عطیہ فیضی - اردو ڈائجسٹ

Atiya-Faizi-300x336.jpg

یہ تین بہنیں تھیں۔ سب سے بڑی نازی بیگم، ان سے چھوٹی زہرا بیگم اور آخری عطیہ بیگم۔ صرف عطیہ نے اپنا نام اپنے خاندانی لقب فیضی کی نسبت سے عطیہ فیضی رکھا۔ ان کے والد علی حسن آفندی کا تعلق ایک عرب نژاد خاندان سے تھا جو اپنے ایک بزرگ فیض حیدر کے نام کی نسبت سے فیضی کہلاتا تھا۔ یہ لوگ تجارت پیشہ تھے اور تجارتی کاموں کے سلسلے میں بمبئی سے لے کر کاٹھیاواڑ تک پھیل گئے تھے۔ عرب، ترکی اور عراق کے عمائد اور عوام سے بھی تعلقات تھے۔ اس خاندان میں علم وادب کا چرچا تھا۔ عطیہ کبھی کبھی دعویٰ کیا کرتی تھیں کہ ان کا خاندان ترکی النسل ہے لیکن عام طور پر انھیں عرب نژاد ہی خیال کیا جاتا تھا۔​
نازی بیگم: علی حسن آفندی کی سب سے بڑی بیٹی عطیہ فیضی سے نو سال بڑی تھیں۔ یہ بھی استنبول میں ۱۸۷۲ء کو پیدا ہوئیں۔ نازی بیگم نے ترکی کے اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں تعلیم حاصل کی۔ ان کو ترکی، انگریزی، عربی اور فارسی میں اچھی دستگاہ حاصل تھی۔ بعد میں انھوں نے گجراتی اور اُردو زبان میں بھی مہارت پیدا کر لی۔ ابھی ۱۳ برس کی تھیں کہ ان کی شادی بمبئی کے قریب واقع ایک چھوٹی سی ریاست جنجیرہ کے نواب سرسیدی احمد خاں سے کر دی گئی۔​
سرسیدی احمد خاں کے اجداد حبشہ (ایتھیوپیا) کے ساحل پر آباد تھے۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے یہ بمبئی آئے اور جنجیرہ کے جزیرے میں آباد ہو گئے۔ بعد میں وہ اس جزیرے کے حکمران بن گئے۔ یہ تحقیق نہیں ہو سکی کہ یہ خاندان جنجیرہ میں کب آباد ہوا اور کب وہاں ان کی حکمرانی قائم ہوئی۔ سسرال میں نازی بیگم کو رفیعہ سلطان کا لقب دیا گیا اور وہ ہر ہائی نس نازی رفیعہ سلطان آف جنجیرہ کہلائیں۔ اپنے حسنِ عمل کی بدولت یہ جزیرے میں کافی ہر دل عزیز تھیں۔ ان کو علم و ادب سے گہرا لگائو تھا اور وہ اربابِ علم کی بے حد قدر دان تھیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی شہرہ آفاق تصنیف سیرت النبیﷺ کی تیاری میں ان کی تحریک اور اعانت بھی شامل تھی۔ مولانا نے اس کا کافی حصہ جنجیرہ کی پر سکون فضا میں رہ کر مکمل کیا۔​
سفرِ یورپ کے دوران نازی بیگم کو علامہ اقبال اور کئی دوسرے مشاہیر سے بھی ملاقات کا موقع ملا۔ علامہ اقبال ان کی علمی وجاہت سے بہت متاثر ہوئے اور یہ شعر ان کی نذر کیے:
ؔ​
اے کہ تیرے آستانے پر جبیں گستر قمر
اور فیضِ آستاں بوسی سے گل برسر قمر
روشنی لے کر تیری موجِ غبارِ راہ سے
دیتا ہے ایلائے شب کو نور کی چادر قمر​
نازی بیگم نے شبلی نعمانی کی میزبانی کے علاوہ کئی بار علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، قائد اعظم محمد علی جناح، مسز سروجنی نائیڈو اور ملک کے متعدد دوسرے نامور اربابِ علم اور اہل سیاست کی میزبانی کا شرف بھی حاصل کیا۔ بقول نازی بیگم قائد اعظم ان سے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جنجیرہ آ کر بہت آرام اور سکون ملتا ہے۔ وہ جنجیرہ میں اپنا بیشتر وقت محل سے ملحق باغ میں گزارا کرتے تھے۔​
