شاعری سیکھیں (ساتویں قسط) ۔ فاعلن

تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

ساتویں قسط:
محترم قارئینِ کرام…! …کیسے گزر رہے ہیں صبح و شام…خوب چل رہا ہے نا زندگی کا نظام… امید ہے مل رہا ہوگا راحت و آرام… مگر ذہن میں رکھنا قائدِ اعظم کا پیغام… کام ، کام اور کام… ہم بھی یہی کہیں گے سرِ عام… زندگی ہے محنت کے بغیر ناتمام۔

پچھلی قسط میں معلوم ہوا تھا کہ پانچ حرفی رکن کی دو قسمیں ہیں:
1۔فعولن
2۔ فاعلن

1۔’’فعولن‘‘ تو ہم نے مثالوں سے اچھی طرح سمجھ لیا تھا جیسے: ولادت، رضاعت، لڑکپن… جوانی… بڑھاپا… شہادت… قیامت… بہشتی… فرشتے… بہاریں… ہمیشہ… وغیرہ… وغیرہ۔

2۔ اب ذرا ’’فاعلن‘‘ کی خبر لیتے ہیں… یعنی ایک ’’ہجائے بلند‘‘ … پھر … ’’ہجائے کوتاہ‘‘… پھر … ’’ہجائے بلند‘‘۔ جیسے: بچپنا … تربیت… نوجواں… طاقتیں… زندگی… برزخی… جنتی… نعمتیں… راحتیں… مستقل… تاابد…وغیرہ۔

ارے…! یہ آپ کی پیشانی پر اتنی سلوٹیں کہاں سے آگئیں؟ کیا کہا…؟ نہیں سمجھ میں آیا… مگر کیوں؟ ’’فعولن‘‘اور ’’فاعلن‘‘، ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ تو پچھلی قسطوں میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔

اچھا اب سمجھ میں آیاکہ آپ کو سمجھ میں کیوں نہیں آیا، اب آپ کی سمجھ میں یقینا یہ نہیں آرہا ہوگا کہ ہماری سمجھ میں یہ کیسے آیا کہ وہ آپ کی سمجھ میں اس لیے نہیں آیا… نہیں آیا نا سمجھ میں؟ یہی تو ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور ہماری سمجھ میں بھی صرف وہی آیا کہ جس کا سمجھنا ضروری تھی، ایسا کیوں ہوا کہ وہ ہماری سمجھ میں آگیا، مگر آپ کی سمجھ میں نہیں آیا؟ اس کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ:
یا تو آپ نے پچھلی قسطیں پڑھی ہی نہیں ہیں… یا پھر پڑھی تو ہیں، مگر سمجھے بغیر… یا سمجھ بھی لیا ہوگا ، مگر اس کی مشق نہیں کی ہوگی… یا مشق بھی کرلی ہوگی، مگر زیادہ وقت گزرنے پر ذہن سے نکل گیا ہوگا۔

اب آتے ہیں ’’فاعلن‘‘ کی طرف۔
’’فاعلن‘‘ (۲۱۲) کی چند مزید مثالیں:
جنوری … فروری… سرسری… کپکپی… مصطفی… مجتبیٰ… فاصلے… قافلے… استری… مستری… جستجو… گفتگو… روبرو… ہوبہو… بے وفا… بے سرا… باعمل… آج کل… لازمی… عارضی… اکتفا… انتہا… ملتوی… مقتدی۔

امید ہے اتنی مثالیں کافی ہوں گی، اگر صرف مثالوں کو دیکھ کر طبیعت میں جھنجھناہٹ اور جھنجھلاہٹ ہورہی ہے تو زیادہ تلملاہٹ اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں، بل کہ اس اکتاہٹ اور جھلّاہٹ کو دور کرنے کے لیے چہرے پر مسکراہٹ کی سجاوٹ کے ساتھ درجِ ذیل اشعار کو دلی لگاوٹ اور قلبی ترواٹ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:

