علامہ اقبال کا معاشرہ قیدِ کتاب میں ہے ؛ اسلم کمال

الف نظامی

لائبریرین
علامہ اقبال کا معاشرہ قیدِ کتاب میں ہے
(اسلم کمال)
مطالعہ انسان ہر ایک مصور کا جلی موضوع فن رہا ہے۔ اس فطری رجحان کی تہذیبی اور موروثی کشش میں وہ کسی مثالی فرد کی بطور ماڈل یا سٹر (sitter) تلاش میں ہمہ وقت رہتا ہے۔ وہ ایک شعبہ زندگی کے مثالی فرد کے ساتھ دوسرے شعبہ زندگی کے مثالی فرد کے مابین عظمت کا رشتہ پیدا کرتا ہے اور اس مشق فن میں جیسے جیسے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مختلف النوع مثالی افراد اسکے سٹر یا ماڈل بنتے ہیں وہ سب آپس میں ایک جمعیت میں بھی ڈھلتے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ اسی جمعیت کے مشترکہ خدوخال مصور کی اسلوبیاتی تشکیل بھی کرتے جاتے ہیں پھر ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب مصور کی شناخت اس کی تصویری لُغت کے حوالے سے اور اسکی تصویری لُغت کے مفہوم و معانی مصور کے حوالے سے اپنی جمالیات کی اعلیٰ سطح پر تسلیم کر لیتا اور محفوظ بھی کر لیتا ہے۔ علم و فن کے نقد و نظر میں اس مرتبہ کے مصور کو صاحب اسلوب کہا جاتا ہے۔

ایک صاحب اسلوب شاعر کی ایک لسانی لُغت ہوتی ہے جس کو اس کی ڈکشن کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک مصور کی بھی ایک تصویری فرہنگ ہوتی ہے جس کو اس کی ڈکشن بولتے ہیں ایک صاحب اسلوب شاعری کے مخصوص اسلوب کا دراصل ایک صاحب اسلوب مصور اپنی مصوری کے مخصوص اسلوب میں ترجمہ کرتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ایک صاحب اسلوب شاعر کی شاعری کی شعریت کا ایک صاحب اسلوب مصور اپنی مصوری کی تصویریت میں ترجمہ کرتا ہے۔ یا پھر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک صاحب اسلوب شاعر کی شاعری کی شعریت اپنے جن محاسن سے بنی سنوری ہوتی ہے ان محاسن کا ایک صاحب اسلوب مصور اپنی مصوری کے ویسے ہی تصویری محاسن میں ترجمہ کرتا ہے۔

یہ میرا مصورانہ تجربہ ہے کہ کلام اقبال کو مصور کرنے کے سلسلے میں سب سے کٹھن مرحلہ اپنے ذوق پرواز سے اپنے معاشرے کے اس خالی پن کو عبور کرنا ہے جس میں ان کرداروں کی کمیابی بلکہ نایابی مستقل طور پر آباد ہے۔ جن سے ایک مصور واقعیت میں یا ماورائے واقعیت میں بطور ماڈل یا سٹر استفادہ کر سکتا ہے۔ میں ان کرداروں کی تلاش میں اپنی معاصر زندگی کے گلی کوچوں میں مارا مارا پھرنے کے بعد بالآخر قصہ خوانی بازار میں جا نکلا۔ وہاں میں نے کتنے ہی قصہ خوانوں سے اپنے مطلوبہ کرداروں کے بارے میں پوچھا، ان کرداروں پر استوار معاشرے کے بارے میں پوچھا اور اس معاشرے کی مملکت کے بارے میں پوچھا تو وہاں پر سب لوگ مجھے اتنی حیرت سے دیکھتے تھے جیسے میں اصحاب کہف میں سے ہوں اور میری ہتھیلی پر کسی قدیم زمانے کے سکے ہیں‘ چنانچہ میں گھبرا کر تہی دست اور تہی داماں واپس پلٹ آیا۔ میں نے بانگ درا، بال جبرائیل ، ضرب کلیم ارمغان حجاز، پیام مشرق، زبور عجم ، اسرارخودی، رموز بے خودی اور جاوید نامہ کے افلاک کی سیر میں امان پائی اور پھر اسی لگن میں جی لگا لیا۔

