کتا ب و سنت ڈاٹ کام کی لائیبریری سے...

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
خلاصۃ التجوید
مصنف
قاری اظہار احمد تھانوی
ناشر
قرآءت اکیڈمی لاہور

تبصرہ​
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر اب تک عربی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بہت سارے رسائل و کتب لکھی جا چکی ہیں۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خلاصۃ التجوید‘‘ علم تجوید وقراءات کے میدان کے ماہر شیخ القراء قاری اظہار احمد تھانوی صاحبکی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے علم تجوید کے مسائل کو انتہائی آسان اور مختصر انداز میں بیان کردیا ہے۔ شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
 

عبد المعز

محفلین
تبصرہ
قرآن مجید وہ عظیم الشان آخری آسمانی کتاب ہے ،جسے اللہ تعالی نے انسانیت کی رشد وہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے۔یہ اسلام کا سب سے پہلا منبع ومصدر ہے۔جب تک مسلمانوں نے اسے تھامے رکھا ،دنیا کی سپر پاور اور راہبر و راہنما رہے ، اور جب اسے ترک کر دیا تو ذلت ورسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے۔دشمنان اسلام کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو اس مصدر اول اور منبع ہدایت سے دور کردیں یا اس کے بارے میں اس کے قلوب واذہان میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں۔چونکہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لے رکھا ہے ،چنانچہ دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی جہالتوں کے باوجود قرآن مجید آج بھی بالکل صحیح سلامت اور تحریف وتصحیف سے محفوظ رنگ کائنات پر جلوہ افروز ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ قرآن اور سائنس ‘‘ ہندوستان کے معروف داعی اور مبلغ محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک کی انگریزی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے اور ترجمہ کرنے کی سعادت محترم علیم احمد صاحب ایڈیٹر ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی نے حاصل کی ہے۔ محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک ہندوستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں ،اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا ،آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔لیکن اللہ کے سوا کوئی بھی شخصیت کامل نہیں ہے ،اور اس سے غلطی سرزد ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں۔مترجم چونکہ خود شعبہ سائنس سے منسلک ہیں چنانچہ انہوں نے جہاں اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے وہیں اس میں وارد بعض غلطیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
 

عبد المعز

محفلین
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے۔آٹھویں صدی ہجری کے مؤرخ ومفسر حافظ عماد الدین بن عمر المعروف حافظ ابن کثیر نےایک تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ تحریر فرمائی جس کواللہ تعالیٰ نے قبول امت کا درجہ عطا فرمایا جس میں امام ابن کثیر نے اپنے وقت کے تمام ذرائع بروئے کار لاکر اس میں احادیث وآثار کے علاوہ بنی اسرائیل کی روایات سے بعض قصص بھی نقل کیے ۔ اس تفسیر کو بلاشبہ ہر دور میں بےحد قبول عام حاصل ہوا۔ اصل عربی کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے ۔ہندوستان کے مختلف اہل علم نے اس کا اردوزبان میں ترجمہ کیا جن میں مولانا محمدجوناگڑھی کےترجمہ کو بڑی مقبولیت حاصل ہے اسی ترجمہ کو آج تک شائع کیا جارہا ہے ۔تفسیر ابن کثیر کا ایک ترجمہ مولانا محمدداود راغب رحمانی نے الفضل الکبیر کےنام سے کیا اور دس جلدوں میں شائع کیا۔ زیر تبصرہ کتاب’’تفسیر السراج المنیر تلخیص تفسیر ابن کثیر‘‘ در اصل الفضل االکبیر ترجمہ تفسیر ابن کثیر اردو کی تلخیص وتہذیب ہے ۔ الفضل الکبیرکی تلخیص وتہذیب اور اس میں اضافہ کا یہ اہم کام ہندوسنان کے معروف عالم دین حال مقیم سعودی عرب جناب مولانا ابو الاشبال احمد شاغف نے انجام دیا ہے ۔المکتبۃ السلفیۃ،لاہور نے اسے دو ضخیم جلدوںمیں حسن طباعت سےآراستہ کیا ہے ۔ اس تفسیر میں فقہی مسائل اورائمہ کےاختلافات بیان کرنے سے امکانی حد تک احتراز کیا گیا ہے تاکہ عام مسلمانوں تک اللہ اوراس کےرسول اللہ ﷺ کی سیدھی سیدھی باتیں پہنچ جائیں۔اور اس میں تفسیر بالرائے سے قطعی اجتناب کیا گیا ہے کیونکہ اللہ کے رسول نےتفسیر بالرائے سے منع فرمایا ہے ۔ قارئین کرام مطالعہ کرنے کے بعد تفسیر السراج المنیرکو ایک مستقل تفسیر خیال فرمائیں گے ۔ان شاء اللہ (م۔ا)
 

x boy

محفلین
جزاک اللہ
کچھ دنوں قبل اسی محفل پر کچھ زیادہ پڑھے لکھوں نے شور مچایا تھا کہ مذہب اور سائنس علیحدہ باتیں ہیں ان کے لئے ان شاء اللہ باعث نجات و رحمت ہوگی یہ کتاب۔
 

arifkarim

معطل
جزاک اللہ
کچھ دنوں قبل اسی محفل پر کچھ زیادہ پڑھے لکھوں نے شور مچایا تھا کہ مذہب اور سائنس علیحدہ باتیں ہیں ان کے لئے ان شاء اللہ باعث نجات و رحمت ہوگی یہ کتاب۔
مذہب اور سائنس دو الگ الگ مضامین اور فلاسفیز ہیں۔ جو مذہبی جنونی ان دو کو ملانے کیلئے کوشاں ہیں انہیں سائنس کی الف ب بھی نہیں آتی۔
 

