شاعری سیکھیں (نویں قسط) ۔ بحرِ متقارب

تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

نویں قسط:
محترم شعرائے عظام!
جی ہاں جناب! اس بار ہم خود آپ کو ’’شعرائے عظام‘‘ کا لقب دے رہے ہیں، اس لیے کہ کسی کو لقب دو وجہ سے دیا جاتا ہے(ہمارے نزدیک) ، ایک تو اس وجہ سے کہ وہ صفت اس میں پہلے سے موجود ہوتی ہے جیسے علامہ اقبال مرحوم کو اردو اور فارسی شاعری میں مشرقی روایات بہترین ترجمانی کی وجہ سے ’’شاعرِ مشرق‘‘ کا لقب دیا گیا۔ دوسرے اس وجہ سے کسی کو لقب دیا جاتا ہے کہ اس لقب کی لاج رکھتے ہوئے وہ مستقبل قریب میں اپنے اندر اس صفت کو پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

آپ کو ’’شعرائے عظام‘‘ کا لقب اس دوسری وجہ سے دیا جارہا ہے ، تاکہ اس لقب کی لاج رکھتے ہوئے آپ شاعری سیکھنے کی کوشش کو نہ صرف جاری رکھیں، بل کہ اس سبق کو پڑھ کر مکمل مصرع بنانے پر قادر ہونے کی خوشی میں مزید محنت کریں۔

یاد رکھیں، ایک اچھا شعر کہنے کے لیے جہاں ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ جیسے ارکان بنانے کی مہارت ضروری ہے( جو کہ ماشاء اللہ! آپ کے اندر پیدا ہوچکی ہے) وہیں ایک عمدہ شعر وجود میں لانے کے لیے ہزاروں اشعار کا مطالعہ کرنا بھی از حد ضروری ہے۔

لہٰذا اب آپ کے ذمے ہے کہ اس لقب’’شعرائے عظام‘‘ کی لاج رکھتے ہوئے اس سلسلے میں دیے گئے کام کو ذوق و شوق سے کرنے کے ساتھ بڑے شعرا کے کلام کو بھی پڑھیں۔ جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے ایک شاعر چنیں مثلاً علامہ اقبال، پھر ان کے دیوان ’’کلیاتِ اقبال‘‘ کا مطالعہ شروع کردیں اور روزانہ اپنا کچھ وقت مثلاً پندرہ منٹ یا آدھا گھنٹا اس کام کے لیے مختص کرلیں۔

اب آتے ہیں مشق کی طرف:
آپ ماشاء اللہ ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کی خوب مشق کرچکے ہیں، حتی کہ ’’فعولن فعولن‘‘ اور ’’فاعلن فاعلن‘‘ کی مثالیں بھی بناچکے ہیں، یوں سمجھیں جب آپ نے ’’فعولن‘‘ کی مشق کی تو گویا آپ نے ایک چوتھائی مصرع بنانا سیکھ لیا، پھر جب آپ نے ’’فعولن فعولن‘‘ کی مشق کی تو آدھا مصرع سیکھ گئے، اب اگر اسے بھی دوگنا کرلیں تو آپ مکمل مصرع، بل کہ شعر بنانا سیکھ جائیں گے۔
یعنی ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ کے وزن پر جملے بنانے میں اگر آپ کام یاب ہوگئے تو گویا شعر بنانے پر قادر ہوگئے۔

ان جملوں میں غور کریں:
ہمارا بھی روزہ تمھارا بھی روزہ… کراچی میں گرمی بہت ہے زیادہ… ہمارے یہاں آج بجلی نہیں ہے… الٰہی! عطا کر ہمیں بھائی چارہ… محبت سے رہنے کی عادت عطاکر… دسہری، سرولی ہیں آموں کی قسمیں۔
یہ تمام جملے ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ کے وزن پر ہیں ، انھیں کئی مرتبہ اپنی زبان سے دہرائیں اور غور کریں کہ کہاں حرف علت وزن سے گر رہا ہے اور کہاں نہیں گر رہا۔

