بحر ہزج مثمن سالم میں تازہ کلام اصلاح اور تنقید کے لیے

جمال عربی اور خوب رو فارسی کا لفظ ہے ۔ اس لحاظ سے بھی ۔
فارسی تراکیب میں عربی فارسی کا اشتراک (بہ شرطِ قواعد) جائز ہے۔ ہندی عربی اور ہندی فارسی کا نہیں؛ اور اگر ہوتا ہے تو وہ ترکیب ہندی قاعدے پر بنے گی، عربی یا فارسی قاعدے پر نہیں۔ ایک اور بات قابلِ توجہ ہے کہ خاص عربی ترکیبی قواعد میں صرف عربی یا معرب اسماء و افعال ہوں گے۔ مزید یہ کہ غیر عربی اسمائے نکرہ پر الف لام تعریفی داخل نہیں ہو سکتا۔ اسمائے معرفہ پر الف لام تعریفی کہیں آتا ہے کہیں نہیں بھی آتا (عربی والے بتا سکتے ہیں کہ کیوں)۔
 
عروض کے بارے میں مَیں کچھ نہیں جانتا وہ تو خلیل بھائی کا دھاگہ دیکھا تب معلوم ہوا ۔ اور ابنِ سعید بھائی کا تنک دھن تھا تنک دھن تھا والا طریقہ ۔

طریقے بہت سارے ہیں۔ عبدالصمد صارم نے "تنن تن تنن تن" کی بنیاد پر تقطیع کی ہے۔ تنک دھن والے طریقے میں شاید طبلے کا حصہ رہا ہو گا۔ ایک روایتی عروض ہے اور معتبر اسی کو مانا گیا ہے، اس سے جزوی انحراف پر بھی ایک عروض ہے، ہے وہ بھی عروض۔ پنگل کو اردو پر منطبق کیا گیا، تجربہ وہ بھی ناکام نہیں رہا۔ عروض پنگل اور طبلے کے اشتراک کا ایک طریقہ ہے جس کا ظاہری مقصد اردو اور پنجابی دونوں کو احاطہ کرنا ہے۔ واللہ اعلم!
 

عظیم

محفلین

طریقے بہت سارے ہیں۔ عبدالصمد صارم نے "تنن تن تنن تن" کی بنیاد پر تقطیع کی ہے۔ تنک دھن والے طریقے میں شاید طبلے کا حصہ رہا ہو گا۔ ایک روایتی عروض ہے اور معتبر اسی کو مانا گیا ہے، اس سے جزوی انحراف پر بھی ایک عروض ہے، ہے وہ بھی عروض۔ پنگل کو اردو پر منطبق کیا گیا، تجربہ وہ بھی ناکام نہیں رہا۔ پنگل اور طبلے کے اشتراک کا ایک طریقہ ہے جس کا ظاہری مقصد اردو اور پنجابی دونوں کو احاطہ کرنا ہے۔ واللہ اعلم!

بہت سی دعائیں ۔
 
زیرِ نظر غزل کی بحر کی طرف آتے ہیں۔

عربی عروض کے پانچ بنیادی دائروں میں سے (محمد الدمنہوری کی ترتیب کے مطابق) تیسرا دائرہ مجتلبہ ہے۔ اس کا متن ہے: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
اس کے نو اجزاء اور تین ارکان ہیں: پہلا رکن: مفاعیلن، دوسرا رکن: مستفعلن، اور تیسرا رکن: فاعلاتن۔ انہیں ارکان کی تکرار سے بحریں بنی ہیں۔
دائرہ مجتلبہ سے نکلنے والی تینوں بحریں اصلاً مسدس ہیں۔
پہلی بحر ہزج مسدس: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔۔۔۔ یہ زیرِ نظر غزل کی بحر ہے۔
دوسری بحر رجز مسدس: مستفعلن مستفعلن مستفعلن
تیسری بحر رمل مسدس: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
۔۔۔۔۔
 
اسے جب دیکھتا ہوں ، بس یہ حالت دل کی ہوتی ہے
یہ اک معصوم بچے کی طرح، گرتا، سنبھلتا ہے