عبدالحسیب

محفلین
جزاک اللہ
کچھ دنوں قبل اسی محفل پر کچھ زیادہ پڑھے لکھوں نے شور مچایا تھا کہ مذہب اور سائنس علیحدہ باتیں ہیں ان کے لئے ان شاء اللہ باعث نجات و رحمت ہوگی یہ کتاب۔
مذہب اور سائنس دو الگ الگ مضامین اور فلاسفیز ہیں۔ جو مذہبی جنونی ان دو کو ملانے کیلئے کوشاں ہیں انہیں سائنس کی الف ب بھی نہیں آتی۔
گستاخی کی پیش گی معزرت کے ساتھ۔:)
اور جو دونوں کو ایک دوسرے کی بلکل ضد ثابت کرنا چاہتے ہیں انھیں دونوں کی بھی الف ب نہیں آتی :)
 

arifkarim

معطل
گستاخی کی پیش گی معزرت کے ساتھ۔:)
اور جو دونوں کو ایک دوسرے کی بلکل ضد ثابت کرنا چاہتے ہیں انھیں دونوں کی بھی الف ب نہیں آتی :)
بفضل تعالیٰ خاکسار کا مذہب اور سائنس میں یکساں مطالعہ ہے اور ان دونوں کی لمبی قربت ہی کی وجہ سے یہ بات کہی ہے کہ سائنس اور مذہب کا آپس میں کوئی ملاپ نہیں۔
سائنس کا مطلب قدرت کا مشاہدہ، معائنہ اور اس سے آزاد و خودمختار نتیجہ اخذ کرنا ہے جو کہ نہ تو مذہبی تعلیمات کی طرح اٹل ہوتا ہے اور نہ ہی حتمی۔ مطلب 19 ویں صدی کی سائنس کچھ اور کہتی تھی، 20 ویں صدی کی سائنس اور 21 ویں صدی کی سائنس بالکل مختلف ہوگی۔ جوں جوں سائنسی علوم میں ترقی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے پرانے مشاہدات کی روشنی میں حاصل ہونے والے علوم معدوم اور نئے علوم قائم ہونے لگتے ہیں۔
اسکی ایک مثال آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت جس نے نیوٹن کے دور کی فزکس کو رد کیا اور ایک نئی سوچ کا آغاز کیا۔ اگر نیوٹن سائندان ہونے کی بجائے کسی مذہب کا بانی ہوتا تو اسکے پیروکار آئنسٹائن کو نظریہ اضافیت پیش کرنے اور نیوٹن کی "تعلیمات" رد کرنے کے جُرم میں پھانسی کی سزا دے دیتے۔ الحمدللہ ایسا نہیں ہوا اور آج سائنس دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کر رہی ہے :)
http://science.howstuffworks.com/dictionary/physics-terms/physics-info5.htm

اسکے برعکس مذہبی و دینی تعلیمات اٹل اور اپنی ساخت میں حتمی ہیں۔ جو مذہبی علوم ہمیں 1400 سال قبل (اسلام)، 2000 سال قبل (عیسائیت) یا 4000 ہزار قبل (یہودیت) مل گئے ان میں رد و بدل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بیشک قدرتی مشاہدہ معائنہ بدلتا رہے۔ ایسے میں سائنس اور مذہب ایک کیسے ہو سکتے ہیں جب سائنس مسلسل ارتقاء کر رہی ہو اور مذہب اپنی جگہ پر ساکن ہو؟ :)

