دو رخ

عبد الرحمن

لائبریرین
ایک بیس بائیس سالہ شناسا طالب علم کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، لیکن اب عالم یہ ہے کہ کتابیں ایک طرف رکھ کر فاقوں سے بچنے کے لیے مجبورا ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ مگر پھر بھی حالات اتنے ابتر ہوگئے کہ زکوۃ تک لینے کے لیے راضی ہوگیا۔ ایک اور خوش حال گھرانے کے سربراہ کہنے لگے: "گھر کی حالت دن بہ دن نازک ہوتی جارہی ہے۔ کام دھندا بالکل ماند پڑا ہے۔ بڑی مشکل سے جوڑ توڑ کرکے گاڑی میں پیٹرول ڈلواکر ایک پھنسی ہوئی رقم کی وصول یابی کے لیے گیا تو اگلی تاریخوں کا کہہ کر صاف ٹرخا دیا۔ اس طرح کچھ حاصل ہونے کے بجائے مزید نقصان ہوگیا۔

اس قسم کے غم زدہ کرنے والے بے شمار واقعات ہمارے ارد گرد بکھرے پڑے ہیں۔ اخبارات میں روزانہ کسی نہ کسی مسکین کے پیٹ کی آگ میں جل کر اگلے جہان روانہ ہوجانے کی خبر شائع ہوتی رہتی ہے۔ یکم مئی جیسے دن میں بھی جو مزدوروں کے حقوق کے عالمی یوم کے حوالے سے مشہور ہے، ایک تھکے ماندے مزدور نے خود کشی کرکے دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ ہمارے حقوق کے تحفظات کی خاطر جنگ لڑنے والے اب تک ہمیں پیٹ بھر کر دو وقت کی روٹی مہیا کرنے میں بھی کام یاب نہ ہوسکے۔

لیکن پتا نہیں کیوں یہ سب دل دہلا دینے والے واقعات اس وقت ایک جھوٹ اور فریب معلوم ہوتے ہیں جب مٹھی بھر صاحب ثروت افراد کو دولت اس طرح اڑاتے دیکھتے ہیں کہ قارون بھی شرما جائے۔

تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ کہیں ننگ دھڑنگ معصوم بچے تپتی دھوپ میں سڑکوں پر گھوم پھر کر ہر آنے جانے والے فرد کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہتے ہیں تو کہیں دونوں پیروں سے محروم ایک عمر رسیدہ شخص اپنی وہیل چیئر پر صدائیں لگاتا ہوا لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ ایک طرف مساجد کے باہر جوان جہان عورتیں اپنے چند ماہ کے بچوں کو گود میں اٹھائے ہر نمازی کے آگے اپنے دکھڑے سنانے لگتی ہیں تو دوسری طرف امام کے سلام پھیرتے ہی ہٹے کٹے نوجوان دھاڑیں مار مار کر اپنی رام کہانی بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔

اب تصویر کا دوسرا زاویہ ملاحظہ فرمایے! چند ماہ قبل قریبی جاننے والوں کے یہاں شادی ہوئی۔ نکاح ولیمہ اور دیگر "ضروری خرافاتی رسوم" سمیت کل اخراجات کا تخمینہ تیرہ لاکھ یا اس سے متجاوز تھا۔ کھانا اس قدر وافر مقدار میں رکھا گیا تھا کہ لوگ کھا کھا کر تھک جائیں، لیکن پھر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کھانے کو ابھی تک ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا ہے۔

دیکھی آپ نے قرض میں ڈوبی اور فقر و فاقہ کا تاج سر میں سجائی قوم کی شاہ خرچیاں!؟ صرف آٹھہ دن کے اندر اندھا دھند پیسہ خرچ کیے جانے والی اس شادی کا حال سنا تو آہ بھر کر رہ گیا۔ سوچنے لگا نہ جانے اتنی رقم سے کتنے غریبوں کا چولہا مستقل بنیادوں پر جلایا جا سکتا تھا اور کتنی نادار بچیوں کی شادیاں آسانی سے پایہ تکمیل کو پہنچ سکتی تھیں۔

تصویر کے ان دونوں پہلوؤں میں کس قدر تضاد ہے کہ جس کے پاس نہیں ہے تو روٹی کا ایک نوالہ تک نہیں ہے اور جس کے پاس ہے تو اتنا ہے کہ سات نسلیں آرام سے بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ اہل دولت جب تک آگے نہیں بڑھیں گے، تب تک غربت کے خلاف جنگ میں کام یابی حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ حکمرانوں کا سا کردار ادا کرنے کے لیے ہمیں اپنے اموال کا ایک وافر حصہ فی سبیل للہ وقف کرنا ہوگا۔ اللہ کے ساتھ تجارت میں نفع ہی نفع ہے۔ دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔ یقین کیجیے! شادی جیسے مقدس فریضے میں لایعنی رسومات و تقریبات پر بے جا خرچ کرکے وہ قلبی سکون اور برکت حاصل نہ ہوگی جو کسی مستحق کے غریب خانے میں راشن کا انتظام کرنے سے ہوگی۔ فقیر اپنا کا کر گزرا اب؎