عطیہ فیضی نے بھی اپنی بہنوں کی طرح استنبول میں اعلیٰ تعلیم پائی اور ترکی، عربی، فارسی، انگریزی، اُردو اور گجراتی میں اچھی استعداد بہم پہنچائی۔ ان کی بڑی بہن نازی بیگم کی شادی ۱۸۸۵ء میں نواب جنجیرہ (بمبئی) سے ہوئی تو یہ بھی ان کے ساتھ جنجیرہ میں رہنے لگیں۔ عطیہ اپنے والدین کی بہت لاڈلی تھیں اور سب بہنوں میں زیادہ شوخ وچنچل بھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ بڑی ذہین و فطین اور علم و ادب کی شیدائی بھی تھیں۔ جنجیرہ ایک پُر فضا جزیرہ تھا۔​
نازی بیگم کی دعوت پر ملک کے بڑے بڑے اہلِ سیاست اور اربابِ علم کی یہاں آمد آمد ہوئی ان میں مولاناشبلی نعمانی بھی شامل تھے۔ ان کو عطیہ کی ذہانت، علم وادب سے شغف اور دوسرے اوصاف نے بے حد متاثرکیا اور وہ ان کے مداح بن گئے۔ عطیہ بھی شبلی نعمانی کی بہت قدر دان تھیں۔ ان کے درمیان خط وکتابت بھی ہوتی رہتی تھی۔ جس میں بے تکلفی کا ایک مخصوص رنگ پایا جاتا تھا۔ بالخصوص مولانا شبلی کے خطوں میں، بعض اصحاب نے اس بے تکلفی کو کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کی ہے لیکن یہ بے تکلفی ہمیشہ ایک حد کے اندر رہی اور عطیہ ہمیشہ انھیں (شبلی کو) عزت کا ایک مقام دیتی رہیں۔​

۱۹۰۳ء میں عطیہ کی شادی ایک عالمی شہرت یافتہ مصور رحیمن (رحمین) سے ہوئی۔ وہ یہودی نژاد تھے لیکن مسلمان ہو گئے تھے۔ یہ ڈاکٹر فیضی رحیمن کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی بنائی ہوئی تصویریں دنیا کے مختلف عجائب گھروں اور آرٹ گیلریوں کی زینت رہیں۔ ہندوستان میں پیدا ہوئے لیکن تعلیم و تربیت یورپ میں ہوئی۔ وہیں مصوری، افسانہ نگاری اور مضمون نویسی میں شہرت حاصل کی۔ وہاں سے اچانک ہندوستان آ گئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔​
قیام پاکستان کے بعد نازی بیگم اور عطیہ فیضی کے ساتھ یہ پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل اقامت اختیار کی۔ کراچی میں ان کی زندگی کے آخری چند سال بڑی پریشانیوں میں گزرے اس کی کچھ تفصیل آگے آئے گی۔ بعض لوگوں نے اس شادی پر اعتراض کیا، شبلی نعمانی کو خبر ہوئی تو انھوںنے یہ شعر کہے:​
عطیہ کی شادی پہ کسی نے نکتہ چینی کی
کہا میں نے جاہل ہے یا احمق ہے یا ناداں ہے
بتانِ ہند کافر کر لیا کرتے تھے مسلم کو
عطیہ کی بدولت آج اک کافر مسلماں ہے​
مولانا شبلی نے ایک مرتبہ قیامِ جنجیرہ کے دوران عطیہ کو مخاطب کر کے یہ اشعار کہے:​
کسی کو یاں خدا کی جستجو ہو گی تو کیوں ہو گی
خیالِ روزہ و فکرِ وضو ہو گی تو کیوں ہو گی
ہوائے روح پرور بھی یہاں کی نشہ آور ہے
یہاں فکرِ مے وجام و سبو ہو گی تو کیوں ہو گی
کہاں یہ لطف، یہ سبزہ یہ منظر یہ بہارستان
عطیہ تم کو یادِ لکھنو ہو گی تو کیوں ہو گی​
اور جب ان کو لکھنو میں جنجیرہ کی یاد ستاتی تو کہتے:​