یہاں ایک اور گستاخی کرتا چلوں کہ آجکل قریباً ہر مذہب کے پیروکار نت نئی ہونے والی سائنسی ایجادات و دریافت کا سارا کریڈٹ اپنے مذہب کو دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ تو ہمیں "پہلے سے" پتا تھا۔ بھئی اگر پتا تھا تو سائنسی دریافت ہونے سے قبل کیا جھک مار رہے تھے؟ :)
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
مذہب اور سائنس دو الگ الگ مضامین اور فلاسفیز ہیں۔ جو مذہبی جنونی ان دو کو ملانے کیلئے کوشاں ہیں انہیں سائنس کی الف ب بھی نہیں آتی۔
سائنس مذہب نہیں ہے لیکن قرآن الکریم میں سائنس کی بہت سی نشانیاں دی ہیں جو سائنٹس 24 گھنٹے ہفتے کے سات دن مہینے کے 30 31 یا 28 دن سال کے بارا مہینے حتی کہ اپنی پوری ذندگی سائنس کی ایک فیلڈ میں لگادیتے ہیں جس سے کچھ حاصل ہوتا ہے پھر قرآن الکریم میں جو لکھی ہے وہ ملتا ہے جیسے بگ بنگ، بچے کی پیدائش کے مراحل، سورج چاند زمین کا تیرنا ہزاروں نشانیاں ہیں اللہ نے زمین کی چیزوں کو انسان کے لئے ہی بنایا ہے اس میں سے کچھ حاصل کرنا ایک سے دوسرے کو ملاکر اپنے لئے فائدے لینے سے منع نہیں کیا ،، زمین ہے ہی انسانوں کے لئے یہاں سے چل کر آخرت کو جانا ہے یہ سفر تو جاری رہے گا جب تک اللہ رب العزت چاہے گے، سائنسی ایجادات میں مسلم سائنٹس کی جو تھیوریاں یا پریکٹیکل ہے آج جدید کے سائنسدان بھی فائدہ اٹھارہے ہیں
یہ کچھ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے مسلمان سائنس میں پیچھے ہوگیا، مسلم حکمرانی کے زیادہ تر باب بھی تاریک ہے جبکہ عوام کے عزم اور کلچر
میں تقریبا ٹھیک رہے پھر اکثر عوام بھی حکمرانوں کے طبعیت سا ہوگئے دربار شاعری ناچ گانا ہوگیا،،
دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 24 گھنٹے کی ذندگی کے آداب کا سائنس بتایا، کھانا کسطرح کھانا ہے ، پانی کسطرح پینا ہے چلنا کسطرح سے ہے
سونا کس کروٹ ہے پہنا کسطرح ، نہانا کسطرح، صفائی ذندگی میں کسطرح رکھنی ہے بغل کے بال سطر کے بال کو شیو کرنا ہے ازدواجی ذندگی کے سائنس
شادی کرنی ہے انسانوں کی طرح سیکس کرنا ہے بچے پیدا کرنے ہیں ان کی تربیت اچھی کرنی ہے ان کو بیماریوں سے بچانا ہے اور اس کے بچاؤ کی تدابیر کی سائنس کو ذہن میں رکھنا ہے صحابہ کرام اجمعین رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہر چیز بتلاڈالی حتی کہ ایک پرندہ اڑتا ہوا نظر آتا تو اس کے بارہ میں بھی بتاتے،، مسلمانوں نے یہ سب تعلیم کھودیا اسلئے پستی میں ہے ہر سائنس کی ابتداء انسان کے جاگنے سے ہوتی ہے جس کے بارہ میں اگر مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ذہن میں رکھے تو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیگا۔
پانچ وقت کی نماز ضرور پڑھیے کم کھائیے فضول منہ بھر کر نہ رہئے، زبان کو بند رکھئے،صبح سویرے اٹھیے، صفائی کا خیال رکھیں ، پیشاب پاخابہ کرنے کے آداب سیکھیں یہ سب سائنس ہے ، آج سائنس کہہ رہی ہے کہ " کموڈ باول" سے آدمی اچھی طرح ریلیکس نہیں ہوسکتا جبکہ انسان کے لئے ڈبلیو سی والا طریقہ بہتر ہے ۔ اور کیا کیا بتاؤ ،،،،،،، اتنی ساری کتابیں پڑھیں ہیں اوپر والے کتاب کا بھی مطالعہ کرلیجئے،،، اور قرآن الکریم کا مطالعہ روز کیجئے بمع معنی اور تھوڑا سا گنجائش نکال کر طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنے کی کوشش کیجئے۔۔۔ مسلمانوں پر بڑا احسان کرینگے ، ان شاء اللہ
 