جس کے جی میں آئے وہ لے اس روشنی کو
ہم نے تو دل جلا کر چوراہے پہ رکھ دیا​
 

نایاب

لائبریرین
فلاح کی جانب بلاتی آگہی سے بھرپور تحریر ۔
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم عبدالرحمن بھائی
اسلامی معاشرہ جو کہ " ایثار اخوت " سے بھرپور" زکواۃ " پر استوار اک بہترین " فلاحی معاشرہ " قرار پایا تھا ۔
جانے کب اور کیسے " اسراف " کی راہ چل نکلا ۔۔
امیری و غریبی کے درمیان تفادت کو اللہ کی پاک کتاب قران سے تقویت اللہ ہم سب کو ہدایت سے نوازے اسراف سے بچائے اور ہم سب اپنے ارد گرد کے رہنے والوں کے لیئے سلامتی اور آسانی فراہم کرنے کے مرکز قرار پائیں ۔۔۔ آمین
 
مجرم

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے
جس کے فٹ پاتھ فقیروں سے اٹے رہتے ہیں
خستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے
یہ بھکاری ، کہ جنہیں دیکھ کے گھن آتی ہے

ہڈیاں جسم کی نکلی ہوئیں، پچکے ہوئے گال
میلے سر میں جوئیں، اعضاء سے ٹپکتا ہوا کوڑھ
روح بیمار، بدن سست، نگاہیں پامال
ہاتھ پھیلائے پڑے رہتے ہیں روگی انسان

چند بیواؤں کے مدقوق سے پیلے چہرے
کچھ ہوس کار نگاہوں میں اتر جاتے ہیں
جن کے افلاس زدہ جسم، ڈھلکتے سینے
چند سکوں کے عوض شب کو بکا کرتے ہیں

شدتِ فاقہ سے روتے ہوئے ننھے بچے
ایک روٹی کے نوالے سے بہل جاتے ہیں
یا سرِ شام ہی سوجاتے ہیں بھوکے بچے
ماں کی سوکھی ہوئی چھاتی کو دبا کر منہ میں

چند بد زیب سے شہرت زدہ انساں اکثر
اپنی دولت کی سخاوت کی نمائش کیلئے
یا کبھی رحم کے جذبے سے حرارت پاکر
چار چھ پیسے انہیں بخش دیا کرتے ہیں

کیا فقط رحم کی حقدار ہیں ننگی روحیں؟
کیوں یہ انسانوں پہ انسان ترس کھاتے ہیں؟
کیوں انہیں دیکھ کے احساسِ تہی دستی سے
اکثر اوقات میں کترا کے نکل جاتا ہوں
یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے؟؟؟؟

۔۔۔شکیب جلالی۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
لاجواب تحریر ہے عبد الرحمن بھائی۔۔۔۔!

واقعی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سرمایہ دارانہ نظام کی مرہونِ منت ہے۔

تاہم بحیثیتِ مسلمان ہم سب کو اسراف سے بچنا چاہیے اور فضول خرچیاں کرتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہمیں ایک روز اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور حساب دینا ہے۔

دراصل ہم لوگ نام کے مسلمان ہیں ورنہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراف سے بچنے کا اور اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کا حکم دے دیا تو پھر ہمارے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے کہ اپنا طرزِ زندگی نہ بدلیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

بہت عمدہ اور بالکل درست لکھا عبد الرحمن بھائی۔ آپ کی یہ کوشش یقیناً بہت سے اذہان کے لیے رہنمائی کا سبب بنے گی۔

سادگی اور اعتدال پسندی کے ساتھ زندگی گزارنے سے خود ہمارے اپنے لئے اور بہت سے دوسرے افراد کے لیے زندگی میں سکون اور آسانیاں میسر رہتی ہیں۔ ہم سب کو انفرادی طور پر ان کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنانا چاہیے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
علاوہ ازیں ایسی تحاریر اور خیالات کا گاہی گاہی اعادہ ہوتے رہنا چاہیے تا کہ ہم سب خود احتسابی کے ساتھ ساتھ اپنے عمل کو درست سمت میں استوار رکھ سکیں۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
فلاح کی جانب بلاتی آگہی سے بھرپور تحریر ۔
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم عبدالرحمن بھائی
اسلامی معاشرہ جو کہ " ایثار اخوت " سے بھرپور" زکواۃ " پر استوار اک بہترین " فلاحی معاشرہ " قرار پایا تھا ۔
جانے کب اور کیسے " اسراف " کی راہ چل نکلا ۔۔
امیری و غریبی کے درمیان تفادت کو اللہ کی پاک کتاب قران سے تقویت اللہ ہم سب کو ہدایت سے نوازے اسراف سے بچائے اور ہم سب اپنے ارد گرد کے رہنے والوں کے لیئے سلامتی اور آسانی فراہم کرنے کے مرکز قرار پائیں ۔۔۔ آمین
آمین ثم آمین!
ہمیشہ کی طرح بہت خوب صورت تبصرہ نایاب بھائی!
جزاک اللہ خیرا!
 

