سر جی کی خدمت میں حاضری

منصور مکرم

محفلین
آج صبح سر شہزاد ناصر صاحب کا پیغام ملا کہ شام کو میں فارغ ہونگا۔چنانچہ میں نے انکی خد مت میں حاضری کی درخواست کی،جو قبول کرلی گئی۔

میں تو پہلی ملاقات کے بعد میں کب کا منتظر تھا۔چنانچہ آج عصر کے وقت میں سر جی کی خدمت میں حاضر ہوا۔

کمال شفقت دیکھئے کہ سر نے پہلے سے ہی کافی کی تیاری کی ہوئی تھی،صرف دودھ کا مرحلہ ہمارے منتظر تھا۔حالانکہ میں نے سر جی کو کہا کہ کہیں باہر چلتے ہیں ،کسی باغ وغیرہ میں ،تاکہ عصر کے وقت کا یہ قدرتی ماحول انجوائے کریں۔لیکن سید صاحب نے کافی پلائے بغیر کہیں جانے نہیں دیا۔

PC230001.JPG


اس دوران سید صاحب نے ایک کتاب اٹھائی اور اور بتایا کہ یہ ایک ادبی کتاب ہے ،لیکن کچھ خاص معروف نہیں ہے ۔

PC230027.JPG


PC230026.JPG


پھر انہوں نے ورق گردانی کرتے ہوئے ایک شخص کی تصویر سامنے کی اور بتایا کہ اس شخص کو جانتے ہو؟
میں نے انکار میں سر ہلایا اور تصویر سامنے کرکے اسکو غور سے دیکھنے لگا، تصویر پر ایک کونے میں ظفر اقبال نام لکھا تھا۔

PC230024.JPG


سید صاحب نے بتایا کہ کبھی جیو ٹی وی کا پروگرام خبرناک دیکھا ہے!
میں نے کہا کہ ہاں کئی بار دیکھا ہے۔

تو انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کےاینکر آفتاب کو جانتے ہو ۔

میں نے کہاں کہ ہاں ہاں ابھی یاد آیا۔

تو سید ساحب نے فرمایا کہ یہ شخص اس کا باپ ہے۔

یہ رہا ظفر اقبال کا مکمل تعارف
PC230025.JPG


اور پھر بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس ظفر اقبال نے ایک مضمون لکھا ہے۔

PC230023.JPG


اس مضمون میں صفحہ نمبر 135 میں تیسرے پیراگراف پر یہ بندہ غالب کے بارے میں کچھ یوں لکھتا ہے

PC230022.JPG


سید صاحب شدید غصہ میں تھے۔اور اس بندے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
نوٹ:سید صاحب نے اس بارے مستقل دھاگہ بھی بنا دیا ہے۔

پھر سید صاحب نے ایک دوسری کتاب دکھائی ادب اور انقلاب کے نام سے ،جو کہ شائد 1934 میں لکھی گئی تھی۔سید صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ یہ کتاب کمپوز کرکے اردو محفل کی لائبریری میں شامل کرنی ہے۔

PC230020.JPG


اسی اثناء باورچی آصف چائے کیلئے گرم دودھ لے آیا۔چنانچہ سید صاحب نے اپنے ماہرانہ طریقے سے کافی کے اس آمیزے کو دودھ میں ملا دیا،اور دو سیکنڈ میں ہمارے کافی تیار ہوگئی۔سر شہزاد ناصر صاحب نے مہمانوں والا کپ میرے سامنے رکھا اور خود عام شیشے کے کپ میں کافی نوش کرنے لگا۔

مجھے شدید شرم آئی کہ سر جی خود تو عام شیشے کے پیالے میں کافی پئے اور ہمیں مہمانوں والا قیمتی کپ پیش کرے۔ایک بار تو اپنا کپ سر جی کو پیش کردیا کہ جی آپ اس میں کافی پی لیں اور مجھے وہ عام شیشے والا کپ دیں۔لیکن پھر اس خیال سے کپ واپس کردیا کہ سر جی مائینڈ نہ کریں کہ یہ منصور کیوں کپ تبدیل کروا رہا ہے۔

PC230010.JPG


اس دوران مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔اردو بلاگنگ اور اردو محفل پر کچھ بات ہوئی ۔
ابن سعید بھائی ، شمشاد صاحب ، پردیسی صاحب امجد علی راجا صاحباور دیگر احباب کا ذکر خیر ہوا۔