arifkarim

معطل
سائنس مذہب نہیں ہے لیکن قرآن الکریم میں سائنس کی بہت سی نشانیاں دی ہیں جو سائنٹس 24 گھنٹے ہفتے کے سات دن مہینے کے 30 31 یا 28 دن سال کے بارا مہینے حتی کہ اپنی پوری ذندگی سائنس کی ایک فیلڈ میں لگادیتے ہیں جس سے کچھ حاصل ہوتا ہے پھر قرآن الکریم میں جو لکھی ہے وہ ملتا ہے جیسے بگ بنگ، بچے کی پیدائش کے مراحل، سورج چاند زمین کا تیرنا ہزاروں نشانیاں ہیں اللہ نے زمین کی چیزوں کو انسان کے لئے ہی بنایا ہے اس میں سے کچھ حاصل کرنا ایک سے دوسرے کو ملاکر اپنے لئے فائدے لینے سے منع نہیں کیا ،، زمین ہے ہی انسانوں کے لئے یہاں سے چل کر آخرت کو جانا ہے یہ سفر تو جاری رہے گا جب تک اللہ رب العزت چاہے گے، سائنسی ایجادات میں مسلم سائنٹس کی جو تھیوریاں یا پریکٹیکل ہے آج جدید کے سائنسدان بھی فائدہ اٹھارہے ہیں
یہ کچھ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے مسلمان سائنس میں پیچھے ہوگیا، مسلم حکمرانی کے زیادہ تر باب بھی تاریک ہے جبکہ عوام کے عزم اور کلچر
میں تقریبا ٹھیک رہے پھر اکثر عوام بھی حکمرانوں کے طبعیت سا ہوگئے دربار شاعری ناچ گانا ہوگیا،،
دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 24 گھنٹے کی ذندگی کے آداب کا سائنس بتایا، کھانا کسطرح کھانا ہے ، پانی کسطرح پینا ہے چلنا کسطرح سے ہے
سونا کس کروٹ ہے پہنا کسطرح ، نہانا کسطرح، صفائی ذندگی میں کسطرح رکھنی ہے بغل کے بال سطر کے بال کو شیو کرنا ہے ازدواجی ذندگی کے سائنس
شادی کرنی ہے انسانوں کی طرح سیکس کرنا ہے بچے پیدا کرنے ہیں ان کی تربیت اچھی کرنی ہے ان کو بیماریوں سے بچانا ہے اور اس کے بچاؤ کی تدابیر کی سائنس کو ذہن میں رکھنا ہے صحابہ کرام اجمعین رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہر چیز بتلاڈالی حتی کہ ایک پرندہ اڑتا ہوا نظر آتا تو اس کے بارہ میں بھی بتاتے،، مسلمانوں نے یہ سب تعلیم کھودیا اسلئے پستی میں ہے ہر سائنس کی ابتداء انسان کے جاگنے سے ہوتی ہے جس کے بارہ میں اگر مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ذہن میں رکھے تو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیگا۔
پانچ وقت کی نماز ضرور پڑھیے کم کھائیے فضول منہ بھر کر نہ رہئے، زبان کو بند رکھئے،صبح سویرے اٹھیے، صفائی کا خیال رکھیں ، پیشاب پاخابہ کرنے کے آداب سیکھیں یہ سب سائنس ہے ، آج سائنس کہہ رہی ہے کہ " کموڈ باول" سے آدمی اچھی طرح ریلیکس نہیں ہوسکتا جبکہ انسان کے لئے ڈبلیو سی والا طریقہ بہتر ہے ۔ اور کیا کیا بتاؤ ،،،،،،، اتنی ساری کتابیں پڑھیں ہیں اوپر والے کتاب کا بھی مطالعہ کرلیجئے،،، اور قرآن الکریم کا مطالعہ روز کیجئے بمع معنی اور تھوڑا سا گنجائش نکال کر طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنے کی کوشش کیجئے۔۔۔ مسلمانوں پر بڑا احسان کرینگے ، ان شاء اللہ
یہ سب اسلامی احکامات، روایات اور تعلیمات ہیں۔ انکا مغربی سائنس سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ یا لینا دینا نہیں۔ دین اٹل ہے جبکہ سائنس ارتقائی ہے۔
 

x boy

محفلین
یہ سب اسلامی احکامات، روایات اور تعلیمات ہیں۔ انکا مغربی سائنس سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ یا لینا دینا نہیں۔ دین اٹل ہے جبکہ سائنس ارتقائی ہے۔

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
 

عبدالحسیب

محفلین
بفضل تعالیٰ خاکسار کا مذہب اور سائنس میں یکساں مطالعہ ہے اور ان دونوں کی لمبی قربت ہی کی وجہ سے یہ بات کہی ہے کہ سائنس اور مذہب کا آپس میں کوئی ملاپ نہیں۔
سائنس کا مطلب قدرت کا مشاہدہ، معائنہ اور اس سے آزاد و خودمختار نتیجہ اخذ کرنا ہے جو کہ نہ تو مذہبی تعلیمات کی طرح اٹل ہوتا ہے اور نہ ہی حتمی۔ مطلب 19 ویں صدی کی سائنس کچھ اور کہتی تھی، 20 ویں صدی کی سائنس اور 21 ویں صدی کی سائنس بالکل مختلف ہوگی۔ جوں جوں سائنسی علوم میں ترقی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے پرانے مشاہدات کی روشنی میں حاصل ہونے والے علوم معدوم اور نئے علوم قائم ہونے لگتے ہیں۔
اسکی ایک مثال آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت جس نے نیوٹن کے دور کی فزکس کو رد کیا اور ایک نئی سوچ کا آغاز کیا۔ اگر نیوٹن سائندان ہونے کی بجائے کسی مذہب کا بانی ہوتا تو اسکے پیروکار آئنسٹائن کو نظریہ اضافیت پیش کرنے اور نیوٹن کی "تعلیمات" رد کرنے کے جُرم میں پھانسی کی سزا دے دیتے۔ الحمدللہ ایسا نہیں ہوا اور آج سائنس دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کر رہی ہے :)
http://science.howstuffworks.com/dictionary/physics-terms/physics-info5.htm

اسکے برعکس مذہبی و دینی تعلیمات اٹل اور اپنی ساخت میں حتمی ہیں۔ جو مذہبی علوم ہمیں 1400 سال قبل (اسلام)، 2000 سال قبل (عیسائیت) یا 4000 ہزار قبل (یہودیت) مل گئے ان میں رد و بدل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بیشک قدرتی مشاہدہ معائنہ بدلتا رہے۔ ایسے میں سائنس اور مذہب ایک کیسے ہو سکتے ہیں جب سائنس مسلسل ارتقاء کر رہی ہو اور مذہب اپنی جگہ پر ساکن ہو؟ :)