عبد الرحمن

لائبریرین
مجرم

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے
جس کے فٹ پاتھ فقیروں سے اٹے رہتے ہیں
خستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے
یہ بھکاری ، کہ جنہیں دیکھ کے گھن آتی ہے

ہڈیاں جسم کی نکلی ہوئیں، پچکے ہوئے گال
میلے سر میں جوئیں، اعضاء سے ٹپکتا ہوا کوڑھ
روح بیمار، بدن سست، نگاہیں پامال
ہاتھ پھیلائے پڑے رہتے ہیں روگی انسان

چند بیواؤں کے مدقوق سے پیلے چہرے
کچھ ہوس کار نگاہوں میں اتر جاتے ہیں
جن کے افلاس زدہ جسم، ڈھلکتے سینے
چند سکوں کے عوض شب کو بکا کرتے ہیں

شدتِ فاقہ سے روتے ہوئے ننھے بچے
ایک روٹی کے نوالے سے بہل جاتے ہیں
یا سرِ شام ہی سوجاتے ہیں بھوکے بچے
ماں کی سوکھی ہوئی چھاتی کو دبا کر منہ میں

چند بد زیب سے شہرت زدہ انساں اکثر
اپنی دولت کی سخاوت کی نمائش کیلئے
یا کبھی رحم کے جذبے سے حرارت پاکر
چار چھ پیسے انہیں بخش دیا کرتے ہیں

کیا فقط رحم کی حقدار ہیں ننگی روحیں؟
کیوں یہ انسانوں پہ انسان ترس کھاتے ہیں؟
کیوں انہیں دیکھ کے احساسِ تہی دستی سے
اکثر اوقات میں کترا کے نکل جاتا ہوں
یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے؟؟؟؟

۔۔۔ شکیب جلالی۔۔۔ ۔
جن کے افلاس زدہ جسم، ڈھلکتے سینے
چند سکوں کے عوض شب کو بکا کرتے ہیں

انا للہ و انا الیہ راجعون!

دل دہلا دینے والے حقائق پیش کیے ہیں محمود بھائی!

رب کریم سے دست بستہ التجا ہے کہ ہم سب کو دنیا و آخرت میں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
لاجواب تحریر ہے عبد الرحمن بھائی۔۔۔ ۔!

واقعی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سرمایہ دارانہ نظام کی مرہونِ منت ہے۔

تاہم بحیثیتِ مسلمان ہم سب کو اسراف سے بچنا چاہیے اور فضول خرچیاں کرتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہمیں ایک روز اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور حساب دینا ہے۔

دراصل ہم لوگ نام کے مسلمان ہیں ورنہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراف سے بچنے کا اور اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کا حکم دے دیا تو پھر ہمارے پاس کیا جواز رہ جاتا ہے کہ اپنا طرزِ زندگی نہ بدلیں۔
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

حوصلہ افزائی کے لیے بہت شکریہ احمد بھائی!

جزاکم اللہ خیرا!

آپ کے اس مختصر مگر پر اثر مراسلے نے اس تحریر کو مزید چار چاند لگادیے۔

پھر سے پر خلوص شکریہ قبول فرمایے!
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
السلام علیکم

بہت عمدہ اور بالکل درست لکھا عبد الرحمن بھائی۔ آپ کی یہ کوشش یقیناً بہت سے اذہان کے لیے رہنمائی کا سبب بنے گی۔

سادگی اور اعتدال پسندی کے ساتھ زندگی گزارنے سے خود ہمارے اپنے لئے اور بہت سے دوسرے افراد کے لیے زندگی میں سکون اور آسانیاں میسر رہتی ہیں۔ ہم سب کو انفرادی طور پر ان کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنانا چاہیے۔
وعلیکم السلام و رحمتہ و برکاتہ!

کلمات تحسین اور نیک تمناؤں کے لیے تہہ دل سے ممنون ہوں عزیزہ! جزاکِ اللہ خیرا!

اللہ بہت خوش رکھے آپ کو!
 
آخری تدوین:
Top