آپ کی زندگی کا اپنا مزاحیہ واقعہ ۔

ہم لوگ لطیفے اور مزاحیہ واقعات پڑھتے بھی رہتے ہیں۔ لیکن خود ہمارے اپنے ساتھ بھی مزاحیہ واقعہ رونما ہوجاتا ہے یا ہم کسی واقعے کے شاہد بن جاتے ہیں۔
تمام احباب سے گزارش ہے کہ اپنی زندگی کے مزاحیہ واقعات شامل کریں مجھے امید ہے کہ تمام دوسرے احباب بھی اس سے لطف اندوز ہونگے،
آپ اس میں کوئی سنجیدہ بات بھی مزاحیہ انداز میں بیان کر سکتے ہیں جیسے عطا الحق قاسمی صاحب نے ایک کالم میں لکھا کہ "میں جان بوجھ بلاوجہ قبرستان اس وجہ سے نہیں جاتا کہ اس طرح بندہ خوامخواہ ملک الموت کی نظروں میں آجاتا ہے۔"
اس کی شرائط وہی ہیں جو محفل میں کسی بھی مراسلے کی شرائط ہیں کوئی اضافی شرط نہیں۔
 
آخری تدوین:
میں اس کا آغاز کرتا ہوں:
ایک دفعہ میری بڑی ہمشیرہ نے مجھے ایک راز کی بات بتائی اور کہا کسی کو بتانی نہیں۔ میں یہ حکم بھول گیا اور ہمشیرہ کے سامنے ہی چھوٹے بھائی کو وہ بات بتا دی، ہمشیرہ نے مجھے کہا کہ میں نے تو کہا تھا یہ بات کسی کو بتانی نہیں تو میں نے فوراً چھوٹے بھائی سے کہا " میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں"
 

عمر سیف

محفلین
اپنے بلاگ پر بھی اسے شئیر کر چکا ہوں۔ شریکِ محفل کر رہا ہوں۔

بچپن کی کچھ یادیں ۔۔۔

بچپن میں اُلٹے کام کرنے پر والدہ سے مار پڑی، والد نے کبھی ہاتھ نہیں لگایا (چھوڑوایا بھی نہیں، شاید اس لیے کہ مار کا اثر نہ ہوتا)۔ پر بچے شرارت نہ کریں تو اور کیا کریں۔ ہم شرارت کرتے رہے اور مار کھاتے رہے۔

والدہ بازار شاپنگ کرنے گئی تھیں اور ہم تین (میں، چھوٹی بہن اور چھوٹا بھائی جو اُس وقت نو،چھ اور پانچ سال کے ہونگے)۔ کمرے میں قالین بچھا تھا اور ہم تینوں کھیل رہے تھے۔ اچانک پِلو فائٹنگ شروع ہوگئی۔ ایک دوسرے کو تکیے سے مارتے ، بھاگتے اور ہنستے۔ تکیے کی ایک سائیڈ سے سلائی کھلنا شروع ہوئی اور اس میں سے فوم کا ٹکڑا باہر نظر آنا شروع ہوگیا۔ میں نے اُسے اندر کرنا چاہا۔ اندر کرنے کے دوران سلائی اور کُھل گئی اور فوم زیادہ باہر آگیا۔ میں نے بجائے اسے اندر کرنے کے اُس کے چھوٹے چھوٹے پیس کرکے اُن دونوں پہ پھینکنا شروع کئے تو انھوں نے دیکھا دیکھی اُسی تکیے سے یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے کمرے میں فوم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پھیل گئے۔ :)