باتوں باتوں کے دوران جب ایک بار پھر غالب کا ذکر آیا تو اس حوالے سے غالب کی بھتیجی کا بھی ذکر خیر ہوا،کہ کس قدر مشقت اور توجہ سے 5 سالوں میں دیوان غالب کا ایک مستند نسخہ انہوں نے اردو محفل کو پیش کیا ہے۔ جیہ

اس دوران سید صاحب کی کمپنی کے ڈاون سائیزنگ اور اسکے مضر اثرات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
باتوں کے دوران سید صاحب کے ایک دوست نے کیمرہ لے کر چند تصاویر بھی اتاری ، جس میں بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کچھ تحذیف کی گئی۔

PC230013a.jpg


PC230015a.jpg


PC230016a.jpg


مجھے علم نہیں تھا ،لیکن اس بار سید صاحب نے ہمیں کھانا کھلانے کامکمل پلان ترتیب دیا تھا،حالانکہ میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ تو ہماری روایات کے خلاف ہے۔آپ پنجاب سے تشریف لائے ہیں،چاہے آپ نے کئی سال یہاں کیوں نہیں گذارے لیکن آپ پھر بھی مہمان ہیں ،لھذا میزبانی ہم نے ہی کرنی ہے۔لیکن سید صاحب بالکل نہیں مانے چنانچہ الامر فوق الادب کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں الٹا سید صاحب کا مہمان بننا پڑا۔

باورچی آصف مستعدی سے اپنے کام میں مگن تھا۔سید صاحب نے باورچی کو اچھے الفاظ میں یاد کیا، اور اسکی چھوٹی بیٹی کی بیماری کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ اس کی بچی کے دل میں سوراخ ہے،لیکن چونکہ ابھی بچپنا ہے ،اسلئے اندرون ملک علاج ممکن ہے۔

میں نے سید صاحب کو بتایا کہ جہاں سے بھی ممکن ہو، اس بچی کا علاج ابھی سے کروائیں،کہ ابھی بچپن میں ہر قسم کا علاج ممکن ہے۔

اس دوران ٹی وی پر میری نظر پڑی تو شائد کسی پاکستانی نوجوان کے بارے میں پروگرام دکھایا جا رہا تھا کہ جس نے ملک کیلئے کسی قربانی میں اپنا دائیاں ہاتھ اور بائیاں پاؤں قربان کردیا تھا۔

اسکی حالت دیکھ کر دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ لوگ ملک کیلئے کیسے قربانیاں کرتے ہیں اور پھر ان قربانیوں کا صلہ انکو کو کچھ بھی نہیں ملتا۔سب کچھ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔

چینل بدل دیا گیا تو پنو عاقل کی حادثے کی خبر منتظر تھی،جس میں 40 کے قریب بندے ڈرائیور کی اوور سپیڈنگ کے سبب لقمہ اجل بنے تھے۔

دل خراب ہوا تو چینل بدلنے کا کہا، جیسے ہی چینل بدلا ،تو ایک جعلی عامل کے لوگوں اور سادہ لوح عورتوں کے جان ومال کے لوٹنے کے قصے شروع ہوئے۔بس رہی سہی کسر اس نے پوری کردی۔

طبیعت بہت بوجھل ہوگئی،تو اپنے ٹی وی نہ دیکھنے کی عادت پر ایک بھرپور شکر اللہ تعالیٰ کا ادا کیا۔

اسی دوران کیا دیکھتا ہوں کہ چند دیگر مہمان بھی آگئے ،جن میں سے ایک شائد سید صاحب کے کمپنی کے انجنیئر تھے۔ان سے تعارف ہوا اور تھوڑی گپ شپ لگی۔

باتوں کے دوران نشتر ہال پشاور کے ایک پروگرام کا ذکر ہوا تو ان صاحب نے بتایا کہ میں بھی اس پروگرام میں شریک ہوا تھا۔
اور میں نے لوہا گرم دیکھ اسکو بتایا کہ اس پروگرام میں تو میں نے بھی تقریر کی تھی

