بحر ہزج مثمن سالم میں تازہ کلام اصلاح اور تنقید کے لیے

بہت بہت شکریہ استاد محترم
اس بار تو لگتا ہے کہ تصحیح میں کئی دن لگ جائیں گے ۔
ایک تو میری غلطیوں کا انبار اور پھر آج کل بے انتہا مصروفیت کی وجہ سے وقت کی قلت۔
ان شا اللہ دوبارہ حاضر ہوتا ہوں، اصلاح کے ساتھ۔
خاکسار دعاؤں کا طالب ہے۔

بہت شکریہ ۔۔ اور ۔۔ وہی ایک بہت بار کی بات: جلدی نہ کیجئے گا، شاعری میں جلدی کیسی!
 
السلام عليكم
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
استاد محترم جناب الف عین صاحب
مرمت کے بعد غزل لے کر حاضر ہوا ہوں.
کچھ اشعار کے مضامین میں تبدیلی بھی کی ہے یا پھر دوبارہ موزوں کیے ہیں
-------------
جمال ِ خوبرو ہے ، حسن کا شعلہ مچلتا ہے
انہی جلووں کی حدت سے ، چمن ہر دل کا جلتا ہے

اسے جب دیکھتا ہوں ، بس یہ حالت دل کی ہوتی ہے
یہ اک معصوم بچے کی طرح، گرتا، سنبھلتا ہے

تری چاہت کے برسیں رنگ، سادہ پر کشش، مجھ پر
کبھی بےکیف تھے دن رات ، اب سرگم سا ڈھلتا ہے

چھماچھم بارشوں میں جوں نہاتے دوڑتے بچے
تری قربت کی رم جھم میں، مرا دل یوں مچلتا ہے

"تری ہوں بس"، مرے کانوں میں جھک کر پیار سے کہنا
جھکی قوس ِ قزح سے جیسے دریا مل کے چلتا ہے

وہ میرا اشکِ خوں، یعنی وہ تیرے پیار کا موتی
خموشی سے ٹپک کر، دل کے زنداں سے نکلتا ہے

زمانے، خاک اب کر دے مرا گلشن، کہ میں چاہوں
نیا باغِ تمنّا ہو، یہ موسم گر بدلتا ہے

کئی انداز سے سوچا ، کئی آہنگ میں پرکھا
وہ اک امکان کاشف، دل میں رہتا ہے نہ ڈھلتا ہے


شکریہ ...
 
آخری تدوین:
فی الحال، صرف ایک بات ۔۔۔

جمال ِ خوبرو کی تاب ہے، شعلہ سا جلتا ہے
انہی جلووں کی حدت سے ، چمن ہر دل کا جلتا ہے

مطلع میں آپ نے قافیہ اور ردیف "جلتا ہے" کا اعلان کر دیا؟۔ اگر "سا" اور "کا" کو قافیہ جانیں تو "جلتا ہے ردیف ٹھہری؟
ساری غزل میں دیکھیں تو قوافی ہیں: ڈھلتا، بدلتا، ملتا، مچلتا (حرف مفتوح ماقبل لام ساکن اور "تا ہے")؛ مناسب تر یہ ہے کہ مطلع میں ایک قافیہ بدل دیجئے۔ اور ہاں! گھُلتا، کھِلتا، مِلتا وغیرہ اس غزل کے قوافی میں نہیں آ سکیں گے (گھُلتا میں حرف ماقبل لام مضموم اور کھِلتا میں مکسور ہے)۔
 
مزید گفتگو شاید ہفتہ بھر کے بعد ممکن ہو۔ یہاں سالانہ مشاعرے کی تیاریاں چل رہیں ہیں۔


دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 
آخری تدوین:
جمالِ خوبرو ہے، حسن کا شعلہ مچلتا ہے
انہی جلووں کی حدت سے ، چمن ہر دل کا جلتا ہے

خاصا بہتر ہو گیا۔ خوبروئی، جمال، مچلنا، حدت، جلوہ؛ یہ جلانے والی باتیں تو نہیں، یہ تو لبھانے والی باتیں ہیں۔ چمن کا جلنا؟ اگر آتشِ گل مراد ہے تو اس کی طرف کوئی اشارہ ہوتا۔ چمن کی جگہ ارمان وغیرہ لا کر دیکھئے کہ "ہر ارمان جلتا ہے" یا جیسے آپ بہتر سمجھیں۔
 
اسے جب دیکھتا ہوں ، بس یہ حالت دل کی ہوتی ہے
یہ اک معصوم بچے کی طرح، گرتا، سنبھلتا ہے

بہتری یہاں بھی آئی ہے، "میں" کو ہٹانے سے میرا مقصد تو تھا کہ مضمون میں وسعت کے لئے جگہ بنائی جائے۔ وہاں "بس" لگا دیا کچھ فرق نہیں پڑا، بہر حال یہ بھی قابلِ قبول ہے۔
 