بارشوں کی فضا عام ہے آج کل۔۔۔آگیا موسمِ ”آم“ ہے آج کل
راستوں میں بہت گندگی ہوگئی۔۔۔اس لیے ہر سڑک جام ہے آج کل
لوبیا ، ککڑیاں ، پیاز ، آلو ، مٹر۔۔۔سبزیوں کا بڑھا دام ہے آج کل
جاگنا رات بھر اور جگانا ہمیں۔۔۔مچھروں کا یہی کام ہے آج کل
آج کل منظرِ صبح ہے خوب رو۔۔۔دل ربا منظرِ شام ہے آج کل
کام ہے کام پیغامِ قائد ہمیں۔۔۔مقصدِ زیست آرام ہے آج کل
نام تو تھا محمد اسامہ ترا۔۔۔کیوں مگر سَرسَرؔی نام ہے آج کل
اس نظم میں سات اشعار ہیں۔۔۔
ہر شعر میں دو مصرعے ہیں۔۔۔۔
ہر مصرع میں چار ارکان ہیں۔۔۔۔ یعنی فاعلن، فاعلن، فاعلن، فاعلن۔

پہلے مصرع میں غور کریں: ’’بارشوں کی فضا عام ہے آج کل‘‘
بارشوں=فاعلن…
کی فضا=فاعلن…
عام ہے=فاعلن…
آج کل=فاعلن…

اسی طرح باقی تمام اشعار میں غور کرتے جائیں۔

وضاحت: اسی غور کرنے کو شاعری کی زبان میں ’’تقطیع‘‘ کہتے ہیں، یعنی اگر کوئی آپ سے کہے کہ اس نظم کے چھٹے شعر کی تقطیع کریں تو آپ اس کی تقطیع یوں پیش کریں گے:
کام ہے=فاعلن…
کام پے=فاعلن…
غامِ قا=فاعلن…
ئد ہمے=فاعلن…

ایک کام کی بات:
یاد رکھیں، اگر آپ کو ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ سمجھ میں آگیا اور آپ نے اس کی اتنی مشق کرلی کہ کسی بھی جملے میں غور کرکے آپ اس کے تمام ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ کو الگ الگ کرنے پر قادر ہوگئے تو وزنِ شعری آپ گویا آدھے سے زیادہ سیکھ گئے۔

اس کے لیے آپ اپنے ذوق و شوق سے چلتے پھرتے مختلف الفاظ میں صرف یہ غور کرنے کی عادت بنالیں کہ ان میں کتنے ’’ہجائے بلند‘‘ اور کتنے ’’ہجائے کوتاہ‘‘ ہیں۔

کام:
1۔ فاعلن(۲۱۲) کے وزن پر بیس الفاظ لکھیں۔
2۔ سَرسَری… کپکپی… ڈگڈگی… استری… آدمی
ان تمام الفاظ میں دو باتیں مشترک ہیں: ایک یہ کہ ہر لفظ ’’فاعلن‘‘ کے وزن پر ہے اور دوسرا یہ کہ ہر لفظ کے آخر میں ’’ی‘‘ ہے، آپ ایسے دس الفاظ مزید لکھیں۔
3۔ مندرجہ ذیل الفاظ کے ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ کے لحاظ سے نمبر نکالیں:
دل… وفا… شام… شمع… کرم… عزم… بلبل… قریب… درخت… عَرَبی… عُلَما… طُلَّاب… مناسب… کہکشاں… آسمان… منتظمہ… انتظامیہ… نظم… قمَر… عمْر۔
جیسے: شمع=۱۲… کہکشاں=۲۱۲
4۔ پچھلی تمام اقساط کا خلاصہ لکھیں، جس میں آپ یہ بتائیں کہ پہلی قسط سے موجودہ قسط تک آپ نے کیا کیا سمجھا۔

الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔

اگلی قسط
 
آخری تدوین:
فعولن اور فاعلن کو سمجھنے کے لئے غور کریں:
فعولن کو اگر اس طرح توڑیں کہ( ف +عو +لن) ۔ف حرف کوتاہ ہے اور عو اور لن حرف بلند ہیں۔یعنی فعولن میں پہلے حرف کوتاہ اور پھر دو حروف بلند ہوتے ہیں۔
اسی طرح فاعلن کو توڑیں تو (فا+ع +لن) فا حرف بلند ہے اور ع حرف کوتاہ اسی طرح لن بھی حرف بلند ہے ۔یعنی فاعلن حرف بلند،حرف کوتاہ اور حرف بلند سے مل کر بنتا ہے۔
 
فعولن اور فاعلن کو سمجھنے کے لئے غور کریں:
فعولن کو اگر اس طرح توڑیں کہ( ف +عو +لن) ۔ف حرف کوتاہ ہے اور عو اور لن حرف بلند ہیں۔یعنی فعولن میں پہلے حرف کوتاہ اور پھر دو حروف بلند ہوتے ہیں۔
اسی طرح فاعلن کو توڑیں تو (فا+ع +لن) فا حرف بلند ہے اور ع حرف کوتاہ اسی طرح لن بھی حرف بلند ہے ۔یعنی فاعلن حرف بلند،حرف کوتاہ اور حرف بلند سے مل کر بنتا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

ساقی۔

محفلین
محمد اسامہ سَرسَری بھائی

قسط نمبر سات کی مشق۔

فاعلن کے وزن پر بیس الفاظ

مجتہد،مقابل،منتظر،بے سبب،کارواں،امتحاں،سختیاں،جا نشیں،نوکری،کافیہ،ناتواں،ہو گیا،جو گیا،مُدَّتوں،کامراں،نوجواں،انتہا،کرسیاں،فائدہ،قائدہ،کرچیاں،

سرسری، کپکپی، پر کافیے،فاعلن کے وزن پر۔

سر مئی،جامنی،کامنی،فارسی،آرسی،کیسری،بے سری،قرمزی،مستری،فَرْوَری،احمری،


ہجائے بلند:دل ۔۲،وفا۔۲۱،شمع۔۱۲،کرم۔۱۲،عزم۔۱۲،بلبل۔۲۲،قریب۔۲۲،درخت۔۱۲۱،عربی۲۲،علما۔۲۱۱،طلًاب۱۲۲،مناسب۔۲۲۱،کہکشاں۲۱۲،آسمان۔۱۲۱۲،منتظمہ۔۲۲۲،انتظامیہ۔۲۲۱۲۲،نظم۔۱۲،قمر۔۱۲،عمر۔۱۲،



پچھلی اقساط کا خلاصہ

حروف سے الفاظ بنتے ہیں ۔الفاظ سے قافیے بنتے ہیں ۔ارکان اور کافیے سے مصرع بنتا ہے دو مصرعے ہوں تو شعر بنتا ہے اور شعروں سے مل کر نظم یا غزل بنتی ہے۔

قافیہ:شعر کے آخر میں ہم آہنگ الفاظ کو قافیہ کہتے ہیں ،جیسے۔آب ،تاب ،باب وغیرہ

حرف روی:قافیے کے آخری اور اصلی حرف کو حرف روی کہتے ہیں۔جیسے آب ،تاب ،باب میں ‘‘ب’’ حرف روی ہے۔

ردیف:ایسے الفاظ جو بار بار قافیے کے بعد آئیں ردیف کہلاتے ہیں۔

مقفٰی جملے:ایسے جملے جن میں قافیے کی پابندی ہو۔

ہجائے بلند:الفاظ میں دو طرح کے ہجے ہوتے ہیں، دو حرفی اور ایک حرفی۔ دو حرفی کو ہجائے بلند مثلاً اب، تب، سب۔ یعنی ایک متحرک ایک ساکن۔

ہجائے کوتاہ:ایک حرفی کو ہجائے کوتاہ کہتے ہیں مثلاً شاعری میں شا اور ری دو حرفی ہیں اور ع ایک حرفی یا ہجائے کوتاہ ہے۔

ارکان:رکن کی جمع ہے ۔ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ سے مل کر ارکان بنتے ہیں ۔اور یہی وزن کہلاتےہیں ۔یعنی اگر شعر کے دونوں مصرعوں میں ارکان برابر ہوں تو شعر با وزن ہوتا ہے۔ ارکان کی تین قسمیں ہیں۔

پہلی قسم میں فاعلن اور فعولن پانچ حرفی ارکان ہیں۔
 
آخری تدوین:
جناب ساقی۔ صاحب!

