’توریت کے قدیم ترین نسخے کی دریافت‘

قطع نظر یہاں کیے گئے نت نئے انکشافات کے ، درست نام توراۃ ہے توریت نہیں، یہ ایک قرآنی نام ہے ۔ تجوید سے نابلد لوگ بعض اوقات قرآنی الفاظ کا ایسا تلفظ کرتے ہیں ۔ خبر دیکھ کر یوں لگا بی بی سی اردو کے مترجم نے مقامی لہجوں سے متاثر ناظرہ قرآن پڑھ رکھا ہے ۔
 
واضح رہے کہ بارھویں صدی کے یہودی مذہب کے سکالر میمونائڈس کے منضبط اصول و ضوابط کے تحت بعد میں ملنے والے توریت کے نسخوں میں بہت سی چیزیں حذف کر دی گئی تھیں۔​
مجھے یہ بات جان کر بہت حیرت ہوئی ہے کہ مذہبی کتاب کا متن جو کہ براہ راست اللہ تعالٰی کی طرف سے دیا گیا تھا، میں کیسےا یک مذہبی سکالر کے اصول و ضوابط کے مطابق ترمیم کی گئی تھی؟
بی بی سی کے مترجم نے انگریزی نام سے کام چلا لیا ، یہ موسی بن میمون یہودی فلاسفر کی بات ہے جو سپین سے تھا۔ یہودیت میں اس کی گئی "اصلاحات" بہت معروف ہیں ۔
 

arifkarim

معطل
بی بی سی کے مترجم نے انگریزی نام سے کام چلا لیا ، یہ موسی بن میمون یہودی فلاسفر کی بات ہے جو سپین سے تھا۔ یہودیت میں اس کی گئی "اصلاحات" بہت معروف ہیں ۔
کیسی اصلاحات؟ کچھ پتا تو چلے، ابھی تک تو بس الزامات سے ہی کام چلایا گیا ہے کہ تورات میں یہ کر دیا اور وہ کر دیا اسنے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کیسی اصلاحات؟ کچھ پتا تو چلے، ابھی تک تو بس الزامات سے ہی کام چلایا گیا ہے کہ تورات میں یہ کر دیا اور وہ کر دیا اسنے۔
اصلاح یعنی بہتری کرنا۔ اب اللہ کے کلام کو اگر انسان تبدیل کرے تو کیا اسے بہتر بنائے گا؟ خوب سوچیئے اور وکی پیڈیا کا ایک لنک عنایت کیجیئے
 
کیسی اصلاحات؟ کچھ پتا تو چلے، ابھی تک تو بس الزامات سے ہی کام چلایا گیا ہے کہ تورات میں یہ کر دیا اور وہ کر دیا اسنے۔
آپ کا ویکی پیڈیا بھی ان الزامات سے بھرا پڑا ہے ۔ اک ذرا زحمت کریں موسی بن میمون کو خود تلاش کر لیں ۔
 

arifkarim

معطل
آپ کا ویکی پیڈیا بھی ان الزامات سے بھرا پڑا ہے ۔ اک ذرا زحمت کریں موسی بن میمون کو خود تلاش کر لیں ۔
ابتک موسی بن میمون یعنی میمونائیڈز پر کافی مواد پڑھا ہے۔ کہیں یہ نہیں ملا کہ اس نے تورات میں کوئی رد و بدل کی ہے۔ اسنے محض تورات اور یہود مذہب کی ایک نئی فلسفیانہ تشریح کی تھی۔ نیزموجودہ راسخُ الا عتقاد یہودیت جو کہ تمام یہود فرقوں میں سب سے زیادہ تنگ نظر اور سخت سمجھی جاتی ہے میں میمونائیڈز کی یہودی تشریحات عام نہیں ہیں۔ وہاں کابالا کا زور ہے:
But a deeper view of contemporary Jewish life, especially within Orthodoxy, shows that Maimonidean reforms have failed to take hold. Maimonides sought to transform the Judaism of his day, most notably the nature of halakhah, its distinctions between holy and profane, ritually pure and ritually impure, the character of the Hebrew language, the notion of "created light," the distinction between Jew and non-Jew, and the existence of angels as popularly understood, and to reform the curriculum of Jewish learning. In each of these areas Judaism continued to develop as if Maimonides had never existed and never written. The implications for modern Judaism are vast, yet hidden from view. Orthodoxy today is a Maimonidean antithesis, an enchanted world whose spirit guides provide indispensable intercession, rabbis as prophets and magicians. In short, it is a kabbalistic world.