ہماری ایک عادت تھی کہ غلط کام کرنے کے بعد سو جایا کرتے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ کس نے کیا ہے :)۔ خیر امی واپس آئیں۔ کمرہ دیکھا اور پھر ہمیں وہاں سویا ہوا پایا۔ ہم تینوں کو اُٹھایا اور پوچھا یہ کس نے کیا ہے؟؟ ہم سے چُپ ۔۔ پھر چھوٹا بولا ” یہ بھائی نے کیا ہے” ۔۔ چھوٹے کے بولنے کی دیر تھی کہ بہن بولی ” جی امی یہ بھائی نے کیا ہے ” ۔۔ظاہر ہے کہ اب پیچھے میں ہی رہ گیا تھا تو ماننا پڑا کہ شروع میں نے کیا اور بعد میں یہ دونوں بھی شامل ہوئے۔ خیر کہاں سُنی جانی تھی۔ ایک ڈنڈا ہوا کرتا تھا امی کے پاس ۔۔۔ واہ ۔۔ کیا پٹائی ہوئی اُس سے اور اُس پہ ظلم یہ کہ قالین سے ٹکڑے نکالنا بہت مشکل تھا تو ہاتھوں سے ہم تینوں کو نکالنے کو کہا گیا ۔۔۔ ایک ڈنڈا پڑتا اور صفائی ہوتی ۔۔کتنے دن تک ہم تھوڑا تھوڑا کرکے قالین صاف کرتے اور جب تک صاف نا ہوا امی سے ڈانٹ پڑتی رہی۔

اِسی طرح ایک بار امی انڈوں کی ٹرے لے کر آئیں فریج میں رکھی اور خود سامنے والی آنٹی کے گھر چلی گئیں۔ ابوجی شام میں آیا کرتے تھے اور ہم تینوں گھر پہ موجود تھے۔ انہی دنوں ہمارے واشروم کا فلش سسٹم بھی خراب ہوا تھا اور پلمبر نے اُسے اتار کر واشروم سے باہر رکھا ہوا تھا۔ چھوٹی باہر گئی فریج کھولی انڈے دیکھے تو شرارت سوجھی کہ ہنڈیا بناتے ہیں۔ فلیش ٹینکی میں پانی بھرا اور ایک ایک کرکے تینوں نے انڈے اس ٹینکی میں ڈالنا شروع کئے۔(توڑ کر چھلکوں سمیت)۔۔۔۔ ٹرے کو ہم نے باہر ڈرم میں پھینکا اور ڈنڈے کو چمچ بنا کر ٹینکی میں پھیرتے رہے۔ حسبِ معمول یہ واردات کرنے کے بعد ہم تینوں سو گئے۔

امی آئیں اور انھوں نے ہمیں سویا ہوا پایا۔ ابھی رات کے لیے کھانا تیار نہیں تھا اور امی ، ابو کے آنے سے پہلے شام میں کھانا تیار کرتی تھیں۔ اُس دن ابو جلدی آگئے۔ خیر امی نے انڈے کوفتے بنانے کا پروگرام بنایا اور جب انڈوں کے لیے فریج کھولی تو انڈے غائب۔ سب جگہ تلاش کرنے کے باوجود نہ ملے تو ہمیں اُٹھا کہ انڈے کہاں ہیں اور ہم نے ہمیشہ کی طرح یہی کہا کہ معلوم نہیں۔ ہم تو سو رہے تھے۔ دل میں ڈر بھی تھا کہ اگر امی کو پتہ چل گیا تو خیر نہیں۔ ابو بازار سے کھانا لائے ، انڈوں کا معمہ حل نا ہوا۔ رات جب ابو واشروم جانے لگے تو ٹینکی کے پاس سے گزرتے وقت انہیں عجیب سی بُو آئی تو انھوں نے ٹینکی کا ڈھکن اُٹھا کر دیکھا تو پانی میں جھاگ ہی جھاگ اور انڈوں کے چھلکے تیر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے اور ادھر ابو نے امی کو بتایا کہ انڈے یہاں ہیں۔ پھر کیا تھا سونے سے پہلے وہ دھلائی ہوئی کہ آج تک یاد ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ واقعہ میں نے یہاں شئیر کیا تھا۔۔۔۔ وہیں سے نقل کر رہا ہوں ادھر بھی۔۔۔۔ :)