مثال کے طور پر:
ہمارا=فعولن بھی روزہ= فعولن تمھارا=فعولن بھی روزہ=فعولن
پہلے رکن ’’ہمارا‘‘ میں ایک بھی حرف نہیں گر رہا، دوسرے رکن ’’بھی روزہ‘‘ میں ’’ی‘‘ شمار نہیں ہوگی، دو چشمی ہا(ھ) کا تو اصول ہے کہ وہ کبھی شمار نہیں کی جاتی، ’’ی‘‘ میں اختیار ہوتا ہے، گویا لفظِ ’’بھی‘‘ ایک ہجائے کوتاہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آپ کے اندر یہ صلاحیت کیسے پیدا ہوگی کہ آپ بھی ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ کے وزن پر پورا جملہ کہنے پر قادر ہوجائیں، ہمارا خیال ہے کہ بعض قارئین خداداد صلاحیت کی بنا پر اب تک قادر ہوچکے ہوں گے، بعض کو بالکل سمجھ میں نہیں آرہا ہوگا، جب کہ بعض کو کچھ کچھ مشکل پیش آرہی ہوگی۔
جنھیں خداداد صلاحیت کی بنا پر سمجھ میں آچکا ہے اور وہ اس وزن پر پورا جملہ بنانے پر قادر ہوچکے ہیں ان کو تو بہت بہت مبارک ہو!
جنھیں بالکل سمجھ میں نہیں آرہا، انھیں چاہیے کہ پچھلی اقساط کو دوبارہ پڑھیں، ان کی خوب مشق کریں پھر اگلی قسط کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
جنھیں کچھ کچھ مشکل پیش آرہی ہے، ان کے لیے ہم آسان سا طریقہ بتلائے دیتے ہیں۔

ان الفاظ کو کم از کم بیس مرتبہ زیرِ لب دہرائیں: ’’فٹافٹ فٹافٹ فٹافٹ فٹافٹ ‘‘
پھر بیس مرتبہ اس جملے کو دہرائیں: ’’فٹافٹ کرو تم فٹافٹ کروتم‘‘
پھر بیس مرتبہ اسے دہرائیں: ’’ارادہ اگرہو فٹافٹ کروتم‘‘

امید ہے اب کچھ مناسبت ہوگئی ہوگی، اب اپنے طور پر بنانے کی کوشش کریں اور اگر پھر بھی مشکل ہوتو اس عمل کو پھر دہرائیں یہاں تک کہ ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ یا ’’فٹافٹ فٹافٹ فٹافٹ فٹافٹ‘‘ آپ کی زبان پر اتنا رواں ہوجائے کہ اس وزن پر آپ آسانی سے کئی کئی جملے بناسکیں۔

کام:
1۔ ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ اس وزن کے مطابق بیس جملے لکھیں۔
2۔ ان چار جملوں میں غور کریں:
٭کوئی اس کے جیسا شمارہ نہیں ہے۔ ٭یہ آموں کا تھیلا تمھارا نہیں ہے۔
٭سمندر تو ہے پر کنارہ نہیں ہے۔ ٭کسے ماہِ رمضان پیارا نہیں ہے۔
ان چاروں جملوں میں دو باتیں مشترک ہیں: ۱۔ چاروں ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘کے وزن پر ہیں۔ ۲۔ چاروں میں ’’شمارہ‘‘ ،’’تمھارا‘‘، ’’کنارہ‘‘ اور ’’پیارا‘‘ قوافی ہیں اور ’’نہیں ہے‘‘ ردیف ہے۔ البتہ چاروں جملے مطلب اور معنی کے لحاظ سے الگ الگ ہیں، آپ بھی ایسے کم از کم پانچ جملے بنائیں جو ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘کے وزن پر ہوں اور ان کا کوئی قافیہ اور ردیف بھی ہو۔

الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔

اگلی قسط
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
نویں مشق:بھائی محمد اسامہ سَرسَری
بیس جملے فعولن فعولن فعولن فعولن کے وزن پر