یہاں ایک اور گستاخی کرتا چلوں کہ آجکل قریباً ہر مذہب کے پیروکار نت نئی ہونے والی سائنسی ایجادات و دریافت کا سارا کریڈٹ اپنے مذہب کو دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ تو ہمیں "پہلے سے" پتا تھا۔ بھئی اگر پتا تھا تو سائنسی دریافت ہونے سے قبل کیا جھک مار رہے تھے؟ :)
بلکل ضد ہونے سے مراد یہ نہیں کہ دونوں ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہیں۔ میری حقیر رائے میں کارخانئہ قدرت میں کوئی بھی چیز مکرر نہیں ہوتی۔ ہر ایک کی اپنی امتیازی خصوصیت ہے ۔ کسی چیز کا مکرر ہونا دراصل اس کا زیاں ہونا ہے۔یہاں جو دو فریقین زیرِ بحث ہیں اُن میں سے ایک نے یہ اخذ کر دیا ہے کہ دراصل سائنس ہی مذہبِ دور جدید ہے یوں یہ 'بلکل تضاد' کی رائے بنی اور فریقِ مخالف کے مطابق ، کوئی تضاد ہی نہیں یعنی 'سکہ کے دو رُخ' ۔ میرا اختلاف دونوں اصطلاح سےہے۔
 

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
تفہیم مباحث فی علوم القرآن
مصنف
محمد جمیل شیدا رحمانی
ناشر
آزاد بک ڈپو لاہور
title-pages-tafhem-e-mubahis-fi-uloom-al-quran-copy.jpg

تبصرہ
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصاراس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔اس عظیم الشان کتاب نے تاریخِ انسانی کا رخ موڑ دیا ہے ۔ دنیابھر کی بے شمارجامعات،مدارس ومساجد میں قرآن حکیم کی تعلیم وتبلیغ اور درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے۔جس کثرت سے اللہ تعالیٰ کی اس پاک ومقدس کتاب کی تلاوت ہوتی ہے دنیا کی کسی کتاب کی نہیں ہوتی ۔ مگر تعجب وحیرت کی بات ہے کہ ہم میں پھر بھی ایمان وعمل کی وہ روح پیدا نہیں ہوتی جو قرآن نےعرب کے وحشیوں میں پیدا کر دی تھی۔ یہ قرآن ہی کا اعجاز تھا کہ اس نے مسِ خام کو کندن بنادیا او ر ایسی بلند کردار قوم پیدا کی جس نے دنیا میں حق وصداقت کا بول بالا کیا اور بڑی بڑی سرکش اور جابر سلطنتوں کی بساط اُلٹ دی ۔ مگڑ افسوس ہے کہ تاریخ کے یہ حقائق افسانۂ ماضی بن کر رہ گئے ۔ ہم نے دنیا والوں کواپنے عروج واقبال کی داستانیں تو مزے لے لے کر سنائیں لیکن خود قرآن سے کچھ حاصل نہ کیا ۔جاہل تو جاہل پڑھے لکھےلوگ بھی قرآن سےبے بہرہ ہیں۔قرآن کریم کو سمجھنے اور سمجھانے کے بنیادی اصول اور ضابطے یہی ہیں کہ قرآن کریم کو قرآنی اور نبوی علوم سےہی سمجھا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب’’تفہیم مباحث فی علوم القرآن ‘‘ مناع القطان کی قرآنی علوم پر مشتمل کتاب مباحث فی علوم القرآن کی تفہیم وتلخیص ہے ۔اصل کتاب عربی زبان میں ہے اور اکثر مدارس دینیہ اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے ۔مصنف نے اختصار کے ساتھ تمام علوم قرآنی کا اس میں احاطہ کردیا ہے۔ جہاں پانچ دس مثالیں بیان کی جاسکتی تھی وہاں ایک دو جامع مثالیں ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے تاکہ قاری زیادہ بوجھ محسوس نہ کرے ۔محترم جناب محمد جمیل شیدا رحمانی صاحب نے اردو زبان میں اس کا اختصار اور تفہیم کواس انداز سے پیش کیا ہے کہ ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات اور شہادۃ العالمیہ کے طلبہ وطالبات نیز جج صاحبان اور اسلامی علوم سے دلچسپی رکھنے والے وکلاء اس کتاب سے اب آسانی سے خاطر خواہ استفادہ کرسکتے ہیں۔(م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
قرآن اور جدید سائنس حیرت آفریں سائنسی اکتشافات
مصنف
پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم
ناشر
فیروز سنز لاہور،راولپنڈی،کراچی
title-pages-quran-aur-jadeed-science-hairat-aafrein-scienci-iktshafat-copy.jpg