فاعلن کے وزن پر بیس الفاظ
مجتہد،مقابل،منتظر،بے سبب،کارواں،امتحاں،سختیاں،جا نشیں،نوکری،کافیہ،ناتواں،ہو گیا،جو گیا،مُدَّتوں،کامراں،نوجواں،انتہا،کرسیاں،فائدہ،قائدہ،کرچیاں،
مقابل فاعلن نہیں بلکہ فعولن ہے۔ :)

سرسری، کپکپی، پر کافیے،فاعلن کے وزن پر۔
کافیے نہیں قافیے :)

سر مئی،جامنی،کامنی،فارسی،آرسی،کیسری،بے سری،قرمزی،مستری،فَرْوَری،احمری،
سرمئی کے بارے میں استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب رہنمائی فرماسکتے ہیں کہ یہ فاعلن ہے یا فعلن؟

دل ۔۲،وفا۔۲۱،شمع۔۱۲،کرم۔۱۲،عزم۔۱۲،بلبل۔۲۲،قریب۔۲۲،درخت۔۱۲۱،عربی۲۲،علما۔۲۱۱،طلًاب۱۲۲،مناسب۔۲۲۱،کہکشاں۲۱۲،آسمان۔۱۲۱۲،منتظمہ۔۲۲۲،انتظامیہ۔۲۲۱۲۲،نظم۔۱۲،قمر۔۱۲،عمر۔۱۲،
کرم فاع(12) نہیں بلکہ فَعَل(21) ہے۔
قریب فعلن(22) نہیں بلکہ فعول(121) ہے۔
عربی فعلن(22) نہیں بلکہ (211) ہے۔ علما کی طرح۔
منتظمہ مفعولن(222) نہیں بلکہ مفتَعِلن(2112) ہے۔
انتظامیہ 22122 نہیں بلکہ 22212 ہے۔ ان تِ ظا می یہ (یعنی اس کی ی مشدد ہے)
قمر فاع(12) نہیں بلکہ فَعَل(21) ہے۔
عمر (زندگی) فاع ہے اور عمر(نام) فعَل ہے۔


پچھلی اقساط کا خلاصہ
حروف سے الفاظ بنتے ہیں ۔الفاظ سے قافیے بنتے ہیں ۔ارکان اور کافیے سے مصرع بنتا ہے دو مصرعے ہوں تو شعر بنتا ہے اور شعروں سے مل کر نظم یا غزل بنتی ہے۔
قافیہ:شعر کے آخر میں ہم آہنگ الفاظ کو قافیہ کہتے ہیں ،جیسے۔آب ،تاب ،باب وغیرہ
حرف روی:قافیے کے آخری اور اصلی حرف کو حرف روی کہتے ہیں۔جیسے آب ،تاب ،باب میں ‘‘ب’’ حرف روی ہے۔
ردیف:ایسے الفاظ جو بار بار قافیے کے بعد آئیں ردیف کہلاتے ہیں۔
مقفٰی جملے:ایسے جملے جن میں قافیے کی پابندی ہو۔
ہجائے بلند:الفاظ میں دو طرح کے ہجے ہوتے ہیں، دو حرفی اور ایک حرفی۔ دو حرفی کو ہجائے بلند مثلاً اب، تب، سب۔ یعنی ایک متحرک ایک ساکن۔
ہجائے کوتاہ:ایک حرفی کو ہجائے کوتاہ کہتے ہیں مثلاً شاعری میں شا اور ری دو حرفی ہیں اور ع ایک حرفی یا ہجائے کوتاہ ہے۔
صرف ایک حرفی کہنا ناکافی ہے ، وہ ایک حرف جو اگر ساکن ہے تو اس سے پہلے متحرک نہ ہو اور اگر متحرک ہے تو اس کے بعد ساکن نہ ہو۔