یاد میں صحبت ہائے رنگیں جو جزیرے میں ہیں
وہ جزیرے کی زمین تھی یا کوئی مے خانہ تھا​
۷،۱۹۰۶ء میں نازی بیگم اپنے شوہر اور دوسرے اہل خاندان کے ساتھ یورپ گئیں تو عطیہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ انگلستان میںان کی علامہ اقبال سے خوب ملاقاتیں رہیں اور ابنِ عربی کے فلسفۂ تصوف پر طویل مباحث ہوتے (علامہ اس وقت بسلسلۂ تعلیم انگلستان میںتھے) علامہ اقبال عطیہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کو راز دار بنا لیا۔ اپنے ذاتی حالات اور ذہنی کیفیات تک سے ان کو آگاہ کرتے تھے اور اپنا کلام بھی انھیں بھیجتے تھے۔ اقبال کے خطوط عطیہ بیگم کے نام طبع ہو چکے ہیں۔​
ان کو دیکھ کر دونوں کے باہمی روابط کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ عطیہ فیضی بڑی خوبیوں کی مالک تھیں لیکن فی الحقیقت ان کو ملک گیر شہرت مولانا شبلی کی شاعری اور علامہ اقبال کے قلم نے عطا کی اور وہ برصغیر کی نامور خواتین میں شمار ہوئیں۔ ماہر القادری نے عطیہ سے بعض ذاتی ملاقاتوں اور ان مجالس کا کچھ احوال بھی لکھا ہے جو عطیہ کے خصوصی ذوق اور خود ان کے رونقِ محفل ہونے کی وجہ سے منعقد ہوئیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے آخری ایام کی دھندلی سی ایک تصویر ہمیں دکھاتے ہیںجس سے پتا چلتا ہے کہ دھوپ چھائوں کا کھیل بھی کیا کھیل ہے۔ لکھتے ہیں:​
’’یہ قصہ نشاطیہ تو ہے ہی مگر کسی حد تک المیہ (ٹریجڈی) بھی ہے۔ شبلی نعمانی کے تذکرے میں عطیہ فیضی کا نام آتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی سے مجھے بے انتہا محبت بھی ہے اور عقیدت بھی۔ اسی نسبت اور تعلق کے سبب عطیہ فیضی کے نام سے میں بہت دنوں سے واقف تھا۔ فنون لطیفہ سے عطیہ کو جو خاص شغف تھا اس کے تذکرے بھی لوگوں کی زبانی سنے تھے۔‘‘​
غالباً ۱۹۴۰ء کا ذکر ہے جب بمبئی میں یومِ اکبر (مغل شہنشاہ) منایا گیا اور اس سلسلے میں ایک مشاعرہ بھی منعقد ہوا۔ مشہور اہلِ قلم جناب ضیاء الدین احمد برنی اس مشاعرے کے داعی تھے۔ انہی کی دعوت پر میں حیدر آباد دکن سے بمبئی پہنچا۔ کرافٹ مارکیٹ سے متصل شاہجہاں ہوٹل تھا وہاں مجھے ٹھہرایا گیا۔ بابو صدیق ہال میں بڑے دھوم کا مشاعرہ ہوا۔ مشاعرے کے بعد دعوتیں اور ادبی نشستیں رہیں۔ بمبئی کے مشہور خاندان طیب جی کی خواتین نے ایک ادبی انجمن قائم کی تھی۔​
اس کا نام ’عقدِ ثریا‘ تھا۔ اس بزم میں مجھے بلایا گیا۔ چائے نوشی کے بعد شعر خوانی ہوئی۔ آصف فیضی جو مصر میں حکومت ہند کے سفیر رہے تھے، ان دنوں لاء کالج بمبئی کے پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے۔ ان سے بھی اسی انجمن میں تعارف ہوا۔ نواب ہاشم یار جنگ بہادر حکومت حیدرآباد دکن میں ہائی کورٹ کے جج تھے پھر وہ قانونی مشیر ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سر اکبر حیدری کاحیدر آباد میں طوطی بولتا تھا۔ انہی ہاشم یار جنگ کی صاحب زادی مسز زینت فتح علی اس علم دوست خانوادے کی ادبی سرگرمیوں کی روحِ رواں تھیں۔ عطیہ فیضی سے تعارف کا ذریعہ شعر و ادب کے یہی اجتماعات تھے۔​