میں لاہور میں اپنے ۴ دوستوں سمیت اک کرائے کے فلیٹ پر رہتا تھا۔ ان دوستوں کیساتھ میں کوئی ۲۰۰۰ سے لیکر ۲۰۱۱ تک رہا ہوں۔ تو فرینک تو تھے ہی پر شرارتی بھی بہت تھے۔ یہ جو واقعہ ہے میں سنانے جا رہا ہوں کوئی ۲۰۰۳ کا ہوگا۔ کوئی بھی اس میں عبرت یا سبق تلاش کرنے کی غرض سے پڑھ رہا ہے تو یہی سے واپس ہو جائے کیوں کہ عبرت انگیز واقعات میرے ساتھ آج تک پیش نہیں آئے۔
لگے ہاتھوں اپنے دوستوں کا تعارف بھی کروا دیتا ہوں کہ واقعے میں آپ کو لطف آئے۔ اور سیاق و سباق سے آگاہی ہو۔ میں یعنی کہ میں اور میرے علاوہ ہمی، ماسٹر، شاہ جی اور نمو۔ جس فلیٹ میں ان دنوں آستانہ تھا وہ دو دکانوں پر بنا تھا۔ وہ دکانیں کمہاروں کی تھیں اور انکا مٹی کے برتنوں کا خاصہ بڑا کاروبار تھا۔ اوپر بھی اک فلیٹ تھا جو کہ ٹی-وی لائسنس بنانے والے انسپکٹر کے پاس تھا۔انکا نام تو سرفراز تھا۔ پر ہم انہیں وڈے شاہ جی کہتے تھے۔ کیوں کہ شاہ جی کے لقب پر ہمارے اک دوست کا قبضہ تھا۔ وڈے شاہ جی اسوقت کوئی ۵۰ کے قریب ہونگے عمر میں، اور انتہائی خوش مزاج آدمی تھے۔ ہمارا آستانہ ۲کمروں اور اک لاونج پر مشتمل تھا۔ لاونج اتنا کہ ۵آدمی اکھٹے کھڑے ہو جائیں۔ باقی دونوں کمروں میں ہم نے کارپٹ بچھا رکھا تھا۔ پر سوتے ہم اک کمرے میں تھے اور دوسرے میں ہم نے سارا سامان جمع کر رکھا تھا جو کسی کباڑ کا منظر پیش کرتا تھا۔ اب آتے ہیں قصے کی طرف
گرمیوں کی اک رات کا ذکر ہے۔ کوئی ڈھائی کے قریب کا وقت ہوگا۔ میں بےخبر سویا پڑا تھا۔ کہ مجھے احساس ہوا کسی نے میری قمیض میں برف ڈال دی ہے۔ ہڑ بڑا کر اٹھا تو دیکھا کہ ہمی نامی مخلوق کمپیوٹر پر بیٹھی الہ دین کھیل رہی ہے۔ ساتھ ہی بیرونی دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ دیکھا کہ ماسٹر لاونج میں کھڑا ہنس رہا ہے۔میں خاموشی سے واش روم میں گیا۔ وہاں سے اک جگ پانی بھرا اور لا کر ماسٹر پر الٹا دیا۔ ماسٹر نے کہا کہ برف تم پر نمو نے ڈالی ہے۔ اور اسکے بعد وہ اور شاہ جی باہر بھاگ گئے ہیں۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو وہ دونوں فلیٹ کے نیچے کھڑے تھے۔ میں اک بالٹی پانی بھر کر لایا اور ان دونوں کے سروں پر الٹا دی۔ وہ دونوں بھی اوپر آگئے اور پانی کی جنگ شروع ہو گئی۔ہمی مطمئن ویڈیو گیم کھیلتا رہا۔ یہ ہم سے برداشت نہ ہوا اور ہم چاروں نے ملکر اسے اٹھایا اور لاونج میں لا کر خوب پانی اس پر پھینکا۔ صبح ۴بجے تک یہی تماشہ چلتا رہا۔ پانی ہماری سیڑھیوں سے بہتا ہوا نیچے کمہاروں کی دکان کے باہر جمع ہوگیا۔ جس سے ان کے باہر پڑے برتن خراب ہو گئے۔ پر ہم ان تمام باتوں سے بے خبر تھک کر میٹھی نیند سو گئے، جس میں روزگار کا کوئی غم نہ تھا۔
مجھے صبح اٹھنے کی بیماری ہے اور اٹھتے ہی چائے پینے کی۔ میں ۹ بجے کے قریب دوسری بار اپنے لیئے چائے بنا رہا تھا کہ دروازہ کسی نے یوں پیٹا جیسے توڑ ڈالے گا۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے کمہاروں کا سردار یعنی کے گرو کمہار کو کھڑا پایا۔ انتہائی اکھڑ لہجے میں اس نے پوچھا۔
"اوئے بالکے۔ شاہ جی کتھے نیں" اب اسکی مراد وڈے شاہ جی سے تھی۔​
میں نے تقریباً اسی انداز میں جواب دیا
"مینوں کی پتہ۔ میں کوئی اناں دا ملازم آں"​
اور ٹھاہ دروازہ بند کر دیا۔ خوشی ہوئی کہ کیسا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ کہ دروازہ اسی انداز میں پھر کھڑکا۔ اب میں نے منہ پر انتہائی غصہ لا کر دروازہ کھولا اور اس سے پہلے وہ کچھ بولتا کہا۔ ہن کی ائے۔ اس نے بھی اپنی ہٹ نہ چھوڑی اور اسی انداز میں بیان داغا کہ
"جداں ای شاہ جی آن۔ اناں نوں کئیں کی مینوں ملن" (جیسے ہی شاہ جی آئیں ان کو کہنا مجھ سے ملیں۔)​
میں نے کہا اچھا۔
کوئی آدھے گھنٹے کیبعد دروازے پر بڑی نرم سی دستک ہوئی۔ میں نے دروازی کھولا تو وڈے شاہ جی تھے۔ پسینے میں ڈوبے ہوئے۔ پیشانی پر سلوٹیں۔ میں نے کہا شاہ جی اند ر تشریف لائیں اور چائے کا پوچھا۔ ان نے عجب بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کہا ہاں بیٹا۔ ہم دونوں چائے بنا کر اپنے کباڑ روم میں آگئے۔ تھوڑی دیر بعدوڈے شاہ جی نے ڈرتے ہوئے انداز میں پوچھا۔ نین بیٹا۔ رات کو سیڑھیاں دھوتے رہے ہو۔ میں یہ سنکر بڑا خوش ہوا اور ذوق و شوق سے رات کی کارستانی سنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد نوٹس کیاکہ وڈے شاہ جی اس قصے سے لطف اندوز نہیں ہو رہے تو کہا شاہ جی خیر اے۔ میں سمجھا کہ اس شور ہنگامے سے انکی نیند خراب ہوئی ہے۔ اور انکو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اپنے تئیں میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ شاہ جی آئندہ ہم ایسے شور ہنگامہ برپا نہ کریں گے۔ اس پر شاہ جی تڑپ کر بولے۔ نہ یار تم جو مرضی کرو۔ بس مجھے بتا دیا کرو۔ اور پھر انہوں نے مجھے کمہاروں نے جو ان سے سلوک کیا وہ سنایا۔ کہنے لگے بیٹا انہوں نے میری عمر کا لحاظ کیا۔ ورنہ توآج میں اک آدھی بازو کے بغیر آتا۔
کمہار اصل میں یہ سمجھے کہ پانی شاہ جی کیطرف سے آ یا ہے۔ بیوقوف اگر سیڑھیاں ہی دیکھ لیتے تو جان جاتے۔ آج بھی ہم سوچتے ہیں کہ شاہ جی اگر ہمارا نام لے دیتے تو سامان کے ساتھ ہم تو سڑک پر ہوتے ہی پر جو دھنائی ہوتی وہ الگ۔