1:۔اگر دیکھنا ہے تو جی بھر کے دیکھو
2:۔نہ دیکھا کرو تم جھجک سے شرم سے

3:۔کبھی تم نے دیکھا ہے جسموں کو جَلتے
4:۔بدن کو تڑپتے،لہو کو اچھلتے
5:۔رفاقت میں سب کو سکوں مل گیا تھا
6:۔جدائی میں اس کی ،دلوں کو مچلتے
7:۔کبھی تم نے دیکھا ہے شمس و قمر کو
8:۔کہ اپنے مداروں پہ رہتے ہیں چلتے

9:۔سہانا ہے موسم ذرا جا کے دیکھو
10:۔کبھی غم کسی کا اٹھا کے تو دیکھو

11:۔محبت میں زندہ رہیں کیسے لوگو؟
12:۔جدائی کو دل پر سہیں کیسے لوگو؟
13:۔جو کہنی تھی ہم نے ابھی تک ہے دل میں
14:۔جو باتیں ہیں دل میں کہیں کیسے لوگو؟

15:۔سنو سب کی باتیں کرو اپنی مرضی
16:۔کبھی نہ کسی سے شکایت کرو جی
17:۔ہمیشہ ہی لوگوں کو دو حوصلہ تم
18:۔کسی سے نہ کچھ لو، عنایت کرو جی

19:۔اجی گفتگو کا طریقہ تو سیکھو
20:۔ذرا با ت کا تم سلیقہ تو سیکھو

21:۔نصیبو ں سے ہوتا ہے روضے کو جانا
22:۔جو جاو تو اپنا مقدر بنا نا

23:۔کیا تم سنو گے مری یہ کہانی
24:۔اگرتم،سنو تو، سناوں گا تم کو
25:۔اگر تم کہو تو بتاوں گا تم کو

قوافی ، ردیف، رکھنے والے فعولن کے وزن پر جملے

شہادت سے تم جاوداں ہو گئے ہو
زمیں تم نہیں آسماں ہو گئے ہو
محبت سے تم بد گماں ہو گئے ہو
نہیں نام ور ،بے نشاں ہو گئے ہو
ارے تم کیوں بے زباں ہو گئے ہو
 
محترم جناب ساقی۔ صاحب!
ماشاءاللہ بہت خوب۔۔۔۔

1:۔اگر دیکھنا ہے تو جی بھر کے دیکھو
درست۔

2:۔نہ دیکھا کرو تم جھجک سے شرم سے
وزن درست ہے، جھجک سے دیکھنا ترکیب نامانوس سی لگ رہی ہے۔

3:۔کبھی تم نے دیکھا ہے جسموں کو جَلتے
4:۔بدن کو تڑپتے،لہو کو اچھلتے
5:۔رفاقت میں سب کو سکوں مل گیا تھا
6:۔جدائی میں اس کی ،دلوں کو مچلتے
7:۔کبھی تم نے دیکھا ہے شمس و قمر کو
8:۔کہ اپنے مداروں پہ رہتے ہیں چلتے
واہ یہ تو نظم بناڈالی۔۔۔۔ :)

9:۔سہانا ہے موسم ذرا جا کے دیکھو
درست۔

10:۔کبھی غم کسی کا اٹھا کے تو دیکھو
درست۔

11:۔محبت میں زندہ رہیں کیسے لوگو؟
12:۔جدائی کو دل پر سہیں کیسے لوگو؟
13:۔جو کہنی تھی ہم نے ابھی تک ہے دل میں
14:۔جو باتیں ہیں دل میں کہیں کیسے لوگو؟
یہ تو بہترین قطعہ بن گیا ہے۔ ۔۔۔۔ :)

15:۔سنو سب کی باتیں کرو اپنی مرضی
16:۔کبھی نہ کسی سے شکایت کرو جی
17:۔ہمیشہ ہی لوگوں کو دو حوصلہ تم
18:۔کسی سے نہ کچھ لو، عنایت کرو جی
بہت ہی عمدہ۔۔۔۔ لفظ ”نہ“ کو ہجائے کوتاہ ہی باندھا کریں ، بہت ہی مجبوری ہو تو الگ بات ہے۔