اس نے فورا کہا کہ ہاں ہاں ابھی مجھے یاد آگیا۔۔بس پھر کیا تھا کہ وہ بے چارہ اس قدر ایمپریس ہوگیا،کہ مجھ سے عمر میں بڑا ہونے کے باوجود وہ کافی ادب سے بات کرنے لگا۔میں نے اسکی حوصلہ افزائی کی ہر قسم ممکنہ تعاون کا یقین دلایا ،ساتھی میں نے اس عزت داری پر دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

خیر پھر ہم نے تفصیل سے عوام کی فلاح کیلئے کئے گئے چند منصوبوں پر گفتگو کی۔

ہم تو باتوں میں اس قدر مصروف تھے کہ پتہ ہی نہیں چلا اور عشائیہ تیار ہوکر دسترخوان پر لگا دیا گیا تھا۔

سید صاحب کی پر خلوص دعوت کابہت شکریہ
انکے باروچی نے لگن سے کھانا تیار کیا تھا ،جس کے سبب کھانا ذائقے اور خلوص سے بھرپور تھا۔

چنانچہ کھانے سے فراغت کے بعد میں نے ان احباب سے رخصت چاہی اور گھر کی طرف چل دیا ۔
 
آخری تدوین:

جیہ

لائبریرین
زبردست روداد ۔ بہت خوب

بھیا جانی تو اور بوڑھے وو گئے ہیں :) اور یہ قبلہ کیوں منہ چھپائے پھر رہے ہیں ۔؟ :)

ویسے بری بات مردوں کی محفل میں پرائی بیواؤں کا ذکر نہیں کرتے;)
 

منصور مکرم

محفلین
زبردست روداد ۔ بہت خوب

بھیا جانی تو اور بوڑھے وو گئے ہیں :) اور یہ قبلہ کیوں منہ چھپائے پھر رہے ہیں ۔؟ :)

ویسے بری بات مردوں کی محفل میں پرائی بیواؤں کا ذکر نہیں کرتے;)
یہ قبلہ کون ہیں۔


بیوائیں خود ہی قابل ذکر کام کرنے لگیں تو الزام ہمارے سر کیوں۔:)
نہ بیوائیں کارنامے انجام دیتی ،نہ ہم ذکر کرتے۔
جس وقت ہم احباب اردو محفل کا ذکر خیر کر رہے تھے ،اس وقت صرف میں اور سر جی ہی تھے۔بلکہ سر جی تو اس معاملے خاص محتاط تھے۔


لیکن چلیں اب سے احتیاط،کہ واقعی پردہ نشیں پھر بھی ہیں۔
 

جیہ

لائبریرین
یہ قبلہ کون ہیں۔


بیوائیں خود ہی قابل ذکر کام کرنے لگیں تو الزام ہمارے سر کیوں۔:)
نہ بیوائیں کارنامے انجام دیتی ،نہ ہم ذکر کرتے۔

لیکن چلیں اب سے احتیاط،کہ واقعی پردہ نشیں پھر بھی ہیں۔
پردہ نشین تو ہیں مگر چلمن سے لگے بیٹھے ہیں۔۔۔
کوئی بات نہیں بقول غالب
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے :)
 
آج صبح سر شہزاد ناصر صاحب کا پیغام ملا کہ شام کو میں فارغ ہونگا۔چنانچہ میں نے انکی خد مت میں حاضری کی درخواست کی،جو قبول کرلی گئی۔

میں تو پہلی ملاقات کے بعد میں کب کا منتظر تھا۔چنانچہ آج عصر کے وقت میں سر جی کی خدمت میں حاضر ہوا۔

کمال شفقت دیکھئے کہ سر نے پہلے سے ہی کافی کی تیاری کی ہوئی تھی،صرف دودھ کا مرحلہ ہمارے منتظر تھا۔حالانکہ میں نے سر جی کو کہا کہ کہیں باہر چلتے ہیں ،کسی باغ وغیرہ میں ،تاکہ عصر کے وقت کا یہ قدرتی ماحول انجوائے کریں۔لیکن سید صاحب نے کافی پلائے بغیر کہیں جانے نہیں دیا۔

PC230001.JPG


اس دوران سید صاحب نے ایک کتاب اٹھائی اور اور بتایا کہ یہ ایک ادبی کتاب ہے ،لیکن کچھ خاص معروف نہیں ہے ۔