تبصرہ
قرآن مجید وہ عظیم الشان آخری آسمانی کتاب ہے ،جسے اللہ تعالی نے انسانیت کی رشد وہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے۔یہ اسلام کا سب سے پہلا منبع ومصدر ہے۔جب تک مسلمانوں نے اسے تھامے رکھا ،دنیا کی سپر پاور اور راہبر و راہنما رہے ، اور جب اسے ترک کر دیا تو ذلت ورسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے۔دشمنان اسلام کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو اس مصدر اول اور منبع ہدایت سے دور کردیں یا اس کے بارے میں اس کے قلوب واذہان میں شکوک وشبہات پیدا کر دیں۔چونکہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لے رکھا ہے ،چنانچہ دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی جہالتوں کے باوجود قرآن مجید آج بھی بالکل صحیح سلامت اور تحریف وتصحیف سے محفوظ رنگ کائنات پر جلوہ افروز ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "قرآن اور جدید سائنس، حیرت آفریں سائنسی اکتشافات"محترم پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا ،آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
 

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
تقاریر و خطابات سید ابوبکر غزنوی 
مصنف
پروفیسر سید ابوبکر غزنوی
ناشر
فاران اکیڈمی لاہور
title-pages-taqareer-w-khatabat-sayyad-abu-bakar-gazanwi-copy.jpg

تبصرہ
پروفیسر سید ابو بکر غزنوی﷫ پا ک وہندکے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو اپنےعلمی عملی اور اصلاحی کا رناموں کے بدولت منفر د و ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور جس کی دینی وسیاسی خدمات اس سرزمین میں مسلمانوں کے تاریخ کا ایک زریں باب ہیں۔اس خطۂ ارضی میں ان کے مورث اعلیٰ سید عبداللہ غزنوی ﷫اپنے علم وفضل اور زہد وتقویٰ کی وجہ سے وقت کے امام مانے جاتے تھے اور لوگ بلا امتیاز ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کے والد ماجد مولانا سید داؤد غزنوی﷫ کی عملی وسیاسی زندگی بھی تاریخ اہل حدیث کا ایک سنہرا باب ہے ۔سید ابوبکر غزنوی ﷫ بھی ایک ثقہ عالم دین ،نکتہ رس طبیعت کے مالک اور دین کےمزاج شناس تھے ۔مولانا سید غزنوی فطرتاً علم دوست مطالعہ پسند اور کم آمیز قسم کےآدمی تھے۔جن لوگوں نے ان کا بچپن دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کتاب ومطالعہ سے ان کا کتنا گہرا دلی تعلق تھا۔اردو فارسی ،انگریزی اور عربی زبان پرپوری دسترس رکھتے تھے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے عربی کا امتحان دیا توصوبہ بھر میں اول رہے۔ پروفیسر ابوبکر غزنوی نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں عربی کے لیکچرر کی حیثیت سے کیا۔اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد اسلامیہ کالج سول لائنز کو ڈگری کالج کی حیثیت حاصل ہوگئی تو موصوف شعبہ عربی کے صدر بن کر وہاں منتقل ہوگئے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی اورنٹیل کالج میں عربی کےخصوصی لیکچر بھی دیتےتھے۔ اس کے بعد جلد ہی انجینیرنگ یونیورسٹی لاہور نے اپنے دروازے ان کے لیے کھول دیے اور شعبہ اسلامیات کے صدر کی حیثیت سے وہاں اٹھ گئے ۔اس کے بعد بہالپور یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے طور پر ان کا تقرر ہوا اور ابھی وہ یونیورسٹی کےاصلاح وترقی کے پرگراموں پر عمل کراہی رہےتھے اور یونیورسٹی کامعیار بلند ہورہا تھا کہ موت آگئی اور وہ اللہ کو عزیز ہوگئے۔مولانا سید ابوبکر غزنوی ﷫ کی ذات متعدد اوصافِ فاضلہ کامجموعہ تھی ۔اور سید صاحب جدید وقدیم علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے آپ کی شخصیت مغربی علوم وفنون اور تہذیب وتمدن سے خو ب آگاہ تھی ۔ سید صاحب نے اپنے خطبات اور تحریروں کے ذریعے دین کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ تقاریر وخطبات سید ابو بکر غزنوی﷫ ‘‘سید صاحب کے مختلف تقایر وخطابات کا مجموعہ ہے ۔یہ خطبات مولانا نے مختلف اہم مواقع پر ارشاد فرمائے ان میں مولانا کو وہ خطبات بھی شامل ہیں جوانہوں 1965ء کی جنگ کےسلسلے میں ارشاد فرمائے تھے ۔اس مجموعہ میں پہلا خطبہ ماموں کانجن میں اہل حدیث کانفرنس منعقدہ اکتوبر 1975ء میں مولانا کی جانے والی علمی تقریر ہے۔سید صاحب کے ان خطبات کو فاران اکیڈمی نے 1995ء میں شائع کیا ۔اس مجموعہ میں شامل خطبات کے عنوانات حسب ذیل ہیں۔ اتباع رسولﷺ تبلیغ کاایک بھولا ہوا اصول،تعلیم وتزکیہ،اس دنیا میں اللہ کاقانون جزا وسزا،اقوام کے عروج وزوال کے بارے میں ضابطۂ الٰہی،اس دنیا میں عذاب الٰہی کی صورتیں،محمد انقلاب کے چند خط و خال،مسئلہ جہاد کشمیر۔ یہ سیدصاحب کا وہ خطبہ جمعہ ہے جوانہوں نے 20 اگست 1965ء کو دار العلوم تقویۃ الاسلام میں ارشاد فرمایا۔اس میں کتاب وسنت کی روشنی میں مسئلہ جہادِ کشیمر کی وضاحت کی گئی ہے،غزوۂ تبوک میں ہمارےلیے سامانِ عبرت ہے،یوم تشکر،فریضہ جہاد کے تقاضے،قوم سےخطاب وقت کی پکار،توحید کےتقاضے،شہدائے پاکستان کو خراج عقیدت قرآن وسنت کی روشنی میں ۔یہ تقریرریڈیو پاکستان لاہور سےدوران جنگ نشر کی گئی۔ اللہ تعالیٰ مرتب وناشر کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور سید صاحب کے درجات میں اضافے کا باعث اور قارئین کے لیےنفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
پاکستان میں کیا ہوگا
مصنف
سید محمد کفیل بخاری
ناشر
بخاری اکیڈمی ملتان
title-pages-pakistan-me-kia-ho-ga-copy.jpg