ارکان:رکن کی جمع ہے ۔ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ سے مل کر ارکان بنتے ہیں ۔اور یہی وزن کہلاتےہیں ۔یعنی اگر شعر کے دونوں مصرعوں میں ارکان برابر ہوں تو شعر با وزن ہوتا ہے۔ ارکان کی تین قسمیں ہیں۔
پہلی قسم میں فاعلن اور فعولن پانچ حرفی ارکان ہیں۔

ماشاءاللہ بہت ہی خوب ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ خوب ترقی سے نوازے۔ :)
 

ساقی۔

محفلین
بہت شکریہ اسامہ بھائی۔
مجھے کچھ اور الفاظ دیں تا کہ میں ہجائے بلند اور کوتاہ کی اچھی طرح مشق کر لوں ۔
یا خود سے مختلف الفاظ کی مشق کر لوں ۔؟ بعد میں آپ کو چیک کروا لوں گا۔
 
بہت شکریہ اسامہ بھائی۔
مجھے کچھ اور الفاظ دیں تا کہ میں ہجائے بلند اور کوتاہ کی اچھی طرح مشق کر لوں ۔
یا خود سے مختلف الفاظ کی مشق کر لوں ۔؟ بعد میں آپ کو چیک کروا لوں گا۔
بہت شکریہ اسامہ بھائی۔
مجھے کچھ اور الفاظ دیں تا کہ میں ہجائے بلند اور کوتاہ کی اچھی طرح مشق کر لوں ۔
یا خود سے مختلف الفاظ کی مشق کر لوں ۔؟ بعد میں آپ کو چیک کروا لوں گا۔

مذکورہ بالا تمام الفاظ کے ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند متعین کریں اور لفظ کے آگے فاع ، فعَل ، فعلن ، فعولن ، فاعلن بھی لکھیں۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
ردیف:ایسے الفاظ جو بار بار قافیے کے بعد آئیں ردیف کہلاتے ہیں۔
بار بار قافیے سے پہلے بھی آ سکتے ہیں:)
 

ساقی۔

محفلین
بہت شکریہ اسامہ بھائی۔
مجھے کچھ اور الفاظ دیں تا کہ میں ہجائے بلند اور کوتاہ کی اچھی طرح مشق کر لوں ۔
یا خود سے مختلف الفاظ کی مشق کر لوں ۔؟ بعد میں آپ کو چیک کروا لوں گا۔

مذکورہ بالا تمام الفاظ کے ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند متعین کریں اور لفظ کے آگے فاع ، فعَل ، فعلن ، فعولن ، فاعلن بھی لکھیں۔ :)

مان گئے جناب۔۔۔۔۔۔۔ہماری چھری سے ہمیں کاٹ ڈالا۔
 
جناب ساقی۔ صاحب!

فاعلن کے وزن پر بیس الفاظ

سرمئی کے بارے میں استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب رہنمائی فرماسکتے ہیں کہ یہ فاعلن ہے یا فعلن؟
’’سُرمئی‘‘ فاعلن کے وزن پر ہے۔

دل ۔
۲،وفا۔۲۱،شمع۔۱۲،کرم۔۱۲،عزم۔۱۲،بلبل۔۲۲،قریب۔۲۲،درخت۔۱۲۱،عربی۲۲،علما۔۲۱۱،طلًاب۱۲۲،مناسب۔۲۲۱،کہکشاں۲۱۲،آسمان۔۱۲۱۲،منتظمہ۔۲۲۲،انتظامیہ۔۲۲۱۲۲،نظم۔۱۲،قمر۔۱۲،عمر۔۱۲،