بہتری یہاں بھی آئی ہے، "میں" کو ہٹانے سے میرا مقصد تو تھا کہ مضمون میں وسعت کے لئے جگہ بنائی جائے۔ وہاں "بس" لگا دیا کچھ فرق نہیں پڑا، بہر حال یہ بھی قابلِ قبول ہے۔
استاد محترم ۔
اسے جب دیکھتا ہوں، ایسی حالت دل کی ہوتی ہے
کہ اک معصوم بچہ جس طرح گرتا سنبھلتا ہے
کیسا رہیگا ؟
 
پہلا مصرع شاید بحر سے خارج ہے
پہلا مصرع بحر سے خارج لگتا ہے
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے ۔
پہلا مصرع بحر سے خارج معلوم ہوتا ہے ۔
پہلا مصرع بحر سے خارج تو نہیں ؟
:) پہلا مصرع بحر سے خارج ہے ۔
پہلا رکن ہی مفاعیلن کے وزن پر نہیں ہے
 
تری چاہت کے برسیں رنگ، سادہ پر کشش، مجھ پر
کبھی بےکیف تھے دن رات ، اب سرگم سا ڈھلتا ہے

"سرگم ڈھلنا" مجھے نہیں معلوم کہ درست ہے یا نہیں۔ سُر میں ڈھلنا بہتر ہو گا۔ سماں اب سر میں ڈھلتا ہے؟ اگر اوزان اجازت دیں تو! پہلے مصرعے پر بھی توجہ دیجئے گا۔
استاد محترم ۔۔۔ توجہ چاہونگا ۔۔
تری چاہت کے سارے رنگ،سادہ پرکشش، ہردم
کبھی بےکیف تھے لمحے ، سماں اب سر میں ڈھلتا ہے
 
استاد محترم ۔۔۔ توجہ چاہونگا ۔۔
تری چاہت کے سارے رنگ،سادہ پرکشش، ہردم
کبھی بےکیف تھے لمحے ، سماں اب سر میں ڈھلتا ہے
دوسرا مصرع تو خوب بن گیا، پہلا کچھ اس انداز پر لانے کی کوشش کریں
تری چاہت کے سارے رنگ سادہ بھی ہیں دل کش بھی ۔۔۔ یا جو بُنت آپ کو اچھی لگے۔
 
تری ہوں بس"، مرے کانوں میں جھک کر پیار سے کہنا
جھکی قوس ِ قزح سے جیسے دریا مل کے چلتا ہے
پہلا مصرع مجھے اچھا نہیں لگا، پسند اپنی اپنی، مزاج اپنا اپنا۔
استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب اسے اب کچھ یوں کہا ہے:
کھنکتی نقرئی تیری ہنسی ، گلنار چہرے پر
جھکی قوسِ قزح سے جیسے دریا مل کے چلتا ہے
 
وہ میرا اشکِ خوں، یعنی وہ تیرے پیار کا موتی
خموشی سے ٹپک کر، دل کے زنداں سے نکلتا ہے

زندان والی بات ذرا ہٹی ہوئی ہے۔ غم، پیار وغیرہ دل میں قید تو نہیں ہوتے نا، وہ تو بستے ہیں۔ آنسو بھی کہیں قید نہیں ہوتے، ایک بات اور کہ ٹپک کر نکلنا کیا ہوا؟ آنسو کا کا جواز بنائیے مثلاً وہ تیرے ہجر کا حاصل، مثالِ دودِ بے آواز جو دل سے نکلتا ہے؛ یا کچھ ایسی فضا بنائیے۔
استاد محترم دونوں صورتیں پیش کرتا ہوں۔
آپ کی رائے:
وہ میرا اشکِ خوں، یعنی وہ تیرے پیار کا موتی
مثالِ دودِ بے آواز جو دل سے نکلتا ہے
میری تک بندی :
وہ میرا اشکِ خوں ، یعنی وہ تیرے پیار کا موتی

تڑپتے دل کی حسرت کو بیاں کرتا نکلتا ہے


پہلی شکل "مثالِ دودِ بے آواز جو دل سے نکلتا ہے" میں لفظ "جو" کچھ تشنگی سی چھوڑ جاتا ہے۔ اگر یوں کر دیں "مثالِ دودِ بے آواز ہے، دل سے نکلتا ہے" تب؟
دوسری شکل "تڑپتے دل کی حسرت کو بیاں کرتا نکلتا ہے" کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے جناب ؟
آپ کی قیمتی مشورے کا منتظر رہونگا ۔
جزاک اللہ ۔
 
Top