہم سب مسلمانوں کو ھدایت دے اور اس کالی اور اندھیر پیری فقیری،مولوی ملاوی،مجاور گدہ نشینوں اور دیگر اسطرح کے جالوں سے آزادی عطا کر اور خالص طریقے کو کرنے کی توفیق دے جو ہم ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ میں پڑھتے ہیں۔
آمین
توحید بہت آسان تصور ہے اور پہلا کلمہ پڑھنے والا کوئی بھی مسلمان مُشرک نہیں ہے۔ انبیاء کرام، صحابہ کرام، اولیاء اللہ، صالحین اور متقین سے محبت رکھنے میں ہرگز کوئی نقصان نہیں ہے البتہ نظریات کی شدت اور انتہا پسندی سو خرابیوں کی ایک خرابی ہے۔ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے سو جو اُس کی پہچان کے لیے علم والوں کو رہبر جانتے ہیں اُنہیں غلط نہ کہیں۔ حُسن یہی ہے کہ ہر چیز ٹھیک اپنے مقام پر ہو مگر آپ ابتدائی کوشش کرنے والوں کی سہو و خطا سے درگزر کریں۔ ہمیں مفتی بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہم ٹھیک راہ پر ہیں تو دوسرے لوگ مثبت طور پر متاثر ہوں گے۔ مولانا طارق جمیل اِس معاملے میں ایک روشن مثال ہیں جو سب سے محبت کرتے ہیں اوراپنی محبت سے دِل اور صاحبِ دِل دونوں جیت لیتے ہیں۔
 

x boy

محفلین
توحید بہت آسان تصور ہے اور پہلا کلمہ پڑھنے والا کوئی بھی مسلمان مُشرک نہیں ہے۔ انبیاء کرام، صحابہ کرام، اولیاء اللہ، صالحین اور متقین سے محبت رکھنے میں ہرگز کوئی نقصان نہیں ہے البتہ نظریات کی شدت اور انتہا پسندی سو خرابیوں کی ایک خرابی ہے۔ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے سو جو اُس کی پہچان کے لیے علم والوں کو رہبر جانتے ہیں اُنہیں غلط نہ کہیں۔ حُسن یہی ہے کہ ہر چیز ٹھیک اپنے مقام پر ہو مگر آپ ابتدائی کوشش کرنے والوں کی سہو و خطا سے درگزر کریں۔ ہمیں مفتی بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہم ٹھیک راہ پر ہیں تو دوسرے لوگ مثبت طور پر متاثر ہوں گے۔ مولانا طارق جمیل اِس معاملے میں ایک روشن مثال ہیں جو سب سے محبت کرتے ہیں اوراپنی محبت سے دِل اور صاحبِ دِل دونوں جیت لیتے ہیں۔
میرا مراسلہ بے شک آپکی نظر سے گزرا لیکن سمجھ سے نہیں،،،
نام نہاد مسلمان ، اللہ کو چھوڑ کے دوسروں کو پکارنا،مسجد کے بجائے قبروں کو مزاروں کو ، قبے، آستانوں، قطب، زمین میں سوئے ہوئے لوگوں کو جن پتہ بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائنگے، انکو پکارنا، جن کو اپنا پتا نہیں وہ دوسروں کا مدد گار کیسے ہوسکتا ہے اگر پرانے گزرے اچھے مسلمانوں نے نیک کام کیے ہیں تو ان کے نیک کام کے بدلے اللہ ان کے روحوں کو اونچی جگہہ رکھے گا جہاں سے ان کو جنت کی خوشبوں ملتی رہے گی، اللہ نے جن کے قبروں کو روشن کیا ہے ان قبروں کو دنیاوی لائٹ کی ضرورت نہیں، اللہ نے جن قبروں کو اندر سے کشادہ کیا ہے ان قبروں کو باہر کی کسی کشادگی اور زینت کی ضرورت نہیں۔ بس میرے دوست مسلمان یہ بات سمجھ لے، کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی کو نہیں پکارنا ہے ان ہی ھدایات کو کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل نے پہنچایا، آخر میں ہمارے پیار ے نبی محمد عربی رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم آئے، تمام دلوں کے بتوں سمیت قبر اور آستانوں، مزاروں، مندروں ، گرجاگھروں کے بتوں کو باہر کیا،، فارسیوں پر کوشش ہوئی، تاتاریوں پر کوشش ہوئی، افریقا پر کوشش ہوئی، سند و ہند میں پھیلا الحمدللہ
لیکن پھر سے یہ کیا جیسے مولانا حالی صاحب کی نظم کچھ اس طرح اس سلسلے میں ہے،،

کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر
جو ٹہرائے بیٹا خدا کا تو کافر

جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں ما نے کرشمہ تو کافر

مگر مومنوں میں کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں

نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبیوں سے بڑھائیں

مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں

نہ توحید میں خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جا ئے

وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں
ہوا جلوہ حق زمیں و زماں میں

رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
وہ بدلا گیا آکے ہندوستان میں

ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھوبیٹے آخر مسلماں



مولانا الطاف حسین حالی رحمہ اللہ
 

آوازِ دوست

محفلین
میں متفق ہوں بہت کچھ ایسا ہے جو نہیں ہونا چاہیے مگردائرہ اسلام اتنا تنگ نہ کیا جائے کہ ایک وقت میں دو آدمی بھی اُس میں سما نہ سکیں۔ غلطیوں کے ساتھ سیکھنا نہ سیکھنے سے بہتر ہے۔ فی الوقت لغویات پر اتفاق اور اچھی باتوں پر نفاق کی صورتِ حال ہی دیکھنے کو ملتی ہے سوجہاں تک ہو سکے بے لچک نظریات اور دِل آزاری سے بچا جائے تو اچھا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتاہوں۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اورمجھ پر ایمان لائیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہوگا۔‘‘ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اللہ رب العزت اپنے تمام بندوں کی، خواہ وہ نیک ہوں یا گناہگار،عالم ہوں یا جاہل سب کی دعائوں کو سنتا ہے اور انہیں قبول کرتا ہے۔ اپنے اللہ رب العزت سے براہ راست بغیر کسی واسطے سے مانگنے والوں کو وہ محروم نہیں کرتا۔
میری زندگی میں کئی بار ایسے مشاہدات اور تجربات ہوئے کہ میںنے نوٹ کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہماری دعائوں کو قبول کرنے کے حالات پیدا کردیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دعاقبول ہوجاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک دن صبح سویرے مجھے اپنے خاندان کی ایک بیوہ خاتون کے بارے میں خیال آنا شروع ہوا کہ نجانے ان کے کیا حالات ہوں گے وہ کیسی ہوں گی۔وہ میری دور کی رشتہ دار ہیں اور کافی مدت پہلے بیوہ ہوگئیں۔میں ان کے بارے میں سوچتا رہا اور اپنے آپ کو ملامت بھی کرتا رہا کہ میں نے ان کو کتنی مدت ہوئی فون نہیں کیا۔نہ ہی ان کے حالات دریافت کیے ہیں۔
ذہن میں آیا کہ اگر ان کی طرف سے فون آیا، کوئی فرمائش ہوئی یا انھیں میری کسی مدد کی ضرورت ہوئی تو میں انشاء اللہ اسے ضرور پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔ عصر کے بعد ان کا فون آگیا کہ ’’میں کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ تمھیں فون کروں ۔دراصل مجھے کچھ مالی مدد درکار ہے۔‘‘ میں نے فورا پوچھا ’’ہاں ہاں بتائیے‘‘ اور پھر اسی وقت میں نے ان کی ضرورت پوری کرنے کی حامی بھرلی۔فون بند ہوا تومیں نے کہا ’’واہ میرے رب تو کتنا مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔ تو کیسے کیسے اسباب بناتا ہے۔آج صبح تونے پہلے میر ے دل میں یہ خیال ڈالا اور ذہنی طور پر مجھے اس کی مدد کے لیے تیار کیا اور پھر شام تک اس کا کام بھی کرادیا۔اس کے بقول وہ کئی روز سے سوچ رہی تھی اور دعا کر رہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس کے کام کا سبب بنا دے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایاہے:
[ARABIC]وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَکُمْ[/ARABIC] ’’تمہارے رب نے حکم دیا ہے: مجھے پکارو میں تمہاری دعائوں کو قبول کرنے والا ہوں‘‘۔
میں دعائوں کی قبولیت کے سنہرے واقعات نامی ایک کتاب مرتب کر رہا تھا، اس میں ایک خوبصورت واقعہ نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس واقعے نے ایمان تازہ کر دیا۔ اس کا نام ڈاکٹر احمد تھا اور وہ سعودی عرب کا معروف طبیب تھا۔ لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے کئی کئی دن تک انتظار کرتے۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔دارالحکومت میں ایک انٹر نیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ اس کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں نہ صرف کلیدی مقالہ پڑھے گا بلکہ اس موقع پر اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے۔ڈاکٹر احمداپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔
وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کی فنی خرابی کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد ائیر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا:خواتین وحضرات! انجینئر نے بتایا ہے کہ فنی خرابی کے درست ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا مسافروں کے لیے متبادل طیارہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ کب آئے گا ؟کسی کو علم نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیا اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آسکتا ہے۔ ہم اس زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ کو ہوٹل پہنچا دیا جائے گا۔
ڈاکٹر احمدکے لیے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والا تھا۔ آج رات تو اس کی زندگی کی نہایت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس رات کا منتظر تھا کہ جب اس کی تکریم ہونی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ائیر پورٹ کے اعلی افسر کے پاس جا پہنچا، اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں انٹر نیشنل لیول کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے ۔ مجھے آج رات دارالحکومت میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں یہ خبر سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ ۱۶ گھنٹے بعد آئے گا۔متعلقہ افسر نے اسے جواب دیا: محترم ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں ۔
ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نیا طیارہ فوری طور پر فراہم کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔البتہ وہ شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہے، یہاں سے بذریعہ کار سے صرف تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے تو ائیر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے متعلقہ شہر پہنچ جائیں۔ ‘‘
ڈاکٹر احمدلمبی ڈرائیونگ کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ مگر اب یہ مجبوری تھی اس کے پاس کوئی متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔اس نے متعلقہ آفیسرکے مشورے کوپسند کیا اور ایئر پورٹ سے کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیاتھا کہ اچانک موسم خراب ہو نا شروع ہو گیا۔آسمان پر گہرے بادل نمو دار ہوئے۔تیز آندھی اس پر مستزادتھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زور دار بارش شروع ہوگئی اور ہر طرف اندھیر ا چھا گیا۔ موسم کی خرابی کی و جہ سے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ مسلسل چلتا گیا،بالآخر اسے یقین ہو گیاکہ وہ راستے سے بھٹک چکا ہے۔