ایک اور واقعہ بھی ہے بہت یادگار۔۔۔ وہ انشاءاللہ پھر کبھی شئیر کروں گا۔ :) دراصل وہ بھی کافی لمبی کہانی ہے۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک چھوٹا سا واقعہ اور سن لیں۔ ہم تین دوست مری گئے۔ ایک دن کا ٹرپ مارا۔۔۔ تو تھکن سے چور تھے۔ واپسی پر بس میں سو گئے۔ ایک جگہ ہم دو اترے۔ میں اور دوسرا۔۔۔ جبکہ تیسرا سوتا رہا۔ نیچے اتر کر ہم ایک ڈیڑھ لیٹر بوتل اور تین گلاس لے آئے۔
ہم نے اس کو اٹھا کر کہا۔۔۔ چل بئی۔۔ بوتل پی لے۔۔۔ وہ کہتا۔۔۔ میرا حصہ رکھ دو۔۔۔
ہم نے ایک ایک گلاس بھرا۔۔۔ اور پی لیا۔۔۔ اب وہ نیم وا آنکھیں کر کے ہمیں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ہم نے جب دوسرا دوسرا گلاس بھرا۔۔۔ تو وہ یکدم اٹھا۔ اور ہمارے ہاتھ سے بوتل چھین کر منہ کو لگا گیا۔۔۔ اور بوتل جو ابھی نصف سے زیادہ مقدار میں تھی۔ غٹاغٹ پی گیا۔ اور دوبارہ سو گیا۔۔۔
صبح جب ہم لاہور پہنچے۔ تو ہم سے لڑپڑا۔۔۔ کہ تم نے بوتل اکیلے پی لے۔۔۔ اور میرے لیے نہیں رکھی۔۔۔۔ بس آج سے یاری ختم۔۔۔۔
وہ ہم سے لڑی جائے۔۔۔ اور ہمارا ہنس ہنس کر برا حال ۔۔۔۔۔:laugh: ہم کہیں کہ تم نے بوتل پی لی ہے۔۔۔ وہ کہتا نہیں۔۔۔ تم لوگ میرے ساتھ ڈرامہ لگا رہے ہو۔۔۔۔۔ :rollingonthefloor: اس بات پر آج بھی وہ گرم ہوجاتا ہے۔۔۔ اور ہم سے لڑپڑتا ہے۔۔۔۔ :laughing::laughing::laughing:
 