PC230027.JPG


PC230026.JPG


پھر انہوں نے ورق گردانی کرتے ہوئے ایک شخص کی تصویر سامنے کی اور بتایا کہ اس شخص کو جانتے ہو؟
میں نے انکار میں سر ہلایا اور تصویر سامنے کرکے اسکو غور سے دیکھنے لگا، تصویر پر ایک کونے میں ظفر اقبال نام لکھا تھا۔

PC230024.JPG


سید صاحب نے بتایا کہ کبھی جیو ٹی وی کا پروگرام خبرناک دیکھا ہے!
میں نے کہا کہ ہاں کئی بار دیکھا ہے۔

تو انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کےاینکر آفتاب کو جانتے ہو ۔

میں نے کہاں کہ ہاں ہاں ابھی یاد آیا۔

تو سید ساحب نے فرمایا کہ یہ شخص اس کا باپ ہے۔

یہ رہا ظفر اقبال کا مکمل تعارف
PC230025.JPG


اور پھر بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس ظفر اقبال نے ایک مضمون لکھا ہے۔

PC230023.JPG


اس مضمون میں صفحہ نمبر 135 میں تیسرے پیراگراف پر یہ بندہ غالب کے بارے میں کچھ یوں لکھتا ہے

PC230022.JPG


سید صاحب شدید غصہ میں تھے۔اور اس بندے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
نوٹ:سید صاحب نے اس بارے مستقل دھاگہ بھی بنا دیا ہے۔

پھر سید صاحب نے ایک دوسری کتاب دکھائی ادب اور انقلاب کے نام سے ،جو کہ شائد 1934 میں لکھی گئی تھی۔سید صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ یہ کتاب کمپوز کرکے اردو محفل کی لائبریری میں شامل کرنی ہے۔

PC230020.JPG


اسی اثناء باورچی آصف چائے کیلئے گرم دودھ لے آیا۔چنانچہ سید صاحب نے اپنے ماہرانہ طریقے سے کافی کے اس آمیزے کو دودھ میں ملا دیا،اور دو سیکنڈ میں ہمارے کافی تیار ہوگئی۔سر شہزاد ناصر صاحب نے مہمانوں والا کپ میرے سامنے رکھا اور خود عام شیشے کے کپ میں کافی نوش کرنے لگا۔

مجھے شدید شرم آئی کہ سر جی خود تو عام شیشے کے پیالے میں کافی پئے اور ہمیں مہمانوں والا قیمتی کپ پیش کرے۔ایک بار تو اپنا کپ سر جی کو پیش کردیا کہ جی آپ اس میں کافی پی لیں اور مجھے وہ عام شیشے والا کپ دیں۔لیکن پھر اس خیال سے کپ واپس کردیا کہ سر جی مائینڈ نہ کریں کہ یہ منصور کیوں کپ تبدیل کروا رہا ہے۔

PC230010.JPG


اس دوران مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔اردو بلاگنگ اور اردو محفل پر کچھ بات ہوئی ۔
ابن سعید بھائی ، شمشاد صاحب ، پردیسی صاحب امجد علی راجا صاحباور دیگر احباب کا ذکر خیر ہوا۔

باتوں باتوں کے دوران جب ایک بار پھر غالب کا ذکر آیا تو اس حوالے سے غالب کی بھتیجی کا بھی ذکر خیر ہوا،کہ کس قدر مشقت اور توجہ سے 5 سالوں میں دیوان غالب کا ایک مستند نسخہ انہوں نے اردو محفل کو پیش کیا ہے۔ جیہ

اس دوران سید صاحب کی کمپنی کے ڈاون سائیزنگ اور اسکے مضر اثرات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
باتوں کے دوران سید صاحب کے ایک دوست نے کیمرہ لے کر چند تصاویر بھی اتاری ، جس میں بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کچھ تحذیف کی گئی۔

PC230013a.jpg


PC230015a.jpg


PC230016a.jpg


مجھے علم نہیں تھا ،لیکن اس بار سید صاحب نے ہمیں کھانا کھلانے کامکمل پلان ترتیب دیا تھا،حالانکہ میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ تو ہماری روایات کے خلاف ہے۔آپ پنجاب سے تشریف لائے ہیں،چاہے آپ نے کئی سال یہاں کیوں نہیں گذارے لیکن آپ پھر بھی مہمان ہیں ،لھذا میزبانی ہم نے ہی کرنی ہے۔لیکن سید صاحب بالکل نہیں مانے چنانچہ الامر فوق الادب کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں الٹا سید صاحب کا مہمان بننا پڑا۔