اس ’’دل‘‘ کا کیا کیجئے گا؟ اگر یہ واقعی ’’دِل‘‘ ہے۔ کچھ اور ہے تو آپ جانیں۔
فَعَل اور فِعل : زبر زیر کا اہتمام نہ ہو تو نوآموز تذبذب کا شکار ہو سکتا ہے۔ روایتی عروض میں ان کے اوزان بالترتیب فعو اور فاع منقول ہیں، جو فَعَل اور فِعل سے بہرحال بہتر اور واضح تر ہیں۔
کچھ ایسا ہی مسئلہ فَعلُن اور فَعِلُن کے ساتھ ہے۔ میں نے فَعِلُن کی جگہ فُعِلَت تجویز کیا ہے۔ اس طرح اعراب کا التزام کئے بغیر بھی بات واضح رہتی ہے۔ روایتی عروض میں وزن فع سبب ثقیل کے لئے ہے اور فا سبب خفیف کے لئے۔


ہجائے بلند:الفاظ میں دو طرح کے ہجے ہوتے ہیں، دو حرفی اور ایک حرفی۔ دو حرفی کو ہجائے بلند مثلاً اب، تب، سب۔ یعنی ایک متحرک ایک ساکن۔
ہجائے کوتاہ:ایک حرفی کو ہجائے کوتاہ کہتے ہیں مثلاً شاعری میں شا اور ری دو حرفی ہیں اور ع ایک حرفی یا ہجائے کوتاہ ہے۔
صرف ایک حرفی کہنا ناکافی ہے ، وہ ایک حرف جو اگر ساکن ہے تو اس سے پہلے متحرک نہ ہو اور اگر متحرک ہے تو اس کے بعد ساکن نہ ہو۔

یہاں بتایا جانا چاہئے تھا کہ:
ہجائے بلند اور سبب خفیف ایک ہی چیز ہیں۔
ہجائے کوتاہ ایسا ایک حرف ہے جو کسی ہجائے بلند (سبب خفیف) کا حصہ نہ ہو۔
دو ہجائے کوتاہ متواتر واقع ہوں تو وہ سبب ثقیل ہے۔


ارکان:رکن کی جمع ہے ۔ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ سے مل کر ارکان بنتے ہیں ۔اور یہی وزن کہلاتےہیں ۔یعنی اگر شعر کے دونوں مصرعوں میں ارکان برابر ہوں تو شعر با وزن ہوتا ہے۔ ارکان کی تین قسمیں ہیں۔
پہلی قسم میں فاعلن اور فعولن پانچ حرفی ارکان ہیں۔

روایتی عروض میں اصلی رکن یا تو پانچ حرفی ہیں یا چھ حرفی، اس سے کم یہ زیادہ والا کوئی اصلی رکن نہیں۔ فعلن دو ہجائے بلند یا دو سبب خفیف کا مجموعہ ہے، فعلت جزو ہے اور اس کا اصطلاحی نام فاصلہ صغرٰی ہے۔ اردو میں فاصلہ کبرٰی مستعمل نہیں ہے۔ یہاں ایک اور صورت آتی ہے (مراد، وصول، امیر، غریب، دوات، شہید، کلیم وغیرہ جو فعول کے وزن پر ہیں) اور جن کے لئے روایتی عروض کوئی نام نہیں دیتا۔ ہندوستانی عروض میں ایسے الفاظ کو ’’ہجائے طویل‘‘ کی ذیل میں رکھا جاتا ہے۔ میں نے چھند سے ایک اصطلاح ’’مرار‘‘ لے کر اسے اردو میں متعارف کرایا ہے۔ اسے یاد رکھنا یوں بھی آسان ہے کہ لفظ ’’مرار‘‘ بذاتِ خود اسی ذیل میں آتا ہے۔