 

نبیل

تکنیکی معاون
نہ تو حضرت موسی یہودیت کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے اور نہ ہی حضرت عیسی نے عیسائیت کی تبلیغ کی تھی۔ دونوں انبیاء دین ابراہیمی کی تبلیغ کرتے رہے جس کی تعلیمات کو مسخ کرکے یہودیت اور عیسائیت کی شکل دی جاتی رہی۔

[ARABIC]وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَ‌ىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَ‌اهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٣٥﴾[/ARABIC]

یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے عیسائی کہتے ہیں: عیسائی ہو، تو ہدایت ملے گی اِن سے کہو: "نہیں، بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیمؑ کا طریقہ اور ابراہیمؑ مشر کو ں میں سے نہ تھا"

[ARABIC]قُولُوا آمَنَّا بِاللَّ۔هِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّ‌بِّهِمْ لَا نُفَرِّ‌قُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾[/ARABIC]

مسلمانو! کہو کہ: "ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئی تھی ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں"
 
ابتک موسی بن میمون یعنی میمونائیڈز پر کافی مواد پڑھا ہے۔ کہیں یہ نہیں ملا کہ اس نے تورات میں کوئی رد و بدل کی ہے۔ اسنے محض تورات اور یہود مذہب کی ایک نئی فلسفیانہ تشریح کی تھی۔
مل جائے گا ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے ۔ پڑھتے رہیں ۔
 

arifkarim

معطل
نہ تو حضرت موسی یہودیت کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے اور نہ ہی حضرت عیسی نے عیسائیت کی تبلیغ کی تھی۔ دونوں انبیاء دین ابراہیمی کی تبلیغ کرتے رہے جس کی تعلیمات کو مسخ کرکے یہودیت اور عیسائیت کی شکل دی جاتی رہی۔
ابراہیمی ادیان میں صرف اسلام ہی شامل نہیں ہے بلکہ دینی اسکالرز اس کیٹیگری میں عیسائیت، یہودیت اور بہائی مت کو بھی شمار کرتے ہیں:​
Abrahamic religions (also Abrahamism) are the monotheistic faiths emphasizing and tracing their common origin to Abraham[1] or recognizing a spiritual tradition identified with him.[2][3][4] They are one of the major divisions in comparative religion, along with Indian religions[5], East Asian religions[5] (Taoic) and Neopaganism.

As of the early twenty-first century, it was estimated that 54% of the world's population (3.8 billion people) considered themselves adherents of the Abrahamic religions, about 30% of other religions, and 16% of no religion.[6][7] The Abrahamic religions originated in Western Asia.[8]​
The oldest Abrahamic religions are, in chronological order of founding, Judaism, Christianity, Islam, and Bahá'í Faith.​
It has been suggested that the phrase, "Abrahamic religion", may simply mean that all these religions come from one spiritual source.[2] Christians refer to Abraham as a "father in faith".[Rom. 4] There is an Islamic religious term, Millat Ibrahim (faith of Ibrahim),[3][4] indicating that Islam sees itself as having practices tied to the traditions of Abraham.[9] Jewish tradition claims descendance from Abraham, and adherents follow his practices and ideals as the first of the three spiritual "fathers", Abraham, Isaac, and Jacob.​
All the major Abrahamic religions claim a direct lineage to Abraham.​
اسلئے یہ کہنا کہ اسلام سے قبل موجود ادیان کی تعلیمات کو ’’مسخ‘‘ کر کے یہودیت اور عیسائیت شکل دی گئی درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہودی، عیسائی، مسلمان اور بہائی سب کے سب اپنے دین کی ابتداء حضرت ابراہیمؑ کے وقت سے کرتے ہیں۔​
 

ابن جمال

محفلین
ابتک موسی بن میمون یعنی میمونائیڈز پر کافی مواد پڑھا ہے۔ کہیں یہ نہیں ملا کہ اس نے تورات میں کوئی رد و بدل کی ہے۔ اسنے محض تورات اور یہود مذہب کی ایک نئی فلسفیانہ تشریح کی تھی۔

میراخیال ہے کہ عارف کریم کی بات صحیح ہے۔ تورات اوریہود مذہب کی جوفلسفیانہ تشریح کی تھی اس کی بھی وضاحت جان لیں

یہودیوں کے یہاں تجسیم پرزورزیادہ ہے۔ مثلا تورات میں ہے کہ یعقوب نے خدا سے کشتی لڑی اوراس طرح کی دوسری باتیں۔اسلامی معاشرہ میں رہنے اوراسلامی عقائد سے واقفیت کے بعد اس نے یہ کیاکہ تجسیم سے ہٹ کر اس نے تورات کی "تنزیہہ" کے طورپر تشریح شروع کردی۔ اس کی مزید وضاحت ہوسکتی ہے اگراس کو اہل حدیث یاسلفی وغیرہ کے اوراشاعرہ وماتریدیہ کے عقائد کے اختلافات کے تناظر میں سمجھاجائے۔