ایک واقعہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں پھر سے شامل کر دیتا ہوں کیونکہ کوئی غیر استعمال شدہ واقعہ اس وقت زہن میں نہیں آرہا۔ :battingeyelashes:
ایک دفعہ ایک منگنی کی تقریب میں گیا، میری گود میں بیٹھتے ہوئے میری ڈھائی سالہ بیٹی کا پاؤں اس وقت کے دلہا (اب ان کا دلہا کا سٹیٹس منسوخ ہو چکا ہے کیونکہ منگنی اب ٹوٹ چکی ہے :eek:) کی پینٹ کو لگ گئی جس سے پینٹ پر دھول کا نشان پڑ گیا۔ تو بے اختیار میرے منہ سے بیٹی کے لئے نکلا "بیٹا بری بات انکل کی پینٹ خراب نا کرو انکل نے نئی لی ہے" پھر ایک دم مجھے احساس ہواکہ یہ میں نے کیا کہ دیا لیکن ایک لمحے بعد ہم سب ہنسنے لگے (دلہا سمیت) :laughing::laughing::laughing:
 

سید زبیر

محفلین
یہ دلچسپ واقعات پڑھ کر مجھے بھی شوق ہوا کہ کبھی میں بھی بچہ تھا
گرمیوں کی دوپہر تھی ، جس مین میرے تجربے کے مطابق شیطان مردود زمین پر اتر آتا اور معصوم بچوں کو ورغلاتا ہے ، ایسی ہی ایک دوپہر کو سب سو رہے تھے مجھے نیند نہیں آرہی تھی ، اکثر بچوں کو گرمیوں کی دوپہر کو نیند نہیں آتی ، خیر میں اٹھا اور باورچی خانے میں پڑے نعمت خانہ ( جب فرج نہیں ہوتے تھے ،باورچی خانے میں ایک جالی سے بنی ہوئی چھوٹی الماری ، جس میں کھانے پینے کی چیزیں رکھتے تھے )میں جھانکنے لگا ۔ ایک پلیٹ میں لڈو نظر آئے ، ہاتھ بڑھایا اور منہ میں ڈال لیا ۔ ہائے ہائے ، لڈو پر بہت سی چیونٹیاں تھیں جو میری زبان پر چمٹ گئیں ۔ زبان کو اب میں کبھی چمچے سے کھرچتا اور کبھی کلی کرتا ، چھوٹی بہنیں ہنس رہی تھیں اور آپ کو پتہ ہے بھائی کا غصہ چھوٹی بہنوں پر کیسے اترتا ہے ۔۔۔
اسیطرح کا لگے ہاتھوں ایک اور واقعہ بھی سن نہیں بلکہ پڑھ لیں
ایسی ہی ایک دوپہر تھی اور میں کچھ کھانے کے لیے باورچی خانے کے نعمت خانے کی طرف گیا ، کھولا اور کچھ ڈھونڈنے لگا ، کہ کنارے پر پڑی ہوئی تارا میرا کے تیل جو بظاہرا سرسوں کے تیل جیسی ہوتاہے کی بوتل گر گئی ، تیل گر گیا ، میں نے جلد ی جلدی سر پر مل لیا ۔ جو پھر سر میں کھجلی ہوئی اور مرچیں لگیں مت پوچھیں کیا حال ہوا ۔
ویسے ایسا ہی ایک دلچسپ دھاگہ اور بھی قابل مطالعہ ہے
 