میں دو سال کے بعد پھر بمبئی آیا تو عطیہ فیضی نے انجمن اسلامیہ کے ہال میں بڑے پیمانے پر ’تھری آرٹس سرکل‘ کی جانب سے بزمِ شعروطرب کا اہتمام کیا۔ میں خصوصی مہمان تھا پھر ان سے بمبئی میں بارہا ملنا ہوا۔ اس زمانہ میں عطیہ نے اپنی شاندار کوٹھی ایوانِ رفعت فروخت کردی تھی اور ’والکیسر‘ کے مشہور باغ (Hanging Garden) سے متصل ایک کرایہ کے بنگلہ میں رہتی تھیں۔ ہر بدھ وار شام میں ان کے ہاں احباب جمع ہوتے۔​
اسی زمانہ میں فلمی دنیا سے میرا تعلق ہو گیا۔ سب سے مشہور ڈائریکٹر محبوب مرحوم کی فلم ’تقدیر‘ کے گانے لکھے۔ اس سلسلہ میں ہفتوں بمبئی میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوتا۔ عطیہ فیضی اصرار کر کے اپنے ہاں کی چہارشنبہ کی نشست میں بلاتیں۔ ایک بار انھوں نے بمبئی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ متحدہ ہندوستان کے سب سے شاندار اور مشہور ہوٹل ’تاج‘ میں اس خاک نشین کے لیے بہت بڑی دعوت کا انتظام کیا۔ دعوت میں مہمان ڈھائی سو کے قریب ہوں گے۔ ہر طبقہ کی بلند مرتبہ شخصیتیں جمع تھیں۔​
یہاںتک کہ لیڈی ’ٹاٹا‘ بھی موجود تھیں۔ میں نے اُردو زبان کی اہمیت پر تقریر کی۔ اس کے بعد دسیوں غزلیں اور نظمیں سنائیں۔ اتنے اونچے درجہ کے سامعین ہر شاعر اور مقرر کو کہاں میسر آتے ہیں۔ عطیہ کے والد کا سلطانِ ترکی خلیفہ عبدالحمید کا مشیر ہونا معمولی بات نہیں تھی۔ گویا ان کی تعلیم وپرورش امارت و خوشحالی کے ماحول میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب پورے ہندوستان میں تعلیم نسواں کے لیے کالج تو کیا کوئی ہائی اسکول بھی نہ ہو گا۔​
عطیہ فیضی نے اس زمانہ میںجو زیادہ سے زیادہ تعلیم مسلمان لڑکیوں کو میسر آ سکتی تھی، حاصل کی اور پھر بڑے ہو کر ایڈورڈ ہفتم کے عہد شہنشاہی میں یورپ کا سفر کیا اور مغرب کے مشاہیرسے ملاقاتیں کیں۔ اس سفر نے نسوانی آزادی کے جذبہ کو اور زیادہ افرنگ، رنگ بنا دیا۔ خاندان طیب جی میں پردہ پہلے ہی سے نہ تھا، یورپ کے سفر نے عطیہ فیضی کی بے نقابی اور بے حجابی پر مُہرِ تصدیق ثبت کر دی اور سندِ جواز بلکہ تحسین و خوشنودی کا سرٹیفکیٹ دے دیا۔​
شبلی نعمانی کا بمبئی کے اس تعلیم یافتہ (Advanced) گھرانے میں جب آنا جانا ہوا ہے تو عطیہ فیضی کی عمر اس وقت بیس بائیس سال ہو گی۔ شبلی مولانا ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھے اور شاعر کتنا ہی پارسا اور صاحبِ تقویٰ کیوں نہ ہو، رنگین مزاج بھی ہوتا ہے۔ یہ تو یار لوگوں کی شوخی مزاج ہے کہ انھوں نے اس ربط اور تعلق پر حاشیہ آرائیاں کر کے بدگمانیوں کے دروازے کھول دیے مگر اتنا ضرور ہے کہ مولانا شبلی کی شاعری کو اس دلچسپی نے خاصی شوخی اور رنگینی عطا کی اور ایک خوبرو، تعلیم یافتہ جوان لڑکی کی قربت، دیدار اور ہم کلامی کے لطف نے مولانا شبلی کے دامنِ تقویٰ کو تھوڑا بہت رنگین بنا دیا:
ؔ​
یہ واقعہ بھی خوب ہے تہمت بھی خوب ہے
عطیہ کو فنونِ لطیفہ سے خاص شغف تھا۔ شاعری، مصوری اور رقص و موسیقی یہ سب ان کے ذوق اور دلچسپی کی چیزیں تھیں۔راگ راگنیوں تک سے واقف تھیں۔ پاکستان آنے کے بجائے بھارت ہی میں رہتیں اور کوئی ’کلامندر‘، ان کو سونپ دیا جاتا تو وہاں ان کے ذوق اور طبیعت کے جوہر کھلتے۔ انگریزی کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔انگریزی میں رواں اور شگفتہ تقریر کرتیں اور ایک بار ایک پارٹی میں میرا تعارف کراتے ہوئے انگریزی میں کہا: ’’اگر یہ ماہر الخادری ہیں تب یہ حیدر آباد سے ہیں اور اگر یہ ماہر القادری ہیں تب ان کا تعلق یوپی سے ہے۔‘‘​
وجہ یہ تھی کہ حیدر آباد (دکن) کے لوگ ’ق‘ کو ’خ‘ کی آواز سے بولتے تھے۔ ایک بار مجھ سے دریافت فرمایا کہ ’ذالک الکتاب‘ میں ’ذالک‘ کس کی طرف اشارہ ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ’الکتاب‘ یعنی قرآن کریم کی طرف۔ بولیں نہیں یہ بات نہیں۔ ’ذالک‘ تو دور کی چیز کے اشارے کے لیے عربی میں بولا جاتا ہے۔ پھر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے معتقدات میں ’باطنیت‘ کی آمیزش ہے۔ ان کے شوہر فیضی رحیمن بھی باطنیت زدہ تصوف سے متاثر تھے۔ دوتین بار ان سے گفتگو ہوئی تو ان کے خیالات میں عجیب الجھائو پایا۔​
عطیہ فیضی کے پاس مشاہیر کے خطوط کا خاصا ذخیرہ تھا۔ انھوں نے مجھے ایک خوبصورت سی بیاض دکھائی جس کا سنہری حاشیہ تھا۔ اس پر نواب حامد علی خاں والی رامپور کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک شعر تھا۔ یہ بیاض نواب صاحب رامپور نے انھیں تحفہ میں دی تھی۔ عطیہ نے اسی آٹو گراف بک پرمجھ سے دستخط لیے۔ یہ اپنی نوعیت کی نادر اور بیش قیمت ’بیاضِ امضا‘ تھی۔ اس پر ہندوستان، انگلستان، ترکی اور بعض دوسرے ممالک کے مشاہیر کی تحریریں اور دستخط تھے۔​
آخری ایام
منجھلی بہن زہرا بیگم کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ اپنی باقی دو بہنوں کی طویل العمری کے برعکس ۱۹۱۰ء میں یکایک بیمار پڑیں اور فوت ہو گئیں۔ انھوں نے صرف ۳۰ سال عمر پائی۔ نازی بیگم اولاد کی نعمت سے محروم رہیں پھر کسی سبب یا شاید اسی سبب سے ان کی شوہر سے علیحدگی ہو گئی اور وہ بمبئی آ کر ’ایوانِ رفعت‘ میں رہنے لگیں۔ پھر ان کے شوہر (نواب آف جنجیرہ) کا بھی انتقال ہو گیا اور ریاست سے برائے نام جو تعلق تھا وہ بھی ختم ہو گیا کیونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔​
قیامِ پاکستان کے وقت یہ خاندان ولایت میں تھا وہاں سے ہندوستان (بمبئی) آیا تو معلوم ہوا کہ پیچھے جو کچھ تھا سب لٹ چکا ہے۔ بہرحال جو تھوڑا بہت باقی رہ گیا تھا اسے سمیٹ کر دونوں بہنیں اور مسڑ رحیمن کراچی آ گئے۔ صدر بازار میں قالینوں کی ایک بہت بڑی دکان ہے میں نے اس میں صوفوں، الماریوں اور میزوں کا دیدہ زیب، خوبصورت اور قیمتی نقشین میٹ دیکھا اور پہچان لیا کیونکہ یہ عطیہ بمبئی سے اپنے ساتھ لائی تھیں۔​