19:۔اجی گفتگو کا طریقہ تو سیکھو
20:۔ذرا با ت کا تم سلیقہ تو سیکھو
یہ بھی اچھا شعر ہوگیا ہے۔

21:۔نصیبو ں سے ہوتا ہے روضے کو جانا
22:۔جو جاو تو اپنا مقدر بنا نا
خوب۔۔۔۔

23:۔کیا تم سنو گے مری یہ کہانی
لفظ ”کیا“ یا تو سوالیہ ہوتا ہے جیسے ”کیا تم نے کھانا کھالیا؟“ یا ”کرنا“ سے ماضی کا صیغہ ہوتا ہے جیسے ”اچھا کام کیا۔“ پہلی صورت میں ایک ہجائے بلند ہے اور دوسری صورت میں ایک ہجائے کوتاہ پھر ایک ہجائے بلند ہے۔ یعنی فعو(21)

24:۔اگرتم،سنو تو، سناوں گا تم کو
درست۔

25:۔اگر تم کہو تو بتاوں گا تم کو
درست۔

قوافی ، ردیف، رکھنے والے فعولن کے وزن پر جملے
شہادت سے تم جاوداں ہو گئے ہو
زمیں تم نہیں آسماں ہو گئے ہو
محبت سے تم بد گماں ہو گئے ہو
نہیں نام ور ،بے نشاں ہو گئے ہو
ارے تم کیوں بے زباں ہو گئے ہو
لفظ ”کیوں“ فع(2) ہے، اسے (فعو) باندھنا درست نہیں۔
 

ساقی۔

محفلین
محترم جناب ساقی۔ صاحب!
ماشاءاللہ بہت خوب۔۔۔ ۔
شکریہ اسامہ بھائی۔ کافی محنت کوشش کرنی پڑی اس دفعہ۔



نہ دیکھا کرو تم جھجک سے شرم سے
وزن درست ہے، جھجک سے دیکھنا ترکیب نامانوس سی لگ رہی ہے۔

نہ دیکھا کرو تم جھجک کے، شرم سے



محبت میں زندہ رہیں کیسے لوگو؟
جدائی کو دل پر سہیں کیسے لوگو؟
جو کہنی تھی ہم نے ابھی تک ہے دل میں
جو باتیں ہیں دل میں کہیں کیسے لوگو؟

یہ تو بہترین قطعہ بن گیا ہے۔ ۔۔۔ ۔
اس کا مطلب محنت رنگ لا رہی ہے۔:)

بہت ہی عمدہ۔۔۔ ۔ لفظ ”نہ“ کو ہجائے کوتاہ ہی باندھا کریں ، بہت ہی مجبوری ہو تو الگ بات ہے۔

یاد رکھوں گا انشا اللہ


لفظ ”کیا“ یا تو سوالیہ ہوتا ہے جیسے ”کیا تم نے کھانا کھالیا؟“ یا ”کرنا“ سے ماضی کا صیغہ ہوتا ہے جیسے ”اچھا کام کیا۔“ پہلی صورت میں ایک ہجائے بلند ہے اور دوسری صورت میں ایک ہجائے کوتاہ پھر ایک ہجائے بلند ہے۔ یعنی فعو(21)
بہت شکریہ۔ اب ٹھیک؟
ذراتم سنو گے مری یہ کہانی

لفظ ”کیوں“ فع(2) ہے، اسے (فعو) باندھنا درست نہیں۔

اس میں سے کونسا حرف اڑایا آپ نے؟ اور کیوں؟
 
کیو ں۔۔۔ ک۔یو۔ں
۔۔۔ ۔۔۔ 1۔۔2۔۔

تو کیا یہ "فعو" نہ ہوا؟
نہیں بھئی ، لفظ ”کیوں“ فع(2) ہے۔ کیوں کہ نون غنہ کو وزنِ شعری میں شمار نہیں کیا جاتا اور ”ی“ ”ک“ کے ساتھ ملی ہوئی ہے جیسے ”پیار“ کی تقطیع ”پار“ ہوتی ہے اسی طرح ”کیوں“ کی تقطیع ”کو“ ہوتی ہے۔
 
Top