اتنے بڑے بڑے واقعات لکھ دیے، اسی لئے ہم "کوچے" سے باہر نہیں نکلتے۔ :evil:
اپنے کوچے سے نکل کریہاں تشریف لے آئیے اس سے پہلے کہ آپ کے کوچے میں کوئی " بڑا واقعہ " رونما ہو جائے۔
daydreaming.gif
:bighug:
 
آجکل سنگین غداری کا کیس زبان زد عام ہے تو مجھے بھی اپنے بچپن کی ایک رنگین غداری یاد آگئی۔
میں بہت چھوٹا تھا اتنا کہ ابھی سکول جانا شروع نہیں کیا تھا۔ عمر نہیں بتا سکتا کہ اس وقت عمر یاد رکھنے کا رواج میرے دوستوں میں نہیں تھا۔ میری دادی مجھے اپنے ساتھ بازار لے گئیں گوشت کی دکان سے گوشت لینے کے بعد مجھے سمجھایا اور حکم دیا کہ گھر جاکر اپنی چھوٹی پھوپھی کو مت بتانا کہ یہ بڑا گوشت ہے بلکہ یہ کہنا کہ یہ چھوٹا گوشت ہے کیونکہ تمہارے چھوٹی پھوپھی بڑا گوشت نہیں کھاتی۔ میں نے ساری بات سن کر پلان بنا لیا۔ اور گھر پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سیدھا اپنی پھوپھی کے پاس پہنچا اور ان سے کہنے لگا کہ دادی امی تو بڑا گوشت لائی ہیں اور آپ تو بڑاگوشت کھاتی نہیں اب آپ کیا کھائینگی؟ :laughing::laughing::laughing: یہ سن کر وہ ناراض ہونے کی بجائے وہ ہنسنے لگیں۔ :sick:
 

قیصرانی

لائبریرین

ملائکہ

محفلین
چلیں میں بھی ایک بتاتی ہوں شاید پہلے بتایا ہے کہ نہیں پتہ نہیں،

میں جب بہت چھوٹی سی ہوتی تھی تو میں بڑی موٹی اور گول مٹول ہوتی تھی ، اسکول وین میں ایک دن ایک میری ٹیچر میرے ساتھ بیٹھی تو انھیں پتہ نہیں چلا کہ میری ٹانگ دب رہی ہیں ۔۔۔ تو میں انھیں بار بار کہہ رہی مس میری بوٹی ، مس میری بوٹی اب انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔ بعد میں انھیں سمجھ آیا کہ وہ میرے ٹانگ کا گوشت دب رہا ہے تو جسے میں بوٹی کہہ رہی ہوں۔۔۔:mrgreen::laugh: سب اتنا ہنسے کہ بس میری بہن کو یہ بات یاد تھی میں تو بہت چھوٹی ہوتی تھی :p:p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
چلیں میں بھی ایک بتاتی ہوں شاید پہلے بتایا ہے کہ نہیں پتہ نہیں،

میں جب بہت چھوٹی سی ہوتی تھی تو میں بڑی موٹی اور گول مٹول ہوتی تھی ، اسکول وین میں ایک دن ایک میری ٹیچر میرے ساتھ بیٹھی تو انھیں پتہ نہیں چلا کہ میری ٹانگ دب رہی ہیں ۔۔۔ تو میں انھیں بار بار کہہ رہی مس میری بوٹی ، مس میری بوٹی اب انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔ بعد میں انھیں سمجھ آیا کہ وہ میرے ٹانگ کا گوشت دب رہا ہے تو جسے میں بوٹی کہہ رہی ہوں۔۔۔ :mrgreen::laugh: سب اتنا ہنسے کہ بس میری بہن کو یہ بات یاد تھی میں تو بہت چھوٹی ہوتی تھی :p:p
ملائکہ "چھوٹی" کو تو "چھوٹی موٹی" نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔ :p
 
Top