باورچی آصف مستعدی سے اپنے کام میں مگن تھا۔سید صاحب نے باورچی کو اچھے الفاظ میں یاد کیا، اور اسکی چھوٹی بیٹی کی بیماری کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ اس کی بچی کے دل میں سوراخ ہے،لیکن چونکہ ابھی بچپنا ہے ،اسلئے اندرون ملک علاج ممکن ہے۔

میں نے سید صاحب کو بتایا کہ جہاں سے بھی ممکن ہو، اس بچی کا علاج ابھی سے کروائیں،کہ ابھی بچپن میں ہر قسم کا علاج ممکن ہے۔

اس دوران ٹی وی پر میری نظر پڑی تو شائد کسی پاکستانی نوجوان کے بارے میں پروگرام دکھایا جا رہا تھا کہ جس نے ملک کیلئے کسی قربانی میں اپنا دائیاں ہاتھ اور بائیاں پاؤں قربان کردیا تھا۔

اسکی حالت دیکھ کر دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ لوگ ملک کیلئے کیسے قربانیاں کرتے ہیں اور پھر ان قربانیوں کا صلہ انکو کو کچھ بھی نہیں ملتا۔سب کچھ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔

چینل بدل دیا گیا تو پنو عاقل کی حادثے کی خبر منتظر تھی،جس میں 40 کے قریب بندے ڈرائیور کی اوور سپیڈنگ کے سبب لقمہ اجل بنے تھے۔

دل خراب ہوا تو چینل بدلنے کا کہا، جیسے ہی چینل بدلا ،تو ایک جعلی عامل کے لوگوں اور سادہ لوح عورتوں کے جان ومال کے لوٹنے کے قصے شروع ہوئے۔بس رہی سہی کسر اس نے پوری کردی۔

طبیعت بہت بوجھل ہوگئی،تو اپنے ٹی وی نہ دیکھنے کی عادت پر ایک بھرپور شکر اللہ تعالیٰ کا ادا کیا۔

اسی دوران کیا دیکھتا ہوں کہ چند دیگر مہمان بھی آگئے ،جن میں سے ایک شائد سید صاحب کے کمپنی کے انجنیئر تھے۔ان سے تعارف ہوا اور تھوڑی گپ شپ لگی۔

باتوں کے دوران نشتر ہال پشاور کے ایک پروگرام کا ذکر ہوا تو ان صاحب نے بتایا کہ میں بھی اس پروگرام میں شریک ہوا تھا۔
اور میں نے لوہا گرم دیکھ اسکو بتایا کہ اس پروگرام میں تو میں نے بھی تقریر کی تھی

اس نے فورا کہا کہ ہاں ہاں ابھی مجھے یاد آگیا۔۔بس پھر کیا تھا کہ وہ بے چارہ اس قدر ایمپریس ہوگیا،کہ مجھ سے عمر میں بڑا ہونے کے باوجود وہ کافی ادب سے بات کرنے لگا۔میں نے اسکی حوصلہ افزائی کی ہر قسم ممکنہ تعاون کا یقین دلایا ،ساتھی میں نے اس عزت داری پر دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

خیر پھر ہم نے تفصیل سے عوام کی فلاح کیلئے کئے گئے چند منصوبوں پر گفتگو کی۔

ہم تو باتوں میں اس قدر مصروف تھے کہ پتہ ہی نہیں چلا اور عشائیہ تیار ہوکر دسترخوان پر لگا دیا گیا تھا۔

سید صاحب کی پر خلوص دعوت کابہت شکریہ
انکے باروچی نے لگن سے کھانا تیار کیا تھا ،جس کے سبب کھانا ذائقے اور خلوص سے بھرپور تھا۔

چنانچہ کھانے سے فراغت کے بعد میں نے ان احباب سے رخصت چاہی اور گھر کی طرف چل دیا ۔
مزہ آ گیا پڑھ کر
ماشاءاللہ خوب لکھا :)
اللہ ہمیشہ خوش و خرم رکھے آمین
 
Top