قارئین کو یہ بھی بتائیے کہ عربی عروض کے اصلی ارکان املاء کے لحاظ سے
آٹھ ہیں اور حکماً دس ہیں۔ ان کو ارکانِ عشرہ کہا جاتا ہے۔ ان کو دس کیوں کہتے ہیں!!؟


:)
 
آخری تدوین:
بھائی یہ پیاز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اچھی نہیں، محمد اسامہ سَرسَری صاحب! یہ بھری محفل میں راز فاش کر دیتا ہے۔ اور یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ پیاز کے بعد پیاس بہت لگتی ہے۔ شاید اسی لئے آپ نے اس کو باندھا بھی پیاس کے وزن پر!
لوبیا ، ککڑیاں ، پیاز ، آلو ، مٹر۔۔۔ سبزیوں کا بڑھا دام ہے آج کل

اپنے علامہ صاحب تو اس کو پوری پوری توقیر دے گئے۔ ملاحظہ ہو:
تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں، پر کیا لذت اس رونے میں
جب خون جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا

اش ک پ یا زی بن ن س کا ۔۔ یہاں پیاز کی اپنی ’’ی‘‘ پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ وہی بحر ہے جسے بحرِہند کی بجائے بحرِہندی کہتے ہیں۔ پروفیسر غضنفر مرحوم ساحلِ سمندر پر بسے ایک شہر سے تھے، آنکھوں کے پانی سے ڈر گئے سو سمندر کو کیوں کر نظرانداز کر سکتے تھے۔ بحرِہندی کو بحرِزمزمہ کا نام دے دیا۔ وہ کیا جانیں کہ آج ان کے شہر میں جا بجا زمزمے پھوٹتے ہیں وہ الگ بات کہ خوش کی جگہ بد ہوتی ہے۔ ادھر ہم کہ ٹھہرے خوش فہم، خوشبو کا سنتے ہی اس نام (بحرِ زمزمہ) پر ریجھ گئے! ٹھہرے جو ’’پیازخور‘‘! کیا خیال ہے؟ آنکھیں تر ہوئیں؟
 
آخری تدوین:
استاد محترم۔۔۔
آپ نے اتنی زحمت اٹھائی اور اتنی تفصیل سے رہنمائی فرمائی اس کے لیے میں آپ کا تہ دل سے شکرگزار ہوں۔
سرمئی اور پیاز دونوں کا مسئلہ حل کردیا ، سرمئی فاعلن اور پیاز فعول کے وزن پر ہے۔
میں نے فعل کی جگہ پہلے فعو لکھا تھا پھر پتا نہیں کیا سوچ کر اسے فَعَل لکھ دیا ، بہرحال میں چوں کہ روایتی عروض کی اصطلاحات کو ترجیح دیتا ہوں اس لیے آیندہ ان شاء اللہ فعو ہی لکھا کروں گا۔

آنکھیں واقعی تر ہوگئیں ۔۔۔ :) اب یہ نہیں معلوم کہ خوشی سے ہوئیں یا پیاز سے یا خوشبو اور بدبو کے ملاپ سے یا بحر زمزمہ و ہندی سے یا سب سے ۔۔۔ :) مگر تر بہرصورت ہوچکی ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

ساقی۔

محفلین
بہت شکریہ اسامہ بھائی۔
مجھے کچھ اور الفاظ دیں تا کہ میں ہجائے بلند اور کوتاہ کی اچھی طرح مشق کر لوں ۔
یا خود سے مختلف الفاظ کی مشق کر لوں ۔؟ بعد میں آپ کو چیک کروا لوں گا۔

مذکورہ بالا تمام الفاظ کے ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند متعین کریں اور لفظ کے آگے فاع ، فعَل ، فعلن ، فعولن ، فاعلن بھی لکھیں۔ :)
معذرت چاہتا ہوں تصویری شکل میں پیسٹ کرنا پڑا۔۔۔میں نے ایکسل میں لکھا تھا ۔کاپی پیسٹ کرنے پر ٹھیک نہیں آ رہا تھا ۔
2je5v7m.jpg
 
Top