کلام اقبال کے مطالعہ میں جگہ جگہ ایسے بے مثل کرداروں سے ملاقات ہوتی ہے جن سے منحرف ہوکر کوئی معاشرہ کوئی قوم یا کوئی زمانہ بے توقیر ہو کر اندھیروں میں ڈوب گیا مگر وہ کردار زندہ و تابندہ رہے اور ہر لحظہ کسی عہد نو کے انتظار میں مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ اقبال بھی اپنے عہد میں ایک بے چین انسان تھے اس لئے وہ ان کرداروں کو اپنے قاری کے ضمیر میں منتقل کرنا چاہتے تھے اور ان جیسی خوبیوں کے حامل افراد پر مشتمل ایک ایسے مثالی معاشرہ کی تشکیل چاہتے تھے جو اپنی فلاحی معنویت سے ایک تخلیقی مملکت کو انسانی ارتقاءکے تسلسل میں عہد بہ عہد پائندہ و رخشندہ رکھنے والے لامتناہی جوہر سے ہمکنار کر سکے۔

کلام اقبال میں ایک مثالی گھر کا نقشہ ابھرتا ہے جس میں بڈھا بلوچ باپ ہے ،امام بی بی ماں ہے ،قاریہ قرآن شرف النساء بیٹی ہے، طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلانے والی فاطمہ بنت عبداللہ بہن ہے جس کا بھائی قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے -یہ گھرجس معاشرے کی اکائی ہے اس کے افراد میں جمال الدین افغانی امام، جلال الدین رومی مرشد، طارق بن زیاد امیر لشکر، شیخ احمد سرہندی مجدد، علم دین غازی اور ٹیپو شہید ہے یہاں سلطان مراد معمار ہے، مزدور اور مطرب ہے یہاں سیاس بھی دہقان بھی اور منجم بھی ہے اور زمان و مکان کی پیمائش میں محو بو علی سینا بھی ہے۔
الغرض جو ایک امیجری بنتی ہے اس میں ایک مکمل مثالی اور انقلابی معاشرہ کسی تخلیقی مملکت کی تلاش میں مسلسل سرگرم سفر دکھائی دیتا ہے حالانکہ تخلیقی مملکت خداداد پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 65 برس کا عرصہ گزر چکا ہے اس مملکت خداداد پاکستان کا جغرافیہ ٹھوس اور واضح ہے جس کے ایک طرف دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے۔ ٹوسربلند اور دوسری طرف بحیرہ عرب موجزن ہے یہاں بندرگاہیں دریا، پہاڑ جنگل اور صحرا ہیں مکتب کارخانے اور دفاتر ہیں لیکن حیرت کا مقام یہ بھی ہے کہ کلام اقبال سے دریاوں، پہاڑوں اور میدانوں والی مملکت تو نکل آئی مگر رشتوں ناطوں والا مثالی معاشرہ ہنوز قیدِ کتاب میں ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ یہاں کبھی معاشرہ اپنے لئے کسی مملکت کو ڈھونڈتا پھرتا اور کبھی مملکت اپنے لئے کوئی معاشرہ تلاش کرتی پھرتی ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اسلم کمال کا علامہ اقبال پر کام ملاحظہ کیجیے
167709_153542361366643_5435656_n.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
خطِ کمال اسلامی خطاطی کے دو بنیادی خطوں، خطِ کوفی اور خطِ نستعلیق کا خوبصورت امتزاج ہے۔ ڈئزائن کی بنیاد پر اس خطِ کمال کی دلکشی اور افادیت سے مرعوب ہو کر ان پیج سافٹ وئیر میں اسے خط بمبئی بلیک کا نام دیا گیا ہے جو ایک طرف اسلم کمال کے فن کا بھارت میں اعتراف ہے اور ساتھ ہی اسلم کمال کے لیے ایک غیر قانونی واردات بھی ہے۔
(اردو ڈائجسٹ جولائی 2014 صفحہ 64)
 
Top