تری چاہت کے برسیں رنگ، سادہ پر کشش، مجھ پر
کبھی بےکیف تھے دن رات ، اب سرگم سا ڈھلتا ہے

"سرگم ڈھلنا" مجھے نہیں معلوم کہ درست ہے یا نہیں۔ سُر میں ڈھلنا بہتر ہو گا۔ سماں اب سر میں ڈھلتا ہے؟ اگر اوزان اجازت دیں تو! پہلے مصرعے پر بھی توجہ دیجئے گا۔
 
تری ہوں بس"، مرے کانوں میں جھک کر پیار سے کہنا
جھکی قوس ِ قزح سے جیسے دریا مل کے چلتا ہے

پہلا مصرع مجھے اچھا نہیں لگا، پسند اپنی اپنی، مزاج اپنا اپنا۔
 
وہ میرا اشکِ خوں، یعنی وہ تیرے پیار کا موتی
خموشی سے ٹپک کر، دل کے زنداں سے نکلتا ہے

زندان والی بات ذرا ہٹی ہوئی ہے۔ غم، پیار وغیرہ دل میں قید تو نہیں ہوتے نا، وہ تو بستے ہیں۔ آنسو بھی کہیں قید نہیں ہوتے، ایک بات اور کہ ٹپک کر نکلنا کیا ہوا؟ آنسو کا کا جواز بنائیے مثلاً وہ تیرے ہجر کا حاصل، مثالِ دودِ بے آواز جو دل سے نکلتا ہے؛ یا کچھ ایسی فضا بنائیے۔
 
کئی انداز سے سوچا ، کئی آہنگ میں پرکھا
وہ اک امکان کاشف، دل میں رہتا ہے نہ ڈھلتا ہے

امکان کا ڈھلنا؟ یا دل میں رہنا؟ مجھ پر نہیں کھلا، آپ جانئے۔
 
زمانے، خاک اب کر دے مرا گلشن، کہ میں چاہوں
نیا باغِ تمنّا ہو، یہ موسم گر بدلتا ہے

یہ شعر غالباً نیا شامل کیا گیا ہے۔ یہاں اب شاید پاسنگ ڈالا ہے؟ مجھے ڈر ہے زمانہ میرے گلشن کو مٹادے گا۔ دوسرے مصرعے کو بھی اس کے مطابق کسی موزوں انداز میں باندھ لیں۔
 
میں مقدور بھر عرض کر چکا۔ اس پر کچھ اضافہ نہیں کر سکوں گا۔

پروفیسر انور مسعود نے ایک بار بہت خاص بات کہی (پہلے بھی بیان کر چکا ہوں):
شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے اور آپ کا ذہن اس کے پیچھے یوں دوڑے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے لپکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
میں مقدور بھر عرض کر چکا۔ اس پر کچھ اضافہ نہیں کر سکوں گا۔

پروفیسر انور مسعود نے ایک بار بہت خاص بات کہی (پہلے بھی بیان کر چکا ہوں):
شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے اور آپ کا ذہن اس کے پیچھے یوں دوڑے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے لپکتا ہے۔
جزاک اللہ استاد محترم ۔
آپ کے ایک ایک مشورہ میرے لیئے ایک نایاب موتی کی طرح ہے۔ گویا آپ نے آج پھر ایک خزانہ میرے نام کر دیا ہے۔
میں ان شا اللہ دوبارہ اس غزل پر کام کرتا ہوں۔ آپ کی دعاؤں کا طالب ہوں۔:)
 

عظیم

محفلین
جمالِ خوبرو ہے، حسن کا شعلہ مچلتا ہے
انہی جلووں کی حدت سے ، چمن ہر دل کا جلتا ہے

خاصا بہتر ہو گیا۔ خوبروئی، جمال، مچلنا، حدت، جلوہ؛ یہ جلانے والی باتیں تو نہیں، یہ تو لبھانے والی باتیں ہیں۔ چمن کا جلنا؟ اگر آتشِ گل مراد ہے تو اس کی طرف کوئی اشارہ ہوتا۔ چمن کی جگہ ارمان وغیرہ لا کر دیکھئے کہ "ہر ارمان جلتا ہے" یا جیسے آپ بہتر سمجھیں۔

جمالِ خوبرو کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں محترم ؟
 

عظیم

محفلین
اسے جب دیکھتا ہوں ، بس یہ حالت دل کی ہوتی ہے
یہ اک معصوم بچے کی طرح، گرتا، سنبھلتا ہے

بہتری یہاں بھی آئی ہے، "میں" کو ہٹانے سے میرا مقصد تو تھا کہ مضمون میں وسعت کے لئے جگہ بنائی جائے۔ وہاں "بس" لگا دیا کچھ فرق نہیں پڑا، بہر حال یہ بھی قابلِ قبول ہے۔

جب اُس کو دیکھتا ہوں تب یہ حالت دل کی ہوتی ہے
کہ اک معصوم بچے کی طرح گرتا سنبھلتا ہے

یوں کیسا رہے گا ؟
 
Top