اب اسے بھوک اور تھکاوٹ کااحساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا۔اس نے سوچا تھا : تین چار گھنٹے ہی کا سفر تو ہے ، ا س لیے اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ لی تھی۔اب اسے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے اسے کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا تھا۔ چاروں طرف رات کا اندھیرا بھی چھا چکا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے غیر شعوری طور پراپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روک دی۔
اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا جب اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آوازاس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہی تھی:جو بھی ہو اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ ڈاکٹراحمدگھر میں داخل ہو اتو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے خاتون سے کہا: اماں! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے، کیا میں اپنا موبائل چارج کر سکتا ہوں؟
بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: میرے بیٹے کون سے فون کی بات کررہے ہو؟ تمھیں معلوم نہیں اس وقت تم کہاں ہو؟ ہما رے ہاں نہ تو بجلی ہے نہ ٹیلی فون،یہ تو ایک چھوٹا سا گائوں ہے، جہاں شہری سہولتوں کاکوئی تصور نہیں ہے پھر اس نے مزید کہا! میرے بیٹے وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھاہے۔لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔راستہ بھٹک گئے ہو۔تم پہلے کھانا لو پھر بات کریںگے۔ لگتا ہے تم خاصا طویل فاصلہ طے کر کے آئے ہو۔ ڈاکٹر احمدنے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔سفر کی تھکاوٹ سے اسے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔اچانک خاتون کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔خا تون نے اس بچے کوتھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔
ڈاکٹراحمدنے کھانا کھایا اور بوڑھی اماں سے کہنے لگا: اماں جان! آپ نے اپنے اخلاق ‘کرم اور میز بانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔آ پ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں ۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ’’میرے بیٹے! وہ بوڑھی گویا ہوئی۔‘‘ میرے اللہ نے میری تمام دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ہا ں بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعفِ ایمان کی وجہ سے پور ی نہیں ہوئی ۔تم تو مسافرہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے۔
ڈاکٹر احمدکہنے لگا: اماں جان وہ کونسی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔آپ مجھے اپنا کام بتائیں میں آ پ کے بیٹے کی طرح ہوں ۔اللہ نے چاہا تو میں اسے ضرورکروں گا۔آپ کی جو مدد میرے بس میں ہو گی ضرور کروں گا۔ خاتون کہنے لگی: میرے عزیز بیٹے !وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیںبلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔اس کے ما ں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اسے ہڈیوں کی ایک بیما ری ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذو ر ہے۔میں نے قریبی حکیموں، مہمانوں سے اس کے بڑے علاج کرائے ہیں مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں ۔
لوگو ں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں ایک ہی ڈا کٹر ہے جو اس ہڈیوں کے علاج کا ما ہر ہے، اس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے۔ وہی اس کا علاج کر سکتاہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دو ر رہتا ہے پھر سنا ہے بہت مہنگا بھی ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ تم میری حالت تو دیکھ ہی رہے ہو،میں بوڑھی جان ہوں۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ اس بچے کا اس ڈاکٹر سے علاج ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ اس یتیم بچے کو شفاء اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں مل جائے۔
ڈاکٹر احمداپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا، راستے میں اُترنا پڑا کار کرائے پر لی، خوب طوفان آیا‘ آندھی او ر بارش آئی، راستہ بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے گھر زبر دستی بھجوا دیا۔اما ں آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ وہ ہڈیوں کا بڑا ڈاکٹر خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا علاج کروں گا۔‘‘
جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کی سنتا ہے تو پھر اس کوپورا کرنے کے لیے اسباب بھی خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔کائنات کی ساری مخلوق چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، اللہ کے حکم اور اس کی مشیّت کی پابند ہے۔ اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی مختلف قوتوں کو کام میں لا کر بوڑھی اماں کی دعا کو پورا
کرنے میں لگا دیا۔ارشاد باری تعالی ہے:
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْن
’’ بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتا ہے، اورتمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے۔ کیااللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو‘‘۔(النمل: ۶۲)

