جمال احسانی نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا

خبیب احمد

محفلین
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس اک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا

نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے
اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا

جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا

پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا
یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا

عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارا کیا

ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمال آنکھوں پر
کبھی خیال کبھی خواب پر گزارہ کیا
 

فلک شیر

محفلین
جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا
بہت عمدہ شراکت خبیب صاحب
جمال احسانی.....سبحان اللہ
 

زبیر مرزا

محفلین
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس اک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا
واہ بہت خُوب - یہ شعر جمال احسانی ہی کہہ سکتے تھے وہ جمال احسانی جنھوں نے ایک صبح خلق سے یوں کنارہ کیا
کہ زندگی کو ریل کی پیٹری کے سُپرد کردیا
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ۔۔۔۔!

کیا ہی اچھی غزل ہے۔

حیرت ہے کہ جمال احسانی کی غزل اور ہماری نظروں سے اوجھل رہی۔

لاجواب ہے یہ غزل۔

بہت شکریہ خبیب احمد ! :)
 
Top