محسن وقار علی
محفلین
یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا
میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہوگا
یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہیں کئی ندیاں
مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہوگا
غضب یہ ہے کہ اپنی موت کی آہٹ نہیں سنتے
وہ سب کے سب پریشاں ہیں وہاں پر کیا ہوا ہوگا
تمہارے شہر میں یہ شور سن سن کر تو لگتا ہے
کہ انسانوں کے جنگل میں کوئی ہانکا ہوا ہوگا
کئی فاقے بِتا کر مر گیا جو، اس کے بارے میں
وہ سب کہتے ہیں اب، ایسا نہیں،ایسا ہوا ہوگا
یہاں تو صرف گونگے اور بہرے لوگ بستے ہیں
خدا جانے وہاں پر کس طرح جلسہ ہوا ہوگا
چلو، اب یادگاروں کی اندھیری کوٹھری کھولیں
کم از کم ایک وہ چہرہ تو پہچانا ہوا ہوگا
"سائے میں دھوپ" سے انتخاب