تبصرہ
مولانا سيد عطاءالله شاه بخاری ﷫اردو زبان کے عظیم خطیب، مجلس احرار اسلام کے بانی، تحریک ختم نبوت کے قائد اور سامراج كے خلاف برسر پیكارایک سپاہی اور جرنیل تهے۔آپ ایک ہمہ گیر اور پہلو دار شخصیت کے مالک تھے۔آپ نے ہندوستان کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انگریز کو ہندوستان سے بھگانے می بنیادی کردار ادا کیا۔آپ نے اپنے پرجوش خطبات کے ذریعے پوری ہندوستان میں آزادی کی آگ لگا دی۔آپ جب تلاوت قرآن پاک كرتے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال آپ كی تلاوت سنتے تو ان کے آنسؤوں كا سيلاب رواں ہوجاتا۔آپ کی نس نس ميں محبت رسول ﷺ اور انگ انگ ميں سامراج كی نفرت بھری ہوئی تهی۔آپ نے ساری زندگی مرزائيوں كے خلاف علمی اور عملی كام كيا۔آپ فرمايا کرتے تھے کہ جس دين ميں ابوبكر، عمر، عثمان اور علی كی قدر نہيں وه دين سچا نہيں ہوسكتا۔ زیر تبصرہ کتاب"پاکستان میں کیا ہوگا؟" محترم محمد کفیل بخاری صاحب کی تصنیف ہے، جوامیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری﷫ کے خطبات پر مشتمل ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
 

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
پس دیوار زنداں
مصنف
شورش کاشمیری
ناشر
مطبوعات چٹان لاہور
title-pages-pas-e-diwar-zindan-copy.jpg

تبصرہ
آغا شورش کاشمیری پاکستان کےمشہور و معروف شاعر،صحافی، سیاستدان اوربلند پایہ خطیب تھے۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست 1917ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدالکریم تھا، لیکن آغا شورش کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آغا شورش کاشمیری ایک مجموعہ صفات شخصیت تھے۔ صحافت، شعروادب، خطابت وسیاست ان چاروں شعبوں کے وہ شہسوار تھے۔ آغا شورش نے ایک متوسط گھرانہ میں جنم لیا اور بمشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ آپکی سیاسی علمی ادبی تربیت کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ گھر میں ’’زمیندار‘‘ اخبار آتا اور مسجد شہید گنج کی تحریک نصف نہار پر تھی عبدالکریم اسکول سے فارغ ہوئے تو تحریک شہید گنج کا رخ کیا اور مولانا ظفر علی خان سے قربت میسر آ گئی۔ عبدالکریم پہلے ہی جوش و جذبہ کا سیل رواں تھے، بغاوت و آزادی کا ہدی خواں تھے، شمشیر برہاں تھے، آپ تخلص الفت کرتے اور زمانے میں شورش برپا کر رکھی تھی لہٰذا حسب مزاج الفت کو شورش کا نام دینا مناسب جانا بس مولانا ظفر علی خان تھے۔ تحریک شہید گنج تھی اور شورش کا جذبہ تھا کچھ کر گزرنے کا جنوں تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی سیاست، صحافت، خطابت اور عشق خاتم النبیؐ آغا شورش کے مزاج میں سرایت کرتا چلا گیا، خون میں حلاوت کرتا چلا گیا۔ اب شورش بھی برصغیر کا منفرد خطیب مانا جانے لگے۔ سارا ہندوستان انکے نام سے شناسا ہوا۔ آغا صاحب کا ایک سیاسی قد کاٹھ بن گیا جس دوران مسلم لیگ علیحدہ وطن کیلئے کوشاں تھی اس وقت آغا شورش کاشمیری مجلس احرار کے چنیدہ رہنمائوں میں شامل ہو چکے تھے۔ مجلس کے ایک روزنامہ (آزاد) کے ایڈیٹر بن گئے مگر قیام پاکستان کے بعد آغا شورش کاشمیری وطن عزیز کی بقا اور استحکام کیلئے آخری سانسوں تک میدان عمل میں رہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کڑی تنقید اور اپنے نقطہ نظر کو دلائل کے ساتھ پُرزور انداز میں پیش کرتے ہوئے بڑے استقلال سے کھڑے ہو جانا آغا شورش کا مزاج بن چکا تھا۔ تحریک ختم نبوت آغا صاحب کی زندگی کا اثاثہ عظیم تھا وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک 1973ء کے آئین میں ختم نبوت کے عقیدے کو شامل کرا کے قادیانیوں کو خارج الاسلام نہ کر لیا۔ آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران عمر عزیز کے قیمتی ساڑھے بارہ سال قید و بند کی صعوبتوں کو کشادہ دلی اور وقار کے ساتھ برداشت کرکے گزارے۔ زیر تبصرہ کتاب " پس دیوار زنداں " میں آپ نے اپنی قید وبند کی اس کہانی کو بیان کیا ہے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے آپ نے گزاری۔اللہ تعالی ان کی قبر کو منور فرمائے اور ان پر اپنی رحمت فرمائے۔آمین(راسخ)
 