لکڑی کا آبنوسی رنگ، اس پر پھول پتیوں کی انتہائی دیدہ زیب منبت کا خوشنما ڈیزائن، یہ فرنیچر یادگار کے طور پر کسی میوزیم کی زینت بننے کے قابل تھا جو ظاہر ہے کہ سستے داموں بک چکا تھا۔ جس نے اسے خریدا، خبر نہیں کتنا کمایا ہو گا۔ ابھی چند دن کی بات ہے ایک صاحب سے جو کراچی میں ایک فرم کے مالک ہیں اور تقسیم ہند سے قبل اپنے والد کے ساتھ بمبئی میں رہتے تھے، ملاقات ہوئی، دورانِ گفتگو عطیہ فیضی کا ذکر ہوا تو غمگین لہجے میں بولے … وہ ایک دن میرے دفتر میں تشریف لائیں اور مجھ سے ۵۰ روپے بطورِ قرض مانگے۔​
وہ کہنے لگے کہ بات کرتے میں عطیہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ میں بھی آبدیدہ ہو گیا اور میں نے ۵۰ کی جگہ سو روپے بطور ہدیہ ان کی خدمت میں پیش کر دیے۔‘‘ یہاں کچھ چیزیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں… یہ آنسو کس کے تھے۔ عطیہ فیضی کے؟وہ عطیہ فیضی جس کے دم قدم سے اشرافیہ کی ہائی کلاس محفلیں سجتی اور برپا ہوتی تھیں۔ ان میں عطیہ فیضی کی موجودگی یہ ثابت کرتی تھی کہ یہ کوئی ایرا غیرا محفل نہیں ہے۔ لیکن یہ آنسو بتا رہے تھے کہ اس کا رگہِ محنت و سرمایہ میں، دو اور دو چار کی اس دنیا میں ابنِ عربی کا فلسفہ تصور کچھ کام نہیں دیتا۔​
علم و دانش انسانی احتیاج کے آگے خس و خاشاک سے زیادہ کچھ نہیں، لیکن یہ دانش کس چیز کا نام ہے۔ وہ دانش آخر کس کام کی جس کا دامن دور اندیشی کے تصور سے خالی ہو… پھر یوں ہوا کہ اسی پریشان حالی اور نکبت و افلاس کے عالم میں ان کے شوہر فیضی رحیمن نے ۱۹۶۴ء میں وفات پائی، ۱۹۶۵ء کے وسط میں عطیہ فیضی گر پڑیں اور ہڈیاں ٹوٹ جانے کی وجہ سے معذور ہو گئیں۔ نازی بیگم نے ضعیف العمری کے باوجود ان کی نگہداشت کی۔​
بالآخر عطیہ پر فالج کا حملہ ہوا اور پانچ دن بے ہوش رہنے کے بعد ۱۹۶۷ء میںاس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کو رخصت ہوئیں۔ ۱۹۶۸ء میں نازی بیگم نے بھی اس عالمِ ناپائیدار سے رختِ سفر باندھ لیا یوں یہ قصہ نگارِ شہر تمام ہوا:​
یہ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے یاں خزاں بہاروں کی گھات میں ہے
جو نصیب صبحِ عروج ہو تونظر میں شامِ زوال رکھنا​
بشکریہ اردوڈائجسٹ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔۔
بالکل درست فرمایا سر آپ نے ۔۔ کہ نسل نو ان کے ناموں سے بالکل ہی ناواقف ہے۔ :)
 
عطیہ کو فنونِ لطیفہ سے خاص شغف تھا۔ شاعری، مصوری اور رقص و موسیقی یہ سب ان کے ذوق اور دلچسپی کی چیزیں تھیں۔راگ راگنیوں تک سے واقف تھیں۔ پاکستان آنے کے بجائے بھارت ہی میں رہتیں اور کوئی ’کلامندر‘، ان کو سونپ دیا جاتا تو وہاں ان کے ذوق اور طبیعت کے جوہر کھلتے۔