سلفیوں کااصرار ہے کہ وہ آیتیں یااحادیث جس میں اللہ کیلئے ہاتھ پیر یاکوئی جسمانی صفت بیان کی گئی ہے۔اس کو ظاہر پرماناجائے کسی قسم کی تشبیہ ،مثال اورکیفیت کی تنزیہہ کے ساتھ۔

اشاعرہ اورماتریدیہ کا کہناہے کہ وہ آیتیں جس کی لغت کے اعتبار سے کوئی قابل قبول تشریح کی جاسکتی ہے تو وہاں پر وہ لغت کا معنی بھی مراد لیاجاسکتاہے۔ مثلا قرآن میں اللہ کیلئے "ید" (ہاتھ)کا لفظ ہے۔

اس پر سلفی کہیں گے کہ آیت میں موجود ید سے ہاتھ ہی مراد ہے۔لیکن اس کی کیفیت کیاہے وہ اللہ کو ہی معلوم ہے ہم صرف اجمالی طورپر یقین رکھتے ہیں کہ آیت میں ید سے ہاتھ مراد ہے اوراس کی کفیت اللہ کومعلوم ہے اوراس سلسلے میں کسی قسم کے تشابہ کا خیال ہم نہیں کرتے۔
اشاعرہ اورماتریدیہ کہیں گے کہ ید سے مراد لغت میں قوت بھی آتاہے لہذا یہاں پر "ید"کی تاویل "قوت وطاقت"سے کی جاسکتی ہے۔

ایک دوسری مثال لیں

قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے عین (آنکھ)کا لفظ آیاہے۔
اس سلسلے میں سلفی حضرات کہیں گے کہ عین سے مراد تو عین ہی ہے لیکن اس کی کیفیت کیاہے تواس کو ہم نہیں جانتے لیکن آیت پر بغیر کسی تشبیہ اورتمام تنزیہہ کے ساتھ یقین رکھتے ہیں۔

اشاعرہ اورماتریدیہ کہیں گے کہ عین سے ایک مراد نگرانی بھی ہوتی ہے لہذا یہاں پر عین کی تاویل نگرانی سے کی جاسکتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھیں تو یہود عمومایعنی ان کے تمام فرقے تجسیم کی جانب مائل ہیں بلکہ تجسیم کی جانب مائل کیوں کہیں سرے سے تجسیم کا عقیدہ ہی رکھتے ہیں لیکن اسلامی معاشرہ سے متاثر ہوکر بالخصوص جب کہ موسی بن میمون کے وقت میں اشاعرہ اورماتریدیوں کا غلبہ تھااس نے انہی کے افکار سے متاثر ہوکر یہودیوں کے تجسیمی عقیدہ کو تنزیہہسےبدلناچاہا۔اسی بناء پر اس کو یہودی فرقہ میں اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھاگیا۔
 

ابن جمال

محفلین
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّ۔هِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٧٥
تحریف کو سمجھنے کی ضرورت ہےکہ تحریف کیاہے؟
تحریف دوقسم کی ہوتی ہے لفظی اورمعنوی
لفظی تحریف یعنی مصنف کے الفاظ کو ہٹاکر اس کی جگہ اپنے الفاظ شامل کردیئے جائیں
معنوی تحریف یعنی مصنف کے مقصد ومراد کے برعکس خود تراشیدہ ایک نیامطلب گھڑ لیاجائے
سابقہ آسمانی کتابوں میں کون سی تحریف ہوئی ہے۔
علمائے اسلام کی اکثریت کا مانناہے کہ ان سابقہ آسمانی کتابوں میں تحریف لفظی اورمعنوی دونوں ہوئی ہے۔
جب کہ کچھ چیدہ علمائے اسلام جس میں حضرت شاہ ولی اللہ بھی شامل ہیں ان کا کہناہے کہ تحریف جہاں تک ہوئی ہے وہ صرف معنوی ہے لفظی نہیں ہے۔(حوالہ کیلئے دیکھیں الفوزالکبیر)
ان دونوں آراء میں تطبیق کی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ تحریف لفظی کو نادانستگی میں قراردیاجائے کہ حفظ کا اہتمام نہ ہونے اوردربدری کی حالت میں اس قسم کی غلطیاں ہوگئیں اورپھرایک مرتبہ غلطی ہونے کے بعد مسلسل وہ ایک سند بن گئی اوریحرفون الکلم عن مواضعہ سے تحریف معنوی مراد لی جائے کہ کچھ کا کچھ مطلب بیان کرتے تھے یااحکام الہی کو چھپالیتے تھے جیساکہ حدیث میں آتاہے کہ جب حضور نے ان سے زناکی سزاپوچھی توانہوں نے اس پر انگلی رکھ دی۔ یااوردوسرے طریقے۔ والسلام
 
Top