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلو پیڈیا
مصنف
نعیم اختر سندھو
ناشر
برائٹ بکس اردو بازار لاہور
title-pages-pak-w-hind-me-muslim-firkon-ka-encyclopedia-copy.jpg

تبصرہ
ایک جدید ذہن جب دین کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے اپنے سامنے دین کے نام پر ڈھیروں اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس موقع پر وہ اس کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے کہ کون سا راستہ درست ہے اور کون سا غلط اور میں کس کی بات مانوں اور کسے غلط قرار دوں؟ ہر فرقہ و مسلک اپنے نقطہ نظر کی تائید میں قرآن و سنت سے ہی دلائل پیش کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص دین کی طرف مائل ہوا ہے، اسے جس فرقہ و مسلک کے لوگوں سے پہلے واسطہ پڑ جائے، وہ اسی مسلک کے دلائل کو پڑھتا ہے اور پھر اسے اپنا لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ انہی دلائل کی روشنی میں دوسروں کو دیکھتا ہے۔اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ خوش قسمتی سے تم درست جگہ آ گئے ہو، اب کسی اور جانب مت دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔اگر تمہیں دوسرے مسلک کا مطالعہ کرنا بھی ہے تو اپنے ہی علماء کی کتابوں کے ذریعے کرو جو اس فرقے کے رد میں لکھی گئی ہیں۔اس طریقے سے وہ شخص تعصب اور تحزب کا شکار ہو جاتا ہے۔اس وقت ہندوستان میں بھی بے شمار ایسے فرقے پائے جاتے ہیں جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا" محترم نعیم اختر سندھو صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ہندوستان میں موجود انہی فرقوں کے تعارف پر ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کر دیا ہے اور تمام مسالک کے عقائد اور مناہج کو بیان کر دیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
 

اکمل زیدی

محفلین
کتاب کا نام
ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلو پیڈیا
مصنف
نعیم اختر سندھو
ناشر
برائٹ بکس اردو بازار لاہور
title-pages-pak-w-hind-me-muslim-firkon-ka-encyclopedia-copy.jpg

تبصرہ
ایک جدید ذہن جب دین کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے اپنے سامنے دین کے نام پر ڈھیروں اختلافات نظر آتے ہیں۔ اس موقع پر وہ اس کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے کہ کون سا راستہ درست ہے اور کون سا غلط اور میں کس کی بات مانوں اور کسے غلط قرار دوں؟ ہر فرقہ و مسلک اپنے نقطہ نظر کی تائید میں قرآن و سنت سے ہی دلائل پیش کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص دین کی طرف مائل ہوا ہے، اسے جس فرقہ و مسلک کے لوگوں سے پہلے واسطہ پڑ جائے، وہ اسی مسلک کے دلائل کو پڑھتا ہے اور پھر اسے اپنا لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ انہی دلائل کی روشنی میں دوسروں کو دیکھتا ہے۔اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ خوش قسمتی سے تم درست جگہ آ گئے ہو، اب کسی اور جانب مت دیکھنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔اگر تمہیں دوسرے مسلک کا مطالعہ کرنا بھی ہے تو اپنے ہی علماء کی کتابوں کے ذریعے کرو جو اس فرقے کے رد میں لکھی گئی ہیں۔اس طریقے سے وہ شخص تعصب اور تحزب کا شکار ہو جاتا ہے۔اس وقت ہندوستان میں بھی بے شمار ایسے فرقے پائے جاتے ہیں جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "ہند و پاک میں مسلم فرقوں کا انسائیکلوپیڈیا" محترم نعیم اختر سندھو صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ہندوستان میں موجود انہی فرقوں کے تعارف پر ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کر دیا ہے اور تمام مسالک کے عقائد اور مناہج کو بیان کر دیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
کچھ صفحات پڑھنے کے بعد کتاب اندازہ ہوگیا . . . کے یہ معلومات دی جا رہی ہیں یا تھوپی جا رہی ہیں :)
 
Top