پھر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے معتقدات میں ’باطنیت‘ کی آمیزش ہے۔ ان کے شوہر فیضی رحیمن بھی باطنیت زدہ تصوف سے متاثر تھے۔ دوتین بار ان سے گفتگو ہوئی تو ان کے خیالات میں عجیب الجھائو پایا۔
دورانِ گفتگو عطیہ فیضی کا ذکر ہوا تو غمگین لہجے میں بولے … وہ ایک دن میرے دفتر میں تشریف لائیں اور مجھ سے ۵۰ روپے بطورِ قرض مانگے۔​
وہ کہنے لگے کہ بات کرتے میں عطیہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ میں بھی آبدیدہ ہو گیا اور میں نے ۵۰ کی جگہ سو روپے بطور ہدیہ ان کی خدمت میں پیش کر دیے۔‘‘ یہاں کچھ چیزیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں… یہ آنسو کس کے تھے۔ عطیہ فیضی کے؟وہ عطیہ فیضی جس کے دم قدم سے اشرافیہ کی ہائی کلاس محفلیں سجتی اور برپا ہوتی تھیں۔ ان میں عطیہ فیضی کی موجودگی یہ ثابت کرتی تھی کہ یہ کوئی ایرا غیرا محفل نہیں ہے۔​
لیکن یہ آنسو بتا رہے تھے کہ اس کا رگہِ محنت و سرمایہ میں، دو اور دو چار کی اس دنیا میں ابنِ عربی کا فلسفہ تصور کچھ کام نہیں دیتا۔​
علم و دانش انسانی احتیاج کے آگے خس و خاشاک سے زیادہ کچھ نہیں، لیکن یہ دانش کس چیز کا نام ہے۔ وہ دانش آخر کس کام کی جس کا دامن دور اندیشی کے تصور سے خالی ہو… پھر یوں ہوا کہ اسی پریشان حالی اور نکبت و افلاس کے عالم میں ان کے شوہر فیضی رحیمن نے ۱۹۶۴ء میں وفات پائی، ۱۹۶۵ء کے وسط میں عطیہ فیضی گر پڑیں اور ہڈیاں ٹوٹ جانے کی وجہ سے معذور ہو گئیں۔ نازی بیگم نے ضعیف العمری کے باوجود ان کی نگہداشت کی۔​
بالآخر عطیہ پر فالج کا حملہ ہوا اور پانچ دن بے ہوش رہنے کے بعد ۱۹۶۷ء میںاس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کو رخصت ہوئیں۔ ۱۹۶۸ء میں نازی بیگم نے بھی اس عالمِ ناپائیدار سے رختِ سفر باندھ لیا یوں یہ قصہ نگارِ شہر تمام ہوا:​
یہ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے یاں خزاں بہاروں کی گھات میں ہے​
جو نصیب صبحِ عروج ہو تونظر میں شامِ زوال رکھنا​
بشکریہ اردوڈائجسٹ
 
ہم نے تو یونہی سنا جیسا محمود احمد غزنوی بھائی نے ارشاد فرمایا۔ اب اس الجھن کو دور فرمائیں :)
ممکن ہے کچھ ایسا ہی ہو
مگر میں نے کچھ یوں سنا تھا
نیچاں دی آشنائی کولوں کسے فیض نہ پایا
ککر تے انگور چڑھایا،ہر گچھا زخماں پایا
اب بھائی محمود احمد غزنوی صاحب کے جواب کا انتظار ہے
 
دلکش عورت تھی دل بہلانے کا اچھا سامان تھی شائد لوچ دار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بہت سارے نامورحضرات معلوم و نامعلوم کے خوابوں کو رنگین کیا کبھی جل پری کی ڈبکی کی ادا تو کبھی غزال (چکارا) کے طراطروں کی صورت کبھی شعلہ تو کبھی شبنم۔ بہت سارے اہل قلم کے موقلم کو لکھنے کی ایک نئی جہت و جدت عطا کی بقول حافظ شیرازی
تو و طوبیٰ و ما قامتِ یار
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