تحریر: عبد المالک مجاہد
حوالہ: اردو ڈائجسٹ شمارہ فروری 2013

الحمدللہ! آخر" آج" یہ تحریر پڑھ ہی لی۔ محمد عبدالرؤوف بھائی کا شکریہ کہ جنہوں نے اس سلسلے کو تازہ کیا۔

نین بھائی تحریر واقعی خوبصورت ہے اور مبنی بر حقیقت ہے۔ ڈاکٹر والا واقعہ گاہے گاہے کہیں نہ کہیں پڑھنے کو ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ واقعی سب کی دعائیں سُنتا ہے اور قبول بھی کرتا ہے۔ بس اُسے سچے دل سے پکاریں اور یہ سمجھ کر پکاریں کہ بس اسی در سے میرا مسئلہ حل ہونا ہے۔ یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الحمدللہ! آخر" آج" یہ تحریر پڑھ ہی لی۔ @محمد عبدالرؤوف بھائی کا شکریہ کہ جنہوں نے اس سلسلے کو تازہ کیا۔
مجھے یاد پڑتا ہے نیرنگ خیال کوچہ آلکساں میں ایک مقابلہ منعقد کروا رہے ہیں۔
نین بھائی اب بتائیے، مقابلے کا ارادہ ہے یا بلا مقابلہ انعام دینے کا۔😄
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
الحمدللہ! آخر" آج" یہ تحریر پڑھ ہی لی۔ محمد عبدالرؤوف بھائی کا شکریہ کہ جنہوں نے اس سلسلے کو تازہ کیا۔

نین بھائی تحریر واقعی خوبصورت ہے اور مبنی بر حقیقت ہے۔ ڈاکٹر والا واقعہ گاہے گاہے کہیں نہ کہیں پڑھنے کو ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ واقعی سب کی دعائیں سُنتا ہے اور قبول بھی کرتا ہے۔ بس اُسے سچے دل سے پکاریں اور یہ سمجھ کر پکاریں کہ بس اسی در سے میرا مسئلہ حل ہونا ہے۔ یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔
بے شک احمد بھائی۔۔۔ ہاں یہ ڈاکٹر والا قصہ فیس بک کی نذر ہوگیا نا۔۔۔ اب منقول لکھ لکھ کر دو سطریں بدلتی رہتی ہیں۔
 
Top