میں تو تصور میں سوچ رہا ہوں کس پائے کی جامہ زیب ہوگی۔ کس درجہ کا انداز تکلم ہوگا گویا موتی جھڑ رہے ہیں مسکان کیسی ہوگی کھلکھلا کر ہنسنا ناظر پر کیسی قیامت برپا کرتا ہوگا عشوہ کس پیمانہ کا نیزہ ہوگا اور نظر کس درجہ باریکی کی اَنِی ہوگی کیونکہ اوپر جو علم و ادب کے کو ہمالیہ لوگوں کے حوالے دیئے گئے ہیں ان سے تو یہی تاثر ابھرتا ہے یہ شعر شائد حقیقت کی درست عکاسی کرسکے۔
نگاہ قاتل زبان قاتل بیاں قاتل ادا قاتل
تمہار سلسلہ شائد کسی قاتل سے ملتا ہے
ہمارے ایک استاد محترم حیدر علی صاحب ہوتے تھے وہ اکثر جس لڑکے نام شاہد یا ساجد و راشد وہ زاہد وغیرہ ہوتا تھا اس کی کسی غلطی پر اس کو کھڑا کرکے یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
شاہدہ ایسی نہ تھی انگلش میں جب بے گانہ تھی
اب چراغِ محفل ہے پہلے چراغِ خانہ تھی
 
دلکش عورت تھی دل بہلانے کا اچھا سامان تھی شائد لوچ دار کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بہت سارے نامورحضرات معلوم و نامعلوم کے خوابوں کو رنگین کیا کبھی جل پری کی ڈبکی کی ادا تو کبھی غزال (چکارا) کے طراطروں کی صورت کبھی شعلہ تو کبھی شبنم۔ بہت سارے اہل قلم کے موقلم کو لکھنے کی ایک نئی جہت و جدت عطا کی بقول حافظ شیرازی
تو و طوبیٰ و ما قامتِ یار
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
میں تو تصور میں سوچ رہا ہوں کس پائے کی جامہ زیب ہوگی۔ کس درجہ کا انداز تکلم ہوگا گویا موتی جھڑ رہے ہیں مسکان کیسی ہوگی کھلکھلا کر ہنسنا ناظر پر کیسی قیامت برپا کرتا ہوگا عشوہ کس پیمانہ کا نیزہ ہوگا اور نظر کس درجہ باریکی کی اَنِی ہوگی کیونکہ اوپر جو علم و ادب کے کو ہمالیہ لوگوں کے حوالے دیئے گئے ہیں ان سے تو یہی تاثر ابھرتا ہے یہ شعر شائد حقیقت کی درست عکاسی کرسکے۔
نگاہ قاتل زبان قاتل بیاں قاتل ادا قاتل
تمہار سلسلہ شائد کسی قاتل سے ملتا ہے
ہمارے ایک استاد محترم حیدر علی صاحب ہوتے تھے وہ اکثر جس لڑکے نام شاہد یا ساجد و راشد وہ زاہد وغیرہ ہوتا تھا اس کی کسی غلطی پر اس کو کھڑا کرکے یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
شاہدہ ایسی نہ تھی انگلش میں جب بے گانہ تھی
اب چراغِ محفل ہے پہلے چراغِ خانہ تھی
کیا کہنے
کیا خوب تحریر ہے
روحانیت سے بھی شغف ہے اور ساتھ جلال کا ڈنڈا بھی لہراتے ہیں
کہ محبوب کا راز کھل نہ جائے :)
 
کیا کہنے
کیا خوب تحریر ہے
روحانیت سے بھی شغف ہے اور ساتھ جلال کا ڈنڈا بھی لہراتے ہیں
کہ محبوب کا راز کھل نہ جائے :)
جناب عالی! صوفی ہر چیز و ہر معاملہ میں یعنی حسن و قبائح میں اسی کا جلوہ دیکھتا ہے۔بقول شاہ نیاز بریلوی رحمۃ اللہ علیہ یار کو ہم نے جا بجا دیکھا ۔۔۔۔
کہیں وہ بادشاہ تخت نشیں(کہاں تو یہ حال کہ امراء و فضلاء دین و دنیا ایک نظر پر لٹاتے پھرتے تھے۔۔تری ایک نظر کی قیمت میری ساری زندگانی)
کہیں کاسہ لیئے گدا دیکھا (کہاں پچاس روپے مانگے جارہے ہیں ۔۔۔۔آنکھوں میں پڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول۔۔